مچھلی پکڑنا سکھا دیں

میں فرسٹ ائیر کا طالبعلم تھا، ہمارے کوچنگ سینٹر کے جو مالک تھے وہ ہمیں فزکس بھی پڑھایا کرتے تھے۔ وہ جتنا اسٹریس اور پریشر ہمیں فزکس میں پڑھاتے تھے، اس سے کہیں زیادہ پریشر اور اسٹریس وہ ہم پر بڑھاتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ نے پری – انجینئرنگ لی ہوئی ہے تو پھر این ای ڈی اور داؤد کے علاوہ آپ کے پاس کوئی تیسرا  راستہ نہیں ہے اور اگر آپ نے پری میڈیکل رکھی ہوئی ہے تو آپ کے سامنے ایس ایم سی اور ڈاؤ کے علاوہ کوئی تیسرا آپشن موجود نہیں ہے۔ بات یہیں تک رہتی تو ٹھیک تھی۔

لیکن سر مزید آگے فرماتے کہ؛ دیکھو! اگر تمھارا این ای ڈی یا داؤد میں نہ ہوسکا یا پھر ایس ایم سی اور ڈاؤ میں ایڈمشن نہ مل سکا تو پھر تمھارا وجود دھرتی پر ایک بوجھ ہوگا۔ تم نہ تین میں ہوگے اور نہ تیرا میں، تمھارا چین سکون سب ختم ہوجائیگا، اپنا گھر کیسے بناؤ گے؟ گاڑی کیسے لوگے؟ امی بیمار ہوگئیں تو دوائیں کہاں سے لے کر آؤگے؟ اور معاشرے میں کس طرح سر اٹھا کر جیو گے؟

یہ تمام باتیں وہ اتنے دردناک، ہولناک اور خوفناک انداز میں بیان کرتے تھے کہ ہمارا دل بیٹھنے لگتا تھا، ٹھنڈے موسم میں بھی پسینہ چھوٹ جاتا تھا اور پاؤں تلے سے زمین کھسکتی محسوس ہوتی تھی کیونکہ مجھے اپنی “تعلیم سے محبت” کا بخوبی علم تھا۔

آج سوچتا ہوں تو ہنسی آنے لگتی ہے کہ وہ این ای ڈی سے پاس آؤٹ ہونے کے بعد خود ٹیچر تھے اور پی آئی بی کے مشہور و معروف کوچنگ سینٹر کے بلاشرکت غیرے مالک تھے اور ان کے اس پورے دھندے میں کہیں بھی این ای ڈی یا داوؤد کا کمال نہیں تھا۔ان کی “شام غریباں” کی وجہ سے کبھی ذہن اس طرف جا بھی نہ سکا کہ سر سے یہی پوچھ لیتا کہ “آپ بھی این ای ڈی کے بعد یہی ایک تیر تو ماررہے ہیں”۔

جب تک ہم اسکولز اور کالجز میں ہوتے ہیں ہمارا تعلیمی نظام ہمیں پوزیشنز، گریڈز اور نمبرز کے لئیے تیار کررہا ہوتا ہے اور ہم جب یونیورسٹی میں آتے ہیں تو اس تعلیمی نظام ہمیں نوکری کے لئیے تیار کرنے پر تل جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ گریجویشن کروگے تو اچھی نوکری ملے گی، ماسٹرز کرلوگے تو اور زیادہ اچھی نوکری ملے گیاور ایم فل، پی ایچ ڈی کے بعد خوب ترقی ملے گی۔ اسکول سے لے کر یونیورسٹی تک کے سفر کو اگر میں ایک لائن میں بیان کروں تو:

نوکری، اچھی نوکری، بہترین نوکری اور  اعلی ترین نوکری۔۔۔۔

کبھی آپ نے غور کیا کہ کہ ہم 1857 سے پہلے بھی قابل، صاحب علم اور ترقی یافتہ تھے ، میٹرک تو 1858 میں آیا ہے۔

کارنیگی انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی امریکا کی ریسرچ رپورٹ کے مطابق آپ کی معاشی کامیابی کا 85 فیصد آپ کی مینجمنٹ اسکلز، آپ کے سوشل ہونے، لوگوں سے تعلقات، آپ کی شخصیت اور لوگوں سے کام لینے کی صلاحیت پر منحصر ہے، جبکہ صرف 15 فیصد عمل دخل آپ کی ٹیکنکل اسکلز کا ہوتا ہے۔ اس ملک اور اس شہر میں ایک سے بڑھ کر ایک باصلاحیت، ہنرمند اور ٹیکنیکل شخص موجود ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے گھر اور ہمارے تعلیمی نظام  نے انھیں  ان کے دل و دماغ میں نوکری کا بھوسا بھر کر ان کی اصل حثیت کو ہی ختم کردیا۔ انھیں اپنی صلاحیتوں اور اپنے ہنر کو منطقی انجام تک پہنچانا نہیں آتا۔ میں ذاتی طور پر ایسے کارپینٹر ، الیکٹریشن اور پلمبر کو جانتا ہوں جن کا ہنر، ٹیکنیکل اسکلز، آؤٹ آف دی باکس سوچنا اور ان کا کام دیکھ کر آپ عش عش کر اٹھیں گے، لیکن بدقسمتی سے انھیں انسانوں کو ساتھ چلانے، ساتھ لے کر چلنے اور کام لینے کا ہنر نہیں آتا ہے اسلئے وہ آج تک وہیں ہیں جہاں آج سے کئی سال پہلے تھے۔ انھوں نے تو کچھ جرات کر کے پھر بھی اپنا کام شروع کردیا لیکن ایک بہت بڑی تعداد باصلاحیت اور ہنرمند افراد کی ایسی ہے جن کے اندر یہ ہمت اور جرات بھی موجود نہیں ہے۔

فن لینڈ نے پچھلے دنوں اپنے دارالحکومت میں پورے ملک کے لئیے “می اینڈ مائی سٹی “کے نام سے پرائمری کے بچوں کے لئیے ایک پروجیکٹ لانچ کیا تھا جس میں انھیں مختلف جگہوں پر لے جا کر کچھ دنوں تک ٹریننگ کروائی گئی  کہ بڑی بڑی کمپنیاں لوگوں سے کس طرح ڈیل کرتی ہیں، بزنس کیسے بڑھاتے ہیں، گاہک سے کیسے بات کرتے ہیں وغیرہ۔ فن لینڈ کے 6 شہروں سے 65000 بچوں نے اس پروجیکٹ میں حصہ لیا یہ انٹرپرنیورشپ کی ابتدائی تعلیم تھی ۔

ہمارے پاس تعلیم اور ڈگری کو ناپنے کا پیمانہ بھی عجیب و غریب ہے۔ ہم موچی سے لے کر پی ایچ ڈی والے تک کو “پیسے کے میٹر” سے ناپتے ہیں اور آپ جب بھی اس میٹر کو استعمال کرینگے آپ تعلیم یافتہ اور ڈگری ہولڈرز کو ہمیشہ پیچھے پائینگے۔ تھامس اسٹینلے نے اپنی کتاب میں 733 بلینرز کی کیس اسٹڈی کرکے ان کی کامیابی کی 30 وجوہات جمع کی ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں اچھا تعلیمی ادارہ 26ویں اور کلاس میں ٹاپ کرنا 30 ویں نمبر پر موجود ہے۔اس کی وجہ بالکل سادی اور سیدھی ہے۔ایک 10 سال کا بچہ جو میکنک کی دوکان پر “چھوٹے” کے نام سے لگا ہے، اس کو روز 50 روپے دیہاڑی ملتی ہے ۔  اس کے پیسوں کا میٹر 10 سال کی عمر سے “چالو” ہوچکا ہے۔ اس عمر میں ہم جیسے “پڑھے لکھے” اپنی اماؤں کی گود میں سر رکھ کر سو رہے ہوتے ہیں، باپ کی کمائی کو اڑارہے ہوتے ہیں، پانی بھی خود اٹھ کر نہیں پیتے اور کھانا بھی اماں بستر پر نوالے بنا بنا کر کھلاتی ہیں۔ ہمارے ڈگری یافتہ لوگوں کے “پیسے کا میٹر” 24 سال کی عمر میں شروع ہوتا ہے اور اتنے عرصے میں وہ “چھوٹا” ہم سے 14 سال آگے نکل چکا ہوتا ہے، وہ پیسے کمانا اور لوگوں کو ٹریٹ کرنا سیکھ چکا ہوتا ہے۔نوکری پیشہ آدمی کی اولاد ہمیشہ “زیرو” سے شروع کرتی ہے اورگول گپے لگانے والے کی اولاد وہاں سے شروع کرتی ہے جہاں سے اس کے باپ نے چھوڑا ہوتا ہے۔تو آپ بھلا کیسے اس سے مقابلہ کرینگے؟

ہم اور ہمارا معاشرہ اسکول، کالج اور یونیورسٹی کو احساس، شعور اور انسانیت کے نام سے نہیں صرف اور صرف “پیسہ کمانا سیکھنے کی جگہ” کے نام سے جانتے ہیں اور اس سے کہیں زیادہ موثر  “یونیورسٹی” گاڑیوں کی ورکشاپ ہوتی ہے جہاں آپ یہ کام زیادہ اچھی طرح اپنا وقت اور صلاحیت ضائع کئیے بغیر سیکھ سکتے ہیں۔

آپ یہ جان کر حیران رہ جائینگے کہ دنیا میں سب سے زیادہ قرض “تعلیم” کے نام پر لیا جاتا ہے،سب سے زیادہ خودکشیاں تعلیم کے نام پر کی جاتی ہیں، ہندوستان میں 24 گھنٹوں میں 26 خودکشیوں کا تناسب ہے اور یہ چاول کی دیگ کا صرف ایک دانا ہے۔ اگر اس کی آدھی رقم سے نوجوانوں کو “انویسٹ” کرنا سکھادیا جائے تو وہ مزید کئی لوگوں کے کام آسکتا ہے۔

میرا ماننا یہ ہے کہ اسکولز انٹرپرنیورشپ کے نام سے ایک پورا کورس متعارف کروائیں، نہ اس کی کوئی کتاب ہو، نہ اسباق ہوں اور نہ ہی تھیوری کا امتحان ہو۔سال بھر میں وقتاً فوقتاً  شہر بھر میں موجود ان نوجوانوں کو بلایا جائے جنھوں نے بہت کم عمری میں ہی اپنا کوئی اسٹارٹپ لیا ہو۔وہ آکر اپنا تجربہ بیان کریں، بچوں کو موٹیویٹ کریں، چھٹی جماعت سے یا پھر 12 سال کی عمر سے اس مضمون کو باقاعدہ پریکٹیکل شکل دی جائے، پانچ پانچ بچوں کا گروپ بنا کر ان سے ان کا بزنس پلان تیار کروایا جائے ، سب سے ایک ایک ہزار روپے یا پلان کے حساب سے رقم شئیر کرواکر بچوں سے ان کے فارغ اوقات میں کوئی چھوٹا موٹا کاروبار شروع کروایا جائے۔ وہ شام میں گولا گنڈا یا چپس لگائیں، آن لائن کسی چیز کی فروخت بھی ہوسکتی ہے یا پھر کرائے پر کتابیں دینا بھی ہوسکتا ہے۔ بچوں کو بتادیا جائے کہ تعلیمی سال کے آخر میں آپ جتنا زیادہ منافع کمائیں گے اسی حساب سے  آپ کی رپورٹ کارڈ پر اس کے نمبرز یا اس کا گراف ہوگا۔ آخر میں اس منافع میں سے آدھی رقم ایدھی یا الخدمت وغیرہ میں جمع کروادی جائے۔

اس طرح میٹرک کرتے کرتے پانچ سے چھ سالوں میں بچے ذہنی طور فنانشل فری بھی ہوجائینگے، بزنس پلان بنانا بھی سیکھ لیں گے، لوگوں سے تعلقات استوار کرنا، گاہک سے رابطے بڑھانا ، اپنی جیب خرچ خود نکالنا اور پارٹنرشپ میں جلد ہی کوئی بڑا کاروبار کرنا بھی ان کو آجائے گا۔اس کے ساتھ ساتھ ان کے اندر انفاق اور سخاوت کا جذبہ بھی پیدا ہوگا ۔ وہ جو کچھ کمائیں گے اس میں سے معاشرے کے کم تر اور غریب افراد کو کھلے دل کے ساتھ دینا بھی سیکھ لیں گے۔چینی کہاوت ہے کہ “کسی ضرورت مند کو مچھلی دینے سے کہیں بہتر ہے کہ اسے مچھلی پکڑنا سکھادیں”۔ اگر ہمارے دو چار اسکول بھی اس طرز کو اپنا لیں تو معاشرے میں بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتے ہیں۔

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں