ملازمت کی جگہ: دفتر یا گھر؟

گھر بیٹھ کر دفتر کا کام کرنا آج کے انسان کی پسندیدہ خواہش ہے۔ اس میں جو آرام و سکون ہے، آنے جانے کے جھنجھٹ اور ٹریفک سے جو نجات ہے، بچوں، گھر والوں اور دوستوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کی جو سہولت ہے اُس کا تصورہی دل کو مسرت سے بھر دیتا ہے۔

کسی بھی دفتر کے ملازم سے اس موضوع پر بات کیجیے، اور اسے بتائیے کہ انٹرنیٹ کی سہولت سے وہ وقت قریب ہے جب لوگ گھر بیٹھ کر دفتر کا کام کریں گے، بس کبھی کبھار دفتر کا چکر لگانا پڑے گا۔ وہ خوشی سے کھِل اٹھے گا، کام چھوڑ چھاڑ کر وہ جوش و جذبے سے معمور ہو کر آنے والے وقت کی باتیں کرنے لگے گا۔

یہاں تک تو سب ٹھیک ہے، لیکن اِن ماہرین کا کیا کریں جو بال کی کھال اتارنے بیٹھ جاتے ہیں۔ ابھی ہم کسی سہولت کا سوچ کر پوری طرح خوش بھی نہیں ہو پاتے اور یہ ماہرین آ جاتے ہیں دوسرے پہلوؤں پر توجہ دلانے، مثلاً ان ماہرین کا کہنا ہے کہ زیادہ عرصے تک گھر بیٹھ کر کام کرنے والوں(اور والیوں) کو تنہائی محسوس ہونے لگے گی، خود کو دوسروں سے الگ تھلگ پا کر ان کی جذباتی کیفیت بدلنے لگے گی، انسان چونکہ سماجی حیوان ہے اس لیے اسے دوسروں کا ساتھ ہمیشہ چاہیے ہوگا اور ان ’’دوسروں‘‘ میں صرف گھر والے اور بچّے کافی نہیں ہیں۔ کچھ اور چاہیے وسعت میرے بیاں کے لیے۔

ہم نے چشمِ تصور سے دیکھا کہ دفتر کے دفتر اور عمارتوں کی عمارتیں خالی پڑی ہیں۔ صرف چوکیدار موجود ہیں۔ گارڈ یا حفاظتی عملے کو چھٹی دے دی گئی ہے، کیونکہ جب سازوسامان ہی موجود نہیں تو حفاظت کس چیز کی؟ چوکیدار بھی اس لیے رکھا ہوا ہے کہ کوئی بدمعاش گروہ آ کر عمارت پر قبضہ نہ کر لے۔صفائی کا عملہ بھی دوسری ملازمتوں میں مصروف ہو چکا ہے۔ کچرا شاذونادر ہی اکٹھا ہوتا ہے، مہینے میں ایک آدھ بار، وہ بھی صرف ٹوکرا بھر۔

پنکھے چلتے ہیں نہ اے سی، اس لیے دفاتر کا بجلی کا بِل بہت کم آتا ہے۔ صاحب کبھی کبھار آ کر ایک آدھ میٹنگ بلا لیتے ہیں تو چائے بن جاتی ہے ورنہ چوکیدار کو چائے بھی دور واقع ہوٹل سے اپنی جیب سے پینی پڑتی ہے۔

چونکہ دفاتر خالی ہیں اس لیے سڑکوں پر بھی ہجوم نہیں ہے۔ اکّا دکّا گاڑیاں یہاں وہاں آ اور جا رہی ہیں جن میں موجود فیملیاں شاپنگ مال کے لیے نکلی ہیں یا سسرال/ میکے جا رہی ہیں، یا واپس آ رہی ہیں۔ ٹریفک پولیس کے سپاہی غول بنائے فارغ کھڑے مکھیاں مار رہے ہیں۔ انہیں آمدنی کم ہونے کی شکایت ہے اور انٹرنیٹ کو وہ اس کی وجہ قرار دے رہے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ نے ان کی توندوں پر لات ماری ہے جس سے توندوں کا وزن اور حجم کم ہو رہا ہے، یا پھر انہوں نے شکار میں آنے والی اسامیوں کے لیے رشوت کا نرخ بڑھا دیا ہے۔ کیا کریں، روٹی تو کمانی ہے نا۔

سڑک پر گاڑیاں کم ہونے سے پٹرول پمپوں کی آمدنی گھٹ گئی ہے، عملہ بے حد کم ہے، سی این جی اسٹیشن ہفتہ بھر کھلے رہتے ہیں۔ آلودگی بھی کم ہونے لگی ہے، درختوں کے پتّے جو پہلے سیاہی مائل سبز ہوتے تھے، اب نکھرے نکھرے لگتے ہیں۔ سڑکوں پر حادثات بھی کم ہونے لگے ہیں، چنانچہ اسپتالوں کے شعبہ حادثات کا عملہ عام طور پر ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھا ہوتا ہے جبکہ سب سے زیادہ زد ماہرین ہڈی و جوڑ (آرتھوپیڈکس) پر پڑی ہے۔ بے چارے شعبہ بدل کر گائنی میں جانے کی سوچ رہے ہیں، یہ سوچ تو نجانے کب سے دل میں پل رہی تھی، موقع اب نظر آ رہا ہے۔

چونکہ دفاتر خالی ہو چکے ہیں اور خواتین بھی مجبوراً گھر بیٹھ کر کام کر رہی ہیں اس لیے فیشن ڈیزائنر اور درزی بھی فارغ ہیں، بے چاروں کے پاس سلائی کا اب اکّا دکّا کام آتا ہے۔ بازاروں کی رونق ماند ہے۔ برانڈ والے ملبوسات کا کاروبار چونکہ ٹھنڈا ہو چکا ہے، چنانچہ بڑے بڑے سائن بورڈوں پر نت نئی تراش خراش والے لباس پہنے ماڈلوں کے بجائے اب بلی مارکہ میٹرو ملن اگربتی، ڈیٹول، کیڑے مار دواؤں اور پیمپر کے اشتہارات ہیں۔

دفتر چونکہ خالی پڑے ہیں اس لیے کام سے فراغت پا کر کم عمر خواتین تو دل کا غبار سوشل میڈیا پرنکال رہی ہیں، باقی رہیں بڑی عمر کی اور قریب الریٹائرمنٹ خواتین تو وہ غیبت کر کے دل ہلکا کرنے کے مناسب مقامات تلاش کر رہی ہیں۔ اس سلسلے میں اُن کی نظر کلینک کی انتظار گاہوں پر جا ٹھہری ہے جہاں جا کر وہ اپنے ڈاکٹر کو تو نادیدہ بیماریوں کی تفصیل بعد میں بتاتی ہیں، اس سے پہلے دورانِ انتظار اپنی ہم نشینوں کے ساتھ بہت سے موضوعات پر کھل کر گفتگو کر چکی ہوتی ہیں مثلاً بھابیوں، بھاوجوں کی برائیاں اور تنگ دلی، نندوئیوں کی اچھائیاں اور وسیع القلبی، ساس ہیں تو بہوؤں کی برائیاں، بہو ہیں تو ساس کی غیبت، اگر ساس مر چکی ہے تو ہمسائی کی برائی، ورنہ ہمسائی کی ساس کی برائی۔ غرض دنیا کا وہ کون سا موضوع ہے جو یہاں کلینک میں زیر بحث نہیں آتا، اور خوشی کی بات یہ ہے کہ مخاطبین کے درمیان سو فیصد اتفاقِ رائے ہی پایا جاتا ہے، اختلافِ رائے تو یہاں سے اٹھنے کے بعد پیدا ہوتا ہے۔

ہم تو اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ گھر بیٹھ کر دفتری کام کرنے سے معیشت کا پہیہ سست پڑ جائے گا، کتنے ہی لوگ بے روزگار ہو جائیں گے، غریب مزید غریب ہو جائے گا، یہ ہم سے نہیں دیکھا جائے گا، اس لیے ہم ماہرین کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے یہی کہیں گے کہ دفتر کو کام کی جگہ رہنے دو، بہت سے شوہروں کے لیے یہ ایک جائے پناہ ہے، ٹیکنالوجی اِن بے چاروں سے یہ سائباں کیوں چھیننا چاہتی ہے؟

****

حصہ
تحریر و تصنیف کے شعبے میں اپنی شناخت بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ عامل صحافی تھے، فی الحال مترجم کی حیثیت سے معروف ہیں۔ ایم اے ابلاغ عامہ اردو کالج کراچی سے ۱۹۹۸ء میں کرنے کے بعد تعلیم ادھوری چھوڑ دی، جس کا تعلیم پر کوئی برا اثر نہیں پڑا، البتہ نئی نسلوں کو عبرت ملی کہ تعلیم چھوڑ دینے کا کیا نقصان ہوا کرتا ہے۔ اردو اور انگریزی فکشن سے دلچسپی ہے، اردو میں طنز و مزاح سے۔

جواب چھوڑ دیں