بھارتی الیکشن اور مسلمانوں کا مستقبل 

بھارتی مسلمانوں کے لیے بھارت کی موجودہ کیفیت 1947والی ہے ۔آج بھارتی مسلمان تسلیم کرنے لگے ہیں کہ علامہ اقبال کا دوقومی نظریہ حقیقت پر مبنی تھا۔قائداعظم محمدعلی جناح کی سوچ میں بین الاقوامیت موجود تھی ۔ابوالکلام آزاد کا نظریہ حقیقت سے کوسوں دور اور ظن پرمبنی تھا۔بھارتی مسلمان گزشتہ 70سال سے نچلی ذات کے دلتوں سے بھی زیادہ پسماندہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ان کاذرائع آمدن کھیتی باڑی اورمال مویشی تھا جسے مودی حکومت نے مفلوج کر کے رکھ دیا ۔نریندر مودی کے دورِ اقتدار میں سینکڑوں مسلمانوں کو گائے رکشک کے نام پر شہید کیا گیا۔گؤ ماتا کے نام پرغنڈہ گردی اورمسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم معمول بن چکے ہیں ۔دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت کا قانون اپاہج نظر آتا ہے ،قانون آر ایس ایس کے غنڈوں کی دہلیز کی لونڈی کے ماسوا کچھ نہیں۔ہرمہینے مودی کے پالتوؤں نے کسی مسلمان اکبر کو قتل کیا کوئی مسلم حکمران تحفظ حقوق مسلم کے لیے قائدانہ کردار ادا نہ کرسکا۔سچ کہوں تو بھارت میں مسلمانوں کے پاس کوئی لیڈر نہیں ہے ۔ایک دو جو میڈیا پر اویسی کی صورت نظرآتے ہیں یہ اقتدار کے حریص ہیں باقی کچھ نہیں ۔20کروڑ مسلمان کیا ہیں تارِ عنکبوت سے زیادہ کمزور سیلاب کی موجوں کے ساتھ بہنے والی ٹہنیوں کی مانندجو اپنا رخ نہیں موڑ سکتیں ایسا ہی حال مسلمانوں کا ہے ۔جب مودی سرکار نے تاج محل کو مندر میں تبدیل کرنے کی باتیں کیں فیض آباد کا نام ایودھیا اور الہ آباد کا نام پریاگ رکھنے کا فیصلہ کیا، ایودھیا کی متنازع زمین پر مندر تعمیر کرنے کے نعرے بلندہوے ،توکہیں مسلم آپ کو احتجاج کرتے نظر نہیںآئے ۔وجہ سالہاسال کی کسمپرسی ہے جس نے ان سے عزم اوراظہار چھین لیا ہے۔
2019کے الیکشن کے لیے کانگرس نے غربت مکاؤ کا پلان دیا ہے جبکہ بی جے پی نے اپنے نظریات کی توثیق کرتے ہوئے منشور کے مطابق بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35Aکو ختم کرنے کا عزم دہرایا ہے۔بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ونے کٹیارنے کہاہے کہ مسلمانوں کو بھارت چھوڑ دینا چاہیے ۔بی جے پی کے سنیئر ترین رہنما امیت شاہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں مسلمانوں کے ووٹوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔بی جے پی کے ایک رہنما کہہ چکے یہ آخری الیکشن ہے ۔گؤ رکشک کے نام پر اخلاق ،جان محمد،بہلو خاں،اکبر علی اوردیگر 60نوجوانوں کو شہید کیاگیا۔معروف تجزیہ نگار پنیہ باجپائی توکہتے ہیں ان کی تعداد ہزاروں میں ہے ۔کشمیراورپورے بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔اس پر تجزیہ مشکل نہیں ہے ۔بھارت میں مسلمانوں کو جانوروں سے بھی زیادہ حقیر سمجھا جانے لگاہے۔گائے کے پرستار گائے کھانے والوں پر مظالم ڈھارہے ہیں۔
کیا کوئی سوچ سکتا ہے ان لوگوں کا غم جن کی زندگیاں اجیرن بنادی گئی ہوں ،جن کے معاشرے اجاڑ دیے گئے ہوں ،جن کی ثقافت اور تہذیب پر حملے کیے جارہے ہوں ،جنہیں شام بنانے کی دھمکیاں دی جارہی ہوں ،جن کے لیے برما جیسا ماڈل پلان بنانے کا منصوبہ ہو،آر ایس ایس چاہتی ہے مودی اقتدار میں آئے اور پہلاکام یہ کیا جائے کہ مسلمانوں کی نیشنلٹی ختم کردی جائے ۔یہ سوچ انتہائی کرب اورتکلیف میں مبتلاکرنے والی ہے۔حلانکہ بھارتی نام نہاد دیس بھگت بھول گئے ہیں کہ جنگ آزادی میں خطے کو انگریزوں سے نجات دلانے کے لیے مرکزی کردار مسلمانوں کا تھااور یہ بھی بھول چکے کہ اس سرزمین پر مسلمانوں نے دس دہائیوں تک حکومت کی مگر کسی ہندو دیس بھگت کے ساتھ ظلم روا نہ رکھا گیا ۔مودی جو خود کو بڑا عقل کل سمجھتا ہے اس کے سینے میں ماسوا نفرت کے کچھ نہیں ، ایسے مڈل پاس شخص سے اور کیا امید وابستہ کی جاسکتی ہے۔اسے معلوم رہنا چاہیے کہ دنیا سے مسلمانوں کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔یہ ساری زمین خدا کی ہے ۔اورمسلمان اس کے پسندیدہ بندے ۔مسلمان جیو اورجینے دو کا انمول نظریہ رکھتے ہیں۔
بھارت میں الیکشن شروع ہوچکا ہے لوگ اپنے ووٹ ووٹر لسٹ میں تلاش کررہے ہیں انہیں مل نہیں پارہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 12کروڑ وو ٹ ووٹنگ لسٹ سے خارج ہیں اورانہیں جان بوجھ کر خارج کیا گیاہے یہ ووٹر زیادہ تر مسلم اوردلت ہیں ۔یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ سینکڑوں اور ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بھارتی شہریوں کا ووٹرلسٹوں سے نام خارج کردیا گیا ہے، لیکن مودی کی گودی میں بیٹھا بھارتی میڈیا اس معاملے کی طرف سے آنکھیں بند کیے انتخابی ہَڑاہُڑی میں مصروف ہے۔ معاملہ کچھ یوں ہے کہ ایک طرف اکیس ملین عورتوں سے ووٹ ڈالنے کا حق چھینا جارہا ہے تو دوسری جانب تین کروڑ مسلمان اور چار کروڑ دلت ووٹروں کے بھی انتخابی لسٹوں سے اخراج کی کہانی چھپائی جا رہی ہے۔
بھارتی مسلمانوں کے حالات کشیدہ ہیں یہ میں نہیں کہہ رہا بین الاقوامی میڈیا بھارتی تجزیہ نگار ،دانشور ایسا کہہ رہے ہیں ۔گزشتہ 70سالوں میں ایسا کبھی نہیں ہوا جو اس دفعہ ہونے جارہا ہے۔اگر ایسا ہوجاتا ہے تو یہ خطے کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوگا۔گزشتہ روز راجھستان کے لال نے گالی دی اوراترپردیس کے مقامی رہنما نے دوڑا دوڑا کر مارنے کی دھمکی دی ،ووٹ لینے کے لیے خوف کی فضا پیدا کی جارہی ہے ۔میں آ پ کو ماضی میں لے جانا چاہتا ہوں۔ 1857کے عشرے پر غور کریں انگریز کیسے برصغیر پر قابض ہوئے اورمسلمان کیوں اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔وجہ سادہ سی تھی مسلمانوں کے پاس بات کرنے والا فیصلے لینے والا لیڈر نہیں تھا۔تاریخ کے اوراق پلنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب قوم کے پاس شعور اور قائد کے پاس فہم وحکمت اورفیصلہ سازی کی قوت ہوتی ہے قوم بڑے سے بڑے ہیجان سے باہر آجاتی ہے ۔بھارتی مسلمانوں نے خود کو کیوں تعلیم سے دور رکھا صرف کیرالہ ہی ایسا سیکٹر ہے جہاں لوگ علم دوست ہیں یہی وجہ ہے وہ ہرمرتبہ اپنے لیے نیا لیڈر چنتے ہیں۔مسلمانوں کو کم ازکم کنیا جیسا لیڈر ضرور بنانا چاہیے تھا۔ لیڈر بنائے جاتے ہیں پیدا تو الاماشاء اللہ ہوتا ہے ۔آج ہمیں پاکستان میں جو لیڈروں کی کھیپ نظرآتی ہے یہ جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم کی دین ہے ۔اب نہ وہ جماعت اسلامی رہی نہ ہی لیڈر نکلتے ہیں ۔8سو فلم اسٹار درجنوں سابق جرنیل اور فوج کے اعلیٰ عہدوں پر آفیسرز مودی اوریوگی کی راج نیتی پر سوال اٹھا چکے ہیں ۔کسی بھی قوم کو چونکا دینے کے لیے یہ تعداد کافی ہے ۔یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کچھ تو ہے جو ہونے جارہا ہے ۔
مودی کو فتح ملے گی یا شکست اس بارے کچھ نہیں کہا جاسکتا البتہ کچھ حقائق بیان کیے جاسکتے ہیں ۔اگر پلوامہ یا سرجیکل اسٹرائیک جیسا کھلواڑ نہ کیا گیا تو یقیناً مودی ممکنہ اکثریت لینے میں ناکام ہوگا اس صورت میں مودی اوریوگی کو 210سیٹیں ملنے کا امکان ہے ۔کانگر س اور گٹھ بندھن تقریبا 282تک سیٹیں اپنے کھاتے میں ڈال سکتی ہیں ۔مقامی رہنما 44سیٹیں نکال سکتے ہیں۔ایسی حالت میں کمزور حکومت معرض وجود میں آئے گی ۔جس میں مودی کے چانسز 44فیصد اور کانگر س اور گٹھ بندھن کے 52فیصد ہیں۔
دوسری صورت میں اگر مودی اوریوگی فوج پر حملے کروانے میں کامیاب ہوئے تو یقیناً سرحدیں گرم رہیں گی اس کا فائدہ یوگی اورمودی کو ہوگا۔ایسی صورت میں مودی اوریوگی کی فتح یقینی ہے ۔فتح جس گروہ کی چاہے ہو مسلمانوں کا مستقبل موضوع رہے گا۔گؤ رکشک کے نام پر قتل عام ہوگا۔جو طرز عمل معاشرے میں پروان چڑھایا جاتا ہے اس کے اثرات تب تک ختم نہیں ہوتے جب تک منفی ٹالرنس کی پالیسی پر عمل نہ کیا جائے مگر بھارت میں کوئی بھی حکومت ہندتوا کے نام پر بنی تنظیموں کو لگام ڈالنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ووٹ بینک ٹوٹنے کے خوف سے معاشرے میں عدم انصاف پروان چڑھ رہا ہے ۔
بہرصورت معاشرے میں جس نفرت کو پروان چڑھا یا گیا ہے اس کے اثرات انتہائی خوفناک ہوں گے ۔جو اسلاموفوفیا کی فضا پیدا کی گئی ہے اس کے اثرات اورنتائج کیا ہوں گے یہ آنے والے دنوں میں نظر آئیں گے۔خوشحالی ،امن سے آتی ہے ۔دنیا پر راج کرنے والی قومیں عدل وانصاف کو اپنا دستو ربناتی ہے۔۔موجودہ صورت حال دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ بھارت عشروں تک امن سے محروم رہے گا عدل یونہی تماشائی ۔۔۔خوشحالی اور ایشیاء پر غلبے کا خواب بھی کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوگا۔اس کے برعکس پاکستان مستحکم امن پسندپالیسیوں کا میٹھاثمر ضرور چکھے گااور عالم اسلام میں لیڈرشپ کا رول پلے کرے گا۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں