فرقہ بندی

آج کے مسلمان مختلف فرقوں میں بٹ کر صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں_ ہر فرقہ دوسرے فرقے کے نزدیک کمتر ہے اور کئی فرقے تو دوسرے فرقوں کو کافر قرار دیتے ہیں اگر ہر فرقہ دوسرے فرقے کے نزدیک کافر ہے تو پھر مسلمان کون ہے؟ ایک واحد ہندو ہی ہے جو ہمیں مسلمان کہتا ہے اب تو مسجدوں کے باہر بھی لکھا ہوا ہوتا ہے کہ یہاں فلاں جماعت والوں کا داخلہ منع ہے، فلاں فرقہ کے لوگ اس مسجد میں نماز ادا نہیں کر سکتے، اور کچھ تو کہتے ہیں کہ یہ تو مسجد فلاں مسلک کی ہے یہاں تو نماز پڑھنا جائز نہیں نماز قبول نہیں ہوتی _
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان مختلف فرقوں میں کیوں بٹ گیا، چلو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بھی مان لیتے ہیں _ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میری امت 72 فرقوں میں بٹ جائے گی! یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہمارے گلی محلے کے امام صاحب کو قرآن نہیں آتا،؟ یا ہم نے قرآن کو سمجھ کر پڑھنا اور سننا چھوڑ دیا؟ قرآن مجید کی سورہ البقرہ میں اللہ تعالیٰ صاف صاف فرماتا ہے’’ ترجمہ: مومنوں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھو اور فرقہ بندی میں مت پڑو! ‘‘اس کے بعد بھی اگر ہم اس آیت کو نہ سمجھیں اور فرقوں میں بٹ جائیں پھر ہم مسلمان کہلانے کے لائق ہی نہیں کیونکہ 72 فرقوں میں سے صرف ایک فرقہ جنتی ہو گاباقی سب اپنے کئے کی سزا پانے کے بعد ہی جنت میں جائیں گے،فرقہ بندی شیطان کی ایک سازش ہے جس میں وہ کامیاب ہو رہا ہے جیسے ہندوؤں کے الگ الگ بت اور الگ الگ پوجا گھر ہیں اسی طرح مسلمان بھی فرقوں میں بٹ کر اپنے اپنے طور و طریقے سے عبادت کرتا ہے،کوئی فرقہ اذان و اقامت کے دوران ہاتھ کے انگوٹھوں کو چومنا ثواب سمجھتا ہے تو کسی فرقے کے درمیان یہی عمل شرک اور گناہ سمجھا جاتا ہے_ کوئی فرقہ نماز میں ہاتھ سینے پر باندھتا ہے تو کوئی ناف پر، کوئی نماز کے بعد اونچی آواز میں ذکر کرتا ہے تو کوئی خاموش رہتا ہے، کوئی اذان سے پہلے صلاۃ پڑھتا ہے تو کوئی اس عمل کے خلاف ہے، کوئی فرقہ مرنے والے کے لئے ایصال ثواب کرتا ہے تو کوئی نہیں، کوئی فرقہ ولی پیر کی قبر پر وسیلے سے مانگنے کو غنیمت سمجھتا ہے تو کوئی شرک،کوئی فرقہ حسین علیہ السلام کے غم کو اپنے جسم پر چھریاں مار کر مناتا ہے تو کوئی صبر اور تحمل سے کام لیتا ہے، کوئی اصحاب کو گالی دیتا ہے تو کوئی ان کے نام کا بھی احترام کرتا ہے، غرض یہ کہ ہر فرقہ ہندو مذہب کی طرح اپنے طور و طریقے سے اپنے اپنے فرقوں کے مطابق عبادت کرتا ہے _ ہم مسلمان عبادت میں کم اور دوسروں پر تنقید کرنے پر زیادہ مصروف رہتے ہیں، ارے بھائی کیا پتا اللہ کے نزدیک کون اچھا کون برا ہے اللہ عبادت نہیں نیت دیکھتا ہے_ اللہ کو عبادت کی ضرورت نہیں ہے اللہ کی تسبیح بیان کرنے کے لئے ان گنت فرشتے موجود ہیں جو ایک پل بھی اللہ کی عبادت سے غافل نہیں رہتے، ایک مرتبہ جبرائیل علیہ السلام دو رکعت نماز نفل ادا کی اور 40 سال بعد سلام پھیرا اور اللہ تعالی سے عرض کی کہ اے اللہ اس سے اچھی عبادت بھی کوئی کر سکتا ہے_ تو اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہاں ایک امت آئے گی جس کی فجر کی دو سنتیں تیری 40سال کی نماز سے بھی افضل ہوگی،اب اس چھوٹی سی بات میں انسان کے لئے بہت سی نشانیاں چھپی ہیں اللہ کو ہم گناہگاروں کی صرف 3 منٹ کی عبادت فرشتوں کے سردار کی چالیس سال کی عبادت سے بھی زیادہ محبوب ہے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ ہماری عبادت نہیں صرف ہماری نیت دیکھتا ہے اگر ہماری نیت اچھی ہو گی اور ہماری عبادت خالص اللہ کے لئے ہو گئی تو پھر اللہ تعالی کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ نماز میں ہاتھ سینے پر بندھے ہو یا ناف پر،اللہ تعالی شرک کرنے والوں کو نہیں بخشے گا_ قبروں پر جاکر ان کو سجدہ کرنا یہ شرک ہے پیر ،ولی کی قبر پر پیروں سے حاجتیں مانگنا شرک ہے، پیر ولی کی زیارت کرنا ان کی قبروں پر فاتحہ پڑھنا یہ جائز ہے، آجکل لوگ کیا کرتے ہیں درباروں پر جاتے ہیں اور منت مانگتے ہیں اے پیرسائین میری فلاح مراد پوری کردے تو میں تیرے دربار پہ دیگ چڑھاؤں گی۔ اگر کسی نے دربار پر جانا ہی ہے اور منتیں مانگنی ہیں تو ایسے مانگے کہ ”اے اللہ میں تیرے اس برگزیدہ بندے کے دربار پہ حاضر ہوا ہوں اپنے اس نیک بندے کے صدقے میری فلاں مراد کو پورا کردے ” آمین، مسلمان کوئی آج کے دور میں فرقوں میں نہیں بٹا یہ سلسلہ واقعہ کربلا سے شروع ہوا تھا جب ایک طرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین تھا جس کی پیروی حسین علیہ السلام کر رہے تھے اور ایک طرف یزید تھا جو اپنی حکومت کے بل بوتے پر اپنے طور طریقے رائج کرنا چاہتا تھا یزید نے حسین کو تخت کا لالچ دیا کہ تو میرے ہاتھ پر بیت کر لے تو میں تجھے بادشاہ بنا دوں گا حسین علیہ السلام نے اس کی بادشاہت اس کے تخت و تاج کو ٹھکرا دیا تاکہ اس دنیا میں صرف دین محمدیؐ پھیل سکے ایک اللہ کی عبادت ہو سکے اور اس کے بتائے ہوئے طریقوں پر زندگی بسر کی جا سکے ۔ 72 جانیں قربان کرکے حسین علیہ السلام نے اپنے نانا کے دین کو بچایا تھا افسوس کہ آج انکی یہ قربانی ضائع ہوتی دکھائی دے رہی ہے پھر وہی فرقہ بندی میں مسلمان بٹنہ شروع ہوگئے ہیں پھر وہی یزید کی طرح ہر کوئی اپنے طور طریقے رائج کرنے لگ پڑے اور اور ملا، مفتی، مولوی نے اصلاح کرنا بند کردی حق کی آواز نہ جانے دنیا کی بھیڑ میں کہاں دب کر رہ گئی آج پھر مسلمانوں کو چودہ سو سال پہلے جیسے امام حسین علیہ السلام کی ضرورت ہے جو ان فرقوں کو ختم کرکے ایک اللہ اور اس کے رسول کے طریقوں پر چلائے_ ”آمین”

حصہ

جواب چھوڑ دیں