کھوکھلی محبت

لفظ ”محبت” کہنے کو ایک لفظ ہے۔ لیکن اپنے آپ میں کائنات سموئے ہوئے ہیں۔محبت کانام لیتے ہی دماغ میں جو پہلا خیال آتا ہے وہ ہے مرد اور عورت کا۔ جی ہاں مرد اور عورت کا کیسی عجیب بات ہے ناں۔ ہم نے محبت کو صرف مرد اور عورت تک ہی محدود کردیا ہے۔حالانکہ محبت تو بڑی وسیع و عریض ہے۔کہتے ہیں زمین میں اگر کچھ آسمانی ہے تو وہ محبت ہے اور جو چیز آسمانی ہو وہ کسی ایک کے لیے نہیں ہوتی۔وہ سب کے لیے ہوتی ہے۔کسی ایک تعلق یا رشتے کے ساتھ منسلک کرنا تو غلط ہے نا۔کسی سے کم یا کسی سے زیادہ ہو یہ الگ بات ہے۔ہماری اس مرد عورت والی سوچ نے ہی محبت کو آلودہ کیا ہے ورنہ اس سے پہلے تو محبت بڑی پاک چیز تھی۔ اسے آلودہ کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ ہماری نوجوان نسل کا ہے۔ جس نے اپنی نفسانی خواہشات کو ہوس کو محبت کا نام دے دیا ہے۔ آج کسی تعلیمی ادارے میں چلے جائیں کسی دفتر چلے جائیں یا کسی ایسی جگہ جہاں مرد و خواتین ساتھ کام کرتے ہوں وہاں کہیں نہ کہیں آپ کو محبت کی داستان نظر آئے گی۔ معافی چاہتی ہوں لیکن میرے حساب سے وہ محبت نہیں صرف وقتی اٹریکشن کے سوا کچھ بھی نہیں دس پرسینٹ لوگ بھی ایسے نہیں ہوں گے جو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مخلص ہوں گے صرف وقت گزاری کو محبت کا نام دے دیتے ہیں۔ حالانکہ محبت یہ تو نہیں ہوتی محبت میں پہلی چیز تو عزت ہوتی ہے عزت کے بغیر تو محبت کا کوئی وجود ہی نہیں اور پبلک پلیسز میں ہوٹلز میں پارکس میں ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر بغیر کسی رشتے کے چلنے سے کونسی عزت رہتی کونسی محبت پروان چڑھتی ہے۔ غیرت مند مرد تو یہ برداشت ہی نہیں کرتا کہ اس سے وابستہ عورت کے خلاف کوئی دوسرا بات کرے کوئی انگلی اٹھائے۔ یقین جانیے ہمارا معاشرہ تو ایسا معاشرہ ہے کہ دو جوان بہن بھائی کہیں گھومنے پھرنے چلے جائیں۔ ان کے خلاف بولنے سے نہیں چوکتے کہاں نا محرم مرد کو ایکسیپٹ کرتے ہیں۔ اگر لڑکی گھر سے نکلتی ہے تو اس کے کندھوں پہ بڑا بھاری بوجھ ہوتا ہے۔عزت کا بوجھ یہاں تھوڑا سا پاؤں ڈگمگایا وہی گر گئی۔ اور یہ گرنا ایسا ہے کہ ساری زندگی لگا کر بھی نہیں اٹھ سکتی۔ محبت گناہ نہیں ہے۔ محبت تو بڑا خوبصورت احساس ہے بلکہ محبت توانسانیت کا مذہب ہے۔ لیکن جب سے ہم نے صرف اپنے گھر کی عورت کو عورت اور باقیوں کو گوشت کی دکان سمجھنا شروع کیا ہے۔ تب سے محبت سوائے گناہ کے اور کچھ بھی نہیں رہی۔ آج اس محبت کے ہاتھوں نہ 4 سال کی بچی محفوظ ہے اور نہ ہی چالیس سال کی عورت۔ محبت کے نام پر ہمارے ذہن ہماری سوچیں اتنی غلیظ ہوچکی ہیں کہ محبت کا نام سن کر دماغ میں گندگی اور منہ سے استغفار کے علاوہ کچھ نہیں نکلتا۔ حالانکہ دو منٹ کے لئے سوچیں کائنات کے وجود کو ذہن میں لائیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔پتا چلتا ہے یہ کائنات محبت کا ہی نتیجہ ہے ہم نے بارہا پڑھا ہوگا اللہ نے اپنے نبی کے لیے دنیا بنائی۔ یہ اللہ کی اپنے نبی سے محبت ہی تو تھی کہ محبوب کے لیے پوری کائنات بنا ڈالی۔ جو چیز تخلیق کائنات کا باعث بنی وہ غلط کیسے ہوسکتی ہے۔ غلط محبت نہیں ہے غلط انداز ہیں غلط سوچ ہے اور غلط انسان ہے جس نے محبت کو محدود کردیا۔ورنہ محبت تو بڑی وسیع و عریض تھی۔ ماں ساری زندگی اولاد کے لیے لوٹا دیتی ہے۔آخر کس احساس کے تحت ظاہر ہے محبت ہی ہے۔ باپ دنیا کی سرد و گرم کی پرواہ کیے بغیر پردیس کاٹتا ہے۔ کس جذبے کے تحت صرف و صرف محبت، بہن بھائی کے لیے بھائی بہن کے لیے سب کچھ لوٹانے کے لیے تیار ہوجاتا ہے کس احساس سے مجبور ہوکر ظاہر ہے محبت کے ہاتھوں مجبور ہوکر میاں بیوی ایک دوسرے کا سہارا بنتے ہیں صرف اور صرف محبت کی وجہ سے۔ تو جب محبت اتنی وسیع ہے تو پھر ہماری سوچ کیوں اتنی محدود ہے اس کو لے کر۔ آج دنیا میں محبت کے دن منائے جاتے ہیں۔ اس کی تاریخ کیا ہے کیا نہیں واللہ علم۔جہاں دیکھو بے حیائی مچی ہوئی ہے کہیں عزت پامال ہورہی ہے۔ کہیں غیرت کے نام پہ قتل ہورہا ہے۔ محبت کے یہ انداز تو نہیں ہوتے جہاں پاکیزگی نہ ہو وہاں محبت نہیں ہوتی۔ پاکیزگی کے بغیر محبت کا وجود نہیں۔ آپ منائیں محبت کا دن بیوی سے یا شوہر سے زیادہ محبت کا حق دار کون ہوسکتا ہے۔ میاں بیوی کو تحائف دے۔بیوی شوہر کو دے۔والدین کے ساتھ دن گزاریں ان کو خصوصی طور پر وقت دیں فیملی کو لے کر پکنک پہ جائیں۔ یہاں بہت سے لوگ اختلاف بھی کریں گے کہ محبت صرف ایک دن ہی ہوتی ہے۔ تو بھئی محبت ایک دن کی بات نہیں۔محبت کا دن منائیں لیکن اپنوں کے سنگ محرم رشتوں کے سنگ اپنوں کو اپنے ہونے کا احساس دلائیں ماں کو پھول دیں محبت کا اظہار کریں اور پھر غور کریں ان کا خوشی سے دمکتا چہرہ کیسی خوشی سے دوچار کرتا ہے۔ محبت پاک تھی محبت کو پاک رہنے دیں نفسانی خواہشات کو محبت کا نام دے کر بد نام نہ کریں۔ محبت کا دن منانا غلط نہیں ہے۔ غلط کاموں کو محبت سے منسلک کرنا غلط ہے۔ محبت خوشی ہے۔ زندگی کا پہلا احساس محبت ہے۔محبت ثواب ہے اس کو گناہ نہ بنائیں۔ اور عورت صرف گھر کی عورت کو نہ سمجھیں کہیں ایسا نہ ہو آپ کا کیا لوٹ کر واپس آپ تک آجائے۔ اپنے خیالات اپنی سوچ اپنی نیتوں کو پاک رکھیں۔ کیونکہ یہ بہت پہلے ہمیں بتا دیا گیا تھا کہ” اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے”

حصہ

جواب چھوڑ دیں