آسانیاں بانٹیں، اطمینان ملے گا

وہ روزانہ صبح سات بجے ماسوائے اتوار راستے پر گزرتی نظر آتی تھیں۔ جاڑے کی دھندلی صبح، جب چہار سو کہرے کا بسیرا ہوتا، پتوں پر پھوار جمی ہوتی تھی۔ کہرا نہ ہو تو یخ بستہ، برفیلی ہوا کے تھپیڑے چلتے تھے۔ سردی کا یہ عالم ہوتا کہ دانتوں بھرے خانے میں دانت کھنک رہے ہوتے اور منہ سے دھواں ایسے نکل رہا ہوتا جیسے چولہے کی چمنی سے دھویں کے مرغولے لہراتے ہوئے نکل رہے ہوں۔ شدید ٹھنڈ میں وہ بلاناغہ دو چادریں لپیٹے، مشکل سے چلتی ہوئی یا یوں کہیے پاؤں گھسیٹی ہوئی مجھے جب بھی نظر آتیں، سوچنے پر مجبور کر دیتی تھیں۔

اماں آخر جاتی کہاں ہیں؟ اتنی ٹھنڈ میں لاغر و کمزور جسم کو کہاں گھسیٹے لے جا رہی ہیں۔ بالآخر ایک روز اماں کے گھسٹتے قدموں کے نشانات پر قدم جماتے ؛ میں بھی پیچھے ہو لیا یہاں تک کہ وہ ایک بڑے تعلیمی ادارے کے آہنی گیٹ سے اندر ہو کر غائب ہو گئیں۔ پوچھ تاچھ پر خبر ہوئی کہ اماں یہاں صبح چھ تا شام پانچ ملازمت کرتی ہیں۔ ٹیچرز کے لیے چائے پانی کا انتظام کرتی ہیں۔ ساتھ ہی صبح و شام اس دیوقامت ادارے کے لاتعداد کمروں میں جاڑو پونچھا کرتی ہیں۔ یہ شہر کا نامور تعلیمی ادارہ تھا۔ جہاں سکھایا جاتا صفائی نصف ایمان ہے۔

ان تعلیم یافتہ اور مہذب لوگوں کا کچرا اٹھانا اس خاتون کی ذمہ داری ہے۔ یوں وہ خاتون سویرے بلکہ یوں کہیے منہ اندھیرے آتیں اور شام ہوتے یوں ہی پاؤں کھینچتے واپسی کی راہ لیتی ہیں۔ یقینی طور پر حد درجہ مجبور ہوں گی، تب ہی عمر کے اس حصے میں بھی مشقت کر رہی ہیں۔ وگرنہ کون چاہتا ہے سردیوں کی صبح جب دھند گھر کے کواڑوں پر قدم جمائے بیٹھی ہو، گرم بستر چھوڑ کر نکلیں؟ ادارے کے منتظم سے معلومات لینے ان کے دفتر پہنچا تو صاحب فخر سے بتانے لگے ”میں نے ماسی کو منع کیا ہے کہ آپ بیمار ہیں، گھٹنوں میں تکلیف ہے، چلنے میں دقت ہوتی ہے۔

آپ نہ آیا کریں، آپ کی تنخواہ گھر بیٹھے آپ تک پہنچا دی جائے گی۔ ”جب وہ بتا کر داد طلب نظروں سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ وہ خاتون کانچ کے جگ میں تازہ پانی بھر کر لائی تھیں۔ اس وقت ان کا چہرہ حزن و ملال کی تصویر تھا۔ اور لبوں پر مجبوری و لاچاری کی بھیگی ہوئی معروضات تھیں۔ لیکن انہوں نے چپکے سے جگ میز پر جمایا اور پلو سمیٹتے دفتر سے نکل گئیں۔ منتظم نے پانی کا گلاس بھر کر ہونٹوں سے لگایا، گھونٹ بھرا اور فخر سے گلے میں سریا تانے، محنت کش خاتون کے بیٹوں کے متعلق بتانے لگے اس وقت ایک ماں کے کردار پر انگلی اٹھنے لگی۔

تربیت پر سوالیہ نشان لگا۔ اجی ہم نے تو اپنا حق ادا کر دیا یہی کر سکتے ہیں کہ خالہ کو گھر بیٹھے رقم پہنچا دیں۔ ویسے ان خاتون کے جوان بیٹے ہیں مشٹنڈے، خیال ہی نہیں رکھتے اپنی ماں کا۔ خرچہ پانی مانگتے ضرور ہیں دیتے نہیں۔ وہ اس عمر میں اپنا پیٹ پالنے کے لیے خود کمائے گی ہی کہ اس کی مجبوری ہے۔ اور ساری بات تو جی تربیت کی ہے۔ ماں نے تربیت ہی نہیں کی۔ گھروں میں پھرنا ہی سیکھا ہے۔ گھر پر رہتی تو تربیت کرتی ناں۔ یوں وہ ایک مجبور ماں کی غربت اور محنت مشقت کا مذاق اڑا رہے تھے۔ اور ساتھ ہی بزعم خود بڑے تربیت یافتہ بنے بیٹھے تھے۔

میں سوچ رہا تھا کتنی بدقسمتی ہے۔ تربیت پر بھاشن وہ دے رہے ہیں جو خود تربیت یافتہ نہیں۔ فکر کی بات ہے ہمیں تعلیم وہ لوگ دے رہے ہوتے ہیں جنہیں خود تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مان لیا انہوں نے اپنے بیٹوں کی تربیت ٹھیک سے نہیں کی۔ انہیں اس انداز سے نہیں تراشا کہ وہ بڑھاپے میں اس کا سہارا بنتے۔ بس جاڑو پونچھا لگا کر چار پیسے جوڑے، انہیں پالا، پوسا، کھلایا پلایا اور بندھن میں باندھ کر ذمہ داری سے سبکدوش ہو گئیں۔

لیکن آپ اپنے گریبان میں بھی تو جھانکیے۔ آپ تو مہذب گھرانے کے فرد ہیں۔ آپ تو پڑھے لکھے ہیں۔ آپ کی والدہ نے تو آپ کی تربیت ٹھیک کی تھی نا۔ وہ تو گھر پر ہوتی تھیں۔ نہیں بھی ہوتی تھیں تو تعلیم یافتہ تھیں۔ آپ کے لیے پڑھی لکھی ملازمہ کا انتظام کیا ہوگا۔ انہوں نے تو اچھی خصلتیں آپ کے سینے پر تراشی ہوں گی۔ اب اگر آپ تربیت یافتہ نہیں دکھ رہے تو کیا میں آپ کی والدہ کے کردار پر انگلی اٹھاؤں؟ ان سے جو بن پایا وہ انہوں نے کیا۔ بیوہ ہو جانے کے بعد اپنے بچوں کی آسودگی خاطر آپ جیسے مہذب لوگوں کے جھوٹے برتن دھوئے، پڑھے لکھے لوگوں کا کچرا اٹھایا۔ پائی پائی جوڑ کر گھر بنایا، بیٹوں کو بسایا۔ اب اپنے دوا دارو کے لیے اس عمر میں بھی آپ ہی کی خدمت کر رہی ہیں۔

لیکن آپ کیا باور کرانا چاہتے ہیں؟ کہاں گئی آپ کی تربیت؟ مان لیا ان کے بیٹے خیال نہیں رکھتے آپ تو رکھ سکتے ہیں نا۔ آ پ بھی تو ایک ماں کے بیٹے ہیں۔ آپ ان کی عزت نفس مجروح کیوں کر رہے ہیں؟ ان پر نہیں خود پر احسان کیجیے۔ ان کے لیے سواری کا بندوبست کیجیے۔ انہیں آسانیاں فراہم کیجیے۔ ایسے کئی ضعفا ہیں جو مختلف اداروں میں کام کرتے ہیں۔ جو نہ ٹھنڈ دیکھتے ہیں نہ گرمی۔ نہ یہ دیکھتے ہیں کہ طبیعت ناساز ہے نا ہی کچھ اور۔

نہ بیماری، معذوری ان کی آڑ بنتی ہے۔ بس جتے رہتے ہیں کولہے کے بیل کی طرح، زندگی کی دوڑ میں شامل ہونے۔ تن کو ڈھانپنے، اپنا، بچوں کا پیٹ پالنے۔ خدارا! ان کا خیال رکھیے، انہیں سہولت دیجیے۔ آپ ان کے رویے، ان کی تربیت کے موافق نہیں بلکہ ان سے اپنی تربیت کے مطابق پیش آئیے۔ جان لیجیے باغ کو دیکھ کر معلوم ہو جاتا ہے کہ بہار کس رنگ کی ہے۔ وہ آپ کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔ آپ کی حسا س طبیعت پر بوجھ نہ ہو آپ کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔ صفائی ستھرائی کرتے ہیں کہ صاحب صاف جگہ بیٹھیں۔

توآپ بھی ایسے لوگوں کا خیال رکھیے، ان کے چہروں پر سے اڑی مسکراہٹ واپس لائیے۔ ان کے لیے آسانیاں پیدا کریں گے تو قدرت آپ کے لیے آسانیاں پیدا کر دے گی۔ میں یہ بھی نہیں کہہ رہا کہ آپ اس خاندان کی کفالت کا ذمہ لے لیجیے۔ نہیں ؛بلکہ بساط کے مطابق ان کا خیال رکھیے، وہ بڑی عمر کے ہیں تو ان کے آنے جانے کا انتظام کیجیے۔ اسی طرح کچھ دیگر سہولیات بھی دی جا سکتی ہیں۔ نہیں تو بھی ماتحت کا خیال رکھنا آپ کی ذمہ داری بنتی ہے۔

نبھائیے اور دل سے دعائیں لیجیے۔ آپ ان کا خیال رکھ کر دیکھیے، حزن و ملال کی تصویر بنے چہروں پر کچھ مسرت، کچھ سکون، کچھ طمانیت کی آمیزش آپ بھی محسوس کریں گے۔ اورآپ بھی اپنے بڑے بڑے دلوں میں خوشی و اطمینان کی چھوٹی چھوٹی کونپلیں اگتی محسوس کریں گے۔ شیکسپیئر نے کہا تھا ”غریب پر احسان کریں، کیوں کہ غریب ہونے میں وقت نہیں لگتا“۔ سو بسم اللہ کیجیے، کہیں دیر نہ ہو جائے۔

حصہ
mm
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے عبد الباسط ذوالفقارمختلف سماجی موضوعات پر انتہائی دل سوزی سے لکھتے ہیں،جو براہ راست دل میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔مختلف اخبارات و جرائد میں ان کے مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں