ہزارگنجی سبزی منڈی میں دھماکے

خبروں کے مطابق کوئٹہ کی ہزارگنجی سبزی منڈی میں دھماکے کے نتیجے میں 20 افراد جاں بحق اور 48 زخمی ہوئے، جاں بحق ہونے والوں میں ایف سی اہلکار، 2 بچے اور ہزارہ قبیلے کے 10افراد بھی شامل ہیں، واقعے کے خلاف ہزارہ قبیلے کے افراد نے مغربی بائی پاس پر دھرنا دے دیا جو رات گئے تک جاری رہا، شہر کے دیگر علاقوں میں بھی احتجاج کیا گیا۔

یہ افسوسناک خبر ایسے موقع پر سامنے آئی جب بلوچستان اور خاص طور سے کوئٹہ کے حالات بہت پر سکون نظر آنے لگے تھے۔ جب بھی کسی علاقے کی صورتحال قدر پر سکون محسوس ہونے لگتی ہے، کوئی نہ کوئی ایسا افسوس ناک واقعہ ظہور پذیر ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے سکون اور امن کے متعلق شکوک و شبہات سر ابھار نے لگتے ہیں۔

کسی نہ کسی بہانے ایسے واقعات کا ہوتے رہنا اس بات کی علامت ہے کہ وہ عناصر جن کی بیخ کنی ایک عرصہ دراز سے کی جارہی ہے وہ قانون کے ہاتھ ضرور لگے ہیں لیکن ان کی ایک بڑی تعداد ایسی ضرور ہے جو قانون کی نظروں سے اپنے آپ کو پوشیدہ رکھنے میں کامیاب ہو گئی ہے لہٰذا جب جب بھی ان کو تخریب کاری کرنے کا یا لوٹ مار مچانے کا موقع ملتا ہے وہ اپنا ہاتھ دکھا کر ہستی بسی زندگی کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ کوئٹہ کی ہزار گنجی سبزی منڈی میں دیکھنے میں آیا جس کی وجہ سے قیمتی جانوں کا ضیاع تو ہوا ہی ہوا ساتھ ہی ساتھ مالی نقصان بھی بڑے پیمانے پر ہوا۔

ابتدائی رپورٹ کے مطابق خیال یہی ظاہر کیا جارہا تھا کہ شاید یہ دھماکا پہلے سے کسی چھپائے گئے بم کا نتیجہ ہے جس کے متعلق گمان یہی تھا کہ اسے آلوؤں کی بوری میں چھپایا گیا ہوگا اور پھر ہجوم جمع ہوجانے پر کسی ریموٹ کی مدد سے پھاڑدیا گیا ہوگا لیکن بعد کی تحقیق کے مطابق یہ تباہی ایک خود کش حملے کا شاخسانہ تھی۔ خود کش حملے پاکستان میں تقریباً بند ہی ہوچکے تھے جو اس بات کی علامت تھی کہ ایسی جہادی، مذہبی اور شدت پسند تنظیمیں جو ملک میں اپنے مذموم مقاصد کیلئے سرگرم عمل تھیں یا تو ان کے افراد ملک سے فرار ہوگئے ہیں یا بھر انھوں نے اپنے اس مکروہ فعل سے تائب ہو کر ہماری فورسز کے سامنے ہتھیار ڈال کر اپنے آپ کو قومی دھارے میں شامل کرنے کا وعدہ کر لیا ہے لیکن اس تازہ ترین واردات کے بعد اس بات کے خدشات پھر سر ابھارتے نظر آرہے ہیں کہ ایسے گروہ شاید دوبارہ منظم ہونے لگے ہیں اور وہ ایک بار پھر ملک کو اسی جانب دھکیلنا چاہ رہے ہیں جہاں وہ کچھ عرصے قبل تھا۔

یہاں ہر پاکستانی کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ تخریب کاروں یا دہشتگردوں کا نہ تو کوئی وطن ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی مذہب بلکہ ان کا ایک ہی مشن ہوتا ہے اور وہ دہشت پھیلانے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔ خیال کیا جارہا ہے کہ یہ دھماکا کوئٹہ میں بسنے والی ایک مخصوص کمیونٹی “ہزارہ” کو نشانہ بنانے کیلئے کیا گیا تھا۔ ممکن ہے کہ ایسا ہی ہو جیسا ہزارہ کمیونٹی سوچ رہی ہے لیکن بظاہر اس بات کو پورے یقین کے ساتھ اس لئے نہیں کہاجاسکتا کہ اس کی زد میں ہر عام و خاص افراد آئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 20 شہید ہونے والے افراد میں ایک واضح تعداد ہزارہ برادری کی ہی ہے لیکن جو جو اس ہجوم میں موجود تھا، وہ دھماکے کی لپیٹ میں آیا۔

جہاں تک شک کا پہلو ہے اس کو سامنے رکھ کر تحقیق کا آغاز ضرور کیا جانا چاہیے اس لئے کہ کسی دھماکے کا ٹھیک ایسے وقت میں ہونا جب ہزارہ کمیونٹی منڈی میں سخت سیکیورٹی کی موجودگی میں حسب معمول آئی اور ایک خاص مقام پر اکھٹا ہو کر خرید و فرخت میں مصروف ہوئی تب ٹھیک اسی وقت ایک بہت بڑا دھماکا ہوا اور کئی قیمتی جانیں کام آگئیں۔

شک کا ایک پہلو دھماکے کا خود کش ہونا بھی ہے۔ اگر دھماکا کسی پہلے سے پوشیدہ بم کو ریموٹ کنٹرول کی مدد سے پھاڑدینے کا ہوتا تو شاید ایسا خیال کرنا مناسب نہیں ہوتا لیکن خود کش حملے کا مقصد لاکھ دہشت پھیلانا ہی ہو لیکن ایسے حملے اپنے ہدف کو ہی نشانہ بنانے کیلئے کئے جاتے ہیں۔ تحقیقات کرتے ہوئے ان تمام پہلوؤں کو سامنے رکھنا از حد ضروری ہے تا کہ حملے کے مقاصد کو بھی معلوم کیا جاسکے اور ساتھ ہی ساتھ ایسے گروہ جو دوبارہ سے سرگرم ہوتے نظر آرہے ہیں، ان تک بھی پہنچا جاسکے۔

ایک بات اس سلسلے میں یہ بھی سامنے آرہی ہے کہ حکومت نے خیرسگالی کے طور پر کچھ ایسے افراد کے ساتھ نرم رویہ بھی اپنایا ہے جن کا ماضی ایسے واقعات سے وابستہ رہا ہے۔ ایسے افراد میں کئی بڑے بڑے نام شامل ہیں۔ ممکن ہے کہ حکومت یا عسکری اداروں کا خیال یہ ہو کہ دی جانے والی رعایات کی وجہ سے ایسے افراد کی سوچوں کے دھارے موڑے جاسکتے ہیں لیکن عام طور سے یہی دیکھا گیا ہے کہ فطرت بدلا نہیں کرتی اس لئے جن جن افراد کو خیرسگالی کے طور پر کوئی رعایت دی گئی ہے ان کی سرگرمیوں پر بھی کڑی نظر رکھی جائے تاکہ عوام میں پھیلنے والی بدگمانی کو دور کیا جاسکے۔

ایک سوال یہ بھی بہت اہم ہے کہ کیا پاکستان میں کچھ آبادیاں ایسی بھی ہیں جو سیکڑوں سال سے پاکستان میں رہتے ہوئے بھی پاکستانیوں کی نظر میں پاکستانی نہیں؟۔ بقول ڈی آئی جی کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ، “ہزارہ قبیلے کے 55 افراد 11 گاڑیوں میں ہر روز سبزی کی خریداری کے لیے پولیس اور ایف سی کی حفاظت میں سبزی منڈی آتے ہیں”۔ کیا ان کا یہ بیان دل دُکھا دینے کیلئے کافی نہیں۔ پاکستان میں بسنے والی ایک آبادی ایسی بھی ہے جسے اپنے آپ کو زندہ رکھنے کیلئے جو خریداری کرنی پڑتی ہے اس کیلئے بھی ایک حفاظتی دستہ درکار ہوتا ہے۔ کیا ان کا یہ اسٹیٹمنٹ دنیا کو متوجہ کرنے کیلئے کافی نہیں؟۔ وہ پاکستانی جو دنیا کے بیشمار ممالک میں رہتے ہیں ان میں سے کسی کو بھی ایسی صورت حال کا سامنا ہے؟۔ ایک مسلمان ملک میں محض مسلکی اختلاف پر کسی آبادی کو اس طرح محصور کردینا اور ان کی جان و مال اورعزت و آبرو کو غیر محفوظ بنا دینا کہیں سے کہیں تک بھی اطمنان بخش سمجھا جاسکتا ہے؟۔

اس سلسلے کی آخری بات بہت غور طلب ہے اور اس کی بھی مناسب وضاحت بہت ضروری ہے۔ گزشتہ چند برسوں قبل جب جب بھی کہیں بڑی تخریب کاری ہوا کرتی تھی تو فوراً یہ اعلان کر دیا جاتا تھا کہ یہ کارروائی خود کش ہے۔ حکومت کے اس اعلان کو پاکستان میں موجود کچھ سیاسی اور کچھ مذہبی جماعتیں ناپسند کرتی تھیں اور خواہش رکھتی تھیں کہ تحقیق میں دھماکے پلانٹڈ بم کے تو ضرور آئیں لیکن خود کش نہ ہوں۔ ماضی کے برعکس اب جہاں بھی کوئی بڑی تخریب کاری ہوتی ہے حکومتی یا عسکری ذرائع اپنی ابتدائی رپورٹ میں اسے پلانٹڈ بموں کا نتجہ قرار دیتے ہیں لیکن حتمی رپورٹ اسے خود کش ظاہر کر رہی ہوتی ہے۔ ماضی میں اس قسم کے حملوں کو فوری طور پر کس کے ساتھ نتھی کیا جانا مقصود ہوا کرتا تھا اور اب کس کی کمزوریوں کی پردہ پوشی پیش نظر ہوتی ہے؟، بات بہر طور ہے تو وضاحت طلب ہے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں