تعلیم کا اولین مقصد انسانیت کی تعمیر ہے ۔دنیاوی تجربات سے آگاہی اور واقفیت ہی تعلیم کا لازمی جزو ہے۔طلبہ کو زندگی کے نشیب و فراز سے آشنا کرنا اور زندگی کی کشمکش کے لئے تیار کرنا ہی تعلیم کااولین مقصد ہے۔ایس مل کے مطابق ماحول کا تعلیم و تدریس پر گہر ا اثر پڑتا ہے۔ فروبل استاد کو ایک باغبان اور طالب علم کو ایک پودے سے تشبیہ دیتاہے۔باغبان کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے باغ کے شجر سایہ دار ،ثمر آور اپنی خوب صورتی،لذت اور خوشبو میں یکتا و نمایاں ہوں۔ اسی طرح ایک معلم بھی علم کی قدر و منزلت طلباء میں پیدا کرتے ہوئے پسندیدہ معاشرتی اقدار کو پروان چڑھتا ہے۔ تعلیم کا اہم کام زندگی کے لئے معاون و مددگار معلومات ،مہارتوں اور تجربات سے طلباء کو واقف کرنا ہے اگر تعلیم ان امور کا احاطہ نہیں کرتی ہے تووہ بے فیض تصور کی جاتی ہے۔ درس و تدریس کو جتنا آسان سمجھا لیا گیا ہے در حقیقت یہ کام اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ہر بچہ کو حصول علم کے لئے اپنی ذات سے استفادہ کر نا ضروری ہوتا ہے۔اس ایک نکتہ کا استحصال کرتے ہوئے اساتذہ اپنے فرائض منصبی سے سرموئے انحراف نہیں کر سکتے ہیں۔اساتذہ کے لئے لازم ہے کہ وہ طلبا ء کی ذہنی سماجی معاشی حالات سے با خبر رہتے ہوئے حالات کے مطابق بچوں کی علمی تشنگی کو سیراب کرنے کے سامان فراہم کرے۔تعلیم و تربیت کے زمرے میں ماحول کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔اکتساب کی ترقی اور تنزلی میں ماحول کا نمایاں حصہ ہوتا ہے۔ماہرین تعلیم و نفسیات کا اجماع ہے کہ توارث ایک غیر متبدل اور اٹل شئے ہے جب کہ ماحول کو حسب منشاء و ضرورت ڈھا لا جا سکتا ہے۔تعلیمی دنیا میں اسی لئے ماحول کو ایک کارگر عامل گردانا گیا ہے۔اکتسابی نظام کے دو اہم جزو ایک وہ پر جوش طلبہ ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو تعلیم و تربیت کے ذریعہ تبدیل کرنے کا جویا رکھتے ہیں جب کہ دوسرا اہم جزو ماحول ہوتا ہے۔اکتساب کے لئے سازگار ماحول اسکول انتظامیہ ،اساتذہ ،والدین اور طلبہ کے مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔سازگار ماحول کو وجود میں لائے بغیر کسی بھی قسم کی اکتسابی سرگرمی بے فیض اور وقت کا خسران ثابت ہوتی ہے۔ نافع اکتساب کے لئے سازگار ماحول (Conducive Atmosphere) کی ضرورت ہوتی ہے۔ طلبہ کے اکتسابی سفر کو آسان پر کیف اور دلچسپ بنا نے کے لئے انتظامیہ ،اساتذہ اور والدین سازگار اکتسابی ماحول کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔طلبہ کی بھلائی اور اکتساب کے فروغ کے لئے ایسے ماحول کو پروان چڑھانا ضروری ہوتا جو انھیں سیکھنے کے لامحدود مواقع فراہمکرے۔اگر اکتساب کے لئے طلبہ کو موزوں ،محتاط ،حوصلہ افزا اور سازگار صحت مند ما حول فراہم کیا جائے تو تحصیل علم کے لئے طلباء پیش قدمی کرنے سے نہیں ڈرتے ہیں۔اکتسابی ماحول اگر سازگار ہوتوطلباء میں اکتساب کے لئے اپنے آپ تحریک پیدا ہوگی،سیکھنے کی شدید امنگ ابھرے گی۔اکتساب کے لئے سازگار ماحول کو وجود میں لاتے ہوئے اساتذہ تدریسی فرائض کو بہتر انجام دینے کے علاوہ طلبہ کے اکتساب میں تیزی اور سرگرمی کو نوٹ کر سکتے ہیں۔ بہتر اکتسابی ماحول کی وجہ سے معلومات ہمیشہ کے لئے ذہن نشین ہوجاتے ہیں اور طلبہ میں معلومات کو بروقت استعمال کرنے کی قابلیت پیدا ہوجاتی ہے۔ کمرۂ جماعت میں سازگار ماحول کی تشکیل میں ناکامی کی وجہ سے اساتذہ سود مند اکتساب کی فراہمی میں ناکام ہوجاتے ہیں اور بچوں میں سیکھنے کا عمل مفلوج ہوجاتا ہے۔ معاون و محتاط منصوبہ بند اکتسابی ماحول طلبہ کو غیر فعال اکتساب (passive learning) کا شکار ہونے سے نہ صرف محفوظ رکھتا ہیبلکہ طلبہ کو اکتسابی امور میں سرگرمی سے حصہ لینے کی ترغیب بھی دلاتا ہے۔ بہتر تعلیمی ماحول کی بنا پرطلبہ میں سود مند اکتسابی نظریات و تجربات پرورش پاتے ہیں۔ اساتذہ اپنی تھوڑی سی توانائی اگر اکتسابی ماحول کو پیدا کرنے میں صرف کردیں تب تدریس ان کے لئے ایک نہایت ہی پرکیف آسودہ اور آسان کاز ہوجاتا ہے۔ تدریسی فرائض کو وہ بحسن و خوبی نہایت آرام و اطمینان اور سکون کے ساتھ انجام دے سکتے ہیں۔ساز گار تعلیمی ماحول طلبہ میں اکتسابی خواہش کو مہمیز کرنے کے علاوہ اکتسابی پیش قدمی کا بھی متحمل بناتا ہے۔ ترقی پذیر اکتساب کے لئے لازمی اوصاف جیسے تجسس ،تحقیق،اختراعی انداز فکر،تخلیقیت،معیاری سوجھ بوجھ، کے علاوہ ازخود اکتساب کی تحریک طلبہ میں سازگار اکتسابی ماحول کی وجہ سے از خود فروغ پاتے ہیں جس سے اکتساب کی صلاحیت تیز تر ہوجاتی ہے۔دیانت دار اور تدریس سے محبت کرنے والے اساتذہ اکتسابی دلچسپیوں کے فروغ میں ممد و معاون اشتراکی اکتسابی(contributory learning) ماحول کو جود میں لائیں۔اشتراکی اکتسابی ماحول طلبہ میں سیکھنے کے عمل کے فروغ میں بہت مددگار ثابت ہوا ہے۔اشتراکی اکتسابی ماحول کے تحت حاصل شدہ تجربات بھی طلبہ میں اکتساب کو استحکام بخشتے ہیں جس سے طلبہ کے ذہنی افق میں وسعت پیدا ہونے کے علاوہ معلومات بھی ہمیشہ کے لئے ذہن نشین ہوجاتے ہیں۔
سازگار اکتسابی ماحول کے لئے معاون عناصر؛۔اکتسابی ترقی کے لئے چند معاون اور قیمتی عناصر پر عمل پیرا ہوکر اساتذہ موثرو موزوں تعلیمی حالات کو وجود میں لاسکتے ہیں۔ ان عناصر کے علاوہ دوران تدریس دریافت شدہ طریقہ تدریس، حکمت عملیوں کے ذریعہ اساتذہ سازگار تعلیمی ماحول کو ترتیب دے سکتے ہیں۔درج ذیل بنیادی عوامل کو جب دلچسپ طریقہ سے نافذ کیاجاتا ہے تو طلبہ کے اکتساب کے لئے درکار سازگار اکتسابی ماحول ہموار ہوتا ہے۔
(1)بہتر اکتساب کے لئے متعلم کی سرگرم شمولیت لازمی ہوتی ہے اسی لئے طلبہ کو باربار اکتسابی سرگرمیوں میں شامل ہونے کے مواقع فراہم کریں تاکہ طلبا کو اپنی صلاحیتوں کو پیش کرنے کے علاوہ کرو اور سیکھو(Learn by Doing)کا موقع ملے
(2)تدریسی سرگرمیوں میں جذبہ تحریک کو نما یاں جگہ دی جائے تاکہ اکتساب میں طلباء دلچسپی لیں۔دلچسپی سیکھنے کی عمل کو تیز کرتی ہے۔طلبہ کو اگر مناسب طریقہ سے ترغیب و تحریک دی گئی تو وہ نئے معلومات کے حصول میں اپنی توانیاں صرف کردیتے ہیں۔
(3)طلبہ کو ذہنی طور پر ذمہ داریوں کا احساس دلانے کے لئے ضروری ہے کہ اساتذہ ان سے محبت اور شفقت سے پیش آئیں اور ان میں پائے جانے والے احسا س عدم تحفظ پر قابو پائیں۔ طلبہ میں ذہنی اضطراب اور بندیشوں سے آزادی کے ذریعہ اکتساب میں اضافہ ہوگا اور وہ اکتسابی تجربات کو استعمال کرنے کے قابل بھی بنیں گے۔
(4)اساتذہ کی جانب سے تیارکردہ حکمت عملی و منصوبہ بندی سے اکتساب کی ضرورت متعلم پر مترشح ہو جانا چاہیئے ۔طلبہ پر جب اکتساب کی ضرورت عیاں ہوجاتی ہے تو اکتساب کا عمل بھی بامعنی ہوجاتا ہے۔
(6)ٓاکتسابی عمل کے دوران طلبہ کے علمی استحکام کے لئے مشق اور تجربہ کرنے کے وافر مواقع عطاکیئے جائیں تاکہ اکتساب طلبہ کے لئے پرکیف اور بامعنی عمل بن جائے۔
(6)طلبہ میں خود کار اکتساب کی حوصلہ افزائی کے لئے مناسب مواقع فراہم کریں تاکہ طلبہ میں اکتسابی تجربات کے متعلق اطمینان کی فضاء پیدا کی جائے جوسیکھنے کے عمل میں مزید تحریک کا باعث ہوتی ہے۔
(7)اساتذہ درس و تدریس کے دوران لگاتار بچوں کی حو صلہ افزائی کرتے رہیں پوچھے جانے والے سوالات کی جانچ کریں صحیح جوابت پر تعریف و توصیف سے کام لیں اور غلطی کرنے والے طلبہ کی تحقیر سے اجتناب کریں اور صحیح جواب کی سمت ان کی رہنمائی کریں۔اس سے ان میں احساس جاگزیں ہوگا کہ وہ استاد کے پاس اہمیت کے حامل ہیں اور ان کی شخصییت بھی اہمیت رکھتی ہے۔
(8)طلبہ کے انفرادی نظریات کی جانچ کریں اختراعی صلاحیت کی ہمت افزائی کی جائے۔طلبہ کی ذہنی صلاحیت کے مطابق اکتسابی عمل کو ممکن بنائیں تاکہ وہ مسائل سے سامنا کرنے کے قابل بن سکیں۔یہ عمل طلبہ میں اکتساب کے فروغ کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔
(9)صرف نصابی سرگرمیوں پر توانیاں نہ صرف کی جائیں بلکہ طلبہ کی پوشیدہ فطری صلاحیتوں کو فروغ دینے کی کوشش بھی ضروری ہے۔صرف نصابی سرگرمیوں کو جب زیادہ اہمیت دی جاتی ہے تو طلبہ دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں اور دباؤ اکتسابی عمل میں ایک بہت بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔
(10)سازگار اکتسابی ماحول صحت مند باہمی گفت وشنیدکے ذریعے آپسی تعلقات کے فروغ میں کلیدی کردار انجام دیتا ہے ۔باہمی تعاون کے ذریعے اکتساب میں نہ صرف اضا فہ ہوتا ہے بلکہ طلبہ معلومات کے تبادلے کے ذریعہ خود اعتمادی کی فضاء بھی پیدا ہوتی ہے۔
(11)معلوم سے نا معلوم تشریح سے تجزیہ ،آسان سے پیچیدہ (مشکل) ،جزو سے کل ،ٹھوس سے خلاصہ کی سمت گامزن تدریسی طریقے طلبہ میں دلچسپی پیدا کرنے کے ساتھ اکتساب کو پرکیف بنادیتے ہیں جس سے اکتساب کی گہرائی اور گیرائی میں اضافہ ہوتا ہے۔
(12)سرگرمیوں پر مبنی تدریس،تدریس سرگرمیوں کی ترتیب میں لچک اور طلبہ کی پسند کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سازگار اکتسابی ماحول کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
مثالی کمرۂ جماعت کی تزئین و ترتیب؛۔کامیابی کے لئے حکمت عملی کی اشد ضرورت ہوتی ہے خواہ وہ جنگ ہو،کھیل،مہم جوئی یا پھر تدریسی محاذ۔تدریسی عمل میں کمرۂ جماعت کو مکمل قابو میں رکھنے کے لئے استاد کے لئے حکمت عملی کا استعمال ضروری ہے جس کے ذریعہ وہ طلبہ کو اکتساب کی مثبت شاہراہ پر گامزن رکھ سکتا ہے۔مثالی کمرۂ جماعت کی تشکیل کے ذریعہ طلبہ کو اکتساب کی جانب آسانی سے راغب کیا جاسکتا ہے۔اساتذہ کی توجہ صرف نفس مضمون کی تدریس پر نہ رہے کہ کیا پڑھا یا جائے بلکہ اساتذہ اپنی توجہ کو طلبہ کی اکتسابی حالت اور ماحول کی طرف بھی مرکوز کریں تاکہ موثر تدریس کی انجام دہی کو ممکن بنایا جاسکے۔مختلف طریقوں اور حکمت عملی کی ذریعہ ایک بے جان کمرۂ جماعت کو فعال تدریسی مرکز میں تبدیل کی جاسکتا ہے۔اساتذہ کمرۂ جماعت کو طالب علم مرکوز جماعت میں تبدیل کردیں جہاں بچوں کو تحریک و ترغیب اور حوصلہ افزائی کے ذریعہ اکتساب کی جانب مائل و راغب کیا جاسکے۔طلباء چشمہء علم سے اپنی تشنگی کو بجھاسکیں اور جہا ں اعلی سے اعلی اکتساب کی راہیں وا ہو جائیں۔وہ کمرۂ جماعت جہاں طلبہ کی حو صلہ افزائی اور موثر اکتساب کے لئے رہبر ی و رہنمائی کی جاتی ہے وہ طلبہ اعلی سے اعلی مقام تک پہنچ جاتے ہیں اورایسے ہی کمرۂ جماعت کو معیاری اکتسابی مرکز سے معنون کیا جاتا ہے۔خراب کمرۂ جماعت کی ترتیب و تزئین کے باعث طلبا کے اکتساب پر بر ے اثرات مر تب ہوتے ہیں اس سے نہ صرف کمزور طلبہ نبر د آزما ہوتے ہیں بلکہ روشن دماغ قابل طلبہ بھی اس آندھی میں تنکے کی مانند اڑجاتے ہیں۔طلبہ کو کمرۂ جماعت کی فضاؤں کو مکدر کردینے والے احوال سے واقف کرانا بھی اساتذہ کے لئے ضروری ہوتا ہے تاکہ طلبہ خوش اسلوبی اور مکمل یکسوئی سے تعلیم کی طرف توجہ کر سکیں۔ کمرۂ جماعت کی فضاکو خوش گوار بنانے کے لئے مدرس اپنی تمام تر پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لائے۔ ذیل میں مثالی کمرۂ جماعت کی تشکیل و ترتیب میں معاون نکات کو تحر یر کیا گیا ہے۔
(1)طلبہ کو بغیر مفہوم و مطلب کے اکتساب سے باز رکھتے ہوئے ان کی توجہ پر معنی اور وسیع اکتساب کی طرف مبذول کروائی جائے۔جامع جانچ کے ذریعہ طلبہ کے نقائص کو دور کیا جائے۔کمرۂ جماعت کی سرگرمیوں کو طلبہ کی صلاحیتوں کے اظہار کے وسیلے کے طور پر استعمال کیا جائے۔اس عمل کے ذریعہ ہر طالب علم ا پناحصہ لینے کے ساتھ دینے والے کا کردار بھی انجام دے سکے گا۔
(2)کمرۂ جماعت کے ماحول کو طلبہ کے لئے ایسا معاون اور مددگار بنایا جائے جہاں پرکمرۂ جماعت ہر وقت اساتذہ کی شفقت اور محبت سے معمور و منور رہے۔ اساتذہ اپنی شفقت ومحبت اور بروقت مسائل کی یکسوئی کے ذریعہ طلبہ میں اطمینان اور آسودگی کی فضاء کو فروغ دے سکتے ہیں جس سے طلبہ میں اکتسابی ترقی اور تیز ہونے کے علاوہ طلبہ بغیر کسی شدو مد اور پس و پیش کے اپنے مسائل کو اساتذہ کے روبرو پیش کرنے میں تامل نہیں کر یں گے۔
(3)ہر طالب علم کو دوسروں کی قدر دانی کے جذبے سے متصف کر نا ضروری ہوتا ہے تا کہ وہ اپنے ہم جماعت کی کسی بھی مشکل وقت میں مدد سے جی نہ چرائے۔اس عمل سے طلبہ میں ایک دوسرے پر بھروسہ و یقین کا جذبہ فروغ پاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ احسا س ذمہ داری کے زیور سے بھی طلبہ آراستہ ہوجاتے ہیں۔
(4)کمرۂ جماعت میں انجام دی جانی والی تدریسی سرگرمیاں طلبہ میں اختراعی انداز فکر اور تخلیقیت کو فروغ دینے میں معاون ہونا چاہیئے جس کے ذریعہ طلبہ میں مسائل کو حل کرنے کے لئے تحقیق و جستجو کو پروان چڑھانے کے ساتھ سوجھ بوجھ کی صلاحیت پیدا ہوسکے اور باہمی اکتساب کی فضاء بھی ہموار ہوسکے۔
(5)کمرۂ جماعت کا نظم و ضبط نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے نظم و ضبط کے اصولو ں سے طلبہ کو آگا ہ کیا جائے تاکہ وہ اپنے عمل اور ردعمل میں احیتاط کو ملحوظ رکھیں تا کہ ان کی ایک جامع شخصیت کی تشکیل کو ممکن بنایا جاسکے۔اگر تما م طلبہ کا طرز عمل جماعت میں بہتر ہوگا تب ہی کمرۂ جماعت کے اکتساب کا ماحول بھی سازگار ہوگا۔
(6)کمرۂ جماعت میں طلبہ کو ان کی کارکردگی سے واقف کیا جائے ان کو ان کے اکتساب کے طاقتور پہلوؤں سے واقف کروانے کے علاوہ کمزور پہلوؤں کی بھی نشاندہی کیاجائے تاکہ وہ اپنی کارکردگی کو بام عروج تک لے جا سکیں۔اکتسابی تنوع کے مسائل کے لئے کمرۂ جماعت میں مددگار رویہ اختیار کرنے سے طلبہ میں کمرۂ جماعت کے اکتساب میں بہتر ی پیدا ہوتی ہے اور استاد کے درس و تدریس سے ایک گوناگوں سکون و اطمینان حاصل کرتے ہیں۔
(7)کمرۂ جماعت میں مستعمل تدریسی حکمت عملیوں کے ذریعہ طلباء میں غور و فکر کرنے کے رجحان کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔غور و فکر ، فہم و ادراک اور اطلاق و انطباق کی صلاحیت کے ذریعہ طلبہ میں کئی اہم مہارتیں مضبوط ومستحکم ہوجاتی ہیں۔معلومات کی کھوج اور دوسروں سے معلومات کے تبادلہ کے وجہ سے بچوں میں اکتساب کی ضرورت کے تحت اندرونی محرکہ بہت زیادفروغ ہوتا ہے۔
(8)کمرۂ جماعت میں معلومات اور علم کی ترسیل میں اہم وسیلہ کا کام انجام دینے والی تعلیمی اشیاء کی موجودگی لازمی تصور کی جاتی ہے۔مددگار تعلیمی اشیاء آلات و اوزاروں کو بہتر طریقے سے ترتیب دیں تاکہ کمرۂ جماعت کی ترتیب اور خوبصورتی کی بہتر عکاسی ہوسکے۔
مثبت اکتسابی ماحول کے فوائد؛۔ کمرۂ جماعت میں ایک سازگار اکتسابی ماحول تشکیل و ترتیب کے فوائد پر ایک اجمالی نظر ڈالنا ضروری ہے۔تاکہ کمرۂ جماعت کی ترتیب و تزئین میں مناسب طریقوں کو بروئے کار لایا جاسکے۔
(۱)سازگار اکتسابی ماحول اکتساب کے لئے طلبہ کو آمادہ کر تا ہے۔
(2)طلباء کی تعلیمی ضروریات کے مطابق کارآمد تدریس انجام دی جاتی ہے۔
(3)طلبہ کی اکتسابی صلاحیتیں میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔
(4)سست متعلم(slow learner) بھی اچھی کارکردگی انجام دینے کی ترغیب و تحریک پاتے ہیں۔
(۵)انفرادی طرز عمل اور نظم و ضبط میں عمدگی پیدا ہوتی ہے۔
(6)گزرتے وقت کے ساتھ ہر طالب علم میں بہتر سے بہتر کارکردگی انجام دینے کا یقین جاگزیں ہوتا جاتا ہے۔
(7)فطری صلاحیت اور قابلیت کے اظہار کے لئے اسٹیج دستیاب ہوتا ہے۔
(8)سازگار ماحول کی وجہ سے اکتساب منظم اور مبنی بر مقاصد ہوجا تاہے۔
(9)کمرۂ جماعت کا سازگار ماحول سنجیدہ فکر (Critical Thinking)اور تخلیقیت کے فروغ کا باعث بنتا ہے۔
(10)عملی کام کے معیار میں بہتر ی واقع ہوتی ہے۔
(11)تخیل کی پرواز اور دانشمندی کو فروغ ملتا ہے۔
(12)تعلیمی ،گفت و شنید اور دیگر زندگی کے لئے معاون مہارتیں مضبوط اور مستحکم ہوتی ہیں۔
(13)طلبہ میں مثبت رویوں کے فروغ کے ذریعہ خود اعتادی پیدا ہوتی ہے۔
(14)متواتر اشتراکی اکتسابی کے بناء پر باہمی تعلقات میں بہتر ی پیدا ہوتی ہے۔
(15)عمدہ عادات و اقدار کے لئے انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کا جذبہ جاگزیں ہوتا ہے۔ہر بچہ کسی نہ کسی فطری صلاحیت کا حامل ہوتا ہے جس کی نمو و فروغ کے لئے تربیت ضرورت ہوتی ہے جو بچہ کو اسکول فراہم کرتا ہے۔ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے خیال کیا جاتا ہے کہ اسکول ہی وہ جگہ ہے جہاں تعلیم دی جاتی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اسکول ایک درسگاہ ہے اور تعلیم دینے کے سوائے اس کا اور کوئی کام نہیں ہے لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ اسکول ہی واحد ذریعہ تعلیم نہیں ہے جہاں بچہ زندگی کے تما م حقائق سے آگہی حا صل کر تا ہے۔ بچے کے گردو پیش کے احوال ہر پل اس کو اکتساب کی سمت مائل رکھتے ہیں۔ والدین اسکول انتظامیہ اور اساتذہ بچوں کی فلاح و بہبو د کے لئے تدریس میں نفسیاتی پہلووں کو پیش نظر رکھیں جس کے ذریعہ ایک خوش گوار اکتسابی ماحول کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکتاہے ۔نفسیاتی امور سے نا آشنا والدین ،اسکول انتظامیہ اور اساتذہ بچوں کو اکتساب سے دور کردینے کے علاوہ ملک و ملت کی تباہی کے ذمہ دار بھی ہوں گے۔
اہم بلاگز
چراغ تو روشن ہیں
پی ٹی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد 16 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس رپورٹ میں مکمل سچائی ہو پھر بھی ٹی وی بہرحال ایک مقبول ذریعہء مواصلات ہے۔ شام کے وقت یا رات نو بجے ٹی وی پر ٹاک شوز یا head lines ملاحظہ کرنے والے افراد کا تناسب کم نہیں ہوا۔ آج جب شام آٹھ بجے ٹی وی آن کیا تو اتفاق سے ٹاک شو کا موضوع تھا انٹرا پارٹی انتخابات اور پارٹی کی قیادتیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی سبھی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے احوال چل رہے تھے۔ پھر نمایاں قائدین کے نام لیے گئے
پیپلز پارٹی:- ذوالفقار علی بھٹو، بےنظیر بھٹو، زرداری، بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو، پارٹی قیادت کے نمایاں افراد ۔
مسلم لیگ نون:- نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز ۔
پی ٹی آئی:- عمران خان ہی موءسس اوروہی قائد انہی کے دم خم سے پارٹی ہے۔ غیر مشروط، عقیدت اور اتباع کا محور بس عمران خان کی شخصیت ہے، اختلاف ہے تو عمران خان سے، اتفاق ہے تو عمران خان سے۔
مردِ واحد یا پھرایک خاندان۔ بس ہر پارٹی میں اسی کا اجارہ ہے۔ کس منہ سے یہ لوگ جمہوریت کا نام لیتے ہیں۔ کبھی سوچا آپ نے؟؟ ووٹ دینے سے پہلے سوال کیا کبھی آپ نے ان، مقبول لیڈرز، سے؟ اکتائے دماغ کے ساتھ چینل بدلا تو حافظ نعیم الرحمن کے حلف کی خبر چل رہی تھی۔ سارامنظر ہی دلکش لگا۔ بھیگی آنکھیں، کپکپاتے الفاظ دعاؤں کی التجا. یہ ہے حافظ نعیم الرحمن کا حلف ۔ دماغ میں سوال اٹھا "کیا یہ شخص سالہا سال سے نسل در نسل اس جماعت کا گدی نشین ہے؟"
نہیں جی اس سے پہلے ایک درویش صفت، روشن کردار والا، ہمت و جہد کا استعارہ۔۔۔ سراج الحق تھا اسی ذمہ داری پہ ۔۔۔ تو کیا سراج الحق کو عوامی مقبولیت، یہ عہدہ، کروڑوں لوگوں کی دعائیں ان کے باپ دادا نے دلوائیں؟ نہیں جی، وہ تو حلف اٹھانے سے چند دن پہلے تک انہیں خبر تھی نہ خواہش اور ان سے پہلے جو اس منصب پر تھے وہ تھے سید منور حسن، وہ سید، یہ پٹھان، وہ کراچی سے، یہ کے پی سے، کیا سید منور حسن اپنے سے گزشتہ امیر جماعت کے رشتے دار تھے؟
نہیں، وہ بھی اول الذکر سبھی کی طرح ایک عام کارکن تھے۔
نعیم صدیقی (رحمہ اللہ علیہ) اپنی تصنیف "المودودی" میں لکھتے ہیں
"۔۔۔ کتنا سخت لمحہ ہے کہ اس شخص کے جسد کی امانت کو مٹی کے حوالے کرنے کے بعد میں اسی کی جدائی کاذکر چھیڑ رہا ہوں۔ ترجمان القرآن کی ادارت کرنے اوراس کے ذریعے دور دراز تک ایمان وحکمت کا نور پھیلانے والی ہستی نگاہوں سے اوجھل ہوچکی ہے۔ اس کی کرسی خالی ہے وہ اپنے تاریخی کمرے میں بھی موجود نہیں اور اہلخانہ کی مجلس میں بھی شریک نہیں۔اس کی کتابیں جیسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے ڈھونڈ رہی ہیں۔۔۔"
قارئین! نعیم صدیقی کا کرب جب ان الفاظ میں ڈھل رہاتھا تو شائد انھیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ تحریک پھل پھول لائے گی ، وسعت اختیار کرے گی۔ بلاشبہ...
تاریکی میں ڈوبتی دنیا
معاشرہ افراد کی مرہونِ منت ترتیب پاتا ہے، افراد اپنی تربیت بہترین اطوار پر کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بہتر سے بہتر کی تلاش جاری ہے۔ تہذیبوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان دفن شدہ تہذیبوں میں سے ان کے رہن سہن اور دیگر طور طریقوں پر تحقیق کی جاتی ہے اور باقاعدہ یہ ثابت بھی کیا جاتا ہے کہ ان تہذیبوں میں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ وقت کا تو نہیں، انسان کے طور طریقے ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انسانیت کی تذلیل جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف دینے سے کسی قسم کی عبرت حاصل نہیں کرتا یا پھر ہر انسان اس سوچ کا حامل ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ صحیح ہے اسے ویسا ہی کرنا تھا جیسا وہ کر رہا ہے لیکن وقت سوچ میں تبدیلی لے آتا ہے پھر پچھتاوالادے لادے زندگی گزر جاتی ہے۔
ہمارے پیارے بنی ﷺ کے چچا کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھتیجا جو کہہ رہا ہے وہ بلکل صحیح ہے لیکن ہم اپنے آباؤ اجداد کو کیسے ترک کردیں۔ آج احساس کو بھی شرمندگی کا سامنا ہوگاکیونکہ وہ اپنی شدت کھوچکا ہے اور کسی اندھیری کال کوٹھری میں سسکیاں لے رہا ہوگا۔ ہم مادہ پرست لوگ ہیں جہاں احساسات کا تعلق کیمرے کی آنکھ کو دیکھانے کیلئے تو امڈ آتے ہیں لیکن حقیقی دکھ اور تکلیف سے باز رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ دنیا اتنی رنگ برنگی ہوگئی ہے کہ پلک جھپکتے میں منظر بدل جاتا ہے اور وہ سب سامنے آموجود ہوتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، منظر بدل لیتے ہیں۔
اب کسی کے لئے بھی ساری دنیا میں یہ کہنا ناممکن ہے کہ دنیا ایک خوبصورت جگہ ہے اور یہاں رہنے کیلئے کسی خوبصورت کونے کا انتخاب کر کے وہاں رہ لیا جائے، انسان نے اپنی تباہی کیلئے ایسا ایسا سامنا تیار کر رکھا ہے کہ جب اسے استعمال کیا گیا تو وہ وہاں بھی پہنچ جائے گا جہاں اس کی ضرورت نہیں ہوگی، یعنی جب تباہی کا عمل شروع ہوگا تو کوئی بھی اس تباہی سے کیسے محفوظ رہ سکے گا۔ دنیا نے ایک نا ایک دن ختم ہونا ہے اور مسلمانوں کے عقیدے کیمطابق اب قیامت کے قریب کی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں، اب یقینا قیامت آئی کھڑی ہے۔ فلسطین میں ہونے والا ظلم کسی ایسی ہی منزل کی جانب حتمی پیش قدمی کہا جاسکتا ہے۔ کوئی بولنے سے ڈر رہا ہے اور کوئی ایسے ڈھڑلے سے بول رہا ہے کہ اسے گولی سے مارا جا رہا ہے، ظالم اپنے قبیلے کے پر امن لوگوں کو مارنے سے بھی نہیں چوک رہا۔ پچھلے زمانوں میں یہ کام مخصوص لوگوں کے ذمے ہوا کرتا تھا لیکن آج تو سب، سب کچھ کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔
پاکستان تو وہ ملک ہے جہاں بجلی کی تخفیف قوت (لوڈشیڈنگ)اس قدر ہوتی ہے کہ ملک کا اکثر حصہ تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہت سارے ایسے امور ہیں جو ہمیں تاریکی...
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
الوداع نہیں کہتے
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...