(سفرِ سعادت۔ سفرِ حج)
قسط نمبر ۲
مدینہ کی جانب سفر ایک اور محبت بھرا سفر تھا، حاجی جب فریضۃ الحج کے لئے نکلتا ہے تو مسجد نبویﷺ میں نماز پڑھنے کی خواہش بھی رکھتا ہے، اور تین ہی مساجد ہیں جن کی جانب ثواب کی خاطر سفر کیا جا سکتا ہے، مسجدِ حرام، مسجد نبوی ﷺاور مسجدِ اقصی۔ مسجدِ حرام میں چند روز نماز ادا کرنے کے بعد اب ہم دوسرے حرم کی جانب محوِ سفر تھے، جہاں ہر نماز کا ثواب ایک ہزار نمازوں کے برابر ہے۔فجر کے فوراً بعد ہم چلے تھے، راستے میں ایک جگہ تفتیش کے لئے بس کو روکا گیا، اور تقریباً ایک گھنٹہ اس میں گزر گیا، وہیں ایک گم شدہ خاتون بھی ملی، جو اپنے گروپ سے بچھڑ گئی تھی، وہ افغانستان کے کسی ایسے علاقے سے تھی، کہ اس کو پشتو بھی سمجھ نہیں آرہی تھی، اور اس کی زبان سے بھی سب نابلد تھے، ہر بس کے مسافرین کے سامنے اسے لے جایا جاتا، مگر ناکامی ہوتی، اس کے پاس کوئی سفری دستاویز بھی نہ تھی، اور وہ انتظامیہ کے لئے ایک معمہ بنی ہوئی تھی۔
دن کافی چڑھ چکا تھا جب ہم مدینۃ النبی ﷺ مدینہ منورہ میں داخل ہوئے، کشادہ سڑکیں اور جھک کر ملتا ہوا آسمان، کجھور کے درخت اور سورج کی ہلکی تمازت!! سب کچھ ہی بہت اچھا لگ رہا تھا، زبان راستے بھر وقفے وقفے سے درود و سلام سے تر رہی تھی، اور اب تو بس نہیں چل رہا تھا کہ کس طرح بہترین تحیہ پیش کریں، عاجزی کا احساس ہو رہا تھا۔ یہاں ایک وسیع احاطے میں بس کو روک لیا گیا، پہلی مہمانی زمزم کی بوتل، جوس کا ڈبہ اور امریکانا کے منی کیک سے ہوئی، یہاں کے میزبانوں کی سب سے خاص بات انکے تروتازہ اور مسکان بھرے چہرے تھے، ہماری بس کا ڈرائیور اور ذمہ دار اندراج کے لئے دفتر میں چلے گئے، ہمارا دل بے چین ہونے لگا، تاخیر پر تاخیر ہو رہی تھی، ہم نے دائیں جانب باہر دیکھا تودرجنوں نہیں سینکڑوں بسیں کھڑی تھیں، ہم جو نمازِ ظہر مسجد نبویﷺ میں ادا کرنے کے شوق میں بیٹھے تھے، ہر گزرتی ساعت ہمارے چہرے کی پریشانی بڑھ رہی تھی، وہیں ظہر کی اذان ہو گئی، مرد با جماعت نماز ادا کرنے چلے گئے، واپس آکر انہوں نے ہمیں بھی وضو خانوں کی راہ دکھائی، جن کی تعداد انتہائی ناکافی تھی، اور اسی بنا پر صفائی کی ابتر صورت حال، ہم پریشان ہو کر قطار سے باہر نکلتے، مگر حاجت سے مجبور پھر وہیں جانے پر مجبور!!
ظہر کے بعد بس چلی اور کئی سڑکیں اور گلیاں پار کر کے ’’قباء روڈ‘‘ سے اندر کی جانب ایک کنارے پر رک گئی، یہ مکہ کی رہائش کی مانند ہوٹل نہیں تھا بلکہ ایک دو منزلہ مکان تھا، جس میں کئی کئی خواتین ایک کمرے میں اور انکے محرم دوسرے کمرے میں تھے، مجھے جس کمرے میں جگہ ملی وہاں زیادہ تر بزرگ خواتین اور ایک نوجوان خاتون تھی، عصر کی نماز میں ابھی کچھ وقت تھا، اس لئے آرام کی غرض سے لیٹنے لگی تو دروازہ بند کرنا چاہا تو ایک بزرگ بول پڑیں: ’’بوا نہ ماریں، میرا دل گھبراندا اے‘‘، ان کی یقین دہانی پر کہ ہم عورتیں ہی تو ہیں، دروازہ بند نہ کریں، میں سب سے پرے کنارے کے ایک بستر پر لیٹ گئی، ابھی آنکھ بھی بند نہ ہوئی تھی، کہ ایک مرد اندر داخل ہو گیا، میں گھبرا کر اٹھ بیٹھی، دوپٹے سے نقاب کیا، تو خاتون بگڑ گیں: ’’او جی ، اسی حاجی آں، حاجیاں کولوں پردہ نئیں تھیندا‘‘۔یعنی ہم حاجی ہیں اور حاجیوں سے پردہ نہیں ہوتا۔میں رخ موڑ کر بیٹھ گئی، وہ صاحب اپنی کچھ چیزیں لے کر چلے گئے، لیکن چند منٹ بعد واپس کچھ اور پوچھنے آگئے، میں تیسری مرتبہ لیٹی تو وہ کھانے کے برتن اٹھائے دو اور مردوں کو اندر لئے آگئے، میں نے نقاب کیا اور باہر کی راہ لی، دروازے تک پہنچی تو خاتون نے دوبارہ یاد دہانی کرائی: ’’اے سب حاجی نے، حاجیاں دے دل پاک ہوندے نے، غصّہ نہ کرو تسی، آؤ روٹی ٹکر کھاؤ ساڈے نال‘‘، میں تیزی سے باہر نکلی، میرے آنسو بھل بھل بہنے لگے، ساتھ والے کمرے سے میاں نے مجھے باہر نکلتے دیکھ لیا تھا، وہ بھی پریشان ہو گئے، ہم نے وضو کیا اور مسجدِ نبوی چل دیے، نمازِ عصر ادا کی، کھانے کی مناسب جگہ کی تلاش میں نکلے، اور قباء روڈ پر اسلام آباد ہوٹل میں پہنچ گئے، جہاں کا کھانا تروتازہ اور مزے دار تھا ہی، لیکن اس کے عملے کے حسنِ اخلاق نے ایسا متاثر کیا کہ مدینہ میں ہم نے کہیں اور کھانا نہ کھایا، مکہ مدینہ کے کھانوں میں اتنی برکت ہے کہ ایک کھانا دو افراد کو بآسانی پورا ہو جاتا ہے، مکہ میں ہوٹل میں کھانے کے ساتھ پانی نہیں ملتا، ہم زم زم بھر کر لے جاتے، مگر مدینہ میں آپ ہوٹل میں بیٹھیں تو جگ گلاس سب سے پہلے میز پر آتا ہے۔
ہم رات ڈھلے واپس آئے ، تو یہ خوش خبری سنی کہ ہوٹل تبدیل ہو رہا ہے، فجر کے بعد دوسرے ہوٹل میں شفٹ ہوں گے، میاں نے منتظم صاحب کو ہماری پریشانی بتائی،مگر یہ رات ہمیں یہیں گزارنی تھی، ہم تو آکر سو گئے، مگر ہمارے کمرے کی ایک نوجوان دوشیزہ نہا دھو کر بال بکھیرے ساتھ مردوں والے کمرے میں اپنے شوہر کے پاس چلی گئی، صاحب نکل کر باہر آ گئے، اور اب وہ صاحبہ ہیں کہ کبھی کھانے کا دور چل رہا ہے اور کبھی گپوں کا! نصف شب کے بعد انہیں سونے کا موقع ملا۔
صبح مسجد پہنچے تو اندازہ ہوا، ہوا میں خنکی ہے، اور ٹھنڈک جسم میں گھستی چلی جا رہی ہے، سویٹر جو ہم نے احتیاطاً ہی رکھ لیا تھا، گرمائش دے رہا تھا، لیکن موزوں اور شال کی بھی ضرورت تھی، ناشتا کر کے واپس ہوئے تو نزلہ شروع ہو چکا تھا، نئے ہوٹل میں پہلی منزل پر ایک ڈبل کیبن کمرہ ہمیں مل گیا تھا، جس میں ہم دو افراد کے لئے پانچ بستر لگے تھے، دوسری جانب اکرم بھٹی صاحب اپنی بیگم اور بیوہ بھابھی جسے سب پٹھانی کہتے تھے، قیام پزیر تھے، رات بھر وقفے وقفے سے کھانسی کی آوازیں بلا رکاوٹ ہماری جانب آ رہی تھیں، صاحب آنکھیں ملتے ہوئے بولے: ’’بندہ کھانسی کی دوا ہی لے لیتا ہے، ساری رات سو نہیں سکا ان آوازوں سے‘‘۔پتا نہیں ، کیا تھا اس جملے میں، ہمیں آگے چل کر اس کی بہت قیمت ادا کرنا پڑی، سب سے پہلے تو میرا نزلہ، بخار اور کھانسی میں ڈھل گیا، ہر روز تین تین مرتبہ گرم پانی میں شہد پینے سے بھی کچھ افاقہ نہ ہوا، حتی کہ منی کے کیمپ میں جہاں چودہ مرد ایک جانب اور چودہ خواتین رسی سے لٹکی چادر کے دوسری جانب تھیں، اور رات کے سکوت کو توڑنے والی میری مسلسل کھانسی نے کس کس کو بے چین نہ کیا تھا، اور اکثر حاجی اپنا اجر سمیٹتے ہوئے خاموش تھے، مگر مغل صاحب نے ہمارے میاں کو پکڑا اور انہیں سیدھا ڈسپنسری لے گئے، ’’آپ اپنی بیگم کا علاج کیوں نہیں کرواتے‘‘، اورمیاں صاحب ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدن کی تصویر بنے کھڑے تھے، موقع پا کر انہوں نے ڈاکٹر کے کان میں ہولے سے کہا: ’’ذرا احتیاط سے دوا دیں، کوئی سایڈ افیکٹ نہ ہو، شی از ایکسپیکٹنگ‘‘، اور یوں براؤن رنگ کے کھانسی سیرپ کی ایک بوتل ہمیں مل گئی، جس سے کھانسی تو دور نہ ہوئی مگر اب کسی کو گلہ نہ تھا کہ ہمارا علاج نہیں ہو رہا۔
مدینہ میں مکہ کی نسبت فرصت زیادہ تھی، مسجد ابو بکر صدیقؓ، مسجدِ عمرؓ، مسجد غمامہ ہمارے راستے میں آتی تھیں، وہاں نوافل ادا کئے، مسجد فاطمہؓ و علیؓ مقفل تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان مقامات پر ان اصحاب نے خطبہء عیددیا تھا، جبکہ مسجد غمامہ کے مقام پر رسولِ کریم نے عید کا خطبہ دیا، اور نماز استسقاء بھی ادا کی، جب ایک بادل نے آپﷺ پر سایہ کئے رکھا۔ غمام عربی میں بادل کو کہتے ہیں۔
روضہ رسول ﷺ پر حاضری اور ریاض الجنہ میں نوافل کی ادائیگی کا شوق ہمیں کشاں کشاں باب نمبر ۳۰ پر لے آیا، ظہر کی نماز کے بعد خواتین بھاگ بھاگ کر اس جانب پہنچ رہی تھیں، ہم بھی دستی سامان ہلکا کر کے انتظار میں کھڑے تھے اور منتظم ’’پریوں‘‘ کے ہر حکم پر سرِ تسلیم خم کر رہے تھے، جو ’’باجی ادھر نہیں۔۔ باجی بیٹھ جاؤ ۔۔ باجی دھکے نہیں ۔۔‘‘ جیسے احکام صادر کر رہی تھیں، ہماری زبان پر درود و سلام جاری تھا، اسکو شمار کرنے کے لئے کوئی تسبیح تھی نہ جدید آلہء شمار!! ہمارا کاتبین پر بھروسہ ہی کافی تھا، ’’ما یلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید‘‘ (ق، ۱۸)، بس اتنی دعا تھی کہ یہ نذرانہ بارگاہِ خداوندی میں قبول ہو جائے اور میرے نام کے ساتھ محبوب کونین حضرت محمد ﷺ کے حضور پیش ہو جائے، تقریباً آدھ گھنٹے کے انتظار کے بعد خواتین کے لئے روضہ ء رسول ﷺ کی جانب جانے کے دروازے کھولے گئے، تو قدموں سے دھڑ دھڑ کی آوازوں کے ساتھ ،منہ سے ایک خاص قسم کی سیٹی اور کلکاریوں کا شور بھی سنائی دیا، ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لئے دھکے اور کسی کی پرواہ نہ کرنے کا انداز، سچ تو یہ ہے کہ میرا دل دکھ سے بھر گیا، نبی رحمت ﷺ کے کتنے احسانات ہیں اس عورت پر، جینے کے حق سے لیکر عزت، ملکیت، نان نفقہ، وقار، قدموں میں جنت، اور پرورش پر جنت کا وعدہ!! کیا کچھ نہیں ملا عورت کو ۔۔ اور یہ عورت روضہء رسول ﷺ پر حاضری کے وقت ہی اس وقار کو بھول گئی، اگلی انتظار گاہ پر میں نے ارد گرد کی کئی خواتین کو یہاں کے آداب کی یاد دہانی کروائی، اور جب منتظم پریوں نے ہمارے لئے کپڑے کا دروازہ کھولا تو ہم اندر داخل ہو گئے، جہاں دائیں بائیں اور عقب سے آنے والے دھکے ہمیں فٹ بال کی مانند ٹھوکریں مار رہے تھے، ہمیں اپنی ضعف در ضعف کی حالت کا بھی احساس تھا، ہم نے اسطوانہ عائشہ (ستون) کے پیچھے کھڑے ہو کر دو نفل پڑھے، پھر اسطوانہ ابو لبابہ یا التوبہ کے قریب، اسی سے بائیں جانب اسطوانہ الحرس اور اسطوانہ الوفود کو دیکھا اور اس کے قریب بھی نوافل پڑھے، باہر نکلی تو اندازہ ہوا کہ اندر کی دھکم پیل میں میرا دوپٹہ کہیں کھو چکا ہے۔
جنوری ۲۰۰۴ میں مدینہ کا موسم سرد و گرم کا حسین امتزاج تھا، صبح سردی، دوپہر خوب گرمی اور شام معتدل موسم، جہاں صحن میں خوب رونق لگی ہوتی، بچوں کی اچھل کود اور مغرب کے قریب لوکل خواتین کی چائے،قہوہ اور کھجور کے ساتھ آمد۔ کچھ خواتین شاپنگ کے بعد سیدھا ادھر ہی آجاتیں تو انکے خریدے ہوئے لوازمات صفوں میں خلل ڈالنے لگتے۔
ایک روز زیارات کے لئے بلاوا آگیا، اشراق کے بعد بس میں بیٹھے، سب سے پہلے مسجد قبا ء پہنچے، جو اسلام کی پہلی تعمیر کردہ مسجد ہے، سفرِ ہجرت میں رسول اللہ ﷺ نے مدینہ داخل ہونے سے پہلے چند روز قبا میں قیام فرمایا تھا، اور یہاں ایک مسجد تعمیر کی تھی،جس کی بنیاد آپؐ نے اپنے ہاتھوں سے رکھی تھی، یہ مدینہ منورہ سے تقریباً تین کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ آپﷺ خود بھی ہر ہفتے پیدل یا سوار ہو کر قباء جایا کرتے تھے، اس میں دو نفل پڑھنے کا ثواب ایک عمرہ کی ادائیگی کا ہے۔
بس میں بیٹھتے ہی کسی نے باغِ سلمان فارسیؓ دیکھنے کی خواہش کی تو بتایا گیا کہ اب اس باغ میں نہیں جا سکتے، سعودی حکومت نے اس کے گرد فصیل بنا دی ہے، یہ باغ عوالی میں ہے، حضرت سلمان فارسیﷺ نے رسول کریم ﷺ کی مدینہ آمد کی خبر بڑی توجہ اور شوق سے سنی تھی، وہ آپ ﷺ ہی کی تلاش میں تو یہاں پہنچے تھے، کہ نصرانی عالم کے مطابق آپ ﷺ کے نزول کا وقت اب قریب آچکا تھا، رسول اللہ ﷺ کی ہجرت کے وقت آپؓ اسی سرزمین میں موجود تھے، مگر غلام بنا لئے گئے تھے، اور ایمان لانے کے بعد آپؓ کی آزادی کی قیمت کھجور کے ۳ سو پودے لگانا ٹھہری تھی، رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب کے ساتھ ایک رات میں تمام پودے لگائے تھے، وہیں وہ کنواں بھی ہے جس سے وہ سینچے گئے، اور اسی سال ان میں پھل آگیا، باغ کی جگہ پر اب ہائی سکول بن چکا ہے، اور کنواں اب بھی موجود ہے، اطلاعات کے مطابق، لیکن یہاں بس رکنے کی اجازت نہ تھی، سڑک سے ہی مسجد قبلتین پر نظر ڈالتے ہوئے ہم احد کے میدان میں پہنچے۔ مسجد قبلتین ایک تاریخی مسجد ہے جس میں دو سن ھجری میں ظہر کی نماز کے دوران تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا، او ر رسول اللہ ﷺ نے دو رکعت بیت المقدس کی جانب منہ کر کے نماز کی ادائیگی کے بعد باقی نماز بیت اللہ الحرام کی جانب رخ کر کے پڑھائی۔
احد کے میدان میں کفر اور اسلام کا دوسرا غزوہ پیش آیا، آپ ﷺ نے احد کے بارے میں فرمایا: ’’احد ایک پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں ۔۔ ‘‘۔ میدان احد میں ایک جانب شہدائے احد کا قبرستان ہے، جہاں ستر صحابہ دفن ہیں۔ یہیں سید الشہداء حضرت حمزہؓ، مصعب بن عمیرؓدفن ہیں، جن کے کفن کی چادریں چھوٹی ہونے کی بنا پر سر ڈھانپ دیے گئے اور پاؤں پر ایک خوشبو دار گھاس اذخر ڈالی گئی،حضرت حنظلہؓ بھی جنہیں غسیل الملائکہ ہونے کا اعزاز ملا، سعد بن الربیعؓ بھی جنہوں نے نیزے اور تلوار کے ستر زخم کھا کر بھی کہا تھا کہ اگر رسول اللہ ﷺ کو کچھ ہو گیا اور تم میں سے ایک آنکھ بھی ہلتی رہی تو اللہ کے ہاں کوئی معذرت نہ پاؤ گے، جنہیں احد کے دامن میں جنت کی خوشبو محسوس ہو رہی تھی۔ اسی احد میں ایک سچے یہودی نے بھی مسلمانوں کے لشکر میں دادِ شجاعت دی تھی، اور جان جانِ آفرین کے سپرد کی تھی، رسولِ رحمت نے اس کے حق میں گواہی دی تھی: ’’مخیریق بہترین یہودی تھا‘‘، ان شہیدوں میں اصیرمؓ بھی تھے جنہوں نے عین وقتِ قتال اسلام قبول کیا، اور ایک نماز کی ادائیگی بھی نہ کی تھی کہ میدان میں کام آگئے، رسول اللہ ﷺ نے ان کی شہادت کی گواہی دی۔ لشکرِ اسلام کے ایک اور سپاہی ’’قزمان‘‘ جس نے بے جگری سے دشمن کا مقابلہ کیا اور سات آٹھ کافروں کو ڈھیر کیا، جب اس سے زخمی حالت میں پوچھا گیا، تو اس نے کہا: ’’واللہ، میری جنگ تو اپنی قوم کی ناموس کے لئے تھی‘‘، پھر اس نے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے خود اپنے آپ کو ذبح کر کے ہلاک کر لیا، آپ ؐ نے فرمایا: وہ جہنمی ہے۔ احد کے معرکے نے مجاہدوں کی خوب درجہ بندی کی ہے، اور اللہ اپنی حزب کا بہت قدردان ہے۔
وادی قناۃ سے جنوبی کنارے پر پہاڑی جسے اب جبل رماۃ کہا جاتاہے جہاں عبد اللہ بن جبیر کی سرکردی میں پچاس صحابہ کو کھڑا اس ہدایت کے ساتھ کھڑاکیا گیا تھا، کہ وہ اپنے تیروں سے مسلمانوں کی پشت کی حفاظت کریں، اور فتح یا شکست اور کسی بھی صورتِ حال میں اس جگہ کو نہ چھوڑیں، اگرچہ پرندے ہمیں اچک رہے ہوں تو بھی اس جگہ کو نہ چھوڑیں، اور ان کے فتح کے لمحوں سے اس ہدایت کی پیروی نہ کرنے سے جنگ کا پانسہ بدل گیا، فتح شکست سے تعبیر ہوئی، ستر صحابہ شہید ہو گئے، آج بھی لوگ جبل رماۃ پر کھڑے ہو رہے تھے، وہاں کھڑے ہو کر دیکھیں تو میدانِ جنگ میں اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے، اور یہ بھی کہ راہنما کی ہدایت کتنی اہم ہوتی ہے پیروی کے لئے، اگرچہ اللہ تعالی نے انکی اس کمزوری کو معاف فرما دیا، لیکن احد کے میدان میں جانے والے اس سبق سے بے خبر کیسے رہ سکتے ہیں۔
اب احد میں ایک چھوٹا سا بازار بھی ہے، ہم نے احد کی محبت میں اس بازار سے کھجوریں خریدیں۔واپسی کے سفر میں غزوۃ خندق کی مساجد دور سے دکھائی گئیں، حضرت عثمان بن عفان کا خریدا ہوا کنواں بھی نہ دیکھ سکے، بس اس جگہ ہی کو دیکھا۔ واپسی پر بس نے ہمیں مسجدِ نبوی ﷺ کے قریب ہی اتارا، خواتین کے حصے میں پہنچنے تک مسجد کے اندر گنجائش نہیں رہی تھی، ہم صحن کی صف میں شریک ہو گئے، سورج کی تپش سارے وجود پر پڑ رہی تھی، ہوٹل واپس پہنچنے تک گرمی کے اثرات سے نزلہ بھی بڑھ گیا اور بخار بھی ہو گیا۔ اگلے روز جمعہ تھا، اور مسجد کی جانب جاتے ہوئے ہماری دعا تھی، اللہ کرے اندر جگہ مل جائے، اور اندر جگہ مل گئی، جمعہ کی پہلی رکعت میں اچانک روشنی بڑھ جانے کا احساس ہوا، جی ہاں، ہمارے سر سے مسجد کی چھت سرک رہی تھی، اور دھوپ چھن چھن کرہم پر آ رہی تھی،نماز مکمل ہونے تک ہم مکمل دھوپ میں کھڑے تھے، دعاہماری قبول ہوئی تھی، اور مراد پوری نہیں ہوئی تھی، دعا میں کمی کی بنا پر! ہم نے اندر داخلہ ہی تو مانگا تھا، سایہ نہیں مانگا تھا، راحت نہیں مانگی تھی، اور اس پر ہم بے اختیار مسکرا دیے۔
حج کی دعاؤں میں ایک دعا یہ بھی تھی کہ صالحین اور صحیح الاعتقاد ساتھیوں کے ہمراہ حج نصیب ہو، اللہ کا شکر کہ اس نے یہ دعا بھی پوری کی، مکہ میں جن ساتھیوں سے پورا تعارف بھی نہ ہوا تھا، مدینہ آکر ان سے دوستی بھی ہو گئی، ہم عشاء کے بعد کچھ دیر انکے کمرے میں بیٹھ جاتے، ان میں کرنل صاحب، میجر صاحب، مغل صاحب، قریشی صاحب اور اظہر صاحب کی بیگمات تھیں۔ انہیں محفلوں میں ایک روز سوال آیا: میں اپنے شوہر کی جیب سے بلا اجازت رقم نکال لیتی ہوں، اس پر پکڑ تو نہیں ہو گی اللہ کے ہاں؟ اور جرح کے دوران معلوم ہوا کہ شوہر صاحب گھریلو اخراجات بخوشی پورے کرتے ہیں، اور یہ رقم اضافی شوق پورے کرنے کی ہے، ان سے یہی کہا گیا، شوہر کو اس معاملے سے باخبر کر دیں، اور اگر انہیں اعتراض نہ ہو تو کوئی حرج نہیں۔ (حج کی قبولیت پانے کے لئے ایسے سوالات کا تنگ کرنا بھی حاجی کے فوکس کو ظاہر کرتا ہے، ہر لمحہ حجِ مبرور پانے کی طلب کسی بھی عمل پر بے چین کر سکتی ہے)۔
مدینہ سے رخصتی سے قبل یہاں سے خریدے جانے والے تحائف بھی اہم ہیں، شوہروں نے شادی کے بعد شاید اسی موقع پر بیویوں کی اس شوق سے سونے کی خریداری کروائی، ہمارے میاں نے بھی ہمیں ایک انگوٹھی کا تحفہ دیا۔ مدینہ ایک مصروف تجارتی مرکز بھی ہے، جس میں فرض نماز کے قریب تاجر اپنی تجارت سے اس طرح بے نیاز ہو جاتے ہیں، گویا انہیں ان گاہکوں اور اپنی اشیاء کے بیچنے سے سروکار ہی نہ ہو، ’’بعد الصلاۃ‘‘ کہہ کر بات ختم کر دیتے ہیں، اور کاروبار کو بے برکتی سے بچا لیتے ہیں۔
ہمارے گیارہ روزہ قیامِ مدینہ کے دوران کوئی چالیس نمازوں کی مسجد نبوی ﷺ میں ادائیگی پر نارِ جہنم سے رہائی ، اور نفاق سے برأت کی خوشخبری پر خوش ہو رہا تھا، تو کوئی اس کی سند کے ضعف کا بتا رہا تھا۔ علامہ البانی ؒ کے مطابق زیادہ قوی حدیث یہ ہے: ’’من صلی صلاۃ المکتوبۃ ۔۔ ‘‘ہے۔ یعنی جس نے چالیس روز تک تمام نمازیں تکبیرِ اولی کے ساتھ مسجد (کوئی بھی مسجد) میں پڑھیں، اس کے لئے دو برأتیں ہیں: ۱۔ جہنم سے رہائی، ۲۔ نفاق سے دوری (ترمذی)
ہماری ایک ساتھی کو قیامِ مدینہ کے دوران خواب میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت کا شدت سے شوق تھا، انکے گزشتہ سفر میں انہیں مدینہ میں آقائے کائنات کا دیدار نصیب ہوا تھا اور انکی زبان پر درود شریف جاری رہتا، مگر ۔۔ خواب دیکھنا اپنے بس میں تو نہیں،ہاں ریاض الجنہ میں بار بار نوافل بھی پڑھے جا سکتے ہیں اور درود و سلام کی برکتیں بھی سمیٹی جا سکتی ہیں، اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد ۔۔
مدینہ منورہ میں ہماری تکان دور ہو چکی تھی، رسول اللہ ﷺ کی صحبت پانے والوں کی اولادوں نے آج بھی سنتِ رسول ﷺ کو زندہ رکھا ہے، ہنستا مسکراتا شہر، آپ کو کچھ بڑھ کر دینے والا، تجارت میں کھلے دل والا، قیمت میں کمی اور مال میں اضافہ دینے والا، اسی لئے دنیا میں کوئی شہر مدینہ جیسا نہیں، قبرستان تو ویرانی کی علامت ہیں مگر جنت البقیع کی رونق اس کی فصیل سے باہر تک آتی ہے۔ فجر کے بعد ہمیں کوچ کرنا تھا، پہلا پڑاؤ ذو الحلیفہ کی میقات تھا، یہاں سے عمرے کا احرام پہنا اور رسولِ کریم کے اتباع میں ہم بھی عمرے کی ادائیگی کے لئے ’’لبیک اللھم لبیک ۔۔ ‘‘ پڑھتے ہوئے دوبارہ بسوں میں سوار ہو رہے تھے، جو فراٹے بھرتی مکہ مکرمہ کی مسافتیں نگل رہی تھی!!۔(جاری ہے)
اہم بلاگز
نوکری یا کاروبار؟
دنیامیں فی زمانہ اگر کسی کے معیارزندگی کا اندازہ لگانا ہو تو اس کی تعلیمی قابلیت کم،بینک بیلنس اور اس کے پاس مادی اشیا سے لگایا جاتا ہے۔یہ بھی ایک سچ ہے کہ جیہندے گھر دانے اونہدے کملے وی سیانے۔لیکن اس حقیقت سے بھی کسی کو انکار نہیں کہ پیسہ ہر کسی پر عاشق نہیں ہوتا اور جس پر عاشق ہو جائے پھر وہ مٹی کو بھی ہاتھ میں پکڑے تو وہ بھی سونا بن جاتی ہے وگرنی سونا بھی مٹی۔سوال یہ ہے کہ پیسہ کیسے کمایا جائے؟اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ کام کیا جائے جس میں منافع ہو نا کہ اجرت،یعنی بزنس کیا جائے نوکری نہیں۔اگر کاروبار میں اتنا منافع نہ ہوتا تو کبھی بھی آپ ﷺ یہ نہ فرماتے کہ کاروبار میں منافع کے نو حصے ہیں۔جب آپ کاروبار کر لیتے ہیں تو پیسے کو کیسے دوگنا کرنا ہے اس کا فارمولہ بھی ہمارے پیارے آقا ﷺ نے بیان فرما دیا کہ کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ کر کے اللہ سے کاروبار کرلو۔یہی وجہ ہے اللہ دنیا میں دس گنا اور آخرت میں ستر گنا لوٹا کر دیتا ہے۔اس سے بھی زیادہ اگر آپ کو چاہئے تو اس کا بھی حل پیارے رسول ﷺ نے ہم پر واضح فرما دیا کہ صدقہ کرو مسلمان کا صدقہ اس کی عمر میں اضافہ کرتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے اور اللہ کے ذریعے تکبر اور فخر(کی بیماریوں)کو زائل کرتا ہے۔
لیکن ہم کاروبار کرنے سے قبل ہی اس کے نقصانات سے ڈرنا شروع کر دیتے ہیں اسی لئے پاکستان میں کاروبار کی بجائے نوکری کو ترجیح دی جاتی ہے کہ کچھ بھی نہ ہو کم سے کم اس سے ہر ماہ تنخواہ تو مل جایا کرے گی۔اس کا سب سے بڑا نقصان جو ہم نے کبھی نہیں سوچا کہ ہم ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو تنخواہ وصول کرنے کے بعد دوسرے ماہ کی تنخواہ کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔جس کا سب سے بڑا نقصان ہمیں اور کمپنی کو یہ ہوتا ہے کہ ہم اس جوش وجذبہ سے کام نہیں کرتے جس ولولہ سے ذاتی کاروبار میں کر سکتے ہیں۔اسی لئے دنیا کے کامیاب بزنس مین خیال کرتے ہیں کہ منافع،اجرت سے بہتر ہوتا ہے۔کیونکہ اجرت آپ کا پیٹ پالتا ہے لیکن منافع آپ کی قسمت بدل دیتا ہے۔لہذا ہمیں یہ سوچے بغیر کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے کام کو ترجیح دیتے ہوئے چھوٹے سے کام سے ہی بھلے ہو اپنا کام کرنا چاہئے،ایک بار ایک صحابی پیارے رسول ﷺ کے پاس آئے اور مدد چاہی۔آپ ﷺ نے پوچھا کہ تمہارے پاس کچھ ہے تو صحابی نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ میرے پاس اس کلہاڑی کے اور کچھ بھی نہیں،آپ ﷺ نے وہ کلہاڑی لی اور اپنے دست ِ مبارک سے لکڑی کا دستہ اس میں ڈال کر کہا کہ جاؤ اور جنگل سے لکڑیا ں کاٹ کر لاؤ اور اسے بازار میں فروخت کر کے اپنی گزر بسر کرو۔وہ آدمی چلا گیا اور پھر چند ماہ بعد دربار رسالتﷺ میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ اپنا کاروبار...
ترکی کی شام میں مداخلت ۔ پس منظر و پیش منظر
اس قضیے کو سمجھنے کی ابتدا ترکی کے شام پر حالیہ حملے سے کی جائے تو گتھی سلجھنے کے بجائے مزید الجھے گی ۔ اس لیے ہم اس معاملے کو بنیاد سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
کردستان
ترکی کا جنوب مشرقی علاقہ
ایران کا شمال مغربی علاقہ
عراق کا شمالی علاقہ
اور شام کا شمال مشرقی علاقہ
یہ کردوں کا مسکن ہے ۔ اسے کردستان کہا جاتا ہے ۔ یہ سارا خطہ تین لاکھ بانوے ہزار مربع کلومیٹر پر محیط ہے ۔ کردستان کے اس منقسم خطے میں سے ترکی کے پاس ایک لاکھ نوے ہزار، ایران کے پاس ایک لاکھ پچیس ہزار، عراق کے پاس 65 ہزار اور شام کے پاس بارہ ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ ہے ۔
کرد قوم اس خطے میں تین سو سال قبل مسیح سے آباد ہیں ۔ساتویں صدی میں یہ مسلمان ہوئے ۔ اس وقت نوے فیصد سے زائد کرد سنی مسلمان ہیں ۔ حالیہ وقتوں میں ان کی کل آبادی ساڑھے تین کروڑ کے لگ بھگ ہے ۔ سب سے زیادہ تعداد ترکی میں آباد ہے ۔ یہ تعداد تقریبا ًڈیڑھ سے پونے دو کروڑ کے آس پاس ہے ۔ ایران میں قریب قریب نوے لاکھ ، عراق میں اسی لاکھ اور شام میں تیس لاکھ کے عدد کو چھوتے ہیں ۔
جنگ عظیم اول سے قبل یہ سارا خطہ خلافت عثمانیہ کے زیر نگیں تھا ۔ جنگ خلافت عثمانیہ کی شکست پر منتج ہوئی ۔ شکست کا سب سے نمایاں نتیجہ یہ سامنے آیا کہ چھوٹی چھوٹی قومی سلطنتیں تشکیل پاگئیں ۔ یہ صورتحال مسلمانوں کے حریفوں کے لیے بےحد حوصلہ افزا تھی ۔ یہیں سے مسلمانوں کا حقیقی زوال شروع ہوا ۔
معاہدہ سیورے
۔10اگست 1920 کو اتحادیوں اور سلطنت عثمانیہ کے مابین ایک معاہدہ طے پایا، جو " معاہدہ سیورے " کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ اس معاہدے کے رو سے حجاز مقدس ترکی سے الگ ہوا۔ نیز یہ بھی طے پایا کہ کردوں کی الگ ریاست بنے گی ۔
معاہدہ لوزان
مصطفی کمال اتاترک نے اس معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ۔ خلافت کی بساط لپیٹی اور ترکی کی آزادی کا اعلان کر دیا ۔ اس دوران ترکی میں یونانی فوج بڑی تیزی سے پیش قدمی کر رہی تھی ۔ کمال اتاترک نے 1921 کو روس سے دوستی کا معاہدہ کرلیا ۔ اس عمل سے تقویت پاکر 1922 کو یونانی افواج کو شکست سے دوچار کیا اور انہیں ترکی سے نکال باہر کیا ۔ کمال اتاترک کی اس شاندار فتح کی وجہ سے جنگ عظیم کے اتحادی مذاکرات کی میز پہ آنے پر مجبور ہوگئے اور 24 جولائی 1923 کو سوئیٹزرلینڈ کے شہر لوزان میں " معاہدہ لوزان " عمل میں آیا ۔ اس معاہدے کی رو سے سابقہ معاہدہ " معاہدہ سیورے " کو منسوخ قرار دیا گیا ۔ جس کی رو سے ایک آزاد کرد ریاست نے جنم لینا تھا ۔ معاہدہ لوزان کی اہمیت یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں ترکی ،شام اور عراق کی سرحدیں متعین کر دی گئیں ۔ دوسرے لفظوں میں کردوں کے ارمانوں پر نہ صرف پانی پھیر دیا گیا، بلکہ انہیں عملاً ترکی ،شام...
اطاعت و استغفار کے ذریعے آفات سے نجات
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔”جب مال غنیمت کو دولت قراردیاجانے لگے،اورجب زکوٰۃ کوتاوان سمجھا جانے لگے، اور جب علم کو دین کے علاوہ کسی اور غرض سے سکھایا جانے لگے، اورجب مرد بیوی کی اطاعت کرنے لگے اورجب ماں کی نافرمانی کی جانے لگے،اورجب دوستوں کو قریب اورباپ کودور کیاجانے لگے، اورجب مسجد میں شوروغل مچایا جانے لگے اور جب قوم وجماعت کی سرداری،اس قوم وجماعت کے فاسق شخص کرنے لگیں اورجب قوم وجماعت کے زعیم وسربراہ اس قوم وجماعت کے کمینہ اور رذیل شخص ہونے لگیں،اورجب آدمی کی تعظیم اس کے شراورفتنہ کے ڈرسے کی جانے لگے، اورجب لوگوں میں گانے والیوں اور سازو باجوں کادوردورہ ہوجائے، اور جب شرابیں پی جانی لگیں اورجب اس امت کے پچھلے لوگ اگلے لوگوں کو براکہنے لگیں، اور ان پر لعنت بھیجنے لگیں تواس وقت تم ان چیزوں کے جلدی ظاہر ہونے کا انتظار کرو، سرخ یعنی تیزوتنداور شدید ترین طوفانی آندھی کا، زلزلے کا،زمین میں دھنس جانے کا، صورتوں کے مسخ وتبدیل ہوجانے کا،اور پتھروں کے برسنے کا،نیزان چیزوں کے علاوہ قیامت اور تمام نشانیوں اور علامتوں کا انتظارکرو،جو اس طرح پے درپے وقوع پذیر ہوں گی جیسے (موتیوں کی) لڑی کا دھاگہ ٹوٹ جائے اور اس کے دانے پے درپے گرنے لگیں“۔
مذکورہ بالا حدیث میں کچھ ان برائیوں کا ذکر کیا گیا ہے جو اگرچہ دنیا میں ہمیشہ موجودرہی ہیں اور کوئی بھی زمانہ ان برائیوں سے خالی نہیں رہاہے،لیکن جب معاشرہ میں یہ برائیاں کثرت سے پھیل جائیں اور غیر معمولی طورپر ان کادوردورہ ہوجائے توسمجھ لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا سخت ترین عذاب خواہ وہ کسی شکل وصورت میں ہوا، اس معاشرہ پر نازل ہونے والاہے اوردنیا کے خاتمے کا وقت قریب ترہوگیا ہے۔ مال غنیمت کو دولت قراردئیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ اگرسلطنت کے اہل طاقت وثروت اور اونچے عہدے دار مال غنیمت کو شرعی حکم کے مطابق تمام حقداروں کو تقسیم کرنے کی بجائے خود اپنے درمیان تقسیم کرکے بیٹھ جائیں اور محتاج وضرورت مند اور چھوٹے لوگوں کو اس مال سے محروم رکھ کر اس کو صرف اپنے مصرف میں خرچ کرنے لگیں تواس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ اس مال غنیمت کے تمام حقداروں کا مشترکہ حق نہیں سمجھتے بلکہ اپنی ذاتی دولت سمجھتے ہیں۔ امانت کو مال غنیمت شمارکرنے سے مرادیہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس امانتیں محفوظ کرائی جائیں وہ ان امانتوں میں خیانت کرنے لگیں اور امانت کے مال غنیمت کی طرح اپنا ذاتی حق سمجھنے لگیں جو دشمنوں سے حاصل ہوتاہے۔ زکوٰۃکوتاوان سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ زکوٰۃ کا ادا کرنا لوگوں پر اس طرح شاق اور بھاری گزرنے لگے کہ گویاان سے ان کا مال زبردستی چھینا جارہاہے اورجیسے کوئی شخص تاوان اورجرمانہ کرتے وقت سخت تنگی اوربوجھ محسوس کرتاہے۔ علم کو دین کے علاوہ کسی اورغرض سے سکھانے کا مطلب یہ ہے کہ علم سکھانے اور علم پھیلانے کا اصل مقصد دین وشریعت کی عمل اور اخلاق وکردار کی اصلاح وتہذیب انسانیت اور سماجی کی فلاح وبہوداور خداورسول...
”شکریہ جماعت اسلامی “
”بھائی! فون تو اٹھا لیا کر،میں نے قرضہ تونہیں لیناتھا،کل سے ستر فون کر چکا ہوں مجال ہے جو ایک بار بھی کال اٹھا ئی ہو،چلو بندہ مصروف ہوتا ہے لیکن فرصت میں تو کال کر سکتا ہے ،یعنی اب ہم ایسے گئے گزرے ہوگئے ۔۔۔“سیلانی فون پر جمیل کی ہیلو سنتے ہی شروع ہو گیا،گذشتہ بارہ گھنٹوں میں جمیل کو گیارہ بار فون کر چکا تھا،بارہویں فون پر اس نے کال وصول کی تو سیلانی کاکھری کھری سناناتو بنتا تھا۔
جمیل احمد صغیر سے اسکا پرانا ساتھ اور بے تکلفی ہے ،کراچی یونیورسٹی کی بسوں پر دونوں نے لٹک لٹک کرخوب سفر کر رکھے ہیں ۔کیمسٹری کی کھٹی چنا چاٹ اور رول پراٹھے کھارکھے ہیں،ایک دوسرے سے چھین کر عبداللہ کی بریانی پلیٹ پربھاگتے رہے ہیں، جمیل پڑھنے لکھنے والا بچہ اورتقریبا آدھا جماعتی تھا،فکری اور نظریاتی طور پر وہ جماعتی ہی تھا،مولانا موددودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابیں اس کے بیگ میں رکھی ہوتی تھیں لیکن وہ اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہونے پر تیار نہ ہوتاتھا ،یاروں نے بڑی کوششیں کیں، ربط میں رکھا،گھر کے چکر لگائے، بڑے بڑے لیکچر دیئے لیکن جمیل نے جمعیت میں نہ آنا تھا نہ آیا۔
یونیورسٹی کے بعد غم روزگار نے سارے ہی دوست محبتیں اوررفاقتیں یاد بنا دیں، وہ احباب جن سے روز آرٹس لابی میں مصافحے معانقے ہوا کرتے تھے انہیں بھی گردش دوراں جانے کہاں لے اڑی جو نہیں اڑے جمے رہے ان سے بھی ملاقاتوں میں وقفہ بڑھتا چلا گیا۔جمیل سے بھی کبھی کبھار ہی ملاقات ہوپاتی کبھی اس کا فون آجاتا یا کبھی سیلانی اسے فون کر لیتا ،کل ایک کام کے سلسلے میں سیلانی کو جمیل کی ضرورت پڑ گئی سیلانی نے فون کیا لیکن اس نے اٹھایاہی نہیں پھر فون کیا جواب ندارد،تیسراچوتھا اور وقفے وقفے سے کتنے ہی فون کئے لیکن جمیل سے رابطہ نہ ہواپہلے اسکے نمبر پر گھنٹی بج رہی تھی پھر اس نے فون بھی بند کر دیا،سیلانی کا غصہ پریشانی میں بدل گیا طرح طرح کے وسوسے اسے ڈسنے لگے اس نے چاہا کہ کسی اوردوست سے جمیل کی خیر خبر لی جائے لیکن دونوں کا کوئی مشترکہ دوست بھی ایسا یاد نہ آیا اب جو صبح جمیل کے نمبر سے اپنے فون پر مس کال دیکھی تواس نے نمبر ملایا اور جمیل کی ہیلو سنتے ہی شروع ہو گیاسناتے سناتے سیلانی ذرا دم لینے کو رکاتو دوسری طرف سے آواز آئی
”بس یا کچھ اوررہتا ہے ۔۔۔“
”ابے ! چپ میں سامنے ہوتا ناں تو طبیعت صاف کر دیتا “
”واپس آجا کراچی میں صفائی کرنے والوں کی بڑی ضرورت ہے یہاں سیاست ہی صفائی پر ہورہی ہے“جمیل ہنس پڑا
”یار ! میں تجھے کل سے فون پر فون کئے جارہا ہوں مگر تو نے جواب دینے کے بجائے فون ہی بند کر دیا“
”بدگمان نہیں ہوتے دوست فون بند نہیں کیا تھا ہو گیا تھا اور کال میں اس لئے نہیں لے سکا کہ لاکھوں لوگوں کے شور میں گھنٹی کیا گھڑیال کی بھی کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی“
”لاکھوں لوگ۔۔۔کیامطلب ؟“
”میں کل کشمیر کی ریلی میں تھا“
تو بھی کل جماعت اسلامی کی...
امت کو طعنے
امت کا تصور اتنا جاندار ہے کہ استعمار نے اس کو ختم کرنے کے لیے امت کے وجود کو بزور شمشیر کیک کے ٹکڑوں کی طرح تقسیم کیا،خاردار باڑیں لگائیں،آمد و رفت محدود کی، پاسپورٹ اور ویزے کا دھندا قائم کیا،پھر بندوق کے پہرے بٹھائے،ایک کے بجائے درجنوں پرچم دیے اور ہر قومیت کو صرف اپنے وطن کی عظمت پر لگا دیا، اپنے تئیں باقی سب بھلا دیا اور پھرسب سے اوپر ذہنی غلامی کو قائم دائم رکھنے کے لیے اپنے کالے غلام اس سارے بندوبست کی حفاظت کے لیے چھوڑ دیے۔۔۔!
لیکن امت نے اپنے وجود کا ثبوت دیا اور ہر محاذ پر دیا۔
اڑتالیس کی عرب اسرائیل جنگ میں مجاہدینِ امت نے بے سروسامانی میں اسرائیل کو ناکوں چنے چبوائے۔۔۔73ء کی جنگ میں اسرائیلی پوچھتے تھےاس دفعہ فدائین تو نہیں لڑ رہےنا! پھر جتنی جنگیں عرب قومیت کے نعرے پر لڑی گئیں،ہمیشہ منہ کی کھائی اور جب جب امت کی،قرآن کی صدا بلند ہوئی، دشمن خون کے گھونٹ پی کرر ہ گیا۔آج بھی غزہ کا قید خانہ اور القدس کے مینار خون سے تر ہیں ، امت تابندہ ہے!
افغانستان کی تو مثال ہی دینا وقت کا زیاں ہے ،انڈونیشیا سے مراکش تک امت کے نمائندے بارگاہ الٰہی میں منتخب ہو ہو کر پہنچے اور خون ِرگِ جاں سے حق کی شہادت رقم کی۔رحمھم اللہ۔
بوسنیا کی بات کم کومعلوم ہے۔۔۔1992ء میں نسل کشی شروع ہوئی تو ہر حکومت نے ویسے ہی تاریخی'' کھڑے ہونے'' پر اکتفا فرمایا جیسے آج پاکستان کشمیر کی چتا کے سرہانے ساتھ''کھڑا" ہے۔۔۔امت کو آواز پڑی،امت نے لبیک کہا،عالم اسلام سے جانباز آئے اوردو ہی سال میں سرب افواج کا زور توڑ دیا۔دشمن کو مجبوراََبوسنیا کے قیام کو تسلیم کرنا پڑا! صدرعلی عزت بیگوویچ کا خراج تحسین آج بھی موجود ہے،اسے پڑھیں،معلوم ہو گا امت کیا ہے، کیا کر سکتی ہے!
عراق میں امریکی تسلط کے خلاف ان کہی داستان کبھی لکھی جائے تو استعمار کے خلاف جدوجہد میں امت کاتاریخی کردار سامنے آئے گا اور یہ لکھا جائے گا۔انگریزی میں لکھا بھی گیا ہے،اردو تاحال محروم ہے!
اعلان آزادی 1995ء کے بعد آزاد چیچنیا کے صدر جوہر داؤدییف نے آرمی کا کمانڈر ایک عرب کمانڈر امیر الخطاب کو مقرر کیا تھا،کس قاعدے کے تحت؟یہ امت ہے! وہی خطاب جس نے سعودی عرب میں والدہ کو فون پر کہا تھا کہ جب چیچنیا سے روسی استعمار کا جنازہ نکل جائے گا،خطاب اپنی ماں سے ملنے آ جائے گا!
صرف کشمیر میں پچیس ہزار پاکستانی امت کے وجود کی سند خونِ رگِ جاں سے رقم کر چکے ہیں۔کسی ایک کا باپ یا بھائی بھی یہ گواہی نہیں دے سکتا کہ وہ' 'سب سے پہلے پاکستان'' پر قربان ہوا۔ہر شہید نے امت کے لیے قربانی دی!خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی!
حماس کے ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ کا بانی تیونس کا شہری محمد الزواری بنتا ہے۔۔۔کس نسبت سے؟؟اسی نسبت سے جس نسبت سے بوڑھا شیرسیدعلی گیلانی اپنا آپ پاکستان سے منسوب کرتا ہے۔۔پاکستان کو امت کا ایک حصہ سمجھتے ہوئے۔۔ "اسلام کی نسبت سے ۔۔۔اسلام کے تعلق سے۔۔۔اسلام کے رشتے سے۔۔۔ہم پاکستانی ہیں۔۔پاکستان ہمارا ہے!"
اقبال ابھی تک غلطی سے قومی شاعر ہی ہے،بہت...
طنز و مزاح
عرق النساٗ (طنزومزاح)
عرق النسا کو میں اس وقت تک حکیم کی دکان سے ملنے والے عرقِ گلاب،عرقِ سونف،عرقِ انجبارکی طرح ایک عرق ہی خیال کرتا رہا ، جب تک خود اس مرض میں مبتلا نہ ہو گیا ، نتیجہ یہ نکالا کہ عرق النسا کوئی نسائی مرض ہے اور نہ ہی اس کا کوئی تعلق نسوانیت سے ہے۔بلکہ جوانی میں عرقِ انفعال کی وجہ سے پیدا ہونے والا درد اصل میں عرق النسا ہوتا ہے جسے درد ریح اور بادی کا درد بھی کہا جاتا ہے۔درد ریح میں مبتلا شخص ریح کے نکلنے تک چین سے نہیں بیٹھ سکتا۔اگر یہ درد بڑھ جائے تو گٹھیا کا درد بن جاتا ہے جو کہ بہت ہی’’ گھٹیا‘‘قسم کا درد ہوتا ہے۔یہ درد اگرحد سے بڑھنے لگے تو مریض کو انٹی بائیوٹک دی جاتی ہے،کبھی’’ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ‘‘والا معاملہ درپیش ہوجائے تو دوا کی بجائے دعا کروانی چاہئے اور اگر پھر بھی افاقہ نہ ہو تو ’’آنٹی بائی او ٹک‘‘سے شادی ہی اس کا واحد حل ہوتا ہے۔
کہتے ہیں کہ انسان کی پہلی شادی جوانی میں ،کہ شیوہ پیغمبری ہے، دوسری چالیس کے پیٹے میں ،کہ جب پیٹ نکل آئے اور تیسری شادی بڑھاپے میں ،کہ جب بیماری دل کی دوا لینے کی بجائے ہمارے بوڑھے دل ہارنا شروع کر دیں۔بڑھاپے کی شادی کو ”کم عمری“کی شادی بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ اس کے بعد انسان کی زندگی کم ہی رہ جاتی ہے۔اس عمر کے بارے میں ہی اکھان ہے کہ”ہنگ لگے نہ پھٹکڑی تے رنگ وی چوکھا“
رنگ(color) دیکھ کر اگر کوئی بوڑھا دنگ رہ جائے تو سمجھ لیں دل ہار بیٹھا ہے اور اگر کلر دیکھ کر ’’جوان‘‘کا رنگ اڑ جائے تو سمجھ جاؤ کہ پاکٹ ہار بیٹھا،ایک طالب علم کمر دردکے علاج کے لیے ڈاکٹر کے پاس گیا ، ڈاکٹر نے طالب علم خیال کرتے ہوئے ، نفسیاتی طور پر ریلیکس کرنے کے لیے پوچھ لیا، کیوں بیٹا’’میر درد‘‘کو جانتے ہو،طالب علم نے اسے بھی ایک’’درد‘‘کی قسم سمجھتے ہوئے فوراً جواب دیا، جی ڈاکٹر صاحب کمر درد سے قبل میں ’’میردرد‘‘کا ہی شکار تھا۔ڈاکٹر نے دوائی لکھ کر دیتے ہوئے کہا کہ لو بچے یہ دوائی کمر درد ہو یا میر درد دونوں صورتوں میں افاقہ اور تسکین کا باعث بنے گی۔ایک ہفتہ دوائی کھانے کے بعد افاقہ تو ہو گیا مگر ’’تسکین‘‘کی تلاش ابھی تک جاری ہے۔اسی طرح ایک فربہ جسم کی حامل خاتون نے جب ڈاکٹر سے کمر درد کے علاج کے لیے دوا ئی چاہی تو داکٹر نے ’’ڈبل ڈوز‘‘double dose لکھتے ہوئے کہا، یہ اس لیے کہ آپ کمر نہیں بلکہ کمرہ اپنے ساتھ اٹھائے پھرتی ہیں،موقع ملے تو کچھ سامان کسی مناسب جگہ اتار پھینکیں ،کمر خود ہی ٹھیک ہو جائے گا۔
ماؤ نے کہا تھا کہ مسائل کا حل بوڑھوں کے پاس نہیں جوانوں کے پاس ہوتے ہیں ، جب کہ آج کے جوان کئی قسم کے درد، ایام جوانی میں ہی پال رکھتے ہیں۔خاص کر جوان طلبا، کیوں کہ تحقیق بتاتی ہے کہ طلبا میں’’ مخفی‘‘ درد سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔جیسے کہ سر درد، پیٹ درد، یہ ایسے...
لوٹ سیل
موسم گرما کی تعطیلات سے کوئی ایک ماہ قبل قطر کے ہر بڑے سٹور اور شاپنگ مال میں آپ کو ایک ہی بورڈ آویزاں نظر آئے گا جس پر لکھا ہوگا ’’خصم%50۔عربی میں ڈسکاؤنٹ کو خصم کہا جاتا ہے۔دوحہ آمد کے ابتدائی دنوں کی بات ہے جب پہلی بار میرا واسطہ خصم سے ہوا (پنجابی والے نہیں عربی والے سے) یعنی ہر اسٹور پر خصم % 50کے بورڈ نظر آئے ، چند لمحے حیران وششدر امن بورڈز کو تکتا رہا کہ کیا واقعی دنیا نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ اب ’’خصم‘‘بھی برائے فروخت ہوگا وہ بھی اچھے خاصے ڈسکاؤنٹ پر۔وہ تو بھلا ہو میرے دوست کا جس نے میری پریشانی بھانپتے ہوئے ’’خصم‘‘ کا اردو ترجمہ کردیا۔قطر میں اگر کلیئرنس سیل کا بورڈ آپ کو نظر آئے تو سمجھ جائیں کہ وہ مال چند دنوں میں ہی کلیئر ہو جائے گا، یعنی واقعتا ہر شے سستی ہی ملے گی، پاکستان میں اگر کسی مال پرلوٹ سیل کا بورڈ نظر آئے تو سمجھ جائیں کہ آٓپ واقعی لٹنے والے ہیں۔اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب دوحہ سے دو ماہ کی تعطیلات گرما گزارنے پاکستان گیا ،چند روز بعد ہی بیگم نے فرمائش کی کہ ساہیوال چلتے ہیں، وہاں سارے برانڈز پر سیل لگی ہوئی ہے،کس وناکس سیل پوائنٹ کا رخ کیا تو یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ بہت سے شاپنگ مالز پر واقعی جلی حروف میں لکھا ہوا تھا کہ لوٹ سیل۔ ایک برانڈ میں ہم بھی گھس گئے، روشنیوں کی چکا چوند میں ہر سوٹ ہی پرکشش لگنے کی بنا پر بیگم نے بھی کوئی ستر ہزار کو چونا لگا دیا، گھر پہنچے تو سوٹ کی چمک سے زیادہ بیگم کا چہرہ دمک اور چمک رہا تھا۔ مارے خوشی کے اپنی بھانجیوں کو نمائشی نظر کے لیے یونہی پہلا سوٹ کھول کر دکھایا تو مجھے اندازہ ہوگیا کہ مراد میاں واقعی لوٹ سیل میں ہم لٹ چکے ہیں۔وہ جو جلی حروف میں’’لوٹ سیل‘‘لکھا ہوا تھا اب جعلی سا لگنے لگا۔اس روز میرا ایمان اس بات پر اور بھی پختہ ہو گیا کہ لوٹ سیل محض لوٹنے کے لیے ہی لگائی جاتی ہے۔لوٹ سیل میں لٹنے کے بعد دوتجربات میرے علم میں اضافے کا باعث بنے،ایک یہ کہ لوٹ سیل کا سامان چائنہ کے مال کی طرح ہوتا ہے’’چلے تو چاند تک وگرنہ رات تک‘‘دوسرا یہ کہ لوٹ سیل میں خواتین کے لٹنے کا چانس سو فیصد ہوتا ہے۔
عورت کے لٹنے کی خبریں اکثر اوقات آٓپ اخبارات میں پڑھتے رہتے ہیں مگر مرد کے لٹنے کی کبھی کوئی خبر کسی اخبارمیں شائع نہیں کی جاتی حالانکہ مرد بے چارہ ہر لوٹ سیل پر اپنی بیوی اور دوکاندار کے ہاتھوں لٹتا ہے، عورت لٹتے سے شور مچا دے تو پوری قوم یک آواز سراپا احتجاج بن جاتی ہے اور تو اور منہنی جسم کے متحم چاچا ،ماجھا بھی حسب استطاعت ’’چھیڑو‘‘کے منہ پر طمانچہ دے مارنے کو تیار ہوتے ہیں، بلکہ ایک آدھ کو تو ان کی ہمت کی داد بھی دینا پڑتی ہے ، لیکن لوٹ سیل مرد کے ’’لٹنے‘‘کا ایسا ذریعہ ہے جس پر...
مارچ میں مارچ، اکتوبر میں مارچ
ہم حب بھی حالات حاضرہ سے واقفیت کے لیے ٹی وی آن کرتے ہیں تو ہر طرف مارچ مارچ کی آواذیں سنائی دیتی ہیں ۔
اوہ یہ مارچ ، اس سے تو ہمیں ہمیشہ ہی خوف آتا رہا ہے،
جب بھی مارچ قریب آتا تھا ہاتھ پاؤں پھول جاتے تھے۔ بھوک اڑ جاتی تھی۔اسکول کی کتابیں پہاڑ نظر آتی تھیں،جن کو مارچ سے پہلے سر کرنے کا اساتذہ کی جانب سےحکم ملتا تھا اور ۳۱ مارچ تو یوم جزاء کی طرح محسوس ہوتا تھا،دعائیں وظائف اور مننتیں مانی جاتیں کہ اس مارچ کا اختتام عافیت سے ہو جائے اور ہماری عزت رہ جائے،
مارچ کی اہمیت تو آپ سمجھ ہی گئے ہونگے، کیونکہ ہمارے امتحانات ہمیشہ مارچ میں ہوتے تھے اور ۳۱ مارچ کو رزلٹ آؤٹ ہوتا تھا۔
پھر اللہ کے کرم سے ہم نے میٹرک کر لیا تو مارچ سے نجات کا جشن منایا ،کہ اب یہ ایسا مارچ ہمیں ڈرانے کبھی نہیں آئے گا۔
پھر اچانک مارچ کی اہمیت بڑھ گئی۔ اب اس کا جب دل چاہے آجاتا ہے۔
جولائی میں مارچ ،دسمبر میں مارچ ،مارچ میں مارچ اور اب تو اکتوبر میں مارچ ۔ ہائے ، اللہ رحم کرے!
اب اتنی جلدی مارچ لانے والوں سے میں پوچھتی ہوں، کاش آپ کشمیر کے لے مارچ کرتےاور حکومت کو مجبور کرتے کہ جن لوگوں کوگھروں میں بھوکہ مارا جا رہا ہےانکو آزاد کیا جائے ، لیکن یہ مارچ تو مزید انکو ختم کرنے کے لے آرہا ہے۔
ہم مانتے ہیں کہ آپ کے آباء جوکہ ہند سے تعلق رکھتے ہیں ،انہوں نے مودی کےخوف سے اسی کےدامن میں پناہ لے لی ہے اور اپنےمسلمان بھائیوں کےلہو کا سودا کرلیا ہے اورمزید یہ کہ پاکستان کو اپنا دشمن ملک کہہ کر اس کا دل خوش کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔
لیکن آپ تو اسی ملک میں رہتے ہیں۔ اسی ملک کی *کشمیر کمیٹی* کے ۱۳ سال چیئرمین رہے ہیں۔ 6کروڑ کا سالانہ بجٹ استعمال کرتے رہے ذرا بتائیں اس کا کیا ہوا؟ آپ نے پاکستان کامقدمہ پاکستان کی طرف سے لڑا یا بھارت کی گود میں ڈال دیا ؟
اب آپ انہیں اپنے پیاروں کے ایجنڈے کو مدد دینے کےلیے اچانک ملک میں *مارچ* لاکر انتشار پھیلانا چاہتے ہیں؟ اور اگر اب پھر بےنظیر کے دور کی طرح آپ کو کچھ مال غنیمت سےفیض یاب ہونے کی راہ مل گئی، تو پھر کیا آپ کو آرام مل جائے گا؟
*میں کیوں کہیں اور اپنا لہو تلاش کروں*
*مرے اپنوں ہی کہ ہاتھ ہیں رنگے ہوئے*
”دنیائے مزاح“
”ہاں بھئی کھانے میں کیا ہے؟“
”بلی کا گوشت ہے، کتے کا گوشت ہے،چوہے کے کباب ہیں۔۔۔“
”ارے ارے بھائی!! کیا ہوگیا ہے؟ کیا جنگل میں کھول رکھا ہے ریسٹورنٹ آپ نے۔۔۔“
ویٹر اور گاہک کے درمیان ہونے والی یہ گفتگو میرے ذہن کی اختراع نہیں بلکہ ایک معروف ریسٹورنٹ میں prank (مذاق) کرتا Prankster ہے۔ میں اس قسم کی ناقابلِ فہم گفتگو کبھی تحریر نہیں کرتی لیکن میرا موضوع انٹرٹینمنٹ کی دنیا میں حال ہی میں آنے والا ”پرینک کلچر“ ہے۔ یوں تو تفریح اور مزاح تھکے ہوئے، اعصاب کے لئے ٹانک کا کام دیتے ہیں اور انسان ان سے لطف اندوز ہو کے تازہ دم ہوجاتا ہے۔ لیکن اس کی بھی کچھ حدود ہیں جن کو پار کر لیا جائے تو سوائے بد تہذیبی کے کچھ نہیں بچتا۔
یہ پرینکس عوامی مقامات مثلاََ معروف شاہراہیں، پارکس، شاپنگ مالز یہاں تک کہ تعلیمی اداروں میں بھی کئے جاتے ہیں۔ اکثر یہ لچر گفتگو، گھٹیا الفاظ، تحقیر آمیز رویے اور مخاطب کی تضحیک پر مشتمل ہوتے ہیں۔ بعض اوقات اس کے سبب پرینکسٹر کو جان کے لالے بھی پڑ جاتے ہیں۔ پھر یو ٹیوبر یہ کہہ کر معاملہ رفع دفع کرا دیتا ہے کہ ”بھائی!! کیمرے کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلا دیں۔“ اور وہ متاثرہ بھائی اپنی تمام تر ذلت بھول کر بتیسی نکال کر اس کی بات پر من و عن عمل کرتے نظر آتے ہیں۔
یوں تو کئی پرینکس قابلِ اعتراض ہیں جو تعلیمی اداروں کے احترام کو مجروح کرتے ہیں۔ انکے کمنٹس پڑھ کے اندازہ ہوجاتا ہے کہ عوام ان کے بارے میں کیا رائے رکھتی ہے۔ ایک پرینک کی مثال دیتی ہوں جس کا عنوان ہے Cute Girl Asking Strangers, Guess Who??? دو دوست ایک معروف شاپنگ مال کے فوڈ کورٹ میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف ہیں۔ ایسے میں ایک محترمہ نازل ہوتی ہیں اور ان میں سے ایک کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کے کہتی ہیں: ”پہچانو کون؟؟ یاد کرو ہم اسکول میں ہوتے تھے۔۔۔!“ جب پورا پرینک مکمل ہوگیا اور ان حضرات کو حقیقت کا علم ہوا تو ان افراد میں اتنی بھی غیرت نہ تھی کہ کسی بھی قسم کے غصے کا اظہار کرتے بلکہ ان خاتون کے کہنے پر ایک روبوٹ کی مانند کیمرے کو دیکھ کرہاتھ ہلا دیا۔ جب اس پرینک کے کمنٹس پڑھے تو عوام کی اکثریت اس پرینک کے خلاف تھی اور پاکستان میں بڑھتی بے راہ روی کی طرف توجہ دلا رہی تھی۔ وہیں کچھ روشن خیال افراد اپنی رائے کا اظہار اس طرح کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک بھائی لکھتے ہیں: ”یہاں پر کچھ افراد مفتی بن کر فتویٰ لگا رہے ہیں۔ بھائی!! کیا اب پاکستانیو ں کو سانس بھی نہیں لینے دو گے؟؟ پاکستان اسی extremism کی وجہ سے دنیا بھر میں بدنام ہے۔“
تو بھئی، بات دراصل یہ ہے کہ پاکستان اگر بدنام ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں رہنے والے کچھ افراد کو ضرورت سے ذیادہ سانس لینے دی جا رہی ہے اور وہ معاشرتی اقدار و روایات کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے تک میں بھی ان لوگوں میں شامل تھی جو...
ماس-ٹر
محکمہ تعلیم کی طرف سے جاری کردہ“مار نہیں پیار“نوٹیفیکیشن سے قبل ماسٹر(استاد)کو ایسے خطرناک کردار کے طور پرمعاشر ہ میں پیش کیا جاتاتھا کہ جس کو دیکھتے ہی طالب علم کے جسم کا ماس(skin)ٹر،ٹر کرنا شروع کردیتا تھا۔میرا ایک دوست فرخ الحسن بھٹی بچپن سے ہی پختہ عزم کئے ہوئے تھا کہ اسے بڑے ہو کر اس وجہ سے ماسٹر بننا ہے کہ جتنا ماسٹروں نے اسے مارا ہے خود ماسٹربن کربچوں کو مار پیٹ کر اپنا بدلہ لینا ہے،ماسٹر تو نہ بن سکا البتہ محکمہ جنگلات میں آجکل ٹمبر کوخوردبرد کرنے میں کافی ”ماسٹر“ہو گیا ہے۔اپنے ماسٹرپن کی وجہ یہ بتاتا ہے کہ کیا ہوا درخت کٹوا کے پیچ دیا ایک کی بجائے دس درخت لگواتا بھی تو ہوں،کیا فلسفہ ہے کالے دھن کو سفید کرنے کا،اس کے اسی فعل کو دیکھتے ہوئے میں نے اسے کتنی بار سیاست میں آنے کا مشورہ دیا ہے۔اس کے ماسٹر پن کی ایک مثال ملاحظہ ہوکہ ایک بار جوکالیہ بیلا فاریسٹ میں نئے پودے لگانے کا حکم صادر ہوا،موصوف نے کہیں نئی گاڑی خریدنی تھی تو ظاہر ہے پودے نہ لگوا سکا۔اتفاق سے سیکرٹری فاریسٹ کا دورہ تھا،جناب انہیں گھنٹہ بھر لانچ میں بیلا کے ارد گرد گھماتا رہا،سیکرٹری کے پوچھنے پر کہ کیا تم نے پودے لگوائے بھی ہیں کہ ایسے ہی ہمیں گھماتے جا رہے ہو۔فرخ نے نہائت معصومیت سے جواب دیا کہ سر دریائی علاقہ ہے پانی کا کیا بھروسہ،ہو سکتا ہے کہ دریا کا پانی بہا کے لے گیا ہو۔موصوف برطرف ہوئے اور ماموں کی سفارش سے نوکری پر بحال ہوئے اور انہیں پیسوں سے خرید کردہ گاڑی پر دفتر حاضری دینے پہنچ گئے۔اب آپ ہی بتائیں کہ اس سے بڑا ماسٹر کوئی ہو سکتا ہے۔مگر جس ماسٹر کی بچپن میں فرخ بھٹی بات کیا کرتا تھا اس سے مراد سکول اساتذہ تھے۔وہ تو ماسٹر نہ بن سکا البتہ میں فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ چھوڑ کر دوحہ قطر میں ضرور ایک پاکستانی اسکو ل میں ماسٹربن گیا۔اب میرے پاس سب کچھ ہے ماسوا پیسے کہ کیونکہ فرخ کا کہنا تھا کہ استاد کا کام پیسہ کمانا نہیں یہ کام دیگر”پیشہ ور“لوگوں کا ہے۔جب پیسے کی اہمیت کی سوچ اجتماعیت کی سوچ بن جائے گی تو ماسٹر بھی تو ایسا ہی سوچنے والے ہونگے جیسے کہ ایک گاؤں میں اسکول میں معائنہ ہورہا تھا اور ماسٹر صاحب بچوں کو cupسپ(سانپ) پڑھا رہے تھے انسپکٹر نے اعتراض کرتے ہوئے ماسٹر نے کہا کہ سر یہ سپ نہیں بلکہ کپ ہوتا ہے تو استاد محترم استادی دکھاتے ہوئے بڑے معصومانہ انداز میں گویا ہوئے کہ سر جب تک میری تنخواہ نہیں بڑھائی جائے گی اس وقت تک cup سپ ہی رہے گا۔
ایک بار مجھے ایک طالب علم نے پوچھا کہ سر یہ استاد اور ماسٹر میں کیا فرق ہے تو میں نے جواب دیا کہ ماسٹر و ہ ہوتا ہے کہ وہ جب بچے کو مارے تو ماس ٹر،ٹر ہو جبکہ استاد مارتے ہوئے بھی ایسی استادی دکھا جائے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔میرے ایک استاد محترم تھے جن کے پاس ایک سہراب کی سائیکل تھی وہ...