مرکزِسخنوراں سیالکوٹ ٹی ہاؤس 

ایک شاعروادیب کی زندگی عام انسانوں سے قدرے مختلف ہوتی ہے اس کے دل ودماغ میں ہرلمحہ کوئی نہ کوئی تخلیق پنپتی رہتی ہے اس کی سوچ کازاویہ بہت بلندہوتا ہے و ہ کائنات کے رنگوں میں خوب غوروفکرکرتاہے اورقدرت کے ہرحسین نظارے کواپنی شاعری کے توسط سے محفوظ کرکے نہ صرف خودمحظوظ ہوتاہے بلکہ قارئین وسامعین کے لئے بھی سامان فرحت فراہم کرتاہے معروف پنجابی شاعر ڈاکٹرعادل صدیقی نے اپنے اشعارمیں شاعرکی سوچ کی بلندی کوکچھ اس طرح بیان کیا ہے
ْسچ تے ایہہ وے پنچھی ایہدیاں سوچاں دا
ہراِمکان دی حدتوں اگّے جاسکدااے
اس کا عجب ماجراہے ساری دنیامیں بیٹھ کربھی تنہاہوتا ہے اورکبھی تنہائی میں بھی میلہ سجالیتاہے
بھاویں کوئی ہمرازنہ ہووے دنیاتے
پھروی اپنے دل دابھارگھٹاسکدااے
لیکن چونکہ بہرحال یہ بھی انسان ہی ہے اس لئے انسانوں سے بے نیازنہیں ہوسکتا لہذاگراسے کچھ باذوق دوستوں کی سنگت میسر ہوجائے تواس کی تخلیقات میں وسعت پذیری اورنگینی بڑھتی چلی جاتی ہے ۔اس کی تخیل آفرینی اوروسعت پندارکاتحمل قرطاس کے علاوہ کسی اورسے ہوناممکن نہیں اگرمیں غلونہ کربیٹھوں تویہ یہ ایک تجلی ہے جس کے تحمل کاکسی دوسرے قلب کویارانہ ہے البتہ اسی جیسی قوت تخیل اورفکری پرداخت وشنا س رکھنے والی سماعت اس کی متحمل ہے شایدیہی وجہ ہے کہ شعراء وادباء کی ادبی مجالس ومشاعروں میں شعروادب سے آشنا ہی کی تسکین ہوتی ہے ۔
ایک وقت تھاکہ شعراء وادباء کوحکومتی سرپرستی حاصل تھی انکے لئے خصوصی مسندیں ہوتیں اورانہیں شاہی دربارسے خوب دادملتی ۔ایک شاعرکی تخلیق کے پیچھے غیرمعمولی ذہنی وجسمانی سعی ہوتی ہے وہ اپنے تن ،من ،دھن کی قربانی دے کر اپنے اشعارکی تزئین کرتاہے ان نابغہ روزگارتخلیقی اذہان کی حامل شخصیات کی پذیرائی وحوصلہ افزائی معاشرے کے ہرفردکی عمومی جبکہ ارباب حل وعقدکی خصوصی ذمہ داری ہے جو ان کے فن کے لئے مہمیزکادرجہ رکھتی ہے شعراء وادباء علمی وادبی مجالس اورمشاعروں کے دلدادہ ہوتے ہیں جہاں وہ اپنے ہم خیال دوستوں سے نشست وبرخاست سے اپنے فن کے جوہربکھیرتے ہیں
میاں دادخان سیاح نے کیا خوب کہاتھا
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گذرے گی جومل بیٹھیں گے دیوانے دو
یوں تو پاکستان کا قریہ قریہ ارباب علم ودانش ،شاعروں اورادیبوں کامرکزہے لیکن شاید سیالکوٹ پاکستان کا وہ واحدشہرہے کہ جس کوصرف اندرون ملک ہی نہیں بلکہ پوری دنیامیں شاعرمشرق علامہ محمداقبال ؒ کی نسبت سے جاناپہچاناجاتاہے اورآج بھی ضلع سیالکوٹ بے نظیرولاجواب سخنورشعراء وادباء سے سرسبزوشاداب ہے چارتحصیلوں پرمشتمل اس ضلع نے قیام پاکستان سے آج تک ایک سے بڑھ کرایک عظیم شاعروادیب پیداکیاہے اگرہم اس کی تحصیل پسرورکی ادبی تاریخ کاجائزہ لیں تو وہ اس قدرتابناک ودرخشند ہ ہے کہ ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہے دلشاد پسروری نے پسرورکے علمی وادبی مرتبہ کے بارے کہاتھاکہ
شہرماپُر سرورمی گوئند
کان علم وشعور می گوئند
پسرورکے نامورشعراء کرام کی ایک طویل فہرست ہے جن میں سے دلشاد پسروری ،عبدالمجید،حکیم حافظ ظفرقریشی ،حکیم عبدالقادر،غلام نبی مہجور،صوفی عنائت پسروری نثارمجدد،حکیم نعمان ساجدفاخرہریانوی ،محمدعبداللہ شوق ،عبرت پسروری ،مضطرنظامی ،محمدالدین میر،شریف ظفرقریشی ،سائیں حیات پسروری ،ڈاکٹر مقبول الہی ،سعیدہ صبا،آثم کاشمیری ،اسحاق قلبی ،ضیاء محمدضیاء ،آغاوفاابدالی ،حفیظ رضا پسروری ،اخترچشتی ،اسلم فیضی ،مقبول بیگم ،حاجی محمدسروربٹ ، حفیظ صدیقی ،رفیق وثیر،حفیظ الرحمن احسن ،یٰسین اطہرصدیقی ،عطاقاضی،شمس الدین عاکف ،مبشراحمدطاہر،یعقوب کوثر،مشتاق قریشی ،نسیم چوہدری ،بشیرصوفی ،سجن پسروری ،احسان ثاقب ،آفتاب شیرازی ، خدیجہ نجمی ،ناصرہ بھٹی ،انعام ارشد،صدیقی شاد،طاہرنظامی،سعید پسروری ،اختربھٹی ،ظفراقبال ظفر،زاہدہ صدیقی ،خالدعاصی ،ڈاکٹرعادل صدیقی ،شاہدہ صدیقی ، محمودالحسن شاکر،محمداسلم عاصی ،جہانگیرمنظر،اسحاق باجوہ ،شفیق پسروری ،جمیل حزیں ،اشفاقی ،محمدایوب صابر،ڈاکٹرامجدعلی بھٹی ،یاسمین کنول ،طاہرہ حمید،حفیظ عامر،امدادراحت ،محمدپرویزباجوہ ابن آدم پسروری ،ڈاکٹرافضال بٹ ،سکندرحیات ،شاہدجاویدملک ،وقارعلی دلبر،نوازپردیسی ،دادپسروری ،سرفرازاحمدمرزا،آصف علوی ،اشفاق رحمانی ،شبنم لطیف ،حبیب حیات ،خلیل کاشمیری ،اشفاق نیاز، امن پسروری ،افضال عاطر،جاویدموسی پوری،وسیم رامش ،راناعثمان احامر،نثارسلہری ،مبشرمیوشامل ہیں ،ان حضرات نے ادب کوچارچاندلگانے کے لئے جو مختلف علمی وادبی تنظیمیں قائم کیں ان میں حلقہ ارباب ذوق،بزم ادب ،بزم سخن ،بزم افکار،تخلیق نو،ادبی پروار،بزم حیات ،بزم شعروادب ،ادبی دائرہ پسرور،ادبی سبھاپسرور،انجمن ترقی برائے پنجابی واردوزبان وادب برہان پورپسروراوردیگرسرفہرست ہیں۔
ادب سے وابستہ شخصیات تکلفات اورشاہانہ وضع داری سے کنارہ کش ہوتی ہیں ان کے لئے پرتعیش محلات وبلندبالاعمارتیں کوئی کشش نہیں رکھتیں انہیں شرب وطعام میں صرف چائے سے عشق رہاہے یہی وجہ ہے کہ شاعری اورچائے آج بھی لام وملزوم ہیں چنانچہ شعراء کی مجالست کی وجہ سے چائے خانوں کی رونق ہے علامہ اقبال ؒ کے شعرمیں تحریف کے ساتھ ۔۔
وجود شاعرسے ہے چائے خانوں میں رنگ
اسی کے سازسے ہے زندگی کاسوزدروں
پاکستان میں چائے خانوں کوبطورادبی بیٹھک استعمال کرنے کاآغازپاک ٹی ہاؤ س لاہورسے ہواجس کے بعدملک بھرمیں مختلف چائے خانوں پرشاعروادیب اپنی مجالس سجاتے یہ ٹی ہاؤس ادبی ،تہذیبی اورفنون لطیفہ سے عشق رکھنے والی شخصیات کے لئے مرکزکی حیثیت رکھتے چلے آرہے ہیں جہاں ناموردانشور،شعراء وادباء کے علاوہ ادب سے مناسبت رکھنے والے لوگ اپنے شعری وادبی ذوق کی تسکین کرتے ہیں سیالکوٹ میں بھی مختلف مقامات پرادبی محافل سجائی جاتی رہیں ہیں چندایک چائے خانے بھی مشہورتھے لیکن پاک ٹی ہاؤس جیساپلیٹ فارم نہ ہونے کی وجہ سے سیالکوٹ کے سخنورشعراء وادباء احساس محرومی کاشکارتھے اہل سیالکوٹ کی خوش نصیبی کہ انہیں سیدحیدربلال جیسے باذوق وبلندہمت ڈپٹی کمشنراورشہزادورک جیسے قابل رشک ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسرکی سرپرستی ملی کہ جن کے زیرسایہ محمودالحسن شاکر، محمدایوب صابراوران کے دیگرہمنواآصف علوی ،سیّدعدید،اعجازاعزائی ،خالدلطیف ،،شاہدذکی ،رشید آفرین ،خضرحیات ،محبوب صابر،اویس عاجز،ٖفرانسس سائل ،عامرشریف ،افتخارشاہد،شبیرشاہد،رشیدفراز،اکبرعلی غازی ،منظورکاشف ،ارشدجمیل جیسے انقلابی سوچ رکھنے والے شعراء نے علامہ محمداقبال اورفیض احمدفیض جیسے عظیم شعراء کی جنم بھومی کوپھرسے سیالکوٹ ٹی ہاؤس کی مددسے ادبی بیٹھکیں سجاکراس کی ادبی پہچان کوبرآورکرنے کاسامان فراہم کیا
21مارچ 2019کوانوارکلب آڈیٹوریم سیالکوٹ میں سیالکوٹ ٹی ہاؤس کے نام سے ایک بڑے ہال کاافتتاح کردیاگیا ہے جہاں سیالکوٹ بھرکے شاعروادیب ،دانشور،سخنوراورادب کے طالبعلم اجب چاہیں علمی وادبی محافل اورمشاعروں کا انعقادکرسکتے ہیں۔ڈپٹی کمشنرسیالکوٹ سیدحیدربلال ،ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسرشہزادورک ،نائب صدرٹی ہاؤس محمودالحسن شاکر،سیکرٹری محمدایوب صابراوروہ تمام دوست جنہوں نے اپنی شب وروزمحنت سے یہ عظیم کام سرانجام دیا وہ مبارکباداوردادکے مستحق ہیں ۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں