بہتر معاشرہ: معلم کا کردار بڑھایا جائے

                قارئین مضمون سے پہلے کچھ دلخراش خبروں کے تراشے آپ کے سامنے پیش کریں گے۔ یہ تراشے مغرب بالخصوص امریکی اسکولوں میں طلبا کی جانب سے اپنے ہی اسکولوں میں فائرنگ کرکے اپنے ساتھیوں اور اساتذہ کر قتل کرنے کی خبروں کے ہیں۔یہ تراشے گزشتہ 20برسوں میں ہونے والےایسے بے شمار واقعات میں سے چند ہیں۔

امریکی ریاست کولوراڈو میں لٹل ٹن کے لمبائن ہائی اسکول کے طالب علموں 18سالہ ایرک ہیرس اور 17کلے بولڈ نے فائرنگ کرکے 12طالب علموں اور ٹیچر کو موٹ کے گھاٹ اتار دیاتھاجبکہ 20سے زائدکوزخمی کرکے خود کو بھی ہلاک کرلیا (20 ،اپریل، 1999)

جرمنی : ایک طالب علم نے اسکول میں فائرنگ کرکے 13 اساتذہ، 2 طلبا اور ایک پولیس آفیسر کو ہلاک کردیا،( 26 ،اپریل ،2002)

ریاست کیلیفورنیا کے سانتانا ہائی اسکول میں 15سالہ طالب علم چارس ’’اینڈی‘‘ ولیمز نے اندھا دھند فائرنگ کرکے 2طالب علموں کو ہلاک جبکہ 13کو زخمی کردیا ۔(5،مارچ 2001)

ریاست منی سوٹا میں کولڈ اسپرنگ کے ایک ہائی اسکول میں 15سالہ جان جیسن مک لالن نے اپنے ساتھی طالب علم 17سالہ آرون رولنز اور 15سالہ سیتھ بارٹیل کو فائرنگ کرکے موت کی نیند سلادیا(24ستمبر2003ء)

ریاست منی سوٹا میں 16 سالہ جیف وائز نے اپنے دادا اور اُن کے دوست کو قتل کرنے کے بعد ریڈ لیک انڈین ریزرویشن پر واقع اسکول جاکرپانچ طالب علموں ، ایک ٹیچر اور سیکورٹی گارڈ کو ہلاک کرکے خودکشی کرلی(21،مارچ 2005)

فن لینڈ :   18 سالہ طالب علم نے فائرنگ کرکے اسکول پرنسپل اور 5 طلبا سمیت 9    افراد کو قتل کردیا۔(7 ،نومبر،2007)

جرمنی :   17 سالہ طالب علم نے اسکول میں فائرنگ کرکے 9 طلبااور 3 اساتذہ سمیت 16 افراد کو ہلاک کردیا۔(,11 مارچ ،2009)

امریکہ : طالب علم نے اسکول کے کیفے ٹیریا میں فائرنگ کردی، ایک طالب علم موقع پر ہی جاں بحق، 4 طلبا اگلے روز ہسپتال میں دم توڑ گئے،( 24، اکتوبر،2014)

امریکہ: سکول میں فائرنگ سے دو بچوں سمیت تین زخمی ( 29 ،  ستمبر، 2016)

امریکی اسکول میں فائرنگ سے طالب علم ہلاک، متعدد زخمی ( 14 ستمبر 2017)

امریکہ: اسکول میں طالب علم کی فائرنگ، 2 ساتھی طلبا ہلاک، 17 زخمی ( 24 جنوری 2018)

امریکہ  : امریکی ریاست ٹیکساس میں ایک طالب علم نے فائرنگ کرکے 10 لوگوں کو قتل کردیا، مرنے والوں میں زیادہ تر قاتل کے کلاس فیلو تھے،(18، مئی ، 2018)

برازیل کے اسکول میں فائرنگ,6 بچوں سمیت 8 افراد ہلاک،7افراد زخمی،حملہ آور اسکول کے ہی سابق طالب علم تھے  ( 14 مارچ ،2019)

اب ذرا یہ خبر پڑھیے۔یہ خبر 5 مارچ 2019 کو روزنامہ’’ جنگ لندن ‘‘میں شائع ہوئی ہے۔

                ’’برطانیہ میں بچوں کے ہاتھوں والدین پر تشدد کے واقعات بڑھ گئے

۔۔۔۔۔۔ شاید ہی کوئی ایسے والدین ہونگے جو اپنے بچوں کی بد کلامی اور چیخ و پکار کا شکار نہ ہوئے ہوں مگر ان سے بھی بد نصیب وہ ہیں جو اپنی ہی کوکھ سے جنم لینے والوں سے باقاعدہ جسمانی مار پیٹ سے دو چار رہتے ہیں۔ برطانیہ میں بھی گزشتہ چند سالوں سے ایسے واقعات میں بے پناہ اضافہ دیکھا گیا ہے جہاں والدین حتیٰ کہ والدین کے والدین بچوں کے ہاتھوں بدترین تشدد کا شکار ہوئے ہیں۔ سب سے بڑا اضافہ لڑکیوں کی والدین پہ متشدد کارروائیوں میں دیکھا گیا ہے۔ صرف لندن میں گزشتہ تین سالوں کے دوران ایسے 23ہزار واقعات ہوئے جن میں والدین پر جسمانی حملے ہوئے۔۔۔۔۔۔میٹروپولیٹن پولیس کی ایک بڑی رپورٹ میں والدین پہ تشدد کو پروان چڑھتے دیکھا گیا ہے۔ رپورٹ کہتی ہے کہ ایسے گھریلو متشدد جرائم جہاں بچے اپنے بڑوں پہ حملہ آور ہورہے ہیں میں2012سے2015تک 66فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ اعداد شمار کے مطابق2016 میں 7290 ،2017میں 7716 جبکہ2018 میں 8033 کیسز رپورٹ ہوئے ۔سب سے بڑا اضافہ ان والدین میں ہوا جو اپنی بیٹیوں کے ہاتھوں تشدد سے نبردآزما ہوئے۔ ایسے واقعات میں سترہ فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا۔ ایسے کیسز کی مجموعی تعداد میں 23 فیصد کیسز لڑکیوں کے ہاتھوں پٹنے والے والدین کے تھے۔ مجموعی طور پہ 69فیصدکیسز لڑکوں کے ہاتھوں تشدد کا شکار والدین کے تھے۔ ایسے جرائم کی ایک بڑی تعداد اس وجہ سے ریکارڈ پر نہیں لائی جاتی کہ والدین بچوں سے مار کھا کر شرمندگی کی وجہ سے اسے منظر عام پہ نہیں لانا چاہتے ۔ پولیس کے مطابق اس رویہ سے ایسے جرائم میں مزید اضافہ کا خدشہ ہے ۔‘‘

                اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ مغربی ماہرین تعلیم کی وہ ناکام پالیسی یا ناکام تجربہ ہے کہ بچوں کو مارنے سے ان کی نفسیات پر برا اثر پڑتا ہے اور ان کی شخصیت بگڑ جاتی ہے۔مذکورہ بالا خبروں کو دیکھئے، اس کے بعد غور کیجیے کہ کیا مغربی ماہرین کی پالیسی کامیاب ہے یا ناکام؟ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ یہ ناکام پالیسی ہے۔ اس پالیسی کے باعث کا معاشرتی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، ان کے بچوں اور نوجوانوں میںتشدد کا رجحان بڑھ رہا ہے ، نہ صرف تشدد بلکہ نوبت خون خرابے تک پہنچ جاتی ہے۔اب غور کیجیے ، جس چیز سے مغربی معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، جس چیز سے خود اہل مغرب تنگ ہوگئے ہیں، ہم وہی چیزیں اپنے معاشرے میں لاگو کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔

                نجی اسکولوں اور میڈیا پر آج کل ایک جملہ تواتر سے سننے کو ملتا ہے۔ ’’ بچوں پر تشدد کے معاملے میں زیرو ٹولرنس پالیسی ہے۔‘‘ یہ بہت اچھی بات ہے کہ اسکول کے کام مکمل نہ کرنے ہر بچوں پر تشدد نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کوئی بچہ کسی بھی وجہ سے اسکول کا ہوم ورک مکمل نہیں کرپاتا تو اس کو پیار سےسمجھانا چاہیئے، معلمین کو اس کو مسئلہ سمجھ کر اس کے مطابق اس کے ساتھ برتائو کرنا چاہیے ۔ تشدد کے ذریعے بچے اسکول سے متنفر ہوجاتے ہیں ، اس لیے ہم اس بات کے مکمل طور پر قائل ہیں کہ اسکول کا کام مکمل نہ کرنے پر یا اسکول سے چھٹی کرنے پر بچوں پر تشدد نہیں ہونا چاہیے۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر بچہ اساتذہ سے بد تمیزی کرے، اسکول ڈسپلن کی خلاف ورزی کرے، دوسرے بچوں کو تنگ کرے یا ان پر تشدد کرے ، غیر اخلاقی سر گرمیوں میں ملوث ہو تو اس کے معاملے میں کیا کرنا چاہیے؟؟

                یہ جو بچوں پر تشدد نہ کرنے کا تصور ہے یہ بھی مغرب سے ہمارے یہاں آیا ہے۔ بحیثت ایک معلم میں اس بات کا سختی سے قائل ہوں کہ اسکول کا کام مکمل نہ کرنے پر یا کام میں کوئی غلطی کرنے پر بچے کو مارنا درست نہیں ہے، لیکن اخلاقی معاملات، لڑائی جھگڑے وغیرہ کی صورت میں بچوں کو مار لگانا ناگزیر ہوجاتا ہے۔اگر ہم ایسے معاملات میں بچوں پر سختی نہ کریں، ان پرروک نہ لگائیں یا ان کو مار کے ذریعے نہ روکیں تو اسکول کے بچوں میں متشدد ذہنیت پروان چڑھتی ہے جو کہ طاقت کے قانون کو ہی سب کچھ سمجھتی ہے۔ اگربچوںپر سختی نہ کی جائے تو وہ اسکولوں میں کمزور بچوں کا جینا حرام کردیتے ہیں۔

                ہمارے مشاہدے میں ایسے کئی واقعات آتے ہیں کہ کلاس کا کوئی ایک یا دو طاقتور قسم کے بچے ، اپنی جسمانی طاقت کے بل پر کلاس کے دیگر بچوں پر رعب جماتے ہیں، ان کو تنگ کرتے ہیں، ان کے لنچ باکس اٹھا کر ان کا کھانا کھا لیتے ہیں، جبری طور پر ان سے اپنا کام مکمل کرواتے ہیں اور کبھی کبھی غیر اخلاقی حرکتوں پر بھی مجبور کرتے ہیں۔اب ایسے معاملا ت میں ایک معلم میں معلم مندرجہ ذیل تین میں سے کوئی ایک کام کرتا ہے۔

(الف)  بچے کو پیار محبت سے سمجھا یا جائے، اس پر کڑی نظر رکھی جائے ، وقتا فوقتاً اس کی تحلیل نفسی Counselingکی جائے۔

(ب)  والدین کو مطلع کیا جائے، ان کےعلم میں یہ باتیں لائی جائیں اور ان سےبچے کی تربیت کے لیے کہا جائے۔

(ج) بچے پر سختی کرکے، اس کو مار لگا کر اس کو ، اس کام سے روکا جائے،

                دیکھا یہ گیا ہے کہ جب بچہ ، متشددانہ رویے اور غیر اخلاقی عادات کا عادی ہوجائے تو پھر اس پر پیار محبت سے سمجھانے کا کوئی اثر نہیں ہوتا بلکہ دیگر بچوں پر اس کا منفی اثر پڑتا ہے۔ وہ بچے جو اس طرح کے رجحانات رکھتے ہیں لیکن کم ہمتی یا اساتذہ کے خوف کے  باعث وہ ایسے کاموں کی ہمت نہیں کرپاتے، ان کو بھی شہ ملتی ہے اور اس طرح غیر محسوس انداز میں دیگر بچے بھی تشدد، کمزور بچوں کو تنگ کرنا اور غیر اخلاقی حرکتوں میں ملوث ہوجاتے ہیں۔( ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت اس کا واضح ثبوت ہے، کسی بھی اسکول، کالج یا یونیورسٹی میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی نہیں سکھائی جاتی لیکن جس طرح اس کا رجحان بڑھتا جارہا ہے وہ صرف اور صرف قانون کی کمزوری کے باعث ہے۔)

                والدین کو مطلع کرنے کی صورت میں    30    فیصد و الدین اس بات کو ماننے سے انکار کردیتے ہیں کہ ان کا بچہ بھی ایسی کسی سرگرمی میںملوث ہوسکتا ہے; 20 فیصد والدین اس کا ذمے دار اسکول کو ٹھہراتے ہیں؛ 30    سے 35 فیصد اس معاملے میںاپنی معذوری ظاہر کرتے ہوئے اسکول سے ہی درخواست کرتے ہیں کہ وہ ہی ان کے بچوں کی تربیت کے معاملات بھی دیکھے؛صرف 15 سے 20 فیصد والدین ایسے ہوتے ہیں جو کہ ایسے معاملات میں اسکول کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے بچوں کے اخلاقی معاملات اور ان کی تربیت پر خصوصی توجہ دیتے ہیں؛ وگرنہ زیادہ تر کا موقف یہی ہوتا ہے کہ اسکول ہی ان معاملات کو دیکھے لیکن! ہمارے بچے کو ہاتھ نہ لگایا جائے۔

                اب اس کے بعد اساتذہ کے پاس آخری حل سختی اور مار ہی رہ جاتا ہے۔ لیکن جب استاد، کسی بچے کو ہاتھ بھی لگاتا ہے تو والدین اسکول میںلڑنے کے لیے چلے آتے ہیں۔ ان کا رویہ بہت جارحانہ ہوتا ہے۔ یہاں ہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ اب ، اسکول جانے والے بچوں کے والدین کی اکثریت کی سوچ یہ ہے کہ اسکول کی فیس دے کر ہم نے اسکول کو ، ٹیچر سمیت خرید لیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ جب معلم کا کردار محدود ہوجاتا ہے، اس کا کام صرف اپنے نصاب کی تکمیل رہ جاتا ہے۔ اس کے بعد ہم یہ یہ توقع کیسے رکھ سکتے ہیں کہ اسکولوں سے بچے اچھی تربیت لے کر باہر آئیں گے؟  ہم یہ نہیں کہتے کہ استاد بس ڈنڈا لے کر بچوں پر پِل پڑیں اور ذرا ذرا سی غلطی پر ان کی کھال ادھیڑ دیں لیکن اگر ہم چاہتے ہیںکہ ہماری آنےوالی نسلیں، اچھے انسان ، اچھے مسلمان اور اچھے شہری بنیں ، تو اس کے لیے لازمی ہے کہ استاد کے کردار کو بڑھایا جائے؛ اس کو بچے کی تربیت میں اپنا کردار ادا کرنے دیا جائے۔اگر ایسا نہیں ہوا تو آنے والے 15 سے 20 برسوں میں ہم بھی انہی مسائل کا سامنا کررہے ہوں گے جن مسائل کا سامنا آج مغربی معاشرہ کررہا ہے۔

حصہ
mm
سلیم اللہ شیخ معروف بلاگرہیں ان دنوں وہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیچرز ٹریننگ بھی کراتے ہیں۔ درس و تردیس کے علاوہ فری لانس بلاگر بھی ہیں اور گزشتہ دس برسوں سے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر مضامین لکھ رہے ہیں۔ ...

جواب چھوڑ دیں