صرف ایک کام

اگر آپ صرف  پاکستانی ہیں تو پھر نیویارک سے لے کر رام سوامی تک تو آپ کو پاکستان کے ہر سرکاری ادارے میں پورے اعزاز کے ساتھ “ذلیل و رسوا” کیا جائیگا۔ جب میں نے دبئی میں پاکستانی سفارت خانے کا حال دیکھا تو مجھے کراچی میں موجود پاسپورٹ آفس صدر پر رشک آنے لگا لیکن اگر اتفاقی طور پر آپ کی شادی کسی ہندوستانی لڑکی یا لڑکے سے ہوگئی ہے تو پھر ان ہی تمام اداروں میں ذلیل اور رسوا ہونےکے ساتھ ساتھ “خوار” بھی ہونا پڑیگا، میں اس “ذلت و رسوائی اور خواری” میں پچھلے 3 سالوں سے بلاواسطہ ملوث ہوں۔

میرا تعلق ہرگز بھی ن لیگ سے نہیں ہے اور نہ ہی میں چوہدری نثار کا جانثار ہوں، لیکن میں نے اپنی آنکھوں سے کراچی کے “فارن آفس” کو چوہدری نثار کے دور میں 360 ڈگری تبدیل ہوتے دیکھا ہے۔ چھپڑ پڑے جانوروں کے اصطبل کی طرح بنے “فارن آفس” کو کسی پرائیوٹ کمپنی کے آفس کی طرح بنتے دیکھا، بڑے بڑے قد آدم سائز کے رجسٹروں کو کمپیوٹرازڈ ہوتے دیکھا اور تقریبا پچھلے 5 یا 6 سالوں سے فارن آفس میں رشوت خوری بھی ختم ہوچکی ہے اور ہمیں پوری ایمانداری کے ساتھ اسکا کریڈٹ  سابق  آئی – جی سندھ اے – ڈی – خواجہ اور چوہدری نثار کو دینا ہوگا۔

کسی بھی ملک کا ویزہ لینے کے لئیے بطور ہندوستانی شہری آپ کو پہلے ری – انٹری کے لئیے اسلام آباد اپلائی کرنا پڑتا ہے اور پھر روز صبح 9 بجے سے دوپہر 1 بجے تک “جل تو جلال تو” اور “بسم اللہ” کا ورد کرتے ہوئے وزارت داخلہ اسلام آباد فون کرنا ہوتا ہےتاکہ آپ ان کو “یاد” رہ سکیں۔ ہفتے میں ایک آدھ دفعہ ی وہاں سے “جی اچھا” کا جواب موصول ہوجاتا ہے  اور لگ بھگ ایک مہینے بعد آپ کو ری – انٹری موصول ہوجاتی ہے۔

25 جولائی 2019 کے بعد سے پاکستان میں تبدیلی کا سورج طلوع ہوچکا ہے۔ آپ یقین کریں 26 جولائی کی صبح فجر کی نماز کے لئیے نکلا تو اندھیرا تھا، مجھے لگا میرا پاؤں دودھ کی نہر میں پڑگیا ہے کیونکہ تبدیلی آچکی تھی، تھوڑی ہی دیر میں احساس ہوا کہ وہ گٹر کا پانی تھا اور شہر کراچی میں پچھلے 35 سالوں سے جن “نفاست پسند نفیس لوگوں” کی حکومت ہے ان کی موجودگی میں دودھ اسی طرح کبھی خون اور کبھی گٹر کے پانی کی صورت میں شکلیں بدل بدل کر آتا رہے گا۔

الیکشن  2018 کے بعد سے “ذلت و رسوائی اور خواری” کے جس سفر میں تھوڑی کمی آئی تھی اب اس میں دھیرے دھیرے اضافہ ہونا شروع ہوگیا ہے۔27 مارچ 2019 کو ویزہ ایکسٹینشن فیس جو صرف 100 روپے تھی اسے 2800 روپے کردیا گیا اور ویزہ بڑھوانے آئے ہوئے لوگوں کو واپس گھر بھیج دیا گیا۔ عوام کے شدید احتجاج پر  بعد ازاں  2800روپے فیس کو 200 روپے کردیا گیا۔ ستمبر 2019 کو جب میں فارن آفس کراچی پہنچا تو نقشہ یکسر تبدیل تھا۔ ہر کاؤنٹر پر لمبی لمبی لائنیں لگی ہوئی تھیں، لوگ بڑے زمانے بعد لائنوں میں لگے ہوئے ذلیل و خوار ہورہے تھے، بیشتر کاؤنٹرز کا عملہ خوش گپیوں میں مصروف تھا یا پھر اندر آفس میں تاحال “لنچ اور نماز” انجوائے کر رہا تھا۔ وہی فارن آفس، وہی عملہ اور وہی وقت تھا بس تبدیلی آچکی تھی۔

مارچ کے پہلے ہفتے میں ہم نے ری انٹری اپلائی کردی اور جب سے لے کر آج تک روز صبح 9 بجے سے لے کر 1 بجے تک ہر آدھے گھنٹے کے وقفے سے فون کرتے ہیں لیکن “زمیں جُنبد نہ جُنبد گل محمد”۔ عملہ وہی ہے، آفس وہی ہے اور نمبرز بھی وہی ہیں بس “تبدیلی آچکی ہے”۔

چترال سے لے کر کراچی تک پوری بیوروکریسی کام کرنا چھوڑ چکی ہے۔ ہماری حکومت کی اہلیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگالیں کہ جس ابن قاسم پارک کا افتتاح 16 سال پہلے نعمت اللہ خان صاحب کے دور میں مشرف نے کیا، پھر مصطفی کمال کے دور میں دوسری دفعہ  اور اب دنیا کے 100 ملکوں سے زیادہ بڑے شہر میں ایک ہی پارک کا افتتاح تیسری دفعہ کیا گیا ہے، کیونکہ ہمارا وژن اور سوچ ہی بس اتنی ہے ۔

سر! آپ کچھ نہ کریں بس ہر وزارت میں کوئی ایک کام طے کر کے دے دیں، صرف اور صرف ایک کام، جی ہاں بس ایک کام۔  پورے پاکستان کے سرکاری دفاتر نے طے کر رکھا ہے کہ صبح 9 بجے آفس کھلے گا اور لنچ ٹائم یعنی 1 بجے تک آفس بند ہونے کا ماحول بنے گا اور 2 بج کر 1 منٹ پر کسی بھی قسم کا کوئی کام نہیں کیا جائیگا۔ محض 4 گھنٹے پبلک ڈیلنگ، یہ کہاں کا قانون اور کہاں کا انصاف ہے؟ پورے شہر بلکہ پورے ملک سے لوگ خوار ہو ہو کر جب دروازے یا کھڑکی تک پہنچتے ہیں تو  “صاحب” کے اٹھنے کا وقت ہوجاتا ہے۔

وزیراعظم صاحب! آپ نیوزی لینڈ اور سوئٹز لینڈ کو رہنے دیں بس “باتھ آئی لینڈ” کی سیوریج لائن ٹھیک کروادیں۔ کچھ نہ کریں بس پبلک کو ڈیل کرنے والے سرکاری دفاتر کے اوقات اور ان اوقات میں عوام کو سہولت پہنچانا لازم کردیں، آپ ریلوے میں طے کردیں کہ ٹرینیں وقت پر نکلیں گی اور وقت پر پہنچیں گی۔پی –آئی- اے کے عملے کو مسافروں کے ساتھ انسانیت سے پیش آنے کو تو یقینی بنادیں۔ پورے شمالی علاقہ جات میں صاف ستھرے پبلک ٹوائلٹس بنوادیں اور آپ عوام کو ڈیل کرنے والے اداروں میں فون اٹھانا لازم کروادیں۔

عوام کو درد کی تکلیف رویوں پر ہوتی ہے، درد پر نہیں۔51 فیصد ملحد اور 48 فیصد عیسائی آبادی کے درمیان نیوزی لینڈ میں موجود صرف 1 فیصد مسلمانوں کے 50 شہیدوں کا غم ان کی وزیر اعظم کے رویے کے نتیجے میں ہلکا بلکہ ختم ہوگیا۔ اپنی 1 فیصد عوام سے اتنی محبت، اتنا پیار، اتنی دلجوئی اور غم خواری کہ اقبال کا یہ جملہ تازہ ہوگیا کہ “میں نے یورپ میں اسلام دیکھا ہے لیکن مسلمان نہیں دیکھا اور یہاں میں مسلمانوں کو دیکھتا ہوں لیکن مجھے اسلام کہیں نظر نہیں آتا”۔ اقبال اگر کچھ عرصہ مزید زندہ رہتے تو انھیں انسانیت بھی کہیں نظر نہ آتی۔

ساہیوال واقعے سے لے کر لاپتہ افراد کے رُلتے ہوئے اہلخانہ اور انصاف کی دہائی دیتے نقیب اللہ محسود کے معصوم بچے ، شاید یہ سب بھی پورے پاکستان کی طرح تبدیلی کے منتظر تھے لیکن شاعر نے ٹھیک ہی کہا تھا:

باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو میرے

جن پہ تکیہ تھا، وہی پتے ہوا دینے لگے

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں