واقعہ معراج ایک عظیم معجزہ

رحمۃ للعالمین سیدالمرسلین جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سارے نبیوں کے سردارہیں،ہرنبی کواللہ تعالیٰ نے کوئی نہ کوئی معجزہ عطافرمایامگرحضورصلی اللہ علیہ وسلم کودومعجزے ایسے عطافرمائے گئے جوپہلے کسی نبی کوعطانہ ہوئے ۔
ایک معجزہ قرآن مجیدکاہے جوآج تک اپنی اصلی حالت میں ہمارے سامنے موجودہے اورتاقیامت موجودرہے گا۔دوسرامعجزہ عظیم واقعہ معراج ہے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بے کسی کے عالم میں مظلومانہ دین کی دعوت دے رہے تھے،مکہ مکرمہ میں کفارکے ہاتھوں آپ نے تمام تکلیفیں برداشت کی تھیں،انسانی تصورسے بالاترمظالم کے پہاڑآپ پرتوڑے گئے تھے۔شعب ابی طالب میں تین سال قیدوبنداورسوشل بائیکاٹ کی صعوبت برداشت کرنے کے بعدآپ نے طائف کاسفرفرمایااس میں بھی کفارکی جانب سے وہ مظالم ڈھائے گئے جن کابیان دشوارہے۔کوئی آپ کی دعوت، آپ کی بات سننے کوتیارنہ تھاسوائے چندخوش نصیبوں کے،پھربھی آپ اللہ کاپیغام لیکر لوگوں کے پاس تشریف لے جاتے تھے مگروہ آپ کی گفتگوکی طرف کان لگانے پرآمادہ نہ تھے۔غرض تکالیف کی تمام گزرگاہوں سے پارہوجانے کے بعدسن۱۱؍نبوی میں راجح قول کے مطابق ماہ رجب ۲۷؍ویں شب کواللہ تعالیٰ نے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کورازونیازکے لئے عالمِ بالااورملأاعلیٰ کی طرف بیداری میں اورجسدِعنصری کے ساتھ اٹھایااورمعراج کرواکردنیاوالوں کوبتلادیاکہ اے دنیاوالو!تم میرے محبوب پیغمبرکاپیغام نہیں سنتے ان کی عزت اورقدرنہیں کرتے بلکہ ان کی توہین اورگستاخی کے مرتکب ہوئے ہو،دیکھ لواب ہم اپنے اس عظیم بندے کی کیاعزت کرتے ہیں اوران کو کیامقام دیتے ہیں،کن عظمتوں اوربرکتوں سے نوازتے ہیں،تم انہیں زمین پرٹھکرارہے ہو،ہم ان کوعرش پربلائیں گے،تم ان کوسلام کرنے کے لئے تیارنہیں ہم ان کوفرشتوں کی سلامی دلائیں گے،تم ان کواپناامام نہیں مان رہے ہم ان کونبیوں ،رسولوں اورفرشتوں کاامام بناکردکھاتے ہیں۔دیکھوبیت المقدس کے امام کوجس کے پیچھے ایک لاکھ چوبیس ہزارانبیاء نمازپڑھ رہے ہیں،وہ مکہ اوراس کے اطراف کے گلی کوچوں میں دین کاپیغام پیدل پہنچارہے ہیں ان کے پاس سواری کاکوئی انتظام نہیں ہے مگرہم ان کوبجلی سے تیزسواری دے رہے ہیں،روح الامین جس کی رکاب تھامے ہوئے ہیں ۔تم میرے عظیم پیغمبرکواہمیت نہیں دے رہے ذرادیکھوفرشتوں کاسرداران کی غلامی کررہاہے،جس کی حیثیت پہچاننے میں تمہاری نظریں خطاکررہی ہیں میرے نزدیک وہ سب سے معززہے،اس کومیں اپنادیدارکرارہاہوں۔
انبیاء علیہم السلام کے بلندمراتب ملاحظہ کیجئے حضرت آدم علیہ السلام کی معراج سجودِملائک سے ہوئی،حضرے ابراہیم ؑ کی معراج آگ کے گل گلزارہونے میں ہوئی،حضرت نوحؑ کی معراج عالمی طوفان میں ہوئی،حضرت اسماعیل ؑ کی معراج چھری کے نیچے ہوئی،حضرت یحییٰ ؑ کی معراج آرہ سے چیراکرہوئی،حضرت موسیؑ کی معراج کوہ طورپراللہ سے ہم کلامی میں ہوئی،حضرت عیسی ؑ کی معراج یہودیوں کے حملہ کے وقت ہوئی،اوران سب سے بڑھ کرمعراج بلکہ معارج کی انتہاء ہمارے آقاوسردارسیدنامحمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کونصیب ہوئی،اوروہ بھی تمام وسائل اورآلاتِ جدیدہ کے بغیراس مقام وبلندیوں تک پہنچے جہاں تک سائنس کی رسائی بھی نہیں۔چنانچہ محدث العصرعلامہ سیدمحمدیوسف بنوریؒ لکھتے ہیں’’پھراس پربھی غورکیجئے کہ اربوں کھربوں تاروں میں زمین سے قریب ترچاند تھاجس کی دوری دولاکھ اڑتیس ہزارمیل بتائی جاتی ہے ،اس تک پہنچنے کے لئے ڈرتے ڈرتے کھربوں روپیہ خرچ کیا،سالہاسال تک اعلیٰ ترین دماغوں نے عرق ریزی کی تب کہیں جاکرانسان چاندپرپہنچ کرکچھ ریت اورپتھرلے آیا،اگریہ رقم تمام عالم کے محتاجوں میں تقسیم کی جاتی توشایددنیامیں کوئی فقیرنہ رہتا۔دوسری طرف انبیاء علیہم السلام کی بلندئ مراتب کاتصورکیجئے،خاتم الانبیاء علیہ السلام کوان اسباب وتدابیر،آلات ووسائل کے بغیرجب چاہاآسمانوں کی سیرکرادی،فضائے بسیط کاسارافاصلہ چندلمحوں میں طے کرادیااورآنًافانًاتمام آسمانوں سے اوپرپہنچادیا،رفعتِ انسانی کی تمام حدیں پست رہ گئیں،اورملکوتِ الہیہ کے وہ عجائبات دکھلادئے کہ نسلِ انسانی اسباب کے دائرے میں کروڑوں برس تک تحقیقات پرمحنت کرے مگرناممکن ہے کہ اس کالاکھواں حصہ بھی حاصل کرسکے‘‘
خلاصہ یہ ہے کہ سرورکونین صلی اللہ علیہ وسلم کواللہ نے خودآسمانوں پربلایا،نبیوں فرشتوں کاامام بنایا،آسمانوں پرفرشتوں8 سے استقبال کرایا،نبیوں سے ملاقات کرائی،جنت ودوزخ دکھلائی،اعمال نیک وبدپرملنے والی جزاوسزادکھائی،ملکوت ارض وسماء دکھائے،عرش دکھایاکرسی دکھائی اورپھراپنے دیدارکاشرف عطاکرکے خصوصی ہم کلامی کی دولت عظمیٰ سے نوازا،اہم احکامات عطافرمائے،نمازملی اورمشرک کے علاوہ سب کے لئے معافی کاپروانہ ملا۔
کچھ شک نہیں کہ معراج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقامات اعلیٰ میں سے ایک اونچامقام ہے لیکن یہ بات بھی غورطلب ہے کہ اس واقعہ کے ذکرمیں اللہ تعالیٰ نے سورہ بنی اسرائیل میں بھی اورسورہ نجم میں بھی ’’عبد‘‘کالفظ استعمال فرمایاہے،رسول اللہؐکی شان عبدیت کوبیان فرمایاہے،تاکہ مخلوق الہی خوب سمجھ لیں اوراچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ اس مقدس ہستی کے لئے بھی جس کی شان’’بعدازخدابزرگ توئی قصہ مختصر‘‘سے آشکاراہے،سب سے بلندترین مقام عبودیت ہی کاہے اورکسی کویہ وہم نہ ہوجائے کہ آپ کی حیثیت عبدیت سے آگے بڑھ گئی،اورآپ کی شان میں کوئی ایسااعتقادنہ کرلے کہ مقام عبدیت سے آگے بڑھاکراللہ تعالیٰ کی شانِ الوہیت میں شریک قرارنہ دیدے۔اورجیسے نصاریٰ حضرت عیسیٰ ؑ کی شان میں غلوکرکے گمراہ ہوئے اس طرح کی کوئی گمراہی امت محمدیہ علی صاحبہاالصلوۃ والسلام میں نہ آجائے۔
اورامت محمدیہ کوبھی ا سی مقام عبودیت میں ارتقاء کی ہدایت کی گئی ہے۔بیشک حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کہ’’نمازمومن کی معراج ہے‘‘کے معانی بھی اس نکتے سے حل ہوتے ہیں ،کیونکہ اظہارِعبودیت وبیان عجزوافتقاراورتشکل بندگی وابتہال کے لئے نمازسے بڑھ کراورکوئی صورت محقق نہیں۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں