اکتسابی مسائل 

آج تعلیم ایک نمائشی شئے بن کر رہ گئی ہے۔ نعرہ ،تعلیم کھوکھلے پن کا شکارہے۔در حقیقت آج بھی طلبہ کی ایک کثیر تعداد تعلیمی پسماندگی کا شکار ہے۔ لگاتار تعلیمی طور پر پسماندہ طلبہ کی تعدا دمیں ہر سطح پر تشویشناک حد تک اضافہ ہوتاجا رہا ہے۔اعلی تعلیم ہو کہ پیشہ وارانہ کورسس ہرجگہ کم تر صلاحیتوں اور ادنیٰ مظاہرہ کرنے والے طلبہ کو باہر کا راستہ دکھایا جا رہا ہے۔ آج بھی تعلیمی میدان میں مٹھی بھر قابل طلبہ کی اجارہ داری کا دور دورہ ہے۔کم تر مظاہرے کی بنیاد پر جب طلبہ کو حاشیہ پر رکھ دیا جا تا ہے اور ان پر کند ذہن ،غبی جیسے خطابات کی بارش ہونے لگتی ہے تب وہ پھسڈی پن کا شکار ہوجاتے ہیں ۔بچوں کی ایک ادنی سی خامی کے باعث معاشرہ جب ان کی دیگر صلاحیتوں کو بھی نظر انداز کرنے لگتا ہے تب طلبہ اپنے آپ کو زندگی کے ہر شعبے میں ادنیٰ اور کم تر محسوس کرنے لگتے ہیں۔ اکتسابی مسائل ہر عمر اور سماج کے کسی بھی اقتصادی طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد میں پائے جاسکتے ہیں۔طلبہ میں پائے جانے والے اکتسابی مسائل اور الجھنوں کے بارے میں سب سے پہلے 1960 ؁ء کے دہے میں سنجیدہ کوشش کی گئی ۔ ایسے طلبہ جو کسی بھی قسم کی ذہنی کمزوری،اعصابی معذوری،اوربصری عذر کے حامل نہ ہونے کے باوجود اپنے اسکول کے کام خاص طور پر پڑھنے،لکھنے اور ریاضی کے امور انجام دینے کے لائق نہیں تھے لیکن وہ ز بانی اظہار کی بہترین صلاحیت کے حامل تھے ایسے بچوں کے لئے سموئیل کرک (Samuel Krik)نے سب سے پہلے اکتسابی معذوری (Learning Disability) کی اصطلاح استعمال کی۔تعلیمی پسماندگی و معذوری سے متعلق رائج مختلف تعریفیں طبی(Clinical)،غیر طبی (Non-clinical)نقائص کا وسیع احاطہ کرتی ہیں۔تعلیمی معذوری پر 1960 ؁ کے دہے میں پہلی مرتبہ تو جہ مرکوز کی گئی۔ تعلیمی معذوری کے سد باب کے لئے مغربی ممالک میں مختلف مشاورتی کونسل اور انجمنوں کا و جود عمل میں آیا۔وطن عزیز ہندوستان میں اس سلسلے میں آج تک کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں دیکھی گئی ۔ترک مدرسہ(Wastage) اور جمود(Stagnation) سے ہمارا تعلیمی نظام آج بھی دو چار ہے اور یہ گوشہ آج بھی حکومت اور سماجی اداروں کی توجہ کا منتظر ہے۔تعلیمی معذوری کا شکار طلبہ کو مرکزی حکومت کی جانب سے فراہم کردہ مربوط تعلیم برائے معذور طلبہ (Integrated Education for Disabled Children)کے زمرے میں کوئی خاص جگہ نہیں دی گئی ہے۔ اس طرح کا طرز عمل تعلیمی طور پر معذور طلبہ کے مسائل اور ان کے حل کے بارے میں حکومت کی سنجیدگی پر سوالیہ نشان ہے۔ہندوستان میں تعلیمی معذوری پر انجام دی جانے والی تحقیق آج بھی اپنے ابتدائی دور سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے۔ تعلیمی معذوری کی مناسب جانچ اور تدارک کے وسائل کی عدم موجودگی کے سبب تعلیمی طور پر پسماندہ طلبہ خراب مظاہرہ،کم تر قابلیت ، لاپرواہی اور کام چوری کے لبادے میں اکثر نظر انداز کردیئے جارہے ہیں جس کی وجہ سے وہ مخصوص تعلیمی سہولتوں سے بھی محروم ہوگئے ہیں۔تعلیمی طو ر پر پسماندہ طلبہ کی متوقع ذہانت اور اصل ذہانت میں تفاوت پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان کے اکتسابی عمل میں خرابیاں در آتی ہیں۔ ان خرابیوں اور نقائص کو کسی بھی طور طلبہ کی ذہنی اور جسمانی معذور ی پر محمول نہیں کیا جا سکتا ۔ ایک ڈیموکریٹک مدرسہ طلبہ کو تعلیمی اکتساب اور ترقی میں مددگار تما م ضروری عوامل کی فراہمی( جو کہ ان کا حق ہے) کو یقینی بناتا ہے۔اکتسابی مسائل کی وجہ سے بعض طلباء میں سیکھنے کا عمل مشکلات کا شکار ہوجاتا ہے۔اکثر و بیشتر طلبہ کے مسائل کو اساتذہ لائق اعتنا نہیں سمجھتے ہیں ۔حقیقت سے عدم واقفیت کی بناء اکثر اساتذہ طلبہ کے مسائل کو مبالغہ آرائی سے پیش کر تے نظر آتے ہیں۔طلبہ کے لئے اکتسابی معذوری تب اور تکلیف دہ ہوجاتی ہے جب اساتذہ طلبہ کی فطری اکتسابی خصوصیات کا جائزہ لئے بغیر ان کو کند ذہن ،سست متعلم جیسے تمغات سے سرفرازکر تے ہیں۔ بچوں میں اکتسابی مسائل اکثر پیدائشی دماغی خرابی اور خراب تعلیمی ماحول کی وجہ سے نمو پاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ تعلیمی پسماندگی کا شکار ہوجاتے ہیں۔بچوں کے خراب تعلیمی مظاہرے کے اسباب کا جائزہ لیئے بغیر اساتذہ اور والدین کا منفی ردعمل طلبہ کے لئے زہرقاتل ثابت ہوتا ہے جس کی وجہ سے بچے اکتساب میں دلچسپی نہیں لے پاتے ہیں اور ان کی تعلیمی تر قی انحطاط کا شکار ہوجاتی ہے۔مغربی اسکولی تعلیمی نظام بچوں کے مسائل کو اختراعی حکمت عملیوں اور مناسب جانچ کے ذریعہ انجام دے رہا ہے جب کہ ہمارا تعلیمی نظام اس زمرے میں آج بھی پچھڑے پن کا شکار ہے۔ہمار ے بیشتر مدارس ،اساتذہ اور والدین تعلیمی مسائل سے یا تو نا واقف ہیں یا پھر اس کو نظر انداز کر دیتے ہیں یا پھر مناسب طریقے سے نمٹنے کے طریقوں سے آگاہ ہی نہیں ہیں۔اکتسابی مسائل اگر زیادہ عرصے تک پائے جائیں اور اس کے انسداد کے اقدامات نہیں کیئے جائیں تب بچے سیکھنے کے عمل میں عدم دلچسپی کے علاوہ دباؤ ،تناؤ اور خراب برتاؤ کے اظہار کے مرتکب ہوتے ہیں۔ مدارس میں تعلیمی مسائل کی عدم نشاندہی کی بنا ء طلبہ میں تال میل کا فقدان پایا جاتا ہے۔طلبہ کے تعلیمی مسائل کی جانچ کا کام اساتذہ سب سے بہتر انجام دے سکتے ہیں کیونکہ بچوں کے تعلیمی افعال کی انجام دہی میں سب سے زیاد ہ وقت اساتذہ ہی صرف کرتے ہیں۔زیرک مشاہدہ،طلبہ کے اکتساب کاتقابلی جائزہ،خراب برتاؤ کی شناخت اور روک تھام کے ذریعہ اساتذہ طلبہ کے اکتسابی مسائل پر قابو پاسکتے ہیں۔بعض حالات میں طلبہ کے مسائل کی تشخیص ان کے جذباتی برتاؤ کی وجہ سے مشکل ہوتی ہے۔مذکورہ بالا عام اکتسابی مسائل کو اساتذہ ہر گز ذہنی معذوری سے تعبیر نہ کریں۔ درجہ ذیل امور کے ذریعہ اساتذہ تعلیمی طور پر پسماندہ طلبہ میں بہتر اکتسابی صلاحیتوں کو فروغ دے سکتے ہیں۔
(1) اساتذہ بچوں کی تعلیمی جد و جہد میں مانع مسائل کا مستعدی سے جائزہ لیں۔
(2)اکتسابی عمل میں مانع اسباب و عوامل کی شناخت کرتے ہوئے ان کے تدارک کے اقدامات کریں۔
(3)اکتسابی مسائل سے دوچار طلبہ اساتذہ ،والدین او ر دیگر طلبہ سے مد د حاصل کریں۔
(4) اساتذہ کے لئے طلبہ کی مہارتوں، صلاحیتوں اور استعدادکاعلم ضروری ہے۔
(5)اساتذہ اکتسابی مسائل سے موثر طریقہ سے نبرد آزماہونے کے لیئے مناسب اقدامات و وسائل کو برؤے کار لائیں تاکہ طلبہ کے تعلیمی مظاہر ے میں بہتر ی پیدا ہو او ر ان میں عزت نفس کا جذبہ جاگزیں ہو۔
ہر طالب علم منفرد صلاحیتوں،مہارتوں اور نقائص کا مرکب ہوتا ہے۔تعلیمی اکتساب سے متعلق انفرادی اختلاف بڑی حد تک جینس(Genetics)،نشوونما اور بیرونی حالات پر اثر انداز ہونے والے عوامل پر منحصر ہوتا ہے۔یہ ایک مصداقہ حقیقت ہے کہ طلبo میں ذہانت خدا ئی دین ہوتی ہے لیکن اس کو سخت محنت اور جانفشانی سے فروغ دیا جا سکتا ہے۔ذہانت ،تعلیمی و دیگر مہارتیں اور دماغی کارکردگی دماغ کے دائیں یا بائیں حصے کے تحت ہوتی ہیں۔ہر دماغی حصہ پید اشدہ مخصوص بائیوکیمیکل اثرات کے تحت اپنے افعال انجام دیتا ہے۔دماغ کی ناکافی یا سست نشوونما کے اثرات اکتسابی عمل پر مرتب ہوتے ہیں۔ تعلیمی مسائل سے دوچاربچے زندگی کے دیگر زمروں میں بہتر مہارتوں کے حامل ہوسکتے ہیں۔
طلبہ میں سیکھنے سے مربوط مسائل کی درجہ ذیل امور سے شناخت کی جاسکتی ہے۔
(1)بچوں میں تعلیمی کمزوری کی وجہ ڈسلیکسیا بھی ہو سکتی ہے۔ابتدائی عمر سے پائے جانے والی ایسی خرابیاں بچوں میں اعصابی معذوری کا سبب بن سکتی ہے۔ تعلیمی مہارتوں (صلاحیتوں) کے فروغ کے لئے مددگار دماغ کے مخصوص حصوں کی ناقص نشوونما طلبہ میں اکتسابی معذوری کا سبب بن سکتی ہے۔
(2)دماغی نقص سے پاک بچے بھی مختلف اسباب کے تحت تعلیمی پسماندگی کا شکار ہوسکتے ہیں۔ تعلیمی مسائل کی آگہی سے ان امور کا موثر سامنا کیا جاسکتا ہے اور اس کے تدارک کی حکمت عملی بھی وضع کی جاسکتی ہے۔طلبہ کی تعلیمی ترقی سماج سے جڑے ہر شخص کو کو مطلوب و مقصود ہے جس کو اساتذہ ایک جامع سائینٹفک جانچ کے ذریعے ممکن بناسکتے ہیں ۔اساتذہ آمرانہ طرز عمل سے اجتناب کریں اور دوستا نہ ماحول کے ذریعہ اکتساب کو فروغ دیں۔
موثر حکمت عملی؛۔متحرک تعلیمی مظاہرے کے لئے کئی عوامل ذمہ دار ہوتے ہیں۔طلبہ کی ایک کثیر تعداد تحصیل علم میں دیانت داری سے ہمیشہ سے مصروف رہی ہے لیکن پھر بھی وہ مطلوبہ کامیابی حاصل نہیں کر پارہی ہے۔ایسے حالات میں اساتذہ کے لیئے لازم ہے کہ وہ طلبہ کے تعلیم مسائل اسباب و علل کا بخوبی جائزہ لیں۔کاف میان(Kaufman)کے مطابق درجہ ذیل عوامل طلبہ کے تعلیمی پسماندگی کا باعث ہوتے ہیں۔
(1)انفرادیت کے جذبے کا فقدان۔
(2) طلبہ کی بہت ہی اعلیٰ یا پھر پست توقعات سے وابستگی۔
(3)کمرۂ جماعت کے غیر یقینی حالات۔
(4)غیر دلچسپ تدریسی افعال۔(5) غیر پسندیدہ طرز عمل۔(6)کمرۂ جماعت میں ناپسندیدہ برتاؤ کے نمونے۔
والدین اور اساتذہ بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کے بر خلاف ان سے اعلی توقعات وابستہ نہ کریں۔اس طر ح کا طرزعمل طلبہ میں دباؤ اور تناؤ پیدا کر تا ہے۔اپنی تدریس کو دلچسپ بنائے بغیر بعض مرتبہ اساتذہ طلبہ سے تعلیمی ترقی کا تقاضہ کرتے ہیں۔اساتذہ اپنے معیار سے عاری پیچیدہ تدریسی پیش قدمی پر پابندی لگاتے ہوئے طلبہ کی دلچسپی کو فروغ دے سکتے ہیں۔اساتذ ہ طلبہ کے اکتساب کو مہمیز کرنے والے تما م رویوں کو کمرۂ جماعت میں بروئے کار لائیں اور اکتساب میں مانع تمام غیر پسندیدہ رویوں کا سد باب کریں۔کمرۂ جماعت میں سخت اور غیر دلچسپ تدریس سے اجتناب کریں۔بچوں کی صلاحیت اور استاد کے طریقہ تدریس میں ہم آہنگی کا فقدان،ہمہ لسانی اور مادری زبان کے بجائے کسی اورزبان کے ذریعہ تعلیم، بچوں میں تعلیمی پسماندگی کا اہم سبب ہوتی ہے۔طلبہ میں پائے جانے والے تعلیمی مسائل کے بنیادی اسباب کا جائزہ لیتے ہوئے مناسب اصلاحی طریقہ اختیار کیئے جاسکتے ہیں۔تعلیمی پسماندگی کی عموماً درجہ ذیل وجوہات دیکھی گئی ہیں۔
(1)طلبہ کے جسمانی جیسے بصارت یا سماعت کے مسائل اور اعصابی مسائل کو نظر انداز کرنے سے تعلیمی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔مذکورہ جسمانی نقائص جن کو با آسانی دور کیا جاسکتا ہے بعض مرتبہ طلبہ کے سیکھنے کے عمل میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔جس کی وجہ سے طلبہ کی تعلیم سے دلچسپی ختم ہوجاتی ہے۔
(2)ابتدائی تعلیمی دور میں والدین کا سماجی اور اقتصادی درجہ نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔والدین جب بچے کی بنیادی ضرورتوں کا خیال نہیں رکھ پاتے ہیں تب بچہ تعلیم سے رغبت کھو دیتا ہے۔
(3) مسلسل نفسیاتی خلفشار اور جذباتی عدم استقامت طلبہ کی توجہ،انہماک اور دلچسپی و تحریک پر خراب اثرات مرتب کرتی ہے۔جس کی وجہ سے تعلیمی ترقی انحطاط کا شکار ہوجاتی ہے۔
(4)ہم جماعت طلبہ سے عدم تال میل ،اساتذہ سے خراب مراسم،اساتذہ کا مشکل طریقہ تدریس اور پیچیدہ رویہ طلبہ کی تعلیمی پسماندگی کا اہم سبب قرار دیا گیاہے۔گھر کا خراب ماحول والدین میں عدم ہم آہنگی ،اولاد سے والدین کا غیر حوصلہ بخش رویہ بھی بچوں کی تعلیمی پسماندگی کی وجوہات میں شامل ہے۔
(5) دماغی خرابی،اعصابی بیماری اور آکسیجن کی دماغ کو سربراہی میں رکاوٹ و خرابی بچوں کی ذہانت کو متاثر کرنے والے چند اندورنی عوامل میں قابل ذکر ہیں۔
(6)اساتذہ کا حوصلہ شکن طرزعمل ،طلبہ کی ضرورتوں سے غفلت ،کمرۂ جماعت کا نظم و ضبط سے عاری ماحول اوراستاد کا تادیبی رویہ بھی طلبہ کے خراب تعلیمی مظاہر ے کا سبب ہوتے ہیں۔
تعلیمی مسائل سے دوچار طلبہ کی چارہ گری؛۔ یقیناًطلبہ کی تعلیمی پسماندگی کے ذمہ دار بعض عوامل پر قابو پانا اساتذہ اور دیگر حضرات کے اختیار سے باہر ہوتا ہے۔لیکن گھر اور اسکول سے وابستہ عوامل پر اساتذہ قابو پاتے ہوئے بچوں کو تعلیمی انحراف سے روک سکتے ہیں۔اساتذہ بچوں کو ان کی تمام خرابیوں اور کوتاہیوں کے ساتھ قبول کریں ۔رہبر ی ،مدد ،شفقت و محبت کے ذریعہ ان میں امنگ اور حوصلہ پیدا کریں ۔استاد اور طالب علم کے درمیان ایک بہتر اور سازگار تعلق استوار کریں۔اساتذہ ایک معالج کی طرح اصلاحی تدابیر پر فوری عمل پیرا ہوں اور طلبہ کی تعلیمی ضروریات کے مطابق منصوبہ بندی تیار کرے خاص طور پر تعلیمی مسائل سے دوچار طلبہ کے لئے خاص منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔تعلیمی طور پسماندہ طلبہ کے لئے ذیل میں چند سودمند تدابیر بیان کی گئی ہیں جن کو بر ؤے کارلاتے ہوئے تعلیمی معذوری کا شکار طلبہ کو عام دھارے میں شامل کیاجاسکتا ہے۔
(1)بچے میں تعلیمی جد و جہد کے لئے ذمہ دار عناصر کی اساتذہ نشاندہی کریں ۔مسلسل مشاہدے کے ذریعہ اساتذہ طلبہ کے اکتسابی خرابیوں کا پتا لگا سکتے ہیں۔جب اساتذہ طلبہ کے نقائص اور خامیوں کا پتا لگانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تب وہ تمام ضروری وسائل کے ذریعہ ان پر قابو پاسکتے ہیں۔
(2)بعض مرتبہ والدین اپنے بچوں کی تعلیمی معذوری کو قبول کرنے سے کتراتے ہیں جس کی وجہ وہ اور تعلیمی پسماندگی کا شکا ر ہوجاتے ہیں ۔اگر والدین اپنے بچوں کی تعلیمی معذور ی کو قبول کرتے ہوئے اساتذہ سے تعاون کریں تو تعلیمی معذور ی پر بڑی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔
(3) بچوں کی تعلیمی معذوری کے لئے ان کے گھر اور اس سے جڑے ماحول کا اگر استاد کو علم ہوجائے تو وہ بچے کے والدین کو اس سے آگاہ کرنے میں تاخیر نہ کرے۔والدین کی ناچاقی ،لڑائی جھگڑوں سے بچے پر پڑنے والے منفی رجحانا ت سے والدین کو واقف کروائے تاکہ بچے کی تعلیمی ترقی کو ممکن بنایا جاسکے۔
(4)بچوں میں دباؤ اور تناؤ پیدا کرنے والے عناصر کا استاد سراغ لگا کر اس کو دور کرے ۔اپنی تدریس کو پرکیف اور دباؤ سے پاک بنائے۔
(5)اساتذہ ہمیشہ نرم اور شیریں لہجہ کو اختیار کر یں تاکہ بچوں کے ذہن سے خوف کو دور کیاجاسکے۔خاص طور پر تعلیمی طور پر پسماندہ بچوں سے اساتذہ کا مشفق اور پیار بھرا رویہ ان میں اعتماد پیدا کرنے اور اکتساب کو پروان چڑھانے میں کلید ی کردار انجام دیتا ہے۔
(6)تعلیمی طور پر پسماندہ بچوں کے لئے مختلف تعلیمی سرگرمیوں کی انجام دہی کے ذریعہ اکتساب کو سرگرم اور پر کیف بنایا جا سکتا ہے۔اساتذہ طلبہ کی ضرورتوں کے مطابق تدریسی حکمت عملی اختیار کر یں۔
(7)تعریف و توصیف کے ذریعہ بچوں میں خود اعتمادی پیدا کریں۔
(8)ہر ایک طالب علم کو اس کی ذہنی صلاحیت کے مطابق تعلیمی مظاہر ہ پیش کرنے کا موقع فراہم کریں اور دوستانہ انداز میں ان کی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اس کو دور کرنے کے طریقوں سے بھی طلبہ کو آشنا کریں۔
(8) اساتذہ سمعی ،بصری اور دیگر تعلیمی اشیاء کے استعمال کے ذریعہ تدریس کو موثر اور دلکش بنائے۔
(9)تعلیمی طور پر پسماند ہ بچوں میں اکثر اکتسابی تنظیم و ترتیب کا فقدان پایا جاتا ہے ۔اساتذہ اکتسابی تنظیم و ترتیب طلبo میں پیدا کریں ۔تنظیم و ترتیب سے متعلق تکنیک و طریقوں سے طلبہ کو واقف کروائیں تاکہ ان میں تنظیم و ترتیب کی صلاحیت پروان چڑھ سکے۔
لیاقت سے کم تر مظاہرہ ؛۔طلبہ کے مشاہدے سے ایک اور تشویشناک حقیقت کا علم ہوتا ہے کہ جب وہ پرائمری درجات سے اعلی درجے میں پہنچتے ہیں تب بچوں میں ان کی لیاقت سے کمتر مظاہرہ دیکھا جا سکتا ہے جو طلبہ میں تعلیم دلچسپی کے لئے نہایت ہی خطرناک ہوتا ہے۔اکثر بچے بوریت کا شکار ہوجاتے ہیں اپنے کام سے جی چراتے ہیں اور تعلیم میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے ہیں اگر ابتدائی دور میں ہی ان عادات پر قابو نہیں پایا گیا تو یہ عادت وقت کے ساتھ ساتھ پختہ ہوتی جاتی ہے اور تعلیمی بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔جس کی وجہ اکثر اچھا مظاہر ہ کرنیوالے بچے اپنی قابلیت سے کم مظاہر کرتے ہیں۔ان بچوں میں ہر کام کو لاپرواہی سے کر نے کی عادت پڑجاتی ہے اور نہ صرف ان کا یہ رویہ صرف تعلیم کے تئیں ہوتا ہے بلکہ ہر کام میں وہ تن آسانی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ عام بچے جن میں تعلیمی معذوری کی کوئی علامت نہیں پائی جاتی ہے وہ صرف عدم تحریک و رغبت کے باعث تعلیم سے دوری اختیار کرتے ہیں ۔تحریک و ترغیب کے ذریعہ ان میں دوبارہ دلچسپی پیدا کی جاسکتی ہے اور ان کو ان کی قابلیت کے مطابق مظاہر ہ کرنے کے قابل بنایا جاسکتا ہے۔تعلیمی طور پر ذہین بچے جب تعلیمی پسماندگی کا شکار ہوجاتے ہیں تب ان کی تشخیص میں نہایت سنجیدگی کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کی ضرورت کے مطابق حکمت عملی وضع و اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔اساتذہ بچوں کی تعلیم و تدریس کے وقت انتہائی صبر و تحمل،فہم و فراست حوصلہ افزائی اور دوستانہ سلوک کو اختیار کرتے ہوئے بچوں کے مستقبل کی تعمیر کے ساتھ ساتھ اپنی آخرت کو بھی سنوار سکتے ہیں۔

حصہ
mm
فاروق طاہر ہندوستان کےایک معروف ادیب ،مصنف ، ماہر تعلیم اور موٹیویشنل اسپیکرکی حیثیت سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ایجوکیشن اینڈ ٹرینگ ،طلبہ کی رہبری، رہنمائی اور شخصیت سازی کے میدان میں موصوف کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ ہیں۔ایم ایس سی،ایم فل،ایم ایڈ،ایم اے(انگلش)ایم اے ااردو ، نفسیاتی علوم میں متعدد کورسس اور ڈپلومہ کے علاوہ ایل ایل بی کی اعلی تعلیم جامعہ عثمانیہ سے حاصل کی ہے۔

جواب چھوڑ دیں