آج تعلیم ایک نمائشی شئے بن کر رہ گئی ہے۔ نعرہ ،تعلیم کھوکھلے پن کا شکارہے۔در حقیقت آج بھی طلبہ کی ایک کثیر تعداد تعلیمی پسماندگی کا شکار ہے۔ لگاتار تعلیمی طور پر پسماندہ طلبہ کی تعدا دمیں ہر سطح پر تشویشناک حد تک اضافہ ہوتاجا رہا ہے۔اعلی تعلیم ہو کہ پیشہ وارانہ کورسس ہرجگہ کم تر صلاحیتوں اور ادنیٰ مظاہرہ کرنے والے طلبہ کو باہر کا راستہ دکھایا جا رہا ہے۔ آج بھی تعلیمی میدان میں مٹھی بھر قابل طلبہ کی اجارہ داری کا دور دورہ ہے۔کم تر مظاہرے کی بنیاد پر جب طلبہ کو حاشیہ پر رکھ دیا جا تا ہے اور ان پر کند ذہن ،غبی جیسے خطابات کی بارش ہونے لگتی ہے تب وہ پھسڈی پن کا شکار ہوجاتے ہیں ۔بچوں کی ایک ادنی سی خامی کے باعث معاشرہ جب ان کی دیگر صلاحیتوں کو بھی نظر انداز کرنے لگتا ہے تب طلبہ اپنے آپ کو زندگی کے ہر شعبے میں ادنیٰ اور کم تر محسوس کرنے لگتے ہیں۔ اکتسابی مسائل ہر عمر اور سماج کے کسی بھی اقتصادی طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد میں پائے جاسکتے ہیں۔طلبہ میں پائے جانے والے اکتسابی مسائل اور الجھنوں کے بارے میں سب سے پہلے 1960 ء کے دہے میں سنجیدہ کوشش کی گئی ۔ ایسے طلبہ جو کسی بھی قسم کی ذہنی کمزوری،اعصابی معذوری،اوربصری عذر کے حامل نہ ہونے کے باوجود اپنے اسکول کے کام خاص طور پر پڑھنے،لکھنے اور ریاضی کے امور انجام دینے کے لائق نہیں تھے لیکن وہ ز بانی اظہار کی بہترین صلاحیت کے حامل تھے ایسے بچوں کے لئے سموئیل کرک (Samuel Krik)نے سب سے پہلے اکتسابی معذوری (Learning Disability) کی اصطلاح استعمال کی۔تعلیمی پسماندگی و معذوری سے متعلق رائج مختلف تعریفیں طبی(Clinical)،غیر طبی (Non-clinical)نقائص کا وسیع احاطہ کرتی ہیں۔تعلیمی معذوری پر 1960 کے دہے میں پہلی مرتبہ تو جہ مرکوز کی گئی۔ تعلیمی معذوری کے سد باب کے لئے مغربی ممالک میں مختلف مشاورتی کونسل اور انجمنوں کا و جود عمل میں آیا۔وطن عزیز ہندوستان میں اس سلسلے میں آج تک کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں دیکھی گئی ۔ترک مدرسہ(Wastage) اور جمود(Stagnation) سے ہمارا تعلیمی نظام آج بھی دو چار ہے اور یہ گوشہ آج بھی حکومت اور سماجی اداروں کی توجہ کا منتظر ہے۔تعلیمی معذوری کا شکار طلبہ کو مرکزی حکومت کی جانب سے فراہم کردہ مربوط تعلیم برائے معذور طلبہ (Integrated Education for Disabled Children)کے زمرے میں کوئی خاص جگہ نہیں دی گئی ہے۔ اس طرح کا طرز عمل تعلیمی طور پر معذور طلبہ کے مسائل اور ان کے حل کے بارے میں حکومت کی سنجیدگی پر سوالیہ نشان ہے۔ہندوستان میں تعلیمی معذوری پر انجام دی جانے والی تحقیق آج بھی اپنے ابتدائی دور سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے۔ تعلیمی معذوری کی مناسب جانچ اور تدارک کے وسائل کی عدم موجودگی کے سبب تعلیمی طور پر پسماندہ طلبہ خراب مظاہرہ،کم تر قابلیت ، لاپرواہی اور کام چوری کے لبادے میں اکثر نظر انداز کردیئے جارہے ہیں جس کی وجہ سے وہ مخصوص تعلیمی سہولتوں سے بھی محروم ہوگئے ہیں۔تعلیمی طو ر پر پسماندہ طلبہ کی متوقع ذہانت اور اصل ذہانت میں تفاوت پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان کے اکتسابی عمل میں خرابیاں در آتی ہیں۔ ان خرابیوں اور نقائص کو کسی بھی طور طلبہ کی ذہنی اور جسمانی معذور ی پر محمول نہیں کیا جا سکتا ۔ ایک ڈیموکریٹک مدرسہ طلبہ کو تعلیمی اکتساب اور ترقی میں مددگار تما م ضروری عوامل کی فراہمی( جو کہ ان کا حق ہے) کو یقینی بناتا ہے۔اکتسابی مسائل کی وجہ سے بعض طلباء میں سیکھنے کا عمل مشکلات کا شکار ہوجاتا ہے۔اکثر و بیشتر طلبہ کے مسائل کو اساتذہ لائق اعتنا نہیں سمجھتے ہیں ۔حقیقت سے عدم واقفیت کی بناء اکثر اساتذہ طلبہ کے مسائل کو مبالغہ آرائی سے پیش کر تے نظر آتے ہیں۔طلبہ کے لئے اکتسابی معذوری تب اور تکلیف دہ ہوجاتی ہے جب اساتذہ طلبہ کی فطری اکتسابی خصوصیات کا جائزہ لئے بغیر ان کو کند ذہن ،سست متعلم جیسے تمغات سے سرفرازکر تے ہیں۔ بچوں میں اکتسابی مسائل اکثر پیدائشی دماغی خرابی اور خراب تعلیمی ماحول کی وجہ سے نمو پاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ تعلیمی پسماندگی کا شکار ہوجاتے ہیں۔بچوں کے خراب تعلیمی مظاہرے کے اسباب کا جائزہ لیئے بغیر اساتذہ اور والدین کا منفی ردعمل طلبہ کے لئے زہرقاتل ثابت ہوتا ہے جس کی وجہ سے بچے اکتساب میں دلچسپی نہیں لے پاتے ہیں اور ان کی تعلیمی تر قی انحطاط کا شکار ہوجاتی ہے۔مغربی اسکولی تعلیمی نظام بچوں کے مسائل کو اختراعی حکمت عملیوں اور مناسب جانچ کے ذریعہ انجام دے رہا ہے جب کہ ہمارا تعلیمی نظام اس زمرے میں آج بھی پچھڑے پن کا شکار ہے۔ہمار ے بیشتر مدارس ،اساتذہ اور والدین تعلیمی مسائل سے یا تو نا واقف ہیں یا پھر اس کو نظر انداز کر دیتے ہیں یا پھر مناسب طریقے سے نمٹنے کے طریقوں سے آگاہ ہی نہیں ہیں۔اکتسابی مسائل اگر زیادہ عرصے تک پائے جائیں اور اس کے انسداد کے اقدامات نہیں کیئے جائیں تب بچے سیکھنے کے عمل میں عدم دلچسپی کے علاوہ دباؤ ،تناؤ اور خراب برتاؤ کے اظہار کے مرتکب ہوتے ہیں۔ مدارس میں تعلیمی مسائل کی عدم نشاندہی کی بنا ء طلبہ میں تال میل کا فقدان پایا جاتا ہے۔طلبہ کے تعلیمی مسائل کی جانچ کا کام اساتذہ سب سے بہتر انجام دے سکتے ہیں کیونکہ بچوں کے تعلیمی افعال کی انجام دہی میں سب سے زیاد ہ وقت اساتذہ ہی صرف کرتے ہیں۔زیرک مشاہدہ،طلبہ کے اکتساب کاتقابلی جائزہ،خراب برتاؤ کی شناخت اور روک تھام کے ذریعہ اساتذہ طلبہ کے اکتسابی مسائل پر قابو پاسکتے ہیں۔بعض حالات میں طلبہ کے مسائل کی تشخیص ان کے جذباتی برتاؤ کی وجہ سے مشکل ہوتی ہے۔مذکورہ بالا عام اکتسابی مسائل کو اساتذہ ہر گز ذہنی معذوری سے تعبیر نہ کریں۔ درجہ ذیل امور کے ذریعہ اساتذہ تعلیمی طور پر پسماندہ طلبہ میں بہتر اکتسابی صلاحیتوں کو فروغ دے سکتے ہیں۔
(1) اساتذہ بچوں کی تعلیمی جد و جہد میں مانع مسائل کا مستعدی سے جائزہ لیں۔
(2)اکتسابی عمل میں مانع اسباب و عوامل کی شناخت کرتے ہوئے ان کے تدارک کے اقدامات کریں۔
(3)اکتسابی مسائل سے دوچار طلبہ اساتذہ ،والدین او ر دیگر طلبہ سے مد د حاصل کریں۔
(4) اساتذہ کے لئے طلبہ کی مہارتوں، صلاحیتوں اور استعدادکاعلم ضروری ہے۔
(5)اساتذہ اکتسابی مسائل سے موثر طریقہ سے نبرد آزماہونے کے لیئے مناسب اقدامات و وسائل کو برؤے کار لائیں تاکہ طلبہ کے تعلیمی مظاہر ے میں بہتر ی پیدا ہو او ر ان میں عزت نفس کا جذبہ جاگزیں ہو۔
ہر طالب علم منفرد صلاحیتوں،مہارتوں اور نقائص کا مرکب ہوتا ہے۔تعلیمی اکتساب سے متعلق انفرادی اختلاف بڑی حد تک جینس(Genetics)،نشوونما اور بیرونی حالات پر اثر انداز ہونے والے عوامل پر منحصر ہوتا ہے۔یہ ایک مصداقہ حقیقت ہے کہ طلبo میں ذہانت خدا ئی دین ہوتی ہے لیکن اس کو سخت محنت اور جانفشانی سے فروغ دیا جا سکتا ہے۔ذہانت ،تعلیمی و دیگر مہارتیں اور دماغی کارکردگی دماغ کے دائیں یا بائیں حصے کے تحت ہوتی ہیں۔ہر دماغی حصہ پید اشدہ مخصوص بائیوکیمیکل اثرات کے تحت اپنے افعال انجام دیتا ہے۔دماغ کی ناکافی یا سست نشوونما کے اثرات اکتسابی عمل پر مرتب ہوتے ہیں۔ تعلیمی مسائل سے دوچاربچے زندگی کے دیگر زمروں میں بہتر مہارتوں کے حامل ہوسکتے ہیں۔
طلبہ میں سیکھنے سے مربوط مسائل کی درجہ ذیل امور سے شناخت کی جاسکتی ہے۔
(1)بچوں میں تعلیمی کمزوری کی وجہ ڈسلیکسیا بھی ہو سکتی ہے۔ابتدائی عمر سے پائے جانے والی ایسی خرابیاں بچوں میں اعصابی معذوری کا سبب بن سکتی ہے۔ تعلیمی مہارتوں (صلاحیتوں) کے فروغ کے لئے مددگار دماغ کے مخصوص حصوں کی ناقص نشوونما طلبہ میں اکتسابی معذوری کا سبب بن سکتی ہے۔
(2)دماغی نقص سے پاک بچے بھی مختلف اسباب کے تحت تعلیمی پسماندگی کا شکار ہوسکتے ہیں۔ تعلیمی مسائل کی آگہی سے ان امور کا موثر سامنا کیا جاسکتا ہے اور اس کے تدارک کی حکمت عملی بھی وضع کی جاسکتی ہے۔طلبہ کی تعلیمی ترقی سماج سے جڑے ہر شخص کو کو مطلوب و مقصود ہے جس کو اساتذہ ایک جامع سائینٹفک جانچ کے ذریعے ممکن بناسکتے ہیں ۔اساتذہ آمرانہ طرز عمل سے اجتناب کریں اور دوستا نہ ماحول کے ذریعہ اکتساب کو فروغ دیں۔
موثر حکمت عملی؛۔متحرک تعلیمی مظاہرے کے لئے کئی عوامل ذمہ دار ہوتے ہیں۔طلبہ کی ایک کثیر تعداد تحصیل علم میں دیانت داری سے ہمیشہ سے مصروف رہی ہے لیکن پھر بھی وہ مطلوبہ کامیابی حاصل نہیں کر پارہی ہے۔ایسے حالات میں اساتذہ کے لیئے لازم ہے کہ وہ طلبہ کے تعلیم مسائل اسباب و علل کا بخوبی جائزہ لیں۔کاف میان(Kaufman)کے مطابق درجہ ذیل عوامل طلبہ کے تعلیمی پسماندگی کا باعث ہوتے ہیں۔
(1)انفرادیت کے جذبے کا فقدان۔
(2) طلبہ کی بہت ہی اعلیٰ یا پھر پست توقعات سے وابستگی۔
(3)کمرۂ جماعت کے غیر یقینی حالات۔
(4)غیر دلچسپ تدریسی افعال۔(5) غیر پسندیدہ طرز عمل۔(6)کمرۂ جماعت میں ناپسندیدہ برتاؤ کے نمونے۔
والدین اور اساتذہ بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کے بر خلاف ان سے اعلی توقعات وابستہ نہ کریں۔اس طر ح کا طرزعمل طلبہ میں دباؤ اور تناؤ پیدا کر تا ہے۔اپنی تدریس کو دلچسپ بنائے بغیر بعض مرتبہ اساتذہ طلبہ سے تعلیمی ترقی کا تقاضہ کرتے ہیں۔اساتذہ اپنے معیار سے عاری پیچیدہ تدریسی پیش قدمی پر پابندی لگاتے ہوئے طلبہ کی دلچسپی کو فروغ دے سکتے ہیں۔اساتذ ہ طلبہ کے اکتساب کو مہمیز کرنے والے تما م رویوں کو کمرۂ جماعت میں بروئے کار لائیں اور اکتساب میں مانع تمام غیر پسندیدہ رویوں کا سد باب کریں۔کمرۂ جماعت میں سخت اور غیر دلچسپ تدریس سے اجتناب کریں۔بچوں کی صلاحیت اور استاد کے طریقہ تدریس میں ہم آہنگی کا فقدان،ہمہ لسانی اور مادری زبان کے بجائے کسی اورزبان کے ذریعہ تعلیم، بچوں میں تعلیمی پسماندگی کا اہم سبب ہوتی ہے۔طلبہ میں پائے جانے والے تعلیمی مسائل کے بنیادی اسباب کا جائزہ لیتے ہوئے مناسب اصلاحی طریقہ اختیار کیئے جاسکتے ہیں۔تعلیمی پسماندگی کی عموماً درجہ ذیل وجوہات دیکھی گئی ہیں۔
(1)طلبہ کے جسمانی جیسے بصارت یا سماعت کے مسائل اور اعصابی مسائل کو نظر انداز کرنے سے تعلیمی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔مذکورہ جسمانی نقائص جن کو با آسانی دور کیا جاسکتا ہے بعض مرتبہ طلبہ کے سیکھنے کے عمل میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔جس کی وجہ سے طلبہ کی تعلیم سے دلچسپی ختم ہوجاتی ہے۔
(2)ابتدائی تعلیمی دور میں والدین کا سماجی اور اقتصادی درجہ نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔والدین جب بچے کی بنیادی ضرورتوں کا خیال نہیں رکھ پاتے ہیں تب بچہ تعلیم سے رغبت کھو دیتا ہے۔
(3) مسلسل نفسیاتی خلفشار اور جذباتی عدم استقامت طلبہ کی توجہ،انہماک اور دلچسپی و تحریک پر خراب اثرات مرتب کرتی ہے۔جس کی وجہ سے تعلیمی ترقی انحطاط کا شکار ہوجاتی ہے۔
(4)ہم جماعت طلبہ سے عدم تال میل ،اساتذہ سے خراب مراسم،اساتذہ کا مشکل طریقہ تدریس اور پیچیدہ رویہ طلبہ کی تعلیمی پسماندگی کا اہم سبب قرار دیا گیاہے۔گھر کا خراب ماحول والدین میں عدم ہم آہنگی ،اولاد سے والدین کا غیر حوصلہ بخش رویہ بھی بچوں کی تعلیمی پسماندگی کی وجوہات میں شامل ہے۔
(5) دماغی خرابی،اعصابی بیماری اور آکسیجن کی دماغ کو سربراہی میں رکاوٹ و خرابی بچوں کی ذہانت کو متاثر کرنے والے چند اندورنی عوامل میں قابل ذکر ہیں۔
(6)اساتذہ کا حوصلہ شکن طرزعمل ،طلبہ کی ضرورتوں سے غفلت ،کمرۂ جماعت کا نظم و ضبط سے عاری ماحول اوراستاد کا تادیبی رویہ بھی طلبہ کے خراب تعلیمی مظاہر ے کا سبب ہوتے ہیں۔
تعلیمی مسائل سے دوچار طلبہ کی چارہ گری؛۔ یقیناًطلبہ کی تعلیمی پسماندگی کے ذمہ دار بعض عوامل پر قابو پانا اساتذہ اور دیگر حضرات کے اختیار سے باہر ہوتا ہے۔لیکن گھر اور اسکول سے وابستہ عوامل پر اساتذہ قابو پاتے ہوئے بچوں کو تعلیمی انحراف سے روک سکتے ہیں۔اساتذہ بچوں کو ان کی تمام خرابیوں اور کوتاہیوں کے ساتھ قبول کریں ۔رہبر ی ،مدد ،شفقت و محبت کے ذریعہ ان میں امنگ اور حوصلہ پیدا کریں ۔استاد اور طالب علم کے درمیان ایک بہتر اور سازگار تعلق استوار کریں۔اساتذہ ایک معالج کی طرح اصلاحی تدابیر پر فوری عمل پیرا ہوں اور طلبہ کی تعلیمی ضروریات کے مطابق منصوبہ بندی تیار کرے خاص طور پر تعلیمی مسائل سے دوچار طلبہ کے لئے خاص منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔تعلیمی طور پسماندہ طلبہ کے لئے ذیل میں چند سودمند تدابیر بیان کی گئی ہیں جن کو بر ؤے کارلاتے ہوئے تعلیمی معذوری کا شکار طلبہ کو عام دھارے میں شامل کیاجاسکتا ہے۔
(1)بچے میں تعلیمی جد و جہد کے لئے ذمہ دار عناصر کی اساتذہ نشاندہی کریں ۔مسلسل مشاہدے کے ذریعہ اساتذہ طلبہ کے اکتسابی خرابیوں کا پتا لگا سکتے ہیں۔جب اساتذہ طلبہ کے نقائص اور خامیوں کا پتا لگانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تب وہ تمام ضروری وسائل کے ذریعہ ان پر قابو پاسکتے ہیں۔
(2)بعض مرتبہ والدین اپنے بچوں کی تعلیمی معذوری کو قبول کرنے سے کتراتے ہیں جس کی وجہ وہ اور تعلیمی پسماندگی کا شکا ر ہوجاتے ہیں ۔اگر والدین اپنے بچوں کی تعلیمی معذور ی کو قبول کرتے ہوئے اساتذہ سے تعاون کریں تو تعلیمی معذور ی پر بڑی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔
(3) بچوں کی تعلیمی معذوری کے لئے ان کے گھر اور اس سے جڑے ماحول کا اگر استاد کو علم ہوجائے تو وہ بچے کے والدین کو اس سے آگاہ کرنے میں تاخیر نہ کرے۔والدین کی ناچاقی ،لڑائی جھگڑوں سے بچے پر پڑنے والے منفی رجحانا ت سے والدین کو واقف کروائے تاکہ بچے کی تعلیمی ترقی کو ممکن بنایا جاسکے۔
(4)بچوں میں دباؤ اور تناؤ پیدا کرنے والے عناصر کا استاد سراغ لگا کر اس کو دور کرے ۔اپنی تدریس کو پرکیف اور دباؤ سے پاک بنائے۔
(5)اساتذہ ہمیشہ نرم اور شیریں لہجہ کو اختیار کر یں تاکہ بچوں کے ذہن سے خوف کو دور کیاجاسکے۔خاص طور پر تعلیمی طور پر پسماندہ بچوں سے اساتذہ کا مشفق اور پیار بھرا رویہ ان میں اعتماد پیدا کرنے اور اکتساب کو پروان چڑھانے میں کلید ی کردار انجام دیتا ہے۔
(6)تعلیمی طور پر پسماندہ بچوں کے لئے مختلف تعلیمی سرگرمیوں کی انجام دہی کے ذریعہ اکتساب کو سرگرم اور پر کیف بنایا جا سکتا ہے۔اساتذہ طلبہ کی ضرورتوں کے مطابق تدریسی حکمت عملی اختیار کر یں۔
(7)تعریف و توصیف کے ذریعہ بچوں میں خود اعتمادی پیدا کریں۔
(8)ہر ایک طالب علم کو اس کی ذہنی صلاحیت کے مطابق تعلیمی مظاہر ہ پیش کرنے کا موقع فراہم کریں اور دوستانہ انداز میں ان کی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اس کو دور کرنے کے طریقوں سے بھی طلبہ کو آشنا کریں۔
(8) اساتذہ سمعی ،بصری اور دیگر تعلیمی اشیاء کے استعمال کے ذریعہ تدریس کو موثر اور دلکش بنائے۔
(9)تعلیمی طور پر پسماند ہ بچوں میں اکثر اکتسابی تنظیم و ترتیب کا فقدان پایا جاتا ہے ۔اساتذہ اکتسابی تنظیم و ترتیب طلبo میں پیدا کریں ۔تنظیم و ترتیب سے متعلق تکنیک و طریقوں سے طلبہ کو واقف کروائیں تاکہ ان میں تنظیم و ترتیب کی صلاحیت پروان چڑھ سکے۔
لیاقت سے کم تر مظاہرہ ؛۔طلبہ کے مشاہدے سے ایک اور تشویشناک حقیقت کا علم ہوتا ہے کہ جب وہ پرائمری درجات سے اعلی درجے میں پہنچتے ہیں تب بچوں میں ان کی لیاقت سے کمتر مظاہرہ دیکھا جا سکتا ہے جو طلبہ میں تعلیم دلچسپی کے لئے نہایت ہی خطرناک ہوتا ہے۔اکثر بچے بوریت کا شکار ہوجاتے ہیں اپنے کام سے جی چراتے ہیں اور تعلیم میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے ہیں اگر ابتدائی دور میں ہی ان عادات پر قابو نہیں پایا گیا تو یہ عادت وقت کے ساتھ ساتھ پختہ ہوتی جاتی ہے اور تعلیمی بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔جس کی وجہ اکثر اچھا مظاہر ہ کرنیوالے بچے اپنی قابلیت سے کم مظاہر کرتے ہیں۔ان بچوں میں ہر کام کو لاپرواہی سے کر نے کی عادت پڑجاتی ہے اور نہ صرف ان کا یہ رویہ صرف تعلیم کے تئیں ہوتا ہے بلکہ ہر کام میں وہ تن آسانی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ عام بچے جن میں تعلیمی معذوری کی کوئی علامت نہیں پائی جاتی ہے وہ صرف عدم تحریک و رغبت کے باعث تعلیم سے دوری اختیار کرتے ہیں ۔تحریک و ترغیب کے ذریعہ ان میں دوبارہ دلچسپی پیدا کی جاسکتی ہے اور ان کو ان کی قابلیت کے مطابق مظاہر ہ کرنے کے قابل بنایا جاسکتا ہے۔تعلیمی طور پر ذہین بچے جب تعلیمی پسماندگی کا شکار ہوجاتے ہیں تب ان کی تشخیص میں نہایت سنجیدگی کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کی ضرورت کے مطابق حکمت عملی وضع و اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔اساتذہ بچوں کی تعلیم و تدریس کے وقت انتہائی صبر و تحمل،فہم و فراست حوصلہ افزائی اور دوستانہ سلوک کو اختیار کرتے ہوئے بچوں کے مستقبل کی تعمیر کے ساتھ ساتھ اپنی آخرت کو بھی سنوار سکتے ہیں۔
اہم بلاگز
چراغ تو روشن ہیں
پی ٹی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد 16 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس رپورٹ میں مکمل سچائی ہو پھر بھی ٹی وی بہرحال ایک مقبول ذریعہء مواصلات ہے۔ شام کے وقت یا رات نو بجے ٹی وی پر ٹاک شوز یا head lines ملاحظہ کرنے والے افراد کا تناسب کم نہیں ہوا۔ آج جب شام آٹھ بجے ٹی وی آن کیا تو اتفاق سے ٹاک شو کا موضوع تھا انٹرا پارٹی انتخابات اور پارٹی کی قیادتیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی سبھی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے احوال چل رہے تھے۔ پھر نمایاں قائدین کے نام لیے گئے
پیپلز پارٹی:- ذوالفقار علی بھٹو، بےنظیر بھٹو، زرداری، بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو، پارٹی قیادت کے نمایاں افراد ۔
مسلم لیگ نون:- نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز ۔
پی ٹی آئی:- عمران خان ہی موءسس اوروہی قائد انہی کے دم خم سے پارٹی ہے۔ غیر مشروط، عقیدت اور اتباع کا محور بس عمران خان کی شخصیت ہے، اختلاف ہے تو عمران خان سے، اتفاق ہے تو عمران خان سے۔
مردِ واحد یا پھرایک خاندان۔ بس ہر پارٹی میں اسی کا اجارہ ہے۔ کس منہ سے یہ لوگ جمہوریت کا نام لیتے ہیں۔ کبھی سوچا آپ نے؟؟ ووٹ دینے سے پہلے سوال کیا کبھی آپ نے ان، مقبول لیڈرز، سے؟ اکتائے دماغ کے ساتھ چینل بدلا تو حافظ نعیم الرحمن کے حلف کی خبر چل رہی تھی۔ سارامنظر ہی دلکش لگا۔ بھیگی آنکھیں، کپکپاتے الفاظ دعاؤں کی التجا. یہ ہے حافظ نعیم الرحمن کا حلف ۔ دماغ میں سوال اٹھا "کیا یہ شخص سالہا سال سے نسل در نسل اس جماعت کا گدی نشین ہے؟"
نہیں جی اس سے پہلے ایک درویش صفت، روشن کردار والا، ہمت و جہد کا استعارہ۔۔۔ سراج الحق تھا اسی ذمہ داری پہ ۔۔۔ تو کیا سراج الحق کو عوامی مقبولیت، یہ عہدہ، کروڑوں لوگوں کی دعائیں ان کے باپ دادا نے دلوائیں؟ نہیں جی، وہ تو حلف اٹھانے سے چند دن پہلے تک انہیں خبر تھی نہ خواہش اور ان سے پہلے جو اس منصب پر تھے وہ تھے سید منور حسن، وہ سید، یہ پٹھان، وہ کراچی سے، یہ کے پی سے، کیا سید منور حسن اپنے سے گزشتہ امیر جماعت کے رشتے دار تھے؟
نہیں، وہ بھی اول الذکر سبھی کی طرح ایک عام کارکن تھے۔
نعیم صدیقی (رحمہ اللہ علیہ) اپنی تصنیف "المودودی" میں لکھتے ہیں
"۔۔۔ کتنا سخت لمحہ ہے کہ اس شخص کے جسد کی امانت کو مٹی کے حوالے کرنے کے بعد میں اسی کی جدائی کاذکر چھیڑ رہا ہوں۔ ترجمان القرآن کی ادارت کرنے اوراس کے ذریعے دور دراز تک ایمان وحکمت کا نور پھیلانے والی ہستی نگاہوں سے اوجھل ہوچکی ہے۔ اس کی کرسی خالی ہے وہ اپنے تاریخی کمرے میں بھی موجود نہیں اور اہلخانہ کی مجلس میں بھی شریک نہیں۔اس کی کتابیں جیسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے ڈھونڈ رہی ہیں۔۔۔"
قارئین! نعیم صدیقی کا کرب جب ان الفاظ میں ڈھل رہاتھا تو شائد انھیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ تحریک پھل پھول لائے گی ، وسعت اختیار کرے گی۔ بلاشبہ...
تاریکی میں ڈوبتی دنیا
معاشرہ افراد کی مرہونِ منت ترتیب پاتا ہے، افراد اپنی تربیت بہترین اطوار پر کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بہتر سے بہتر کی تلاش جاری ہے۔ تہذیبوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان دفن شدہ تہذیبوں میں سے ان کے رہن سہن اور دیگر طور طریقوں پر تحقیق کی جاتی ہے اور باقاعدہ یہ ثابت بھی کیا جاتا ہے کہ ان تہذیبوں میں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ وقت کا تو نہیں، انسان کے طور طریقے ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انسانیت کی تذلیل جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف دینے سے کسی قسم کی عبرت حاصل نہیں کرتا یا پھر ہر انسان اس سوچ کا حامل ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ صحیح ہے اسے ویسا ہی کرنا تھا جیسا وہ کر رہا ہے لیکن وقت سوچ میں تبدیلی لے آتا ہے پھر پچھتاوالادے لادے زندگی گزر جاتی ہے۔
ہمارے پیارے بنی ﷺ کے چچا کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھتیجا جو کہہ رہا ہے وہ بلکل صحیح ہے لیکن ہم اپنے آباؤ اجداد کو کیسے ترک کردیں۔ آج احساس کو بھی شرمندگی کا سامنا ہوگاکیونکہ وہ اپنی شدت کھوچکا ہے اور کسی اندھیری کال کوٹھری میں سسکیاں لے رہا ہوگا۔ ہم مادہ پرست لوگ ہیں جہاں احساسات کا تعلق کیمرے کی آنکھ کو دیکھانے کیلئے تو امڈ آتے ہیں لیکن حقیقی دکھ اور تکلیف سے باز رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ دنیا اتنی رنگ برنگی ہوگئی ہے کہ پلک جھپکتے میں منظر بدل جاتا ہے اور وہ سب سامنے آموجود ہوتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، منظر بدل لیتے ہیں۔
اب کسی کے لئے بھی ساری دنیا میں یہ کہنا ناممکن ہے کہ دنیا ایک خوبصورت جگہ ہے اور یہاں رہنے کیلئے کسی خوبصورت کونے کا انتخاب کر کے وہاں رہ لیا جائے، انسان نے اپنی تباہی کیلئے ایسا ایسا سامنا تیار کر رکھا ہے کہ جب اسے استعمال کیا گیا تو وہ وہاں بھی پہنچ جائے گا جہاں اس کی ضرورت نہیں ہوگی، یعنی جب تباہی کا عمل شروع ہوگا تو کوئی بھی اس تباہی سے کیسے محفوظ رہ سکے گا۔ دنیا نے ایک نا ایک دن ختم ہونا ہے اور مسلمانوں کے عقیدے کیمطابق اب قیامت کے قریب کی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں، اب یقینا قیامت آئی کھڑی ہے۔ فلسطین میں ہونے والا ظلم کسی ایسی ہی منزل کی جانب حتمی پیش قدمی کہا جاسکتا ہے۔ کوئی بولنے سے ڈر رہا ہے اور کوئی ایسے ڈھڑلے سے بول رہا ہے کہ اسے گولی سے مارا جا رہا ہے، ظالم اپنے قبیلے کے پر امن لوگوں کو مارنے سے بھی نہیں چوک رہا۔ پچھلے زمانوں میں یہ کام مخصوص لوگوں کے ذمے ہوا کرتا تھا لیکن آج تو سب، سب کچھ کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔
پاکستان تو وہ ملک ہے جہاں بجلی کی تخفیف قوت (لوڈشیڈنگ)اس قدر ہوتی ہے کہ ملک کا اکثر حصہ تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہت سارے ایسے امور ہیں جو ہمیں تاریکی...
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
الوداع نہیں کہتے
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...