شبِ معراج کی فضیلت

قرآنِ کریم کے پندرھویں پارے سبحٰن الذی آیت نمبر 1 میں اللہ تعالیٰ نے صاف اور واضح الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے ’’وہ (ذات) پاک ہے جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام (یعنی خانہ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) تک جس کے ارد کرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا تاکہ ہم اُسے اپنی (قدرت کی) نشایناں دکھائیں بیشک وہ سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے۔‘‘
پھر مزید شبِ معراج صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی فضیلت کے بارے میں قرانِ کریم کے 27 ویں پارے قال فما خطبکم کی آیات مبارکہ نمبر 1 سے لے کر آیات مبارکہ نمبر 22 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’تارے کی قسم جب غائب ہونے لگے کہ تمہارے رفیق (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نہ رستہ بھولے ہیں اور نہ بھٹکے ہیں اور نہ خواہشِ نفس سے بات نکالتے ہیں یہ (قرآن) تو حکم اللہ ہے جو (اُن کی طرف) بھیجا جاتا ہے۔ اُن کو نہایت قوت والے نے سکھایا (یعنی جبرائیل) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے اور وہ (آسمان) کے اونچے کنارے میں تھے پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے تو دوکمان کے فاصلے پر یا اس سے بھی کم، پھر اللہ نے اپنے بندے کی طرف جو بھیجا سو بھیجا جو کچھ اُنہوں نے دیکھا اُن کے دِل نے اُس کو جھوٹ نہ جانا کیا جو کچھ وہ دیکھتے ہیں تم اُس میں اُن سے جھگڑتے ہو اور اُنہوں نے اُس کو ایک اور بار بھی دیکھا ہے پرلی حد کی بیری کے پاس، اُسی کے پاس رہنے کی بہشت ہے جبکہ اس بیری پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا اُن کی آنکھ نہ تو اور طرف مائل ہوئی اور نہ (حد سے) آگے بڑھی اُنہوں نے اپنے پروردگار (کی قدرت ) کی کتنی ہی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں، بھلا تم لوگوں نے لات اور عُزیٰ کو دیکھا اور تیسرے منات کو (کہ یہ بُت کہیں خدا ہو سکتے ہیں) (مشرکو) کیا تمہارے لئے تو بیٹے اور اللہ کے لئے بیٹیاں، یہ تقسیم تو بہت بے انصافی کی ہے۔‘‘ شبِ معراج کے سلسلے میں جو آیات مبارکہ نازل ہوئی ہیں اُن سے صاف معلومات مسلمانوں کے لئے فراہم کی گئی ہیں کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ سلم اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت اُمِّ ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے گھر استراحت فرما رہے تھے کہ رات کے پچھلے پہر اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت جبرائیل علیہ السلام آسمانِ دُنیا سے بُراق پر مکہ معظمہ تشریف لائے تھے اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نیند سے اُٹھا کر باہر تشریف لے گئے تھے سب سے پہلے آپؐ کا سینہ مبارک چاک کرکے قلبِ مبارک کو آبِ زم زم سے دھو کر دوبارہ سینہ مبارک کو بند کر دیا تھا اُس کے بعد رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو فرما کر حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ براق پر تشریف فرما ہوئے تھے اور بُراق مکہ معظمہ سے بیت المقدس کی طرف روانہ ہوا تھا جو کہ شام کی حدود سے آگے واقع تھا دورانِ سفر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی چشمِ دید سے ملاحظہ فرمایا تھا کہ قریش مکہ کا ایک تجارتی قافلہ ملک شام کی طرف رواں دواں تھا اور بُراق جب اس قافلے کے پاس سے گزرا تھا تو براق کی برق رفتاری کی تاب نہ لاتے ہوئے بِدکا تھا اور عورتوں و بچوں کے رونے کی آوازیں بھی آرہی تھیں الغرض بُراق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر بیت لمقدس مسجد اقصیٰ کے قریب رُکا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بُراق سے اُتار کر بُراق کی مہار مسجد اقصیٰ کے دروازے کے ساتھ باندھ دی تھی جہاں تمام پیغمبران علیہم السلام آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا انتظار فرما رہے تھے اُنہوں نے آپؐ کی اقتدا میں دو رکعت نماز نفل ادا کی تھی اس کے بعد آپؐ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ عازم سفر ہوئے تھے اور بُراق نے بیت المقدس سے فوری اُڑتے ہوئے آہستہ آہستہ آسمان کی طرف اُٹھنا شروع کر دیا تھا اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام سے، دوسرے آسمان پر دو انبیاء حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام سے، تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام سے، چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام سے، پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام سے، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ساتویں اور آخری آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پہلے آسمان سے لے کر ساتوں آسمان تک فرشتوں کے لئے جو قبلہ نماز کے لئے بنایا گیا تھا اس کو بیت المعمور کہتے ہیں وہ بھی ملاحظہ فرمایا تھا۔ علماء کرام نے سیرت کی کتابوں میں مستند حدیثوں کے ذریعے بیان فرمایا ہے کہ اگر ساتویں آسمان سے تیر پھینکا جائے تو وہ سیدھا کعبۃ اللہ شریف کی چھت پر آکر گرے گا۔ ساتویں آسمان سے آگے جب آپؐ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ سدرۃ المنتہیٰ پر تشریف لے گئے تھے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آگے جانے سے منع کر دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی تجلیات شروع ہو جائیں گی اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کے پَر جل جائیں گے۔ آپؐ نے اُس وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام کو اپنی اصلی شکل میں دیکھا تھا اُن کا قد زمین اور آسمان کے برابر تھا اور 600 پَر تھے۔ یہ آپؐ نے دوسری مرتبہ دیکھا تھا پہلی مرتبہ غارِحرا میں جب آپؐ کو نبوت پر فائز کیا گیا تھا اُس وقت اُن کو اصلی حالت میں دیکھا تھا ورنہ بعد میں وہ وحی لے کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس قریش کے مشہور سردار وحیہ کلبی کی شکل میں آتے تھے جس مقام پر مدینہ منورہ میں آپ شکل انسانی تبدیل فرماتے تھے اُسے بابِ جبرائیل کے نام سے جانا جاتا ہے وہاں دو رکعت نماز نفل پڑھنا مستحب ہے جب رسالت مآب پیغمبر آخر الزماں علیہ السلام سدرۃ المنتہیٰ سے آگے عازم سفر ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے لئے تخت بھیج دیا تھا۔ آپؐ نے نعلین مبارک اُتارنی چاہی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’اے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نعلین مبارک کے ساتھ تشریف لے آئیں۔ سورۃ و النجم 27 ویں پارے کی آیت جو ہم نے اُوپر بیان کی ہیں آپؐ نے اللہ تعالیٰ کا دیدار فرمایا تھا اور قاب قوسین والی بات بتائی گئی ہے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر 50 وقت کی نمازیں فرض کی تھیں۔ ساتویں آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آپؐ سے فرمایا تھا کہ آپؐ کی اُمت اتنی نمازیں بیک وقت ادا نہیں کر سکے گی۔ آپؐ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بار بار جا کر کم کراتے رہے تھے آخر میں 5 وقت کی نماز فرض ہو گئی تھی جس کا ثواب 50 نمازوں کے برابر ہوگا۔ آپؐ کو شب معراج کے موقع پر جنت اور دوزخ کا دیدار بھی کرایا گیا تھا۔ آپؐ کو آپؐ کا جنت میں گھر بھی دکھایا گیا تھا جہاں دُنیا سے پردہ فرمانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قیام پذیر ہوں گے۔ پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام اللہ کے حکم سے واپس کعبۃ اللہ شریف حضرت اُمِّ ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر پر چھوڑ کر گئے تھے جب آپؐ گھر کے دروازے پر تشریف لے گئے تھے گھر کی کُنڈی ہِل رہی تھی اور بستر جس حالت میں چھوڑ کر گئے تھے اُسی حالت میں موجود تھا۔ صبح نمازِ فجر کے بعد اس واقعہ کی تفصیلات بتائی تو قریش مکہ نے مذاق اُڑانا شروع کر دیا تھا۔انہوں نے جب یہ بات حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بتائی تو اُنہوں نے فوراً اس بات پر یقین کامل کا اعلان کیا تھا جس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے اُنہیں صدیق کا لقب عطا فرمایاتھا جو کہ راقم الحروف کے جد امجد ہیں۔ کفار مکہ نے طرح طرح کے سوالات شروع کر دئیے تھے اللہ تعالیٰ نے مسجد اقصیٰ کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے کر دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کفار مکہ کو تسلی بخش جواب فرماتے رہے تھے۔ قریشِ مکہ کے تجارتی قافلہ نے اس بات کی تصدیق کر دی تھی کہ جب وہ مکہ سے تجارت کے لئے شام جا رہے تھے تو ہوا کی رفتار سے تیز ایک سواری ان کے قریب سے گزری تھی جس سے ان کے جانور بِدکے تھے۔ اس کے علاوہ بیت المقدس میں عیسائی راہبوں نے تصدیق کی تھی کہ رات میں مسجد اقصیٰ نہ صرف روش تھی بلکہ کثیر تعداد میں لوگ کسی کے منتظر تھے اور بُراق کو مسجد اقصیٰ کے دروازے کے سامنے والی چوکھٹ کے ساتھ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کھڑا کرکے اس کی مہار کو دروازے کی کُنڈی کے ساتھ باندھا تھا اس کے نشان بھی موجود تھے۔
تمام محدثین کرام، بزرگانِ دین اور علماء کرام کا قرآن پاک کی مذکورہ آیتوں کے حوالے سے متفقہ فیصلہ ہے کہ رسالت مآب پیغمبر آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ و السلام کو جسمانی بمعہ روحانی طور پر شبِ معراج ہوئی تھی۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں