ایک اچھا اُستاد ہی ایک اچھے معاشرے کا ضامن ہے 

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں دوہرا تعلیمی نظام رائج ہے، اگر والدین صاحب استطاعت ہیں تو وہ اپنے بچوں کو اندرون ملک یا بیرون ملک بہترین سے بہترین تعلیم دلوا سکتے ہیں۔۔۔پریشانی تو متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے لئے ہے، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو یہاں پر موجود نسبتاً بہتر اسکول کا انتخاب کرنا ہوتا ہے مگر یہاں بات اسکول یا اس کے کورس کی نہیں بلکہ استاد کی ہو رہی ہے ایک عام متوسط طبقے کے شہری کا بچہ بھی بہترین تعلیم وتربیت حاصل کرسکتا ہے بشرط یہ کہ اسے واقعی استاد اور معلم میسر آ جائے جو علم سکھا سکے.بچوں کو تعلیم کے معانی سمجھا سکے.ان کی زندگی کو کسی روشن ڈگر پر ڈال سکے. لیکن کیا واقعی آج موجودہ دور کے استاد ان لفظوں پر پورا اترتے ہیں..؟ سب سے پہلے تو یہ طے کرنا ضروی ہے کہ ایک استاد کے اصل فرائض منصبی کیا ہیں؟کیا محض کلاس میں آنا طوطے کی طرح بچوں کو رٹے لگوانا، مخصوص پلانر کے مطابق پڑھانا ہی استاد کا اصل مقصد ہے۔۔؟ جی نہیں.. استاد کو ہمارے مذہب نے بہت زیادہ عزت و احترام سے نوازا ہے.جیسا کہ ایک حدیث شریف میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا” مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے ”ایک اور جگہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے استاد کی عزت اور احترام کی اس طرح تاکید فرمائی ’’دنیا میں تمہارے تین باپ ہیں ایک وہ جو تمہاری پیدائش کا سبب بنتا ہے، دوسرا وہ جس نے اپنی بیٹی تمہاری زوجیت میں دی، تیسرا وہ جس سے تم نے علم حاصل کیا اور ان تینوں میں بہترین باپ تمہارا استاد ہے ‘‘ جب اس قدر درجہ اور احترام ایک استاد کو ہمارا دین عطا کرتا ہے تو یقیناً ذمہ داری بھی کس قدر عظیم ہوگی…! استاد کے فرائض میں بچوں کو صرف کتابی علم دینا ہی نہیں بلکہ تہذیب و تمدن، اٹھنے بیٹھنے سے لے کر ان کو ایسا علم دینا ہے کہ ان کی زندگی میں ایسا انقلاب آجائے جس کے بعد وہ زندگی کے اصلی و حقیقی مقصد کو سمجھ سکیں اور اپنی زندگی میں مثبت انداز میں آگے بڑھانے کی عملی جد و جہد کر سکیں..
اس کے لیے ضروری نہیں کہ ہم بڑی بڑی باتیں کریں یا ہم کو کسی بہت مشکل مرحلے سے گزرنا پڑے. بلکہ چند سادہ سے اقدام کر کے بچوں کے اندر بدلاؤ کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے. جیسے کہ بچے جب چھوٹی عمر میں ہوتے ہیں تو ان کے کچے ذہنوں میں سب سے زیادہ وہ جس سے متاثر ہوتے ہیں وہ ان کے استاد ہوتے ہیں وہ جن کی بات چیت کے انداز سے لے کر پہننے اوڑھنے کھانے پینے ان کے غصے ان کی ہر چیز کو اپنے اندر جذب کر رہے ہوتے ہیں اگر ہم ٹائم پر آئیں بچوں سے نرمی سے پیش آئیں ان کے سامنے کوئی ایسی گفتگو نہ کریں جس سے وہ غلط تاثر لیں کیونکہ کچے ذہنوں میں پنپنے والے خاکے بڑے پکے ہوتے ہیں اور زندگی بھر کے لئے اپنا تاثر چھوڑ جاتے ہیں،اس کے علاوہ جب بھی ہم بچوں کو کچھ سکھائیں تو ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ وہ اس کو اچھی طرح سمجھ سکیں اور ان کو اتنا اعتماد دیں کہ اگر نہ سمجھیں تو وہ بغیر جھجکے ہم سے سوال کریں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ٹیچرز جھنجھلائے ہوئے رہتے ہیں یا کام کا برڈن ہی ٹیچرز پر اتنا ڈال دیا جاتا ہے کہ وہ خود کو جکڑا ہوا محسوس کرتے ہیں، بدقسمتی سے ہمارے استاد کی قدر نہیں.مسلسل جان مارنے اور محنت کے باوجود استاد کو وہ معاشرتی طور پر وہ عزت اور مقام نہیں ملتا جو اس کا حق ہے.اسی طرح اخلاقی اور معاشی اعتبار سے بھی استاد کو اس کا حقیقی مقام نہیں دیا جاتا. اگر ایک استاد کو معاشرہ اس کے منصب کے مطابق عزت، احترام اور معاشی آسودگی نہیں پہنچا پائے گاتو کسی طور یہ ممکن نہیں ہوگا کہ استاد اپنے فرائض دل چسپی اور تندہی سے ادا کرے.کیوں کہ معاش کے مسائل میں الجھا انسان اتنا بٹ جاتا ہے کہ اس کا ذہن کسی صورت بچوں کو وہ علم نہیں دے پاتا جو اس کے ذمہ ہے. لہٰذا اپنی نسلوں کو علم سے زیور سے آرستہ کرنے کے خواب کو عملی شکل تب ہی دی جا سکتی ہے جب ایک معلم تمام فکروں سے آزاد ہو.. اگر استاد آسودہ حال ہوگا تب ہی وہ ملت کے نو نہالوں کی زندگیوں میں ایسے رنگ بھر سکے گا جس کی بدولت چمن وطن جگمگا اٹھے گا.اور قوم کی آنکھوں میں نئے خواب، امنگیں، ولولے جنم لے سکیں گے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں