کتب خانے ایک قومی ضرورت

جب ایک انسان مصروفیاتِ زندگی سے اکتا جاتا ہے، زمانے کے غم اس پر چھا جاتے ہیں اور زمانے کی الجھنوں میں جکھڑ دیا جاتا ہے تو یہ انسان زندگی کی تلخیوں سے بچنے کے لیے مختلف پناہیں ڈھونڈتا ہے۔ اس اکتاہٹ اور پریشانی سے نکلنے کے لیے اپنے آپ کو کسی دوسری طرف مصروف کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کچھ لوگ کھیل تماشے میں مصروف ہو جاتے ہیں تو کچھ لوگ فلمیں دیکھ کر آرام و سکون حاصل کرنے کیلئے لا معنی سعی کرتے ہیں۔ کچھ اللہ کے نیک بندے ذکر اذکار میں مشغول ہو کر سکون حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو کچھ نا سمجھ لوگ نشہ آور اشیاء میں عافیت تلاش کرتے کرتے اپنا قیمتی وقت اور اپنی زندگی گنوا دیتے ہیں۔
ان سب سے ایک الگ قسم کے لوگ جو ہمیشہ فائدے میں رہتے ہیں۔ ایک طرف ان کی پریشانی، سرگردانی و تنگی دور ہو جاتی ہے تو دوسری طرف ان کے احساس، فکر و ذوق میں نکھار و شگفتگی بھی آجاتی ہے۔ دراصل یہ لوگ کتب خانوں کو ذہنی تفریح اور کتاب کو اپنا دوست بنا لیتے ہیں۔کتب خانے ذہنی تفریح کا ایک تعمیری ذریعہ ہوتے ہیں۔ انسان کتابوں کی دنیا میں نہ صرف اپنی پریشانیاں و غم بھول جاتے ہیں بلکہ اس کی سوچ میں وسعت، ذوق میں شگفتگی اور احساس میں نکھار آجاتا ہے۔ اس کا دامن علم کے ساتھ ساتھ فضیلت کے موتیوں سے بھی بھر جاتاہے۔ کتابیں بہترین رفیق ہیں۔ انسان انسان کو فریب دیتا ہے لیکن کتاب کبھی دھوکا نہیں دیتی۔ کتاب کا ایک ایک ورق واضح، کھلا اور سچا ہوتا ہے۔ کتاب زندگی کی تلخیوں میں حلاوت پیدا کرتی ہے۔ کتاب ایک بہترین مشیر، ایک معتمد دوست اور معتبر رہنما ہوتا ہے۔ کتاب علم کے نور اور قلم کی عظمت کا ایک خوبصورت اظہار ہے۔ جو لوگ علم اور قلم کے اصل سرچشمے سے خود کو وابستہ کر لیتے ہیں وہ کبھی بھی گمراہ نہیں ہوتے۔ کتاب کے ساتھ ہم مسلمانوں کا ایک خاص تعلق ہے۔ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلیہٖ وسلم پر جو پہلا ارشاد خداوندی اترا، وہ یہی تھا کہ ”پڑھ” گویا مسلمان دینی نقطہ نظر اور وراثتی اعتبار سے ہی صاحب کتاب اور کتاب دوست ہے اور یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ماضی میں ہم مسلمان انفرادی طور پر مجموعی لحاظ سے عظیم کتب خانوں کے مالک رہے ہیں۔ کتب خانے کسی بھی قوم کی علمی عظمت اور فکری بصیرت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم ایک شاندار تاریخ کے مالک ہیں لیکن اب یہ ماضی کا حصہ بن چکا اور کف افسوس کے علاؤہ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں۔
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھوں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ
(علامہ محمد اقبال )
جس قوم کے افراد علم و فضل کی دولت سے بہرہ ور ہوتے ہیں، وہ سب سے پہلے اپنے باپ دادا کی ان تصنیفات کو کتب خانوں میں محفوظ کر لیتے ہیں جن کو زمانے کی گردش سے خطرہ ہوتا ہے۔ ویسے بھی تاریخ انہیں قوموں کا احترام کرتی ہے جو اپنے علمی سرمائے کی حفاظت کرنا جانتی ہوں۔ جس ملک میں کھیل کے میدان آباد ہوں وہاں کے ہسپتال ویران ہوتے ہیں اور جس ملک میں کتب خانے آباد ہوں تو وہاں کے قید خانے ویران ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہسپتال اور قید خانے سب سے زیادہ آباد نظر آتے ہیں۔ جس کی سب سے بڑی وجہ یقیناً کھیل کے میدانوں اور کتب خانوں کا ویران ہونا ہے۔ کتب بینی کا شوق تو دور دور تک کہیں نظر نہیں آتا۔ ایک اندازے کے مطابق تو یہ حکومت اور ہماری تعلیمی اداروں کی عدم توجہ کا سبب ہے تو دوسری طرف ہمارا تعلیمی نظام جس میں اسٹوڈنٹس سے طوطے کی طرح رٹّے لگاتے ہیں۔ العرض کتب خانے ایک قومی ضرورت ہیں۔ ہمارے اکثر حکمران الیکشن کے دنوں میں وعدے کرتے نظر آتے ہیں کہ ہم ہر ضلع و تحصیل کی سطح پر ایک اسپورٹس گراؤنڈ بنائیں گے۔ جس میں ہر قسم کی سہولیات اور سامان تک مہیا کرنے کے وعدے کئے جاتے ہیں لیکن آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ میں ہر ضلع یا تحصیل کی سطح پر ایک کتب خانے کا قیام عمل میں لاؤں گا۔ جس میں ہر قسم کی سہولیات کے ساتھ ساتھ معیاری کتب دستیاب ہوں گے، مطالعے کے لیے ساز گار ماحول مہیا کروں گا۔ یہ سب خواب جو میں جاگ کر دیکھ رہا ہوں اگر عوام کو دکھائے بھی جائیں تو پورا کون کرے گا؟۔ عوامی نمائندے جو الیکشن کے دنوں میں ایسے نمودار ہوجاتے ہیں جیسے یہ سب ایک غار میں بند تھے اور ابھی علی بابا نے کہا ہو کہ”کھل جا سم سم” اور الیکشن کے بعد ایسے غائب ہو جاتے ہیں جیسے الہ دین کا جن اور پھر وہی عوام جنہوں نے ان کی ہاں میں ہاں ملانے کے لئے اپنے دوستوں سے لڑتے جھگڑتے ہوتے تھے، اگلے پانچ سالوں تک انہی دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر ان کو کوستے رہتے ہیں۔ جو کہ محال ہے کہ اب دوربین سے بھی نظر آئے۔آج تک جتنا ہونا تھا سو ہو چکا لیکن ابھی بھی وقت ہے۔ ابھی بھی ان گمراہ تاریکیوں کا مقابلہ علم کی روشنی سے کیا جاسکتا ہے۔ ہر یو سی، کونسل میں نہ ہو تو کم از کم ہر تحصیل میں ایک ایسی لائبریری ہونی چاہیے، جس میں ہر فن اور ہر موضوع کے اعتبار سے کتابیں اور بنیادی سہولیات موجود ہوں۔ ایسا ہوا تو یہ ہماری تاریخ کا ایک روشن باب کہلائے گا اور ہم مسلمان ایک بار پھر اپنی پرانی روایت، وراثت کتاب دوستی کو زندہ کر سکیں گے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ حکومت اس طرف خصوصی توجہ دے اور ملک کے کونے کونے میں جدید قسم کے کتب خانوں کا قیام عمل میں لایا جائے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں