حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ

پیارے بچو! ہمارے پیارے نبی ﷺ کے ساتھیوں میں سے ایک نہایت دلیر اور بہادر ساتھی ’’ حضرت عمر فاروق  ؓ بھی تھے۔ آپ کا نام عمر اورکنیت ابو حفص تھی ، جبکہ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے آپ ؓ کو فاروق کا لقب عطا کیا تھا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ   ہجرتِ مدینہ سے تقریباً ۴۰ سال قبل مکے میں پیدا ہوئے ۔ آپ ؓ کے والد کا نام خطاب بن نفیل جبکہ والدہ کا نام حنتمہ بن ہاشم تھا۔

حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے انتقال کے بعد مسلمانوں نے انہیں اپنا خلیفہ منتخب کرلیا۔ خلیفہ بننے کے باجود آپ نہایت سادہ زندگی گزارتے تھے،ہمیشہ بن چھنے آٹے کی روٹی کھاتے و ہ بھی کبھی زیتون کے تیل، کبھی سرکہ اور کبھی کسی سبزی کے سالن کے ساتھ۔ ایک بار مکہ اور مضافات میں سخت قحط پڑا تو اس زمانے میں آپ نے زیتون کے تیل ، گھی اور گوشت کا استعمال بالکل بند کردیا تھا۔

لباس کے معاملے میں بھی بہت سادگی اختیار کرتے تھے۔عام طور سے آپ موٹے کھدر کے کپڑے پہنتے تھے، جب وہ پرانے ہوکر پھٹنے لگتے تو ان میں پیوند لگا لیتے۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے حضرت عمرؓ کے کپڑوں میں بائیس پیوند لگے دیکھے۔

آپ ؓ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو عزت اور شان و شوکت عطا کی ہے وہ شاندار کپڑوں اور عالی شان مکانا ت کی وجہ سے نہیں بلکہ اسلام کی وجہ سے ہے۔

ایک دفعہ ملک روم کا سفیر مدینہ آیا اور اس نے لوگوں سے دریافت کیا کہ ’’تمہارے خلیفہ کا محل کہاں ہے؟ ‘‘ لوگوں نے کہاکہ’’ ہمارے خلیفہ محل میں نہیں رہتے بلکہ عام سے مکان میں رہتے ہیں ، اس وقت وہ شہر سے باہر کی جانب گئے ہیں تم ان کو دیکھو گئے تو پہچان لوگے، ان کے ایک ہاتھ میں درہ ہوگا، موٹے کھدر کے کپڑے پہن رکھے ہونگے۔ ‘‘ سفیر شہر کے باہر کی جانب چل دیا، کچھ دور جاکر اس نے دیکھا کہ مسلمانوں کے خلیفہ ایک درخت کے نیچے اینٹ پر سر رکھ کر سورہے ہیں، آس پاس کوئی پہرے دار نہیں ہے۔ یہ دیکھ کر اس کی زبان سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے’’ آپ  اپنے لوگوں کے سچے خیر خواہ ہیں اسی لیے آپ لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتے ہیںاور آپ کو کسی سپاہی اور پہرے دار کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘

آپ ؓ بہت دیانت دار انسان تھے ، خاص طور سے بیت المال کی چیزوں کے استعمال میں تو بہت زیادہ محتاط رہتے تھے۔ ایک دفعہ آپ ؓ نے دیکھا کہ بازار میں ایک نہایت موٹا اور صحت مند اونٹ بیچا جارہا ہے، دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ آپ ؓ کے صاحب زادے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کا ہے، انہوںبتایا کہ ’’ ابا جان یہ اونٹ میں نے اپنی ذاتی رقم سے خریدا تھا ، پھر میں نے اس کو سرکاری چراگاہ میں چھوڑ دیا تھا، اب یہ خوب صحت مند ہوگیا ہے تو اس کو بیچنا چاہتا ہو ں تاکہ اس کے اچھے دام ملیں‘‘ ، آپ ؓ نے فرمایا کہ ’’ یہ اونٹ سرکاری چراگاہ میں پلا اور بڑھا ہے اس لیے اس کو بیچ کر تم صرف اپنی اصل رقم لو اور باقی منافع بیت المال میں جمع کرائو‘‘ ۔

آپ ؓ کے اقوال میں سے دو اقوال یہاں پیش کیے جارہے ہیں۔

آپ ؓ نے فرمایا کہ ’’ بزرگ بننے کے لیے علم حاصل کرو‘‘ ۔  ’’ آج کا کام کل پر نہ چھوڑو ‘‘۔

۲۷ ذی الحج ۲۳ہجری کو آپ کے غیر مسلم غلام ابو لؤلو فیروز نے آپ ؓ پر فجر کی نماز کے وقت خنجر سے حملہ کرکے زخمی کردیا اور یکم محرم ۲۴ہجری کو شہید ہوگئے۔آپ ؓ کو ان کی وصیت اور حضرت عائشہ ؓ کی اجازت سے نبی اکرم ؐ اور حضرت ابوبکر ؓ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔

حصہ
mm
سلیم اللہ شیخ معروف بلاگرہیں ان دنوں وہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیچرز ٹریننگ بھی کراتے ہیں۔ درس و تردیس کے علاوہ فری لانس بلاگر بھی ہیں اور گزشتہ دس برسوں سے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر مضامین لکھ رہے ہیں۔ ...

1 تبصرہ

  1. جب بھی مذہب اسلام اور شخصیات سے متعلق کوئ واقعہ بیان کیا جائے تو اسکے ساتھ کتاب کا حوالہ ضرور دینا چاہئے۔ اسطرح اپکی بات کو ذیادہ وقعت حاصل ہوگی۔ مثلا یہ حضرت عمر فاروق کے 22 پیوند والا واقعہ ۔۔۔جزاک اللہ۔۔۔

جواب چھوڑ دیں