سہارا بننے کا فن سیکھئے

زندگی کے بے لاگ اور بے موقع مصائب و آلام سے چھٹکارہ دلوانے والی،ذہنی اذیتوں اور امتحان گاہ کے گھٹن ومشکل قواعد سے خلاصی دلوانے والی، روح انسانی کو پیش حالت جنگ سے نجات دلوانے والی، ایک موت ہے جس نے ہر ایک سے ملاقات کرنی ہے. کبھی وہ بچے پر شفقت کھاتی ہے. کبھی نوجوان مرد کی جوانی سے حسد کرتی ہے. کبھی عورت پر فریفتہ ہوتی ہے. تو کبھی بوڑھے کے کانپتے ہاتھوں اور دھندلی نگاہوں پر ترس کھاتی ہے اور اپنے وصال سے اس کو درپیش تمام حالات سے مبرا کرتی ہے. حدیث پاک کا مفہوم ہے ”مومن ایک جسم کی مانند ہے اگر اس کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو باقی حصہ اس کے درد کو محسوس کرتا ہے” موت نے جب ہر انسان سے وصال کا وعدہ کر رکھا ہے تو دستورِ زمانہ یہ ہے کہ بقیہ انسان میت کے لواحقین وپسماندگان کو صبر کی تلقین کرتے ہیں اور حادثہ ء موجودہ کو رضائے رب سمجھ کر رضا کا مشورہ دیتے ہیں. دستور تو اب بھی قائم ہے مگر اس میں ایسی ترامیم کر لی گئی ہیں کہ جن کے بعد اس قانون کا ڈھانچہ سلامت نہیں رہا. ہم اپنی ہمدردی اور شفقت کا اظہار کرتے ہیں اور لواحقین کو صبر کرنے کا عندیہ دیتے ہیں اسے تعزیت کہتے ہیں. تعزیت مشروع اس لیے ہوئی ورثاء پر جو اچانک مصیبت آ پڑی ہے اور جس حادثہ سے وہ دوچار ہوئے ہیں ہم اس نازک لمحے میں ان کا سہارا بنیں اور ہر طرح کی مدد اپنی استطاعت کے مطابق بروئے کار لائیں. مگر ہمارا رویہ پسماندگان کے ساتھ نہایت برا اور تکلیف دہ ہوتا ہے. ہر آنے والا گویا انویسٹی گیشن آفیسر ہوتا ہے کہ آتے ہی سوالوں کا انبار کھول کر مغموم کے زخموں پر نمک چھڑکتا ہے.کیا ہو گیا تھا؟ تو آپ ہسپتال کیوں نہ لے گئے؟ فلان ڈاکٹر کو کچھ معلوم ہی نہیں آپ نے وہاں جا کر غلطی کی. جس ڈاکٹر کا میں نے حوالہ دیا تھا وہاں چلے جاتے تو یہ نہ ہوتا. اور نہ جانے کتنے گلے سڑے مشورے اور فلسفیانہ سوالات ان کے دلوں کو چھلنی کرتے ہیں. اس نازک مرحلے میں سہارا بننے کے بجائے ورثاء کو تنقید کی تلوار کے نیچے رکھا جاتا ہے. آنے والے کو یہ علم نہیں کہ اس سے زیادہ مرحوم کے ورثاء خیر خواہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ اپنے پیارے کے ساتھ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں. مفت میں اپنے فلسفے کا مظاہرہ کرتے ہیں اور نجومیت کی دھاک بٹھانے کے لئے اپنے پھینکے ہوئے اندازے کے تیروں کو دکھانا اور گنوانا شروع کرتے ہیں. صرف اس پر بس نہیں بلکہ میت کے گھر صبح سے لے کر رات گئے تک لوگوں کا آنا جانا, رونا دھونا, اور آہ و بکا جاری رہتا ہے. کیا ورثاء انسان نہیں؟ انہیں حق نہیں پہنچتا کہ وہ ذرا سستا لیں. بے دھڑک جب میں اٹھایا چل دیے. تکلیف دینا بہت بڑا گناہ ہے. بسا اوقات سامنے والے کو اتنی تکلیف ہوتی ہے کہ وہ دل سے بد دعائیں دیتا ہے اور یہ جان لینا چاہیے کہ مظلوم کی بد دعا اور خدا کے عرش کے درمیان کوئی ستر نہیں. یہ نہ ہو کہ بے خبری میں ہم کسی کی بد دعا کا شکار ہو جائیں. ہمیں اس نقصان اور نقطہ کے پیش نظر ایک وقت مقرر کرنا چاہیے کہ یہ وقت تعزیت کا ہے تا کہ مرحوم کے ورثاء اپنی تمام تر مصروفیات سے فارغ ہو کر آنے والے مہمان کو خندہ پیشانی کے ساتھ مل سکے اور آنے والا کسی گناہ کو لے کر رخصت نہ ہو. نماز جنازہ کے وقت لوگوں کو بتلایا جاسکتا ہے کہ فلاں وقت تعزیت کا ہے.تاکہ تمام لوگ اپنی مصروفیات کو بھی سمیٹ لیں اور مغموم بھی اپنے آرام کا وقت نکال سکیں. علاوہ ازیں ہمارے معاشرے میں مرحوم کے گھر سے مال کھانے کا رواج بھی بہت عام ہے. جو مہمان دور دراز سے تشریف لائیں ہوں وہ تو مستثنیٰ ہیں مگر اہل علاقہ کو ہرگز نہیں جچتا کہ وہ میت کے گھر سے کچھ کھائیں. ستم در ستم یہ کہ کھانے کا انتظام کرنے والے مرحوم کے ترکہ میں یوں تصرف کرتے ہیں جیسا کہ اپنا مال ہو. مرحوم کے بعد اس کے تمام ورثاء اور اگر قرض خواہ ہیں تو وہ بھی اس مال میں شریک ہیں. انہیں سوچنا چاہیے کہ جس مال کو وہ بے دریغ خرچ کر رہے ہیں کہیں اس میں دوسروں کی حق تلفی تو نہیں ہو رہی؟ اپنی ناک رکھنے کے لئے دوسروں کے منہ سے نوالہ چھیننا کہاں کا انصاف ہے؟ خدارا اگر کسی کے ساتھ ہمدردی بھی کر رہے ہوں تو یہ ضرور سوچ لیا کریں کہ کہیں در پردہ گناہ کا ارتکاب تو نہیں کر رہے؟ تاکہ ثواب کے بجائے عتاب ہمارا مقدر نہ بنے

حصہ

جواب چھوڑ دیں