اسلامی نظام ہی کیوں؟

کہتے ہیں کہ ایک نہایت غریب لیکن بے حد ذہین شخص نے ایک کھیل ایجاد کیا جس کو آج شطرنج کہا جاتا ہے اور کھیلنے والوں کو شاطر۔ فی الحال اس کھیل کو کھیلنے اور سمجھنے والا وہ واحد انسان ہی تھا لیکن وہ اس کے سارے قواعد و ضوابط طے کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ کھیل جس معیار کا ہے اس کا کھیلنا بادشاہوں پر ہی سجے گا چنانچہ اس نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ یہ کھیل اپنے ہی ملک کے بادشاہ کو سکھایا جائے۔ بات تو بہت مشکل اور ناممکن سی تھی لیکن اس نے یہی سوچا کہ مقدر آزمانے میں حرج ہی کیا ہے۔ بادشاہ کے دربار میں پہنچ کر اسے اپنے اس ایجاد کردہ کھیل کے متعلق آگاہ کیا۔ پہلے تو باد شاہ نے کوئی دلچسپی نہیں لی اور اس سے کہا کہ یہ بھی کوئی کھیل ہوا۔ تم مجھے کوئی نہایت فضول اور بیوقوف انسان لگتے ہو۔ یہ بات گوکہ اس شخص کی حوصلہ شکنی کیلئے کافی تھی لیکن اس نے ہمت نہ ہارتے ہوئے کسی نہ کسی طرح بادشاہ کو کھیل سیکھنے پر راضی کر ہی لیا۔ بادشاہ جوں جوں کھیل سے واقف ہوتا گیا اس کی دلچسپی بڑھتی گئی۔ کچھ عرصے میں وہ اس کھیل میں ماہر ہوگیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ واقعی یہ کھیل تو شاہوں کے ہی شایان شان ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ بادشاہ کی اگاڑی اور گھوڑے کی پچھاڑی سے ہمیشہ بچ کر رہنا چاہیے لیکن وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اگر بادشاہ خوش ہوجائے تو تقدیر مہربان بھی ہو جایا کرتی ہے چنانچہ کھیل کی اونچ نیچ سمجھ جانے کے بعد وہ اس غریب شخص پر مہربان ہو گیا اور کہا کہ مانگو کیا مانگتے ہو۔ اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر عرض کیا کہ اے بادشاہ محترم بہت غریب آدمی ہوں، میری کیا مجال کہ اپنی اوقات سے بڑھ کر طلب کروں۔ آپ بس اتنی مہربانی کریں کہ اس کھیل کی جو بساط ہے اس میں صرف 64 خانے ہیں۔ آپ اتنا کریں کہ پہلے خانے میں چاول کا ایک دانہ رکھ دیں اور پھر اس سے اگلے ہر خانے میں مقدار دو گنی کرتے جائیں یہاں تک کہ سارے خانے بھر جائیں۔ یعنی پہلے میں 1، دوسرے میں 2، تیسرے میں 4 اور اسی طرح ہر اگلے خانے میں یہ مقدار پہلے خانے سے دو گنا ہوتی جائے۔ غریب آدمی ہوں میرے گھروالے اور بیوی بچے آپ کو دعا دیں گے۔ باد شاہ جو اب اس کو بہت ذہین اور فطین سمجھنے لگا تھا، اس کی یہ بات سن کرطیش میں آگیا لیکن کیونکہ وہ وعدہ کر چکا تھا کہ جو طلب کیا جائے گا عطا ہوگا اس لئے غصے کو ضبط کرتے ہوئے بس اتنا ہی کہا کہ میں نے تم سے بیوقوف انسان دنیا میں نہیں دیکھا۔ بادشاہ نے اپنے گودام کے انچارج کو بلایا اور اس بیوقوف کی فرمائش سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کو اس کی فرمائش کے مطابق چاول حوالے کرو اور اس کو اس شہر سے باہر پھینک آؤ کیونکہ میں ایسے بیوقوفوں کا وجود بھی اپنے دارالسلطنت میں برداشت نہیں کر سکتا۔ گودام کے انچارج نے اس شخص کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے ہمراہ لے گیا۔ اس کا بھی یہی خیال تھا کہ چاول مٹھی بھر سے کیا زیادہ ہونگے۔ کوئی گھنٹے دو گھنٹے بعد گودام کا انچارج ہانپتا کانپتا اور دوڑتا بھاگتا، سر پیٹتا ہوا آیا اور باد شاہ سے کہنے لگا کہ بادشاہ سلامت غضب ہو گیا، جتنے چاول اس شخص نے طلب کئے ہیں وہ تو پوری مملکت میں بھی نہیں ہیں۔ اس کی اس بات پر بادشاہ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور اس نے خیال کیا کہ شاید گودام کے انچارج کا دماغ ہی چل گیا ہے لیکن جب گودام کے انچارچ نے حساب کتاب سامنے رکھا تو بادشاہ کا دماغ ہوا میں اڑنے لگا اس لئے کہ 64 ویں خانے میں پہنچتے پہنچتے چاولوں کا وزن تقریباً 1 کھرب 35 ارب ٹن بن رہا تھا۔ جب باد شاہ کا دماغ اپنے جگہ آیا تو بادشاہ نے اس شخص کو بہت غور سے دیکھا اور بے اختیار کہا کہ تم تو بہت ہی ذہین انسان ہو اور یوں اس کو اپنا وزیر خاص بنالیا۔

دنیا میں تنہا کوئی منزل بھی سر نہیں کی جاسکتی۔ کسی بھی مقصد کے حصول کیلئے یہ بات بے حد ضروری ہے کہ ہمنواؤں اور ہم خیالوں کی ایک ٹیم بنائی جائے۔ یہ ٹیم یونہی نہیں بن جایا کرتی بلکہ اس ٹیم کو تیار کرنے کیلئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ افراد کو قائل کیا جائے۔ کوئی فرد بھی آپ کی بات کو اس وقت تک ماننے کیلئے تیار نہیں ہو سکتا جب تک آپ اپنی بات کی سچائی اس پر واضح نہ کردیں یا جو مقاصد آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ مقاصد دوسروں پر روز روشن کی طرح عیاں نہ ہو جائیں۔ ایک شرط اور بھی بہت ضروری ہے اور وہ ہے آپ کی اپنی ثابت قدمی اس لئے کہ جب بھی آپ کسی کے سامنے اپنی بات رکھیں گے تو وہ یونہی آپ کی بات کو ماننے کیلئے تیار نہیں ہو جائے گا بلکہ اگر آزمانے کی ضرورت ہوگی تو آزمائے گا بھی اور جاہل ہوگا تو آپ کی راہیں بھی مسدود کریگا، پریشان کرے گا، ایذا پہنچائے گا اور ممکن ہے کہ آپ کی جان تک لینے کیلئے آمادہ ہوجائے۔ تبلیغ میں ایسے مراحل ہر انسان کے سامنے آتے ہیں اور اسی طرح آپ کی بات مان لینے اور جان لینے والوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ ایسے مواقعوں پر اگر آپ ہی کے پائے ثبات میں لغزش آجائے اور آزمائش کے اس مرحلے پر آپ ہی اپنے مقصد سے پھرجائیں تو وہ لوگ جو آپ کے پیچھے پیچھے ہیں وہ آپ سے کہیں پہلے اپنے راستے بدل لیں گے اور یوں جس منزل تک آپ پہنچنا چاہ رہے ہیں اور جن مقاصد کا حصول آپ کے پیش نظر ہے، اسے حاصل نہیں کرپائیں گے۔ اسی لئے قرآن میں فرمادیا گیا ہے کہ حق کی مسلسل تاکید اور صبرواستقامت کا مسلسل مظاہرہ ہی وہ چابی ہے جس کی مدد سے درِ مراد کھولا جاسکتا ہے بصورت دیگر خسارہ ہی خسارہ ہے۔

یہی وہ بات ہے جو امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے دمام میں پاکستانی کمیونٹی کے اجتماع اور احباب جمعیت و بزنس کمیونٹی کی طرف سے دیے گئے ظہرانے کے شرکاء سے خطا ب کرتے ہوئے کہی۔ انھوں نے کہاکہ 70 سال میں عوام نے نئے نئے نعروں سے آنے والی سیاسی جماعتوں اور فوجی آمریتوں کو بار بار آزمایا ہے مگر آج بھی ملک کا سیاسی، معاشی، تعلیمی اور عدالتی نظام وہی ہے جو انگریز چھوڑ کر گیا تھا۔ یہ عام آدمی کے استحصال کا نظام ہے۔ کبھی روٹی کپڑا مکان، کبھی خوشحال پاکستان، کبھی سب سے پہلے پاکستان اور اب تبدیلی اور نیا پاکستان کے نعروں اور وعدوں سے ووٹ لینے والوں نے اپنا کوئی وعدہ پورا نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، ایم کیو ایم اور پرویز مشرف کے لوگ شامل ہیں۔ حکومت کے پاس کوئی معاشی اور تعلیمی اور صنعتی نظام نہیں۔ ہم نے چپ سادھ کر حکومت کی پالیسیوں کو دیکھا ہے۔ ہم چاہتے تھے کہ اگر حکومت بہتری کی طرف قدم اٹھائے گی تو ہم بھی اسے شاباش دیں گے مگر آٹھ ماہ گزرنے کے بعد حکومت نے معیشت کواور بھی زیادہ خراب کردیا ہے۔ قرضوں کا بوجھ اور آئی ایم ایف کی مزید بیڑیاں قوم کو پہنائی جارہی ہیں۔

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ایک معمولی سے کھیل کیلئے بھی اگر ذہن سازی نہیں کی جائے تو اسے مقبول عام نہیں بنایا جاسکتا تو پوری قوم کو جو صرف اور صرف ایمان اور اسلام سے سرفراز ہے ان کو کسی دوسرے نظام کیلئے تیار کرنا کتنا مشکل ہے۔ اس لئے انھوں نے جو بات سب سے زیادہ زور دے کر کہی وہ یہی تھی کہ پاکستان کا بچہ بچہ اسلام کے جذبے سے سرشار ہے۔ اسلام کے جذبے کے سامنے اس کی جان، مال، عزت و آبرو کی کوئی حیثیت نہیں۔ جب یہ ملک اسلام کے نام پر ہی حاصل کیا گیا ہے تو پھر کسی دوسرے نظام کیلئے ذہن سازی میں وقت برباد کرنا اور قوم کو اس کیلئے تیار کرنا سراسر ایک حماقت ہے اور یہ پاکستان کے مقصدِ وجود کے خلاف بھی ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس ملک میں وہی نظام رائج کیا جائے جس کیلئے قوم کا ذہن بھی تیار ہے اور جس کیلئے اس قوم نے قربانیاں بھی دی ہیں۔ اگر اس کے خلاف ہوا تو تباہی و بربادی کے علاوہ اور کچھ حاصل نہ ہو سکے گا۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں