تعلیم اور طالبعلم

طالبعلم کا دماغ کوئی ڈبا نہیں کہ جو چاہو، ٹھونستے چلے جاو۔طالبعلم تو چراغ ہے جسے تعلیم سے روشن کرنا ہے!
پاکستان میں تعلیم کی بہتری کیلئے جتنے بھی تجربات ہوتے ہیں،وہ باہر سے آتے ہیں۔ یہاں انہیں صرف نا فد کیا جاتا ہے۔ میٹرک سے لے کر ایم اے تک پورا تعلیمی نظام گورے کا بنا ہوا ہے جسے ہم نے بلاچون چرا اپنایا ہوا ہے۔ ہماری تقریباً تمام نصابی کتابیں سوائے اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کے،سب کی سب گورے کی لکھی ہوئی ہیں یا ان کی لکھی کتابوں کا چربہ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گورے نے محنت کر کے کتابیں لکھی ہیں جبکہ یہاں کوئی محنت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ہمیں عادت پڑ چکی ہے کہ کوئی بنا بنایا مواد مل جائے اور اسے copy paste کر دیا جائے۔ اس وقت دنیا میں جو تعلیمی نظام رائج ہے وہ بی ایس ہے، یعنی بی ایس کی ڈگری،ماسٹرز کی ڈگری کے برابر ہوگی۔یہاں پر بچہ ماسٹر بھی کرلے پھر بھی وہ نالائق ہی رہتا ہے۔ اس کی حالت میں تبدیلی نہیں آتی۔ ہمارے تعلیمی نظام میں کورس بہت زیادہ شامل کردیا گیا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں وقت بہت کم ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اساتذہ کرام بھی پوری توجہ کے ساتھ نہیں پڑھا پاتے۔کامیابی پر تحقیق کے مطابق،جتنے کامیاب کاروباری لوگ ہیں،وہ زیادہ تر پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ آخر ان کے پاس کون سی وجہ یا نسخہ ہے جس کی وجہ سے وہ اتنے امیر ہوگئے؟ دنیا کا نظام قوانیں کے تحت چل رہا ہے۔کائنات کے مالک نے قانون بنا کر ہمیں دے دئیے ہیں۔کامیابی کے بھی کچھ اصول ہیں اور ناکامی کے بھی کچھ اصول ہیں۔ ہرچیز کسی تناسب سے ہورہی ہے۔
ہم پڑھتے ہیں،اسکول جاتے ہیں، کالج جاتے ہیںِِِِِِ،اکیڈمی جاتے ہیں، کتابیں کھولتے ہیں،بنے بنائے نوٹس لیتے ہیں۔ جب اچھا خاصا وقت گزر جاتا ہے تو ہم پڑھے لکھے جاہل بن چکے ہوتے ہیں۔ یہ بڑی خوفناک بات ہے۔ اگر ترقی کرنی ہے تو باہر کی آوازوں کو بند کرنا پڑے گا۔ باہر کی آوازوں کا مطلب ہے کہ انجینئر بنو، ڈاکٹر بنو، پائلٹ بنو۔ ایک لمحے کیلئے یہ سب چھوڑا کر فقط اپنے اندر کی آواز کو سنئے۔ وہ آواز خاموشی میں آئے گی۔ ہزار میل کے سفر کی ابتدا ایک قدم سے ہوتی ہے، مگر اہم بات یہ ہے کہ جو قدم آپ نے اٹھایا ہے اس کی سمت کیا ہے، یعنی آپ کی منزل کچھ ہے اور آپ نے اپنا قدم کسی اور سمت میں اٹھایا ہے۔ یوں،آپ ہزار میل بھی چلیں گے تو کبھی اپنی منزل پر نہیں پہنچ سکتے۔ اگر سمت ٹھیک ہے تو پہنچنا آسان ہوتا ہے۔کیا فقط رٹے لگا لینا ،چیزیں یاد کر لینا، نمبر لے لینا۔۔۔ آپ کی زندگی کی بہت بڑی کامیابی بن جائے گا؟ ایسا نہیں ہوگا۔ پھول جیسا ہو،وہ اگر دیکھنے میں خوبصورت اور خوشبودار نہیں ہے تو پھر وہ پھول نہیں ہے۔ جس چیز کی جو صفت ہوتی ہے، اگر اس صفت کو چیز سے نکال دیا جائے تو پھر وہ چیز،چیز نہیں رہتی۔ اسی طرح انسان میں بھی ایک صفت ہے اور وہ صفت خودشناسی ہے۔ دنیا میں ہر چیز کا مقصد ہے تو پھر آپ کا بھی دنیا میں آنے کا کوئی مقصد ہے۔ آپ دنیا میں آئے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کی ضرورت نہ ہو۔ بغیر ضرورت کے کوئی چیز نہیں ہوتی۔ کائنات میں آپ کے وجود کا ہونا بغیر کے مقصد کے کیسے ہوسکتا ہے؟ آپ کی زندگی میں مقصد کے آنے سے آپ کی زندگی مکمل ہوجاتی ہے۔ ڈاکٹر بننا، پائلٹ بننا، انجینئر بننا،نوکری کرنا وغیرہ یہ سارے جزوی مقاصد ہیں، یہ مکمل زندگی کا مقصد نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں نوکروڑ نوجوان ہیں جن کو اس وقت سب سے زیادہ کامیابی کی ضرورت ہے۔ہمارا ملک دنیا کے ان ملکوں میں شمار ہوتا ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جس ملک کے پاس یہ خزانہ ہو، وہ سب سے امیر ملک ہے۔ یہ سونے سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔ ہاں،اگر اس کی کوئی سمت ہو۔تعلیم اگر آپ کے اندر ایک رتی کے برابر بھی فرق نہ پیدا کرے تو پھر ایسی تعلیم، تعلیم نہیں ہے۔جب تک آپ قابل نہیں بنیں گے، تو جیسے ہی بوجھ اٹھائیں گے، گر جائیں گے۔جب قابل ہو جائیں گے تو پھر بڑے بڑے بوجھ اٹھانے کے قابل ہو جائیں گے۔ ضرور پڑھیں،مگر ساتھ انجوائے بھی کریں۔ لوگوں کے ساتھ تعلقات بھی بنائیں، عبادت بھی کریں اور اپنے شوق کو بھی برقرار رکھیں۔
آپ کچھ چیزوں کو تھوڑا وقت دینا شروع کیجیے۔ آپ میں بہتری آنا شروع ہوجائے گی۔ایک طالبعلم کے چہرے پر خوشی ہونی چاہیے۔اسے اداس نہیں ہونا چاہیے۔دل زندہ رہنا چاہیے۔آدمی کو اندرسے خوش رہنا چاہیے۔ اس کے پاس بات کرنے کو نئے نئے ٹاپک ہوں۔اسے چلنا،کھانا پینا اور پہننا آتا ہو۔جب آپ ان کاموں کو اپنی زندگی کا حصہ بناتے ہیں تو پھر آپ کے خواب بننا شروع ہوجاتے ہیں۔جب خواب بننا شروع ہوجاتے ہیں توساتھ ہی زندگی بدلنا شروع ہو جاتی ہے۔ زندگی کو بہتر بنانے کیلئے اپنی سوچ کو بڑا رکھیے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں