مابہ سے سلمانؓ فارسی تک

                مدینہ میں ایک اضطرابی کیفیت ہے۔ وجہ یہ ہے کہ غزوہ احد کے بعد سے کفار مکہ مسلسل اس کوشش میں ہے کہ وہ شمع رسالت کو نعوذباللہ گل کردیں۔اسی لیے اب انہوں نے ایک بار پھر مسلمانو ں سے جنگ کی ٹھان لی ہے، لیکن اس بار وہ تنہا  نہیں آرہے۔ اس بار قریش کے ساتھ عرب کے دیگر بت پرست قبائل  اور یہودی بھی ان کے ساتھ شامل ہیں۔اس ساری سازش کے پیچھے در اصل یہودیوں کے قبیلہ بنو نضیر کا ہاتھ تھا جنہیں نبی اکرم ﷺ نے ان کی بد عہدیوں کی وجہ سے مدینہ بدر کردیا تھا۔

                نبی اکرم ﷺ کو اپنے جانثاروں کے ذریعے اس کارروائی کی اطلاع مل چکی ہے اور آپ ؐ نے صحابہ کرام ؓ کو مشاورت کے لیے طلب کیا ہے۔ صحابہ کرام ؐ اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے مختلف مشورے دے رہے ہیں، اسی دوران ایک صحابی رسول عرض کرتے ہیں کہ ’’ اے اللہ کے رسولؐ!  فارس میں جب ہم لوگوں کا محاصرہ کیا جاتا تھا تو ہم خندق کھود لیا کرتے تھے۔‘‘ مقصد یہ تھا کہ مدینہ میں بھی خندق کھو د کر دفاعی جنگ لڑی جائے۔پیارے نبی ؐ کو یہ تجویز بہت پسند آئی اور انہوںنے اس تجویز پر عمل کرتے ہوئے مدینہ کے شمال مغرب میں ایک خندق کھودنے کا حکم دیا۔ اس خندق کے باعث مسلمانوں کو بہت فائدہ ہوا اور کفار ویہودکے اتحادی لشکر کو بے نیل و مرام واپس جانا پڑا۔پیارے نبی ؐ کو یہ تجویز دینے والے صحابی حضرت سلمان فارسی تھےؐ جنہیں بارگاہِ رسالت سے سلمان الخیر کا لقب عطا ہوا تھا۔

                حضرت سلمان فارسی ؓ کا تعلق فارس (ایران ) سے تھا۔آپؓ ایران کے مشہور شہر اصفہان کے ایک گائوں روزبہ میں پیدا ہوئے۔ اسلام لانے سے قبل آپ ؓ کا نام مابہ تھا۔ آپ ؓ کے والد کا نام بوذخشان تھا۔آپ ؓ اسلام قبول کرنے سے پہلے زرتشت مذہب ( مجوسی) کے پیروکار تھے ، لیکن حق کی تلاش میں فارس سے نکلے، اپنا آبائی مذہب مجوسیت چھوڑ کر عیسائیت اختیار کی اور بالآخر نبی اکرم ؐ کی بارگاہ میں پہنچ کر اسلام قبول کرلیا۔

                حضرت سلمان فارسی ؓ کی زندگی حق کی تلاش اور جستجو سے عبارت تھی۔آپ کے قبول اسلام کا واقعہ بھی بہت دلچسپ اور اثر انگیز ہے۔ آپ کا تعلق مجوسیت سے تھا لیکن آپ کے دل میں ایک چنگاری روشن تھی جو انہیں بے چین رکھتی تھی اور وہ سوچتے تھے کہ یہ آگ جسے ہم خود روشن کرتے ہیں یہ ہمارا خدا تو کبھی نہیں ہوسکتی۔آپ کے والد بوذخشان  ایک بڑے آتش کدے کے مہتمم بھی تھے۔ ایک دن انہوں نے حضرت سلمان سے کہا کہ آج میں کھیتوں میں نہیں جاسکوں گا اس لیے آج کھیتوں کی دیکھ بھال تمہارے ذمے ہے۔ حضرت سلمان ؓ نے حامی بھر لی اور کھیتوں کی طرف چل دیے، راستے میں عیسائیوں کا ایک گرجا نظر آیا۔ آپ وہاں چلے گئے، ان کی عبادت کے طریقے سے بہت متاثر ہوئے اور اسی دن اپنا آبائی مذہب چھوڑ کر عیسائیت اختیار کرلی۔

                ان کے والد کو جب اس بات کا علم ہوا توانہیں گھر میں قید کرلیا اور ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پائوں میں بیڑیاں ڈال دیں، لیکن آپ کسی نہ کسی وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے اور ایک قافلے کے ساتھ شامل ہوکر شام پہنچ گئے۔لیکن حق کی تلاش کا یہ سفر یہیں نہیں رکھا، آپ ؓ حق کی تلاش میں قریہ قریہ، ملکوں ملکوں بھٹکتے رہے، شام سے موصل(عراق)، وہاں سے نصیبین (ترکی) اور پھر عموریہ پہنچے۔عموریہ پہنچ کر آپؓ وہاں کے بڑے پادری کی خدمت میں رہنے لگے۔ اس پادری کا جب وقتِ اجل آیا تو اس نے حضرت سلمان ؓ کو بلا یا اور کہا کہ ’’ میرے بیٹے! اب میں اس دنیا سے رخصت ہوتا ہوں، ۔۔۔۔۔اب نبی آخرالزمان کے ظہور کا وقت قریب آ پہنچا ہے، جو صحرائے عرب سے اٹھ کر دینِ حنیف کو زندہ کرے گا اور اس زمین کی طرف ہجرت کرے گا جہاں کھجوروں کی کثرت ہوگی۔اس کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی۔وہ ہدیہ قبول کرے گا لیکن صدقہ کو اپنے لیے حرام سمجھے گا۔ تم جب اس نبی پاک کا زمانہ پائو تو اس کی خدمت میں ضرور حاضر ہونا۔‘‘

                اس مردِ درویش کے انتقال کے بعد حضرت سلمان اسی جستجو میں رہنے لگے کہ کوئی قافلہ حجاز کی طرف جارہا ہوتو اس میں شامل ہوجائیں۔ آپؓ کی جستجو رنگ لائی اور قبیلہ بنو کلب کا ایک قافلہ عموریہ سے گزرا۔ آپ اس قافلے میں شامل ہوگئے لیکن راستے میں قافلے والوں کی نیت خراب ہوگئی او رجب یہ قافلہ وادی القریٰ پہنچا تو  انہوں نے حضرت سلمانؓ کو یہودیوں کے ہاتھ فروخت کردیا۔آپ نے اس کو اپنی قسمت سمجھ لیا لیکن اس کے باجود تلاشِ حق کی جو چنگاری آپ کے سینے میں روشن تھی ، وہ موجود رہی۔ ایک دن اس یہودی کا یک رشتہ دار جو کہ یثرب( مدینہ) کا رہنے والا تھا، وہ اس سے ملنے آیا۔ اس کو ایک غلام کی ضرورت تھی۔ اس نے حضرت سلمان ؓ کے مالک سے انہیں خرید لیا اور یثرب لے آیا۔

                یہاں جب آپ ؓ نے کھجور کے درختوں کے جھنڈ دیکھے تو آپ سمجھ گئے کہ اب تلاش ختم ہونے والی ہے۔ایک دن آپ ایک درخت پر چڑھے کام کررہے تھے کہ ایک یہودی شہر سے بھاگتا ہوا آیا اور کہنے لگا۔

ایک دن آپ ایک درخت پر چڑھے کام کررہے تھے کہ ایک یہودی شہر سے بھاگتا ہوا آیا اور کہنے لگا’’ خدا بنو قیلہ کو غارت کرے، سب کے سب قبا میں ایک شخص کے پاس جارہے ہیں جو مکہ سے آیا ہے اور خود کو نبی کہتا ہے۔‘‘ یہ سنتے ہیں حضرت سلمان ؓ بد حواس ہوکر درخت سے اتر آئے اور اس شخص سے کہنے لگے کہ ’’ کیا کہا تم نے؟ ذرا پھر سے تو کہنا۔‘‘ ان کا آقا بہت غصہ ہوا اور ان ایک تھپڑ ما ر کر کہا کہ تم جاکر اپنا کام کرو۔

                حضرت سلمان اس وقت تو خاموش ہوگئے لیکن ایک دن آپ ؓ کچھ کھانے کی چیزیں لے کر پیارے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہ چیزیں صدقہ کے طور پر پیارے نبی ﷺ کو پیش کردیں۔ پیارے نبی ﷺ نے وہ چیزیں اپنے صحابہ میں تقسیم کردیں لیکن خود کچھ نہ لیا۔ اگلے دن دوبارہ کچھ چیزیں لے حاضر ہوگئے اور اب انہوں کھانے پینے کی چیزیں بطور ہدیہ پیارے نبی کی خدمت میں پیش کردیں۔ پیارے نبی ؐ نے خود میں وہ چیزیں کھائیں اور صحابہ ؓ میں بھی تقسیم کردیں۔ حضرت سلمان ؓ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا کیوں کہ آخری نبی کی بتائی دو نشانیاں تو پوری ہوگئیں تھیں اب آخری نشانی یعنی مہر نبوت کو دیکھنا رہ گیا تھا۔چند دنوں بعد آپؓ کو پتا چلا کہ نبی اکرم ﷺ ایک جنازے کے ساتھ بقیع غرقدتشریف لے گئے ہیں۔ حضرت سلمان ؓ بھی وہاں پہنچ گئے اور پیارے نبی ﷺ کو سلام کرکے آپؐ کے پیچھے کھڑے ہوئے کہ موقع ملے تو مہر نبوت کا مشاہدہ کرلوں۔ پیارے نبی  ؐ نے آپ ؓ کی کیفیت کو بھانپ لیا اور اپنی پشت سے کپڑا سرکا دیا۔ حضرت سلمان فارسی ؓ نے کانپتے ہونٹوں سے مہر نبوت کو بوسہ دیا، اور کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔

                حضرت سلمان فارسی ؓ ایمان قبول کرنے کے بعد نبی اکرم ؐ کی خدمت میں حاضر رہنے لگے۔ پیارے نبی ؐ نے آپؓ کو یہودی کی غلامی سے نجات دلائی۔ اس کے  بعد تو آپؓ سفر و حضر میں پیارے نبی ﷺ کے ساتھ ساتھ رہنے لگے۔ آپ ؓ بہت جلیل القدر صحابی تھے۔ آپ کے مرتبے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نبی اکرم ؐ نے غزوہ احزاب ( جنگ خندق) میں آپ ؓ کے  مشورے پر عمل کرتے ہوئے خندق کھودی اور دفاعی جنگ لڑی۔جنگ خندق کے موقع پر جب خندق کھودی جارہی تھی،مہاجرین و انصار صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین  میں بحث چھِڑ گئی کہ سلمان ؓ کون ہیں۔ مہاجرین کہتے تھے کہ سلمان ہم میں سے ہیں جب کہ انصار کا کہنا تھا کہ سلمان میں  سے ہیں۔ اسی دوران پیارے نبی ؐ تشریف لے آئے۔ آپ ؓ کو جب ساری بات کا علم ہوا تو آپ ؐ نے فرمایا کہ سلمان میرے اہل بیت میں سے ہیں۔آپؓہر وقت عشق نبی  میں غرق رہتے تھے۔اس کے ساتھ ساتھ انہیں جہاد کا بھی بہت شوق تھا۔ ان کے عشق رسول اور شوق جہاد کو دیکھ کر پیارے نبی ؐ نے ارشاد  فرمایا کہ ’’ جنت تین آدمیوں کا اشتیاق رکھتی ہے۔علی ؓ  ، عمارؓ  اور سلمان ؓ کا ۔ایک موقع پر آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ سلمان علم سے لبریز ہے۔

                آپ ؓ بہت قناعت پسند، درویش صفت انسان تھے۔ دنیا داری سے دور بھاگتے تھے۔حضرت عمر ؓ نے ان کو مدائن کا گورنر مقرر کیا ۔اس کی جو تنخواہ ملتی وہ غریبوں ، مسکینوں میں تقسیم کردیتے اور خود چٹائی بُن کر کماتے، اس کا بھی ایک تہائی خیرات کردیتے تھے۔ سفر ہمیشہ بغیر زین کے گدھے پر سوا ہوکر کرتے۔ ایک دفعہ اسی طرح آپؓ گدھے پر بغیر زین کے سفر کررہے تھے اور پیوند لگا کرتا پہنا ہوا تھا۔ ایک شخص نے ان سے پوچھ لیا کہ ’’ اے امیر ! یہ آپ  ؓنے کیا حالت بنائی ہوئی ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ ’’ بھائی آرام و راحت تو صرف آخرت کے لیے ہے۔‘‘ آپ ؓ  نے کبھی گھر نہیں بنایا، ہمیشہ کسی بھی درخت یا دیوار کے سائے میں رات گزار دیتے۔ ایک دفعہ ایک شخص نے ان سے کہا کہ میں آپ کو گھر بنا دیتا ہوں، لیکن آپ نے انکار کردیا۔ جب آپ نے مسلسل انکار کیا تو اس شخص نے کہا کہ اچھا میں آپ کی خواہش کے مطابق مکان بنا دیتا ہوں کہ آپ کا سر اس کی چھت سے جا لگے اوراگر لیٹیں تو پائوں دیوار سے جاٹکرائیں۔ اس کے بعد آپ نے حامی بھر لی اور اس شخص نے ان کو ایک چھوٹی سی جھونپڑی بنا دی۔

                جب آپ کا آخری وقت آیا تو آپ ؓ کا کل اثاثہ ایک بوسیدہ کمبل، ایک بڑا پیالہ، ایک لوٹا اور تسلہ تھا لیکن زہد تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ انتقال سے پہلے حضرت حضرت سعد بن ابی وقاس ؓ آپ ؓ کی عیادت کے لیے حاضر ہوئے۔ دیکھا کہ حضرت سلمان ؓ زارو قطار رو رہے ہیں۔ سبب پوچھنے پر فرمایا کہ ’’سرورِ کائنات ؐ نے مجھ سے عہد لیا تھا کہ دولتِ دنیا جمع نہ کرنا اور میرے پاس اس دنیا کا اس قدر سامان جمع ہوگیا ہے، ڈرتا ہوں کہ کہیں اس اسبابِ دنیا کی وجہ سے آخرت میں آقا ؐ کے دیدار سے محروم نہ رہ جائوں۔آپؓ کا انتقال ۳۵ ہجری میں حضرت عثمان غنی ؓ کے دور خلافت میں مدائن میں ہوا۔

حصہ
mm
سلیم اللہ شیخ معروف بلاگرہیں ان دنوں وہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیچرز ٹریننگ بھی کراتے ہیں۔ درس و تردیس کے علاوہ فری لانس بلاگر بھی ہیں اور گزشتہ دس برسوں سے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر مضامین لکھ رہے ہیں۔ ...

جواب چھوڑ دیں