پارلیمنٹ اہم بھی اورغیر اہم بھی

زندگی کا کوئی بھی معاملہ ہو ہم من حیث القوم شش و پنج کا شکار ہیں۔ معاملہ دین کا ہو، دنیا کا ہو، سماجی ہو، سیاسی ہو یا عام دوا علاج کا، کوئی ایک بھی ایسا نہیں جہاں ہم “ہاں نہیں” کا شکار نہ ہوں۔ ارادے باندھے جاتے ہیں کہ کیوں نہ ایسا کر لیا جائے پھر خدشہ جنم لیتا ہے کہ ایسا ویسا نہ ہو جائے۔ ڈاکٹر نیم ڈاکٹر لگنے لگتے ہیں اور حکیم نیم حکیم۔ کبھی ایلوپیتھ کبھی ہومیو پیتھ کے پاس دوڑ لگانا اور کبھی جھاڑ پھونک کیلئے مولویوں، عاملوں اور مزاروں کے چکر لگانا۔ یہی معاملہ دینی معاملات میں اور یہی حال سیاست کے میدانوں میں نظر آتا ہے۔

پاکستان کا ہر ادارہ اور ہر محکمہ ہم ہی لوگوں پر مشتمل ہے خواہ وہ فوجی ہو یا نیم فوجی، عدالت ہو یا جرگہ، نجی ہو یا سرکاری، کیونکہ ان سب میں کام کرنے والے پاکستان کے معاشرے سے ہی تعلق رکھتے ہیں اس لئے ان تمام خوبیوں اور خامیوں کا ان میں موجود ہونا کوئی عجب بات نہیں۔

اس سے قبل میں اپنی بات کو آگے بڑھاؤں آج کے اخبار کی تازہ ترین خبر قارئیں کے سامنے رکھوں تاکہ اس بات کا اندازہ ہو سکے کہ میں جو بات بھی بیان کرنے والا ہوں وہ کیا ہے۔ خبر ہے کہ “ فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہونے سے 2 ہفتے قبل حکومت نے نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) پر مشاورت کے لیے پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی تمام جماعتوں سے رابطہ کر کے انہیں 28 مارچ کو معاملے پر بریفنگ دینے کے لیے مدعو کرلیا۔ وزیر اعظم عمران خان کی خصوصی ہدایت پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے پارلیمنٹ ہاؤس میں ہونے والی بریفنگ میں شرکت کیلئے تمام پارلیمانی رہنماؤں کو خطوط ارسال کردیے۔ خط میں وزیر خارجہ نے 16 دسمبر 2014 ء کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملے کے بعد ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے بننے والے نیشنل ایکشن پلان کا تو ذکر کیا لیکن اسی کے تحت دہشت گردی کے مقدمات چلانے کے لیے تشکیل دی جانے والی فوجی عدالتوں کا ذکر موجود نہیں۔ اپوزیشن رہنماؤں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے یہ مشاورت اور پیغام فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ دوسری جانب حکمران جماعت میں موجود ذرائع کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ حکومت نے اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت کا فیصلہ اس لیے کیا کہ ترمیمی بل کی منظوری کے لیے حکومت کے پاس پارلیمنٹ میں 2 تہائی اکثریت موجود نہیں۔ اس ضمن میں رہنما (ن)لیگ وسابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے وزیر خارجہ کی جانب سے مدعو کرنے کا خیر مقدم کیا لیکن ان کا کہنا تھا کہ شاہ محمود قریشی کو جو بھی بریفنگ دینی ہے اسے قومی اسمبلی میں دی جانی چاہیے۔

پاکستان کے آئین 1973 میں اس بات کو پتھر کی لکیر کی طرح لکھ دیا گیا ہے کہ اگر آئین میں کوئی ترمیم کرنی ہی پڑجائے تو اس کا طریقہ کار کیا ہوگا۔ آئین کی یہ شق اس بات کا ایک کھلا ثبوت ہے کہ ملک میں پارلیمنٹ کو ہی بر تری حاصل ہے اور کوئی فرد یا ادارہ کسی بھی طور سے پارلیمنٹ سے بالا تر نہیں ہو سکتا۔ یہ اتنی بڑی سچائی ہے کہ اس کے بعد کسی مارشلائی حکمران میں بھی اتنی جرات پیدا نہیں ہو سکی کہ وہ تنہا اپنی مرضی سے آئین کی جو شکل چاہے بنا لے۔ ضیا الحق کو بھی یہ جرات حاصل نہ ہو سکی کہ وہ آئین و قانون کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مارشل لائی حکومتوں نے اپنی اپنی مرضیاں چلائیں ضرور لیکن اپنی ہر مرضی کو آئین و قانون کا پابند بنا پڑا چنانچہ ضیا الحق نے اپنے تحفظ کیلئے جیسے بھی الیکشن کرائے مگر کرائے۔ اسمبلیاں بنائیں اور اس اسمبلی سے اپنی “مرضیوں” کو آئینی شکل بھی دی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک چیف مارشل لا نے بھی “پارلیمنٹ” کی برتری کو تسلیم کیا۔ یہی کچھ پرویز مشرف کو بھی کرنا پڑا اور اپنے دور میں کرائے گئے الیکشن اور بنائی جانے والی اسمبلی سے اپنے “مرضیوں” کو قانون کا حصہ بناکر اس بات کو تسلیم کیا کہ ملک میں سب سے اہم ادارہ اور ہر ادارے سے برتر ادارہ صرف اور صرف پارلیمنٹ ہی ہے جس کی منظوری کے بغیر کسی کی “میں” قانون نہیں کہلا سکتی۔

تمام تر اقرار کے باوجود اور ملک میں موجود پارلیمنٹ ہونے کے باوجود ملک میں کوئی تو ہے کہ وہ ہر بار اس کوشش میں دکھائی دیتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح پارلیمنٹ کا یا تو وجود ختم ہوجائے یا پارلیمنٹ اس کی مرضی کے مطابق ہر وہ شق قانون کا حصہ بنانے پر مجبور ہو جو اس کا اشارہ ابرو ہو۔ یہی وہ سوچ ہے جس کی وجہ سے پاکستان آج تک اس مقام تک نہیں پہنچ سکا جہاں دنیا کے مہذب ممالک کھڑے نظر آتے ہیں۔

مذکورہ خبر میں بھی جو بات سامنے آرہی ہے وہ یہی ہے کہ ملک میں جو پارلیمنٹ ہے وہی ہر ادارے سے برتر ہے لیکن کوئی اور ایسا بھی ہے جو پارلیمنٹ کی برتری ماننے کے باوجود بھی یہ خواہش رکھتا ہے کہ پارلیمنٹ ہر اس تجویز کو قبول کرے جو اس کی جانب سے پیش کی جائے۔ کیونکہ کہنے والا پاکستان کی طاقت کا منبع ہے اس لئے پارلیمنٹ خواہ کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو وہ آخر کار “ہٹ” کا شکار ہوہی جاتی ہے اور تجاویز خواہ ضیا کی ہوں یا تجاویز مشرف کی، ان کو منظور کرتے ہی بن پڑتی ہے اس لئے کہ “ہٹ” نہیں مانی جائے تو کرسی اقتدار سے ہٹنا بھی پڑجاتا ہے۔ یہ بات کوئی ہوائی نہیں بلکہ مشاہدات اب تک یہی ثابت کرتے آئے ہے۔

جمالی گئے، شجاعت آئے۔ شوکت عزیز بنے، گیلانی بنے اور ہٹائے گئے۔ پر ویز اشرف کے سرہما بیٹھا۔ زرداری کان دبا کر جب تک بیٹھے رہے، بیٹھے رہے۔ نواز بولے تو باہر کر دیئے گئے اور مضبوط ترین پارلیمنٹ کے حصے بخرے کر دیئے گئے۔ خان صاحب مانیں جارہے ہیں تو ہیں، جب بھی دائیں بائیں ہوئے تو ان کے سامنے بہت سوں کا انجام ہے۔

کہا جارہا ہے کہ نیشنل ایکشن پالان اور فوجی عدالتیں پارلیمان سے منظور کرانے کیلئے اپوزیشن کو ساتھ لیکر چلنا ضروری ہے۔ یہ سب فضول باتیں ہیں اس لئے کہ جن کو ساتھ لیکر چلنا ضروری ہے بس وہی ضروری ہے باقی نہ تو کسی سہارے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی کو ساتھ ملانے کی۔

قوم کو یاد ہوگا کہ ایک ایسی حکومت جس کے پاس پارلیمنٹ کی بہت واضح اکثریت تھی اور وہ موجودہ اسٹبلشمنٹ کو پسند بھی نہیں کرتی تھی اس کے باوجود نہ صرف چند دنوں کے اندر اندر ریت کی دیوار کی طرح بیٹھ کر رہ گئی تھی بلکہ راتوں رات قانون سازی کر کے اختیارات کو کسی کی مرضی کے مطابق ڈھالنے پر مجبور بھی ہو گئی تھی تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک کمزور حکومت اور بکھری ہوئی اپوزیشن کسی قانون سازی میں رکا وٹ بن سکے۔ ہوگا وہی جو “ہٹ” ہے ورنہ ہٹ جانا مقدر۔

یہ ساری جکڑ بندیاں جو نیب کی صورت میں زیادہ تر سیاسی لیڈروں کے ارد گرد نظر آرہی ہیں اس میں حکومت تو خوامخواہ ہی بدنام ہے ورنہ کوئی بھی سیاسی حکومت معاملات کو سیاسی انداز میں نمٹایا کرتی ہے جبکہ اس وقت جو اقدامات بھی نظر ارہے ہیں وہ آمرانہ تو ہیں جمہوریت پسندانہ کہیں سے کہیں تک نہیں۔

پاکستان میں وہی کچھ ہوتا رہا ہے جو “کوئی” چاہتا رہا ہے اس لئے اب جو کچھ چاہا جارہا ہے وہ کیونکر پورا نہیں ہوگا۔ اس کا ایک واضح پیغام پی پی کی جانب سے آ ہی چکا ہے۔ خبر کے مطابق جب اس ضمن میں پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹ میں پارلیمانی رہنما شیری رحمن سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھاکہ “فی الحال انہیں کسی اجلاس کا دعوت نامہ موصول نہیں ہواتاہم قومی معاملات پر اپوزیشن نے ہمیشہ حکومت کا ساتھ دینے میں بھرپور کردار ادا کیا ہے جسے حکومت نے کبھی اہمیت نہیں دی”۔ شیری رحمان کا یہ بیان اس بات کی جانب کھلا اشارہ ہے کہ ایسی کوئی “ہٹ” جو ہوتو کسی اور کی لیکن اگر حکومت کے توسط سے سامنے آجائے تو اس کو بہر صورت مانا جائے گا اس لئے کہ پیچھے ہٹا جائے تو ریت کا صحرا ہے اور آنکھوں کے سامنے بحیرہ عرب۔

سوال یہ بیدا ہوتا ہے کہ اگر ہمارا عدالتی نظام مجرموں کو ان کے انجام تک پہنچانے میں رکا وٹ ہے تو اس کو ہونا ہی کیوں چاہیے۔ یا موجودہ عدالتوں کو ختم کیا جائے یا قوانین کو بدلا جائے ورنہ صرف وہی افراد “جائز” جزا و سزا تک پہنچ سکیں گے جو “مارشل کورٹ” میں سنے جائیں گے جبکہ ملکی قانونی عدالتوں سے لاکھوں جرائم پیشہ لوگ بری ہو ہو کر ملک میں فتنہ و فساد میں اضافہ کرتے رہیں گے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ملک کی ساری عدالتیں توڑ کر سیکڑوں “فوجی” عدالتیں لگائی جائیں تاکہ مجرموں کو جلد از جلد ان کے انجام تک پہنچایا جا سکے۔ پارلیمنٹ اگر یہ کر سکتی ہے تو ٹھیک ورنہ ایک ریاست میں دو دو ریاستوں کا ہونا کہیں سے کہیں تک دانشمندانہ اقدام نہیں ہوگا۔

ملک کے مقتدر اداروں کو بھی یہ بات سوچنی چاہیے کہ جب پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر پاکستان کے آئین اورقانون میں ذرہ برابر بھی کوئی ترمیم ممکن نہیں تو پھر پارلیمنٹ کی سپر میسی کو برقرار رکھا جائے اور کوئی بھی ایسا قدم نہیں اٹھایا جائے جس سے ایک نظام کو بار بار لپیٹنا پڑے۔ یہی سب کچھ ہوگا تو پاکستان دنیا میں ایک باوقار ملک بن سکے گا ورنہ جو حال ہے سو ہے جس پر صبر و شکر کے ساتھ گزارا ہو ہی رہا ہے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں