“اس پر چم کے سائے تلے “

اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں
ہم ایک ہیں۔
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں
ہم ایک ہیں ۔

ٹیلی ویژن اسکرین پر اسکول کے ننھے بچے لہک لہک کر اس ملی نغمے کو گا رہے تھے اور ان کے ہاتھوں میں لہراتے قومی پر چم دیکھ کر میرے ذہن میں بے شمار سوالات سر اٹھا رہے تھے ۔ کیا واقعی اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ؟ کیا واقعی ہماری خوشیاں اور غم سانجھی ہیں ؟
کیا آج ہم اپنے پیارے وطن پاکستان میں تمام اختلافات اور تفرقات بھلا کر یک جان ہو کر رہ رہے ہیں ۔ کیا آج ہم اس خوبصورت ملے نغمے کو پورے یقین اور سچائی کے ساتھ پیش کر سکتے ہیں ؟
نہیں بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ اس کے بر عکس کچھ اور ہی منظر پیش کر رہا ہے ۔ چھوٹے چھوٹے فروہی مسائل میں الجھ کر ہماری خوشیاں بھی جدا اور غم بھی جدا ہو چکے ہیں۔ لسانیت اور تعصب کے اندھے جذبوں نے دلوں سے بھائی چارہ ، اخوت، رواداری اور آپسی محبت کو ختم کردیا ہے ۔
جبکہ اگر دو یا تین دہا ئی پہلے کا جائزہ لیا جائے تو نقشہ ہی کچھ اور تھا ۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے بچپن میں ہمارے علاقے اور محلے میں تمام قومیت کے او ر مختلف مسالک کے افراد سکونت پذیر تھے ، مگر کبھی بھی ہمیں ہمارے والدین یا دوسرے محلے داروں کے رویوں سے رتی برابر بھی تعصب کی جھلک نظر نہ آتی تھی اور سب ایک دوسرے کے دکھ درد میں برابر کے شریک ہوتے تھے ۔ ایک دوسرے کی مدد کیلئے ہر دم تیار اور ایک دوسرے کی خوشی میں خوش رہنے والے تھے ۔ لیکن دشمنوں کو پاکستان کا اس طرح اتحاد اور یکجہتی کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن ہونا ایک آنکھ نہ بھاتا تھا اور پھر ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے تعصب اور تفرت کی ایسی چنگاریاں سلگائی گئیں کہ سب کے دلوں میں دوریاں پیدا ہوگئیں ۔ہمارا دشمن نہایت عیار اور مکار ہے وہ خود سامنے آئے بغیر دوسروں کو اپنا آلہ کار بنا کر اپنی چالیں چلتا ہے ۔

اس وقت بیشتر غیر اسلامی ممالک میں مسلمانوں کو کمتر شہری کا درجہ دیا جاتا ہے ۔ کہیں خوا تین کو “حجاب” لینے پر جیلوں میں ڈال دیا جا تا ہے کہیں پر انہیں با پردہ رہنے پر تضحیک کا نشانہ بنا یا جاتاہے ۔ اسی طرح بیشتر بیرون ملک مقیم مسلمان اذان کی آواز سننے کو ترستے ہیں۔ کہیں پر مسلم والدین اپنے بچوں کو ” غیر اسلامی کلچر” کے زیر اثر آنے سے بچانے کی فکر میں پریشان نظر آتے ہیں، کیونکہ جس کلچر میں وہ اپنے بچوں کی پرورش کر رہے ہیں اس سے بچا کر اسلامی تشخص میں ڈھالنا مشکل ترین ہوتا جا رہا ہے ۔
اس کے علاوہ بھی بے شمار مسائل ہیں ۔ ہمیں یہ پیارا پاکستان رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں رب کائنات کے ایک حسین تحفے کی صورت میں ملا ، جہاں ہم پوری آزادی سے تمام مذہبی عقا ئد و تصورات کے عین مطابق سہولت اور آسانی کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں ۔
میری بہنوں اور بھائیوں ابھی بھی دیر نہیں ہوئی ہمیں اپنے ملک کے دشمنوں کو پہچاننا ہے اور انہیں ان کے ارادوں میں کامیاب ہونے سے روکنا ہے ۔ ہم سب کو اپنے پیارے وطن پاکستان سے بے انتہاء پیار ہے ، کیونکہ یہی وطن ہے جس نے ہمیں ایک پہچان دی اور غیرت مند طریقے سے سر اٹھا کر جینے کا سلیقہ سکھا یا ہے ۔
رسول اللہ ؐ نے ارشاد فر مایا :
” تو مسلمانوں کو آپس میں ، رحم کر نے و محبت کرنے میں ایسا دیکھے گا جیسا کہ جسم کا حال ہوتا ہے
کہ اگر ایک عضو کو کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے تو جسم کے تقیہ اعضا ء بے خوابی اوربخار کے ساتھ
اس کا ساتھ دیتے ہیں” ۔

ہم پر لازمی ہے کہ پیارے نبیؐ کے فرمان کے مطابق اپنی معاشرتی زندگی ایسے ہی گزاریں جس میں ایک دوسرے کیلئے ہمدردی اور محبت کا پہلو جھلکتا ہو ۔ ہم بہت پیسا اور وقت گنوا چکے ہیں ، مزید تا خیر کے متحمل نہیں ہوسکتے ۔
پیارے “ہم وطنوں” آئیے ہم سب اس سبز ہلالی پرچم کے سائے تلے جمع ہوجائیں ۔ تو پھر وہ دن دور نہیں جب ہمیں ہمارا کھویا ہوا تشخص واپس مل جا ئے اور “پاکستان ” کا نام دنیا کے آسمان پر بلندیوں پر چمکے گا ۔ انشا ء اللہ

حصہ

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں