”طلبہ میں بڑھتاہوا خودکشی کا رجحان“

پاکستان میں طلبہ میں خودکشی کا رجحان ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔ رواں سال ہی پانچ طلبہ خود کشی کرکے اس دنیا فانی سے رخصت ہو چکے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ان طلبہ کی خودکشی کے پیچھے ایک ہی وجہ کارفرما تھی اور وہ تھی مایوسی۔ اس منفی رجحان کا اس حد تک بڑھ جانا نہ صرف خطرناک ہے بلکہ ہمارے طلبہ کی ذہنی کیفیت کے بارے میں بھی بہت سے سوالات کو جنم دے رہا ہے۔

مغربی ممالک میں اس مسئلے کو سمجھنے اور حل کرنے کے لیے حکومتی سطح پر بہت سے اقدامات کیے جاتے ہیں پر افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ پاکستان میں حالات اس سے یکسر مختلف ہیں۔ہمارے ہاں اس مسئلے کو آج تک سنجیدگی سے نہیں لیا گیا طلباء کی ذہنی حالت کیا ہے ان پر کتنا دباؤ ہوتا ہے ،ان کے اساتذہ والدین اور ان کی اپنی امیدوں کا اس بات سے ہمیشہ ہی نظریں چرا لی گئی ہیں، طلبہ پر ذہنی دباؤ کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں کچھ ایسی ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا سب سے عام پائی جانے والی وجہ طلباء کا پوری محنت اور تگ و دو کرنے اور والدین کا پیسہ لگانے کے بعد امتحانات میں امید سے کم نمبر حاصل کرنا ہے اور ایسا ہونے پر طالبعلم شرمندگی محسوس کرتے ہوئے مایوسی کی انتہا کو پہنچ جاتا ہے اور پھر یہ مایوسی اسے اپنی ہی زندگی کا دیا بجھانے کی طرف دھکیل دیتی ہے۔

 خودکشی کی دوسری سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ والدین بچے کی پیدائش پر ہی فیصلہ کر دیتے ہیں کہ اس نے بڑا ہو کر کیا بننا ہے ایک میڈل کلاس طالب علم کو خود کو ثابت کرنے کے لیے کئی کٹھن مراحل سے گزر کر اپنے والدین کی تمناؤں کو پورا کرنے کے لئے ڈاکٹر انجینئر وغیرہ بننا پڑتا ہے خواہ اس میں اس کی اپنی مرضی شامل ہو یا نہ ہو۔ اگر خدانخواستہ ایسا کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے تو اسے اس طرح کے برتائوکا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے وہ ایک مجرم ہو اور بالآخر وہ طالب علم اس سب سے تنگ آ کر انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

ناکامی اپنے ساتھ جو حالات لے کر آتی ہے وہ ایک ایسے طالب علم کے لیے انتہائی دل برداشتہ ہوتے ہیں جس نے کبھی اپنے والدین اور اساتذہ کی نافرمانی کا سوچا بھی نہ ہو جس کے ذہن و گمان سے یہ بات کوسوں دور ہو کہ وہ بھی کبھی اپنے والدین یا اساتذہ کو نا امید کر سکتا ہے اپنے ہم جماعت دوستوں سے پیچھے رہ جانے کا غم ہی اسے چین نہیں لینے دیتا اور ان حالات میں اس کے معصوم اور کچے ذہن میں منفی سوچیں گھر کر لیتی ہیں جن کے زیر اثر آ کر طالب علم خود سوزی کی طرف مائل ہونا شروع ہوجاتا ہے اور بالآخر ایک دن ایک رقعہ اور معاشرے کے لوگوں کے ذہنوں میں بہت سے سو ا ل چھو ڑ تا ہوا اس دنیا سے کوچ کر جاتا ہے۔

                  الغرض صورتحال سے نمٹنے کے لیے نہ صرف حکومت کو اقدامات کرنے کی ضرورت ہے بلکہ والدین اور اساتذہ کو بھی بچوں کی مثبت رہنمائی اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی اشد ضرورت ہے آخر کب تک ہم خاموش تماشائی بن کر اپنے پیاروں کے جنازے اٹھاتے رہیں گےہمیں خود کو اور اپنے اس فر سودا معاشرتی نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے ہمیں اپنے بچوں کے رہنمائی کرنے کی ضرورت ہے انہیں مثبت سوچ کا حامل بنا کر ہی ہم انہیں نہ صرف معاشرے کا ایک اچھا فرد بنا سکتے ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کوبھی ایک بہترین مثال کے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں