تحریک پاکستان،مسلم لیگ اور اردو 

زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم
چہ خوش بودے گر بودے زبانش در دہانِ من
زبان کی اہمیت و افادیت کا اندازہ درج بالا شعر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر آپ اپنے محبوب کے سامنے اپنا مافی الضمیر یا اظہار محبت کرنا چاہتے ہیں تو بھی آپ زبان کے ہی محتاج ہیں،جذبات اگرچہ اظہار کا آئینہ دار ہوتے ہیں مگر مکمل ترجمانی سے وہ بھی قاصر رہتے ہیں۔ایسے ہی سماج کی ترقی و تہذیب و تمدن کی نمو بھی دراصل زبان کی ہی مرہون منت ہوتی ہے۔مثلاً ہیر وارث شاہ کے بیان کا جوُ سرور پنجابی زبان میں ہے کسی اور زبان میں ممکن ہی نہیں۔ایسے ہی رومیو جولیٹ کا جس زبان میں بھی ترجمہ کر لیا جائے جو انگریزی میں شکسپئر نے بیان کر دیا ہے اس کی ترجمانی کبھی بھی ترجمہ نہیں کر سکتا۔گویا زبان جذبات کی عکاس،محبت کا اظہار ،تمدن کی ترجمان ،ثقافت کی آئینہ دار اور تاریخ کی پہچان خیال کی جاسکتی ہے۔دشمن سماج کو زیر کرنے کا سب سے بڑا ہتھیار بھی زبان ہو سکتی ہے اگر اس کا استعمال بہتر طورپہ کرنا آ جائے تو،کہا جاتا ہے کہ اگر کسی قوم کے شر سے بچنا ہو توان کی زبان سیکھ لی جائے،زبان ازخود تہذیب سکھا دے گی۔ کسے تہذیب کہتے ہیں وہ خود ہی جان جائیں گے۔۔۔۔۔تم اپنے اپنے بچوں کو فقط اردو سکھا دینا۔
برصغیر پاک و ہند میں جب اٹھارویں صدی میں سنسکرت،ہندوی اور فارسی اپنے نقطہ عروج پر تھی تو ایسے میں ایک نئی زبان (اردو) جنم پذیر ہوئی جسے دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں کی زبان سمجھ لیا گیا،حالانکہ اس سے قبل مسلمانوں کی سرکاری ودرباری زبان فارسی تھی۔اردو زبان کی اشاعت و ترویج میں جب روز افزوں اضافہ ہونے لگا تو ہندو خائف ہونے لگے جس کی ایک مثال 1867 میں مدراس میں اردو ہندو تنازعہ ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہندو اس نو زائیدہ زبان سے اتنے خوف زدہ کیوں دکھائی دینے لگے،اس کی ایک وجہ صوفیا کرام کی تعلیم اور علما کرا م کا ا س زبان میں اسلامی لٹریچر کی تصنیف و تالیف اور ترسیل تھا کہ انیسویں صدی کی پہلی چار دہائیوں میں شاہ عبدالقادر دہلوی کے اردو زبان میں قرآن کا سادہ ترجمہ،مولوی کرامت کے تبلیغی و تلقینی رسالے جب عوام الناس تک پہنچے تو ہندو بنئیے اس عمل سے گویا جل بھن گئے۔اس سے قبل شاہ ولی اللہ بھی فارسی زبان میں قرآن کا ترجمہ کر چکے تھے،اور بہت سے مسلمان اس بات سے بھی خوش نہیں تھے کہ نئی زبانوں میں تراجم مسلمانوں کو ان کی اصلی زبان عربی سے بے نیاز کر دیں گے۔یہ تو مسلمانوں کے اندرونی اختلافات تھے،مگر ہندو بنیا یہ دیکھ رہا تھا کہ اردو زبان کے ذریعے مسلمان اپنے دین اور روایات کے تحفظ کا اہتمام کر رہے ہیں لہذا ہندوؤں نے اردو زبان کے ساتھ بھی وہی ناروا سلوک کرنا شروع کر دیا جو وہ مسلمانوں کے ساتھ کرتے تھے۔یعنی مسلمان ان کی نظر میں اگر ملیچھ ہیں تو اردو زبان اچھوت۔ایسے حالات میں سر سید احمدخان بلاشبہ وہ مرد قلندر تھے جنہوں نے اپنے عزم صمیم سے اردو کی آبیاری فرمائی۔اور 1867 میں پیش آنے والے اردو ہندی تنازعہ کے بعد ہی انہوں نے یہ پیش گوئی فرما دی تھی کہ جو لوگ زبان برداشت نہیں کرتے وہ مسلمانوں کے وجود کو کیسے تسلیم کریں گے۔لہذا انہوں نے واضح طور پر اس بات کا اظہار فرما دیا کہ آگے چل کر ہندو اور مسلمان جدا جدا راہیں اپنا لیں گے،اور تاریخ نے دیکھا کہ ایسا ہی ہوا۔اس پیش گوئی کا عملی اطلاق 1905 میں شملہ وفد کی وائسرائے سے ملاقات کے بعد نواب محسن الملک کا یہ بیان کافی ہے کہ
’’ مسلمانوں کے تمدن کی حفاظت کا جذبہ تقاضا کرتا ہے کہ ان کی اپنی کوئی سیاسی تنظیم ہو‘‘
1906 میں آل انڈیا مسلم لیگ کی تشکیل یابی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اب مسلمان اور ہندو برصغیر میں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔مسلم لیگ کا پہلا سالانہ اجلاس 1907 میں کراچی میں منعقد ہوا جبکہ دوسرا سالانہ اجلاس1908 میں لاہور میں انعقاد پذیر ہوا جس میں سر علی امام نے ہندوؤں کی متعصبانہ روش پر اظہار افسوس فرماتے ہوئے اردو کے باب میں کہا کہ’’اردو ہم مسلمانوں کی زبان نہ تھی،اسے تو ہم نے ہندوستا نی �آبادی کے ساتھ میل جول بڑ ھانے کی خاطر قبول کیا،یہ زبان تو اکبر کے دور میں سر نکال کر آگے بڑھنے لگی،جبکہ ہندو اب اپنے لاڈلے اکبر کے دور کی اس نشانی کو مٹانے کے در پے ہیں۔‘‘سر علی امام نے باصرار یہ بھی کہا کہ ’’اردو کو ایک مشترک زبان کی حیثیت سے باقی رکھا جائے کیونکہ یہ وہ زبان ہے جو برصغیر کے طول و عرض میں سمجھی جاتی ہے‘‘
جس کو دیکھو تمہارا عاشق ہے
تم تو اردو زبان لگتی ہو
1908 مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں ہی یہ قرارداد بھی منظور کی گئی کہ بمبئی ریذیڈنسی کے مسلمانوں کی زبان کے طور پراردو کو خصوصی رعائت سے نوازا جائے اور اس مقصد کی خاطربمبئی میں اردوٹریننگ کالج قائم کیا جائے،اسی طرح 1910 کے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ دہلی میں اردو کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے اس بات کا اشارہ دیا گیا کہ آسام اورمدراس کے لوگ بھی اپنی بولیوں کے ساتھ ساتھ اردوکو بھی اپنا رہے ہیں،اس طرح اردو روزبروزوسیع تر حلقے کی مالک ہوتی جا رہی ہے۔تاہم جیسے جیسے اردو زبان کو فروغ مل رہا تھا اور اس کے بولنے اور سمجھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا ویسے ویسے ہندوؤں کا تعصب اور اردودشمنی بھی بڑھتی چلی جا رہی تھی۔یہاں تک کہ 1910 کے اجلاس کے بعد بمبئی کے ناظم تعلیمات نے مراسلہ جاری کیا کہ پبلک سکولوں میں سے اردوکو الگ کر دیا جائے اگر مسلمان اردوکی تعلیم جاری رکھنا چاہتے ہیں تو دینی تعلیم کی طرح اس کا اہتمام بھی اپنے گھروں میں ہی کریں۔الغرض جیسے جیسے اردو زبان کو فروغ ملتا گیا ویسے ویسے ہندو دشمنی میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔مگر مسلمانوں نے بھی مسلم لیگ کے ہر اجلاس میں کسی نہ کسی طور اردو زبان کے فروغ کے چراغ کی لو کو مدھم نہ ہونے دیا۔یہاں تک کہ 1938 کے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں واضح طور پر کہا گیا کہ’’اردو کو ہندی مسلمانوں کی قومی زبان کے طورپر قبول کیا جائے‘‘اسی سال سندھ مسلم لیگ نے اردو کو مسلمانوں کی قومی زبان کے طور پر تحفظ و ترقی کا حقدار قراربھی دیا۔لہذا ہمیں اس بات سے انحراف نہیں کرنا چاہئے کہ اگر تحریک پاکستان کا محرک اول اسلام تھا تو اردوزبان تحریک دوم تھی۔اور اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ اردو کے فروغ میں مسلم لیگ کا اپنا ایک کردار رہا ہے۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں