حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کااسلام لانا

اہل جہول کی محفل میں مغلظات کا ایک طوفان بپا تھا۔ یہ سارے مغلظات ایک ہی ذات (محمد ﷺ) کیلئے تھے۔ وہ شور و غوغا تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ سردارانِ قریش لوگوں کا جوش و جذبہ ابھار رہے تھے اور ذاتِ اقدس ﷺ کے خلاف ذہن بنا رہے تھے۔ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ آپ ﷺ کا (نعوذباللہ) قصہ ہی تمام کر کے رکھ دیں۔ اسی محفل میں عمر بن خطاب بھی شامل تھے جو ابھی تک ایمان لے کر نہیں آئے تھے۔ جب مغلظات کا طوفان اپنے عروج پر تھا اور ہرفرد گستاخیوں کی ہر حدود پار کرتا جارہا تھا تو عمر بن خطاب اچانک محفل میں کھڑے ہو گئے۔ ان کا کھڑا ہونا تھا کہ اہل جہول کی محفل میں شریک ہر فرد کو گویا سانپ سونگھ گیا۔ آپ کا دبدبہ ہی ایسا تھا۔ سارے اہل کفر  وشرک کی نگاہیں یوں عمر بن خطاب کے چہرے پر گڑ گئیں جیسے نگاہوں میں زنجیر پڑ گئی ہو۔ آج نہ جانے عمر بن خطاب کیا کر گزرنے والے تھے۔ سب کے دلوں کا شیطان سینوں میں اس زور سے دھڑکنے لگا کہ اس کی آوازیں اہل محفل کو صاف سنائی دے رہی تھیں۔ اتنے میں عمر بن خطاب کی پر رعب  و پر جلال آواز محفل میں گونجی۔

تم لوگ صرف باتیں ہی کرتے ہو۔ (نعوذباللہ) محمد (ﷺ) اور اس کے ساتھی ہیں ہی کتنے۔ ان کو کچل کر کیوں نہیں رکھ دیتے۔ سب کے سر مارنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ (نعوذباللہ) جس (محمد ﷺ) کی وجہ سے پورا عرب غلغلے میں پڑا ہوا ہے، جس کی وجہ سے اہل قریش تقسیم ہو رہے ہیں، جس کے سبب ہم اپنے ہی خاندان والوں کے دشمن بن گئے ہیں، ان کی جان کے درپے ہیں، ان سے اپنے رشتے توڑے بیٹھے ہیں، جن پر ہم نے عرصہ حیات تنگ کردیا ہے، جن کا ہم معاشی بائیکاٹ بھی کرتے رہے ہیں، جن پر زمانے کے سارے ستم توڑے ہیں اور جن کو تباہ و برباد کرنے کا کوئی ایک راستہ بھی ایسا نہیں جو ہم نے چھوڑا ہو، کیوں نہ (نعوذباللہ) اس (محمد ﷺ) ہی کا خاتمہ کردیا جائے تاکہ یہ فتنہ (اس وقت کے عمر بن خطاب کے نقطہ نظر کے مطابق) ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کر دیا جائے اور دنیائے عرب میں جو ہلچل مچی ہوئی ہے اس کا خاتمہ ہوجائے۔ اگر آج اس قصے کو ختم نہیں کیا گیا تو پھر محمد (ﷺ) کا دین پوری دنیا میں پھیل جائے گا اور ہم سب کی سرداریاں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائیں گی۔

تمام شرکائے محفل بت بنے عمر بن خطاب کے خطاب کو سن رہے تھے، خاموشی اتنی تھی کہ اگر سوئی پھینکو تو اس کی آواز تک پوری مجلس میں صاف سنائی دے۔ لوگوں کے دلوں کی دھڑکنوں اور سانسوں کی آوازوں کے علاوہ کوئی اور آواز تھی ہی نہیں جو سنائی دے رہی ہو یا پھر عمر بن خطاب کی گھن گرج تھی جو آسمانی بجلی کے کڑا کوں کی طرح وقفے وقفے سے چمک بھی رہی تھی اور گرج بھی رہی تھی۔

تم بزدل لوگ یہیں بیٹھو، تمہیں ماؤں نے محض اس لئے جنم دیا ہے کہ صرف باتیں بناؤ لیکن آج میں (نعوذباللہ) اس (ﷺ) کا سر قلم کرکے ہی دم لونگا۔ یہ کہہ کر میان سے تلوار کھینچی اور ہوا میں لہراتے ہوئے شرکائے اہل جہول پر ایک بھرپور اور پر غیظ نظر ڈالی جن پر موت کا  خوف ایسا طاری تھا جیسے عمر بن خطاب نے ان ہی کا سر تن سے جدا کرنے کا ارادہ کر لیا ہو۔ سب خاموش تھے اور عمر بن خطاب ان کے درمیان سے راستہ بناتے ہوئے نہایت غیظ و غضب کے عالم میں (نعوذباللہ) آپ (ﷺ) کا سر قلم کرنے کیلئے روانہ ہو چکے تھے۔

ابھی کچھ ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ ان کی ملاقات  نعیم نامی ایک شخص سے مد بھیڑ ہو گئی۔ ہاتھ میں کھلی تلوار، چہرے پر غضبناکی، رفتار میں بجلی سی بھری ہوئی دیکھ کر وہ سہم گئے۔ مسلمان ہو چکے تھے لیکن ابھی اعلان عام نہیں کیا تھا۔ آپ ﷺ کی خدمت میں بھی حاضر رہتے اور براہ راست آپ ﷺ سے ہر قسم کی رہنمائی حاصل کیا کرتے تھے۔ جاہ جلال کی اس کیفیت کو وہ کوئی نام تو نہ دے سکے لیکن پھر بھی پوچھ لیا کہ اے عمر، کہاں کا ارادہ ہے؟، منافقت تو عمر بن خطاب میں نام کو نہیں تھی، صاف صاف کہہ دیا کہ آج میں (نعوذباللہ) محمد (ﷺ) کو قتل کرنے جارہا ہوں۔ اس (ﷺ) نے سارے عرب میں فتنہ مچا کر رکھا ہوا ہے۔ خاندانوں کو تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔ ہر گھر میں دراڑیں پڑتی جارہی ہیں۔ وہ اور اس کے ساتھی اپنے عقیدے میں اتنے سخت ہیں کہ دنیا کی بڑی سے بڑی اذیت بھی ان کیلئے راحت بنی ہوئی ہے۔ سینے پر تپتے پتھر رکھ دو، جلتے ہوئے انگاروں پر لٹادو، معاشی بائیکاٹ کر کے انکا کھانا پینا تک حرام کردو، گھربار، بیوی بچے اور جائیدادیں چھین لو یا ان کو موت کے کھاٹ ہی اتار دینے کی دھمکیاں ہی کیوں نہ دیدو، وہ اپنے مؤقف سے ایک انچ پیچھے ہٹنا تک گوارہ کرنے کیلئے تیار نہیں۔ یہ سب ایک  (ﷺ) ہی فرد کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ میری غیرت کو یہ گوارہ نہیں کہ ملک تقسیم ہو، خاندان بٹ جائے، لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جائیں اور صدیوں سے ہمارے سرداروں کی سرداریاں خطرے میں پڑ جائیں، اس لئے میں آج فیصلہ کرکے اٹھا ہوں کہ اس فتنے کا خاتمہ ہی کرکے دم لونگا۔ میں اہل جہول سے وعدہ کرکے آیا ہوں کہ آج ہر صورت میں (نعوذباللہ) محمد (ﷺ) کا سر قلم کرکے ہی آؤنگا۔

عمر کی باتیں کیا تھیں، نعیم (نو مسلم) کے دل کو دہلانے کیلئے کافی تھیں۔ وہ جانتے تھے کہ عمر کا اہل عرب میں ایک بہت بڑا مقام ہے۔ عمر کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ وہ جو بھی کہتا ہے وہ ہر صورت میں ممکن بنا کر رکھ دیتا ہے۔ وہ مر تو سکتا ہے اپنے قول سے پھر نہیں سکتا اور اگر آج وہ ہاتھ میں ننگی تلوار پکڑ کر اسی، ناپاک ارادے سے جارہا ہے تو پھر وہ اپنے تئیں تو لازماً ایسا ہی کر گزرے گا لہٰذا ضروری ہے کہ کہ فی الحال اس کی توجہ کا رخ فوری طور پر موڑا جاسکے ورنہ نہ جانے کونسی قیامت برپا ہو جائے۔ عمر بن خطاب کو ابھی تک نہ تو نعیم (نو مسلم) کی اصل حقیقت کا علم تھا اور نہ ہی خود اس کو اپنے گھر کے ایک بہت بڑے انقلاب کی خبر ہوئی تھی۔ نعیم (نو مسلم) نے محض عمر بن خطاب کی توجہ کو بانٹنے کیلئے کہا کہ عمر! تم محمد عربی ﷺ کا سر قلم کرنے تو نکلے ہو لیکن کیا تمہیں اس بات کی خبر بھی ہے کہ اس  ﷺ کی تعلیمات  کا نور خودتمہارے اپنے گھر میں بھی داخل ہو چکا ہے؟۔ عمر یہ سن کر ششدر رہ گئے۔ کیا مطلب؟، عمر بن خطاب نے چونک کر پوچھا۔ نعیم (نو مسلم) سمجھ گئے کہ توجہ دوسری جانب مبزول ہو چکی ہے اس لئے موقعہ اچھا ہے کہ حقیقت حال بیان کر ہی دی جائے۔ گوکہ ایسا کرنا نہیں چاہیے اس لئے کہ بہت سارے مسلمانوں نے اسلام تو قبول کر لیا تھا لیکن  مصلحتاً اسے مشتہر نہیں کیا تھا۔ اس طرح کسی کے راز کو افشاں کرنا گوکہ کسی صورت مناسب نہیں تھا لیکن جو حالت اس وقت تھی اس کو سامنے رکھتے ہوئے “نعیم” کو اور کچھ سمجھ میں نہیں آیا اور عمر بن خطاب کی توجہ دوسری جانب مبزول کرانے کا اور کوئی طریقہ  سمجھائی نہیں دیا۔ جواب میں نعیم (نو مسلم) نے کہا کہ خود تمہارے بہن اور بہنوئی نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ چلے ہو تم ہادی اسلام ﷺ کا (نعوذباللہ) سر اتارنے اور خود اپنے گھر کی تم کو کوئی خبر نہیں۔ یہ خبر عمر بن خطاب پر بجلی بن کر گھر گئی۔ بس پھر کیا تھا، راستہ بدل کر آندھی طوفان کی طرح  اپنی بہن کے گھر کی جانب چل پڑے۔ ابھی قدموں نے دہلیز کو چھوا ہی تھا کہ  بہن اور بہنوئی کی قرآن کی کچھ آیات تلاوت  کرنے کی آواز کان میں سنائی دی۔ یہ آواز نعیم (نو مسلم) کی دی ہوئی خبر کی تصدیق کیلئے کافی تھی۔ بنا کسی اجازت گھر میں دیوانہ وار داخل ہوئے۔ عمر بن خطاب، یعنی اپنے سگے بھائی کو اس انداز میں گھر میں داخل ہوتے دیکھ کر دونوں سہم کر رہ گئے۔ اس سے پہلے کہ بہن یا بہنوئی کچھ کہتے، عمر بن خطاب نے ان دونوں کو بے تحاشہ مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔ بہنوئی سے زیادہ بہن کو بہت زد و کوب کیا یہاں تک کہ وہ بہت زخمی ہو گئیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمانوں کو جوابی وار کرنا سخت منع تھا۔ صرف ہر زیادتی کو صبر و تحمل سے برداشت کرنے کا حکم تھا اس لئے یہ زیادتی بھی صرف برداشت ہی کرنی تھی۔

بہن اس حد تک زخمی ہو چکی تھیں کہ ان کے زخموں سے خون رس رس کر لباس میں جذب ہوتا جارہا تھا۔ جب عمر بن خطاب کے ہاتھ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے اور قریب تھا کہ فیصلہ (خدا نخواستہ) شہادت پت ہی ختم ہو تو بہن نے اپنے بھائی کو مخاطب کرتے ہوئے بڑے حوصلہ، ہمت اور عزم کے ساتھ کہا کہ اے بھائی بے شک آج تو میرا یا اپنے بہنوئی کا خاتمہ ہی کیوں نہ کردے۔ ہمیں جان ہی سے کیوں نہ ماردے لیکن یہ بات یاد رکھ کہ ہم نے جو راستہ اپنے لئے چن لیا ہے اب یہ کسی طور ممکن نہیں کہ ہم اس راستے کو چھوڑ دیں۔ زندگی کا کیا ہے یہ اگر آج ہے تو شاید کل نہیں ہو۔ انسان کو بہر صورت مر ہی جانا ہے اور جانا بھی اس کے پاس ہے جس پر ہم ایمان لے کر آئے ہیں۔ وہی ہمارا خالق ہے  اور وہ ہی ہمارا مالک۔ ہم نے اسے کے دین اور اسی کی ہدایات کو اپنا لیا ہے اور یہ مان لیا ہے کہ محمد ﷺ اللہ کے وہی آخری رسول ہیں جن کا تذکرہ ساری آسمانی کتابوں میں موجود ہے۔ ایک جانب  یہ عزم، ہمت اور حوصلہ اور دوسری جانب خون سے تربتر جسم، عمر بن خطاب کیلئے یہ منظر نا قابل برداشت تھا۔ وہ سوچ میں پڑ گئے کہ آخر جن آیات کو یہ وحی الٰہی مان رہے ہیں اور جس شخصیت کو یہ اللہ کا رسول سمجھ رہے ہیں وہ کیا واقعی سچ ہے۔ یہ منظر دیکھ کر عمر بن خطاب کے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ اس کلام کو پڑھا جائے جس کی تلاوت وہ گھر میں داخل ہوتے ہوئے سن رہے تھے۔ جذبات کسی حدسرد ہو چکے تھے۔ جلال کم ہو چکا تھا۔ بہن سے تیکھے لہجے میں کہا کہ لاؤ مجھے بھی تو وہ آیات لاکر دو جس کو تم اللہ کا کلام سمجھ بیٹھی ہو۔ بہن نے روتے ہوئے کہا کہ بھائی وہ آیات تو اتنی مقدس ہیں کہ ان کو بغیر غسل چھونا بھی جائز نہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آپ اٹھیں، غصہ تھوکیں، غسل کریں اور خود ان کی تلاوت کریں۔ بہن کی بات سن کر عمر بن خطاب کا منھ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔ بہن کی یہ بات دل میں ایسی اتری کہ چپ چاپ اٹھے، غسل کیا اور آیات مقدسہ کو ہاتھ میں لیکر جونہی اس کی تلاوت شروع کی تو بے ساختہ آنکھوں سے آنسوؤں کا ایک سیلاب رواں ہو گیا۔ قرآن کا ایک ایک لفظ دل و جگر کی جراحی کرنے لگا۔ وہ سارے  کفر کےچھالے جنھوں نے دل میں گھر کیا ہوا تھا وہ سب کے سب پھوٹ بہے۔ اسی کیفت کو سامنے رکھتے ہوئے جناب حفیظ جالندھری نے اپنے “شاہنامہ اسلام” کی پہلی جلد میں “حضرت عمر کا اسلام لانا” کے عنوان کے تحت  کچھ یوں بیان کیا ہے کہ

عمر داخل ہوئے جب گھر کے اندر سخت غصے میں

سنی آہٹ تو فوراً چھپ گئے خباب پردے میں

کہا کیا پڑھ رہے تھے تم وہ بولے تم کو کیا مطلب

کہا دونوں مسلماں ہو چکے ہو جانتا ہوں سب

بہن بہنوئی کو آخر عمر نے اس قدر مارا

کہ زخموں سے نکل کر خون کی بہنے لگی دھارا

بہن بولی عمر تو آج ہم کو مار بھی ڈالے

شکنجوں میں کسی یا بوٹیاں کتوں سے نچوادے

مگر ہم اپنے دین حق سے ہر گز پھر نہیں سکتے

بلندی معرفت کی مل گئی ہے گھر نہیں سکتے

زباں پہ نام حق آنکھوں سے آنسو منھ سے خوں جاری

عمر کے دل پہ اس نقشے سے عبرت ہو گئی طاری

کہا اچھا دکھاؤ اپنی وہ آیات قرآنی

سمجھ رکھا ہے جس کو تم نے ارشادات ربانی

بہن بولی بغیر غسل اس کو چھو نہیں سکتے

یہ سن کر اور حیرت چھا گئی منھ رہ گئے تکتے

اٹھے اور غسل کرکے لے لیا قرآن ہاتھوں میں

بھلی ساعت میں آئی دولت ایمان ہاتھوں میں

کلام پاک کو پڑھتے ہی آنسو ہو گئے جاری

خدائے واحد قدوس کی ہیبت ہوئی طاری

وہ دل وہ سخت دل جو آہن و فولاد کا دل تھا

مسلمانوں کے حق میں جو کسی جلاد کا دل تھا

شعائے نور نے اس دل کو یکسر موم کر ڈالا

ہوئی تسکین بہہ نکلا قدیمی کفر کا چھالا

یہ وہی عمر بن خطاب تھے جو اللہ کے بعد سب سے عظیم ہستی (ﷺ) کے (نعوذباللہ) قتل کے ارادے سے محفل جہلا کو یہ یقین دلا کر روانہ ہوئے تھےکہ آج وہ (نعوذباللہ) ہادی دو جہاں کا سر قلم کرکے ہی آئیں گے، قرآن کی تلاوت کرکے خود ہی قتل ہو کر رہ گئے تھے۔ ایک عجیب کیفیت کا عالم تھا۔ جب محفل سے چلے تو سر کشیدہ تھا اور ہاتھ میں ننگی تلوار تھی۔ اب بھی تلوار کھینچی ہوئی تھی لیکن سر نگوں تھا۔ اس وقت بھی چال میں بجلی بھری ہوئی تھی لیکن ارادے بہت خطرناک تھے۔ اس وقت بھی پاؤں میں برق بھری تھی لیکن احساس خطا سے دل چھدا ہوا تھا۔ ایک عالم بے خودی میں اسی طرح ننگی تلوار کھینچے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضری   دینے کیلئے چل پڑے۔

آپ ﷺ اس وقت “خانہ ارقم” میں تشریف فرماتھے۔ آپ کے ساتھ ساتھیوں کا ایک ہجوم بھی تھا۔ جیسے چاند کے ساتھ بہت سے ستارے بھی ہوتے ہیں بالکل اسی طرح جو لوگ اعلانیہ اور خفیہ ایمان لا چکے تھے وہ آپ ﷺ سے فیض حاصل کر رہے تھے کہ اتنے میں عمر بن خطاب نے دروازے پر دستک دی۔ عمر بن خطاب کیونکہ ابھی تک ایمان نہیں لائے تھے لیکن اب وہ آپ ﷺ کے حضورسر جھکانے کے ارادے سے آئے تھے اور عجیب عالم بے خودی میں تھے تو شاید یہ دستک معمول سے کہیں زیادہ زور سے دے بیٹھے تھے۔ کسی صحابی نے دروازے کی دراڑ سے جھانک کر دیکھا تو عمر بن خطاب کو دروازے میں کھڑا پایا۔ پھر اس کیفیت میں کہ ہاتھ میں ننگی تلوار تھی اور وہ بھی کھنچی ہوئی تو اس ظاہری حالت پر اکثر صحابہ خوف زدہ ہوگئے۔ آپ ﷺ سے آکر عرض کی کہ دروازے میں تو عمر بن خطاب کھڑے ہیں اور کیفیت یہ ہے کہ ان کے ہاتھ میں شمشیر براں ہے اور وہ بھی کشیدہ۔ آپ ﷺ ساری حقیقت سے آگاہ تھے لیکن ابھی تک اللہ سے کی گئی اپنی دعا کو سب سے پوشیدہ رکھا تھا۔ ابھی آپ ﷺ کچھ ارشاد فرماتے، محفل میں موجود آپ کی چچا جناب حضرت حمزہ (رض) اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ دروازہ کھولو، عمر کو اندر آنے دو، دیکھ لیتے ہیں وہ کس ارادے سے آیا ہے۔ آپ ﷺ کے چچا، حضرت حمزہ (رض) عرب کے ایک نامی گرامی پہلوان اور تیغ زن تھے۔ وہ ضرب و حرب کے شناور تھے اور بنا ہتھیار بھی بیسیوں پر غالب آجایا کرتے تھے۔ عرب میں ان کی ایک دھاک تھی اور بڑے بڑے سرداران قریش ان کے مقابل آتے ہوئے گھبرایا کرتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ اگر عمر نے ادب ملحوظ رکھا اور کسی قسم کی جارحیت کا مظاہرہ نہیں کیا تو ہم اسے پوری عزت دیں گے، اس کی خاطر مدارات میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے اور بتائیں کہ کہ محمد ﷺ نے اخلاق کی ایسی تعلیم دی ہے جس کی مثال کسی تہذیب میں نہیں ملتی لیکن اگر اس نے ادب آداب کا خیال نہیں کیا اور جارحیت کا مظاہرہ کیا تو میں اسی کے تیغ کو اس کے ہاتھ سے چھین کر اس کا سر قلم کر کے اس کی چھاتی پر دھر دونگا۔ آپ ﷺ اپنے چچا کی یہ بات سن کر مسکرائے اور کہا کہ عمر کو آنے دو۔ دیکھ لیتے ہیں کہ آج عمر کس دھن میں آیا ہے۔ آپ کے حکم کے مطابق جب دروازہ کھولا گیا تو آپ ﷺ کے چچا اور ہر فرد ہر صورتحال کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار تھا لیکن جب عمر بن خطاب اندر داخل ہوئے تو منظر ہی کچھ اور تھا۔ کشیدہ شمیر جھک چکی تھی، گردن خمیدہ تھی، بدن لرزیدہ تھا، ہونٹ کپکپا رہے تھے اور الفاظ زبان کے نوک پر آکر ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر رہے تھے۔ ایک عجب منظر تھا۔

آپ ﷺ اٹھے، عمر بن خطاب کے قریب پہنچے، چادر کا دامن کھینچا اور ارشاد فرمایا کہ اے عمر، کچھ بتاؤ کے آج کس ادادے سے روانہ ہوئے تھے اور اب کس ارادے سے یہاں کھڑے ہو۔ اللہ اللہ، آپ پر تو سب احوال منکشف ہو گیا تھا۔ کچھ کہنے اور سننے کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہ گئی تھی۔ صحابہ محو حیرت تھے اور زمین و آسمان کی گردش گویا تھم سی گئی تھی۔ زبان عمر کنگ ہو چکی تھی مگر آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں کا دریا سب احوال بتائے دے رہا تھا۔ لرزیدہ ہونٹوں سے بس اتنا ہی نکلا کہ میں (عمر بن خطاب) آپ کی خدمت میں اسلام لانے حاضر ہوا ہوں۔ زبان سے ان الفاظ کا ادا ہونا تھا کہ سارے شرکائے محفل  کے منھ سے نعرہ اللہ اکبر ایسا بلند ہوا کہ اس کی آواز عرش الٰہی تک جا پہنچی۔ مسلمانوں کی خوشی کا عجب عالم تھا۔ ایک ایک انگ اس خوشی کا اظہار کر رہا تھا۔

اہل کفر و شرک کی محفل اسی طرح سجی ہوئی تھی۔ ایک شور و غوغا مچا ہوا تھا۔ وہ سب عمر بن خطاب کا انتظار کر رہے تھے۔ انھیں یقین تھا کہ آج عمر (نعوذباللہ) ہادی دو جہان کا سر لیکر آئیں گے۔ منتظر نظروں نے عمر (رض) کو آتے دیکھا تو سب کے چہرے کھل اٹھے۔ عمر (رض) کو گئے کافی دیر ہو چکی تھی اس لئے محفل کسی حد تک مضطرب دکھائی دے رہی تھی۔ عمر پہنچے تو اہل کفر و شرک پر ایک سنناٹا چھا گیا۔ آپ نے آکر ان پر ایک آتش فشاں پھاڑ دیا۔ گویا ہوئے کہ اے اہل کفر، میں نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ میں نے مان لیا ہے کہ محمد (ﷺ) اللہ کے سچے بنی ہیں اور وہ جو کچھ بھی لیکر آئے ہیں وہ اللہ کا کلام ہے۔ اللہ واحد ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور جن بتوں کی تم پوجا کرتے ہو وہ سب جھوٹے ہیں۔

یہ کلمات کیا تھے، زہر میں بجھے تیر و نشتر تھے جو ہر کافر کے دل کو چیرے جارہے تھے۔ محفل قبرستان میں بدل چکی تھی اور عمر محفل سے روانہ ہو چکے تھے۔

حضرت عمر (رض)  کا اسلام قبول کر لینا کیا تھا دعوت اسلامی کا ایک سنہرے دور کاآغاز تھا۔ وہ تمام نو مسلم جو اپنے آپ کو ظاہر کرتے ہچکچاتے تھے، سب کے سب لوگوں کے سامنے ظاہر ہو گئے۔ وہ تمام مسلمان اور صاحب نماز  جو چھپ چھپ کر نمازیں ادا کیا کرتے تھے وہ خانہ کعبہ میں نماز ادا کرنے لگے تھے اور کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ ان کو ایسا کرنے سے روک سکے۔

تاریخ اسلام کا یہ ایک بے مثال واقعہ ہے۔ اللہ ہر کسی کو عمر (رض) کی صفات کا حامل بنائے تاکہ دنیا میں اسلام کو فروغ حاصل ہو سکے (آمین)۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

4 تبصرے

  1. you’re really a good webmaster. The site loading
    velocity is incredible. It kind of feels that you are doing
    any distinctive trick. Moreover, The contents are masterwork.

    you’ve performed a wonderful task on this subject!

  2. My coder is trying to persuade me to move to .net from
    PHP. I have always disliked the idea because of
    the costs. But he’s tryiong none the less. I’ve been using Movable-type
    on a number of websites for about a year and am anxious about
    switching to another platform. I have heard excellent things about blogengine.net.
    Is there a way I can import all my wordpress posts into it?
    Any kind of help would be really appreciated!

جواب چھوڑ دیں