پی ایس ایل اور صوبائی اداروں کی منافقت

پی ایس ایل کاجوش جس طرح اپنے عروج پر ہے اسی طرح مختلف صوبائی اوربلدیاتی ادارے بھی چوبیس گھنٹے کام ،کام اور صرف کام میں جتے ہوئے ہیں ،ہر لحاظ سے اس میگا ایونٹ کو کامیاب بنانے کے لیے کئی جتن کیے گئے ہیں۔ سیکورٹی صورت حال کے باعث لاہور کے میچز بھی کراچی میں منعقد کرنے کے اعلان کے بعد سے شہر قائد کی انتظامیہ میں نیا جوش وولولہ سا نظرآرہاہے ،چوبیس گھنٹے کام کرنے کے باوجود بھی چہرے پر تھکن نہیں، صرف ایک ہی جنون سر پر سوار ہے کہ کسی بھی طرح اس ایونٹ کوکامیاب بناناہے۔
میگاایونٹ کی میزبانی ملنے پر شہری بھی خوش دکھائی دے رہے ہیں ،سڑکوں ،چوہراہوں ،فٹ پاتھوں اوردیگر تفریحی مقامات کو انتہائی خوبصورتی سے سجاکر انتظامیہ نے واقعی مثال قائم کی ہے جس پر ان کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ لیکن ٹھہریے ۔۔۔یہ وہی سندھ حکومت ہے اور یہ وہی لوکل انتظامیہ ہے جس کے پاس کسی بھی کام کے لیے کوئی فنڈ ہی نہیں تھا تو پھر اچانک سے کس طرح پیسہ آنا شروع ہوگیا اور کس طرح چند دنوں میں ہی شہر کی بدترین حالت کو بہترین بنادیاگیا؟
سڑکوں کی صفائی ستھرائی کے ساتھ ساتھ دھلائی بھی کی جارہی ہے ،جو گاڑی یہ کام سرانجام دے رہی ہے اس کے پاس تو کبھی ڈیزل کے پیسے بھی نہیں تھے پھر اچانک یہ سب کس طرح ہوگیا کہ پیسہ بھی مل گیا اور کام بھی چل پڑا۔کراچی دنیا کے بڑے شہروں میں سے ایک ہے جسے گلوبل سٹی کا خطاب بھی مل چکا ہے ،یہ ہی وہ واحد شہر ہے جو پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ،جو مظلوم بھی ہے مگر سیاسی مفادات کی خاطر اسے ظالم بناکر پیش کیاجاتا ہے ۔ یہ تمام صوبوں کے لوگوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں اور ایک ماں کی طرح ان کی دیکھ بھال کررہا ہے ۔ مگر گندگی کے ڈھیر پر سیاست کرنے والے آج اسی گندگی کو دفناکر شہر کی خوبصورتی کو چارچاند لگانے میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں۔ کل تک کسی بھی بلدیاتی اور صوبائی ادارے کے پاس نہ تو اختیار ات تھے اور نہ ہی کسی کے پاس فنڈز تھے کہ وہ شہر کی تعمیر وترقی پر بھی توجہ دیتے ۔ نیوز چینلز پر ایک ہی خبر بار بار دیکھنے کو ملتی تھی جس میں سیاستدان اپنے اپنے مفادات کو ترجیح دیتے نظرآتے تھے۔ مگر اچانک پی ایس ایل کی کراچی آمد کا اعلان ہوتاہے اور پھر سب کچھ بدل جاتا ہے ۔ سڑکوں سے کچرا غائب،دیواروں پر سفیدی ،فٹ پاتھوں پر برقی قمقے اور ہر طرف خوش گوار ماحول بناکر کراچی کو دلہن کی طرح سجادیاگیا۔
یہ سجاوٹ عارضی ہے مگرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس عارضی سجاوٹ پر اداروں نے کروڑوں روپے خرچ کردیے ۔یہ عوام کا پیسہ تھا اس کا حساب کس کے کھاتے میں جائے گایہ بات کسی کو معلوم نہیں اور نہ ہی کوئی اس پر ایکشن لے گا،کیوں کہ یہ عارضی سجاوٹ کو ملکی خوش حالی کا نام دیاگیا ہے ۔ کل تک وزیر بلدیات کو فرصت ہی نہیں تھی کہ وہ شہر کے حالات پر بھی کوئی دولفظ کہہ دیتے۔ مگر آج وہ ہر وقت شہر کی رونق کی بات کرتے نہیں تھکتے۔ کل تک میئر کراچی کے پاس شہر کی صفائی ستھرائی کے لیے فنڈ نہیں تھا اب وہ دن رات کام میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں۔عوام یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ جس طرح کراچی میں وردی والوں نے امن قائم کیا کہیں اس صفائی ستھرائی کے پیچھے بھی تو وردی کا ہاتھ تو نہیں؟ اور اگر جمہوری بچوں کاکہنا یہ ہے کہ یہ خالصتاًحکومتی اداروں کی محنت ہے تو پھر پی ایس ایل سے قبل یہ فنڈز کہاں غائب تھے جو آج اچانک تجوریوں سے باہرآگئے؟
پی آئی ڈی سی سے لے کر نیشنل اسٹیڈیم تک ہر جانب پولیس کمانڈوز،رینجرز اور فوج کے دستے تعینات ہیں ،بڑی عمارتوں پر اسنائپرموجود ہیں ،تمام علاقوں کو جدید کیمروں کی مدد سے مانیٹر کیاجارہاہے ،جہاں کوئی پرندہ بھی ان کی نظروں سے بچ کرنہیں جاسکتا۔ بے شک غیرملکی مہمانوں کی حفاظت ہماری ذمے داری ہے،مگر کیا عوام کے جان ومال کے لیے کبھی اس طرح کے اقدامات کیے گئے ؟کیا کبھی عوام کے لیے اداروں نے اتنی محنت کی؟ کیا کبھی صوبائی اور وفاقی حکومتوں میں اس طرح کا اتحاد نظرآیا جو آج پی ایس ایل کی خاطر نظرآرہاہے؟ جتنا پیسہ آج محض عارضی سفیدی اورچمک دمک پر کیاگیا ہے اگر یہ ہی فنڈز درست سمت میں استعمال کرکے کیاجاتا تو شاید یہ ایک عرصے تک برقرار رہتا اورعوام بھی اپنی تکلیفوں کوکچھ عرصے کے لیے بھول جاتے۔ چند دن پہلے تک ان ہی سڑکوں پر ہر وقت بدترین ٹریفک کی صورت حال نظرآتی تھی ،مگر آج انہیں سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں رہتا ہے ۔ اس کی وجہ ٹریفک پولیس کا ایمانداری سے ڈیوٹی دینا ہے جو اس سے قبل کبھی نہیں دی گئی۔ ٹریفک پولیس جو ہر وقت چالان اور جیب خرچ کے پیچھے بھاگتی نظرآتی تھی آج وہی ٹریفک پولیس ہے جسے نہ تو چالان کی فکر ہے اور نہ ہی اپنی جیب کی ،بس ایک ہی چیز پر نظرہے کہ ٹریفک رواں دواں رہے۔اگریہ ہی ٹریفک پولیس ایمانداری سے اپنا کام ہروقت کرتی رہے تو شہر میں ٹریفک جام کا مسئلہ ہی پیدا نہ ہو۔ شہر میں کوئی ایسا شخص نہیں جو نہ جانتا ہوں کہ ٹریفک پولیس ہمیشہ ٹریفک کے دوران غائب رہتی ہے ،یا پھر کسی کونے میں کھڑی شکارکا انتظار کرتی نظرآتی تھی۔
اسی طرح پولیس کمانڈوز جو ہر وقت پروٹوکول اور قافلوں میں دکھائی دیتے تھے آج وہ ہی کمانڈوز سڑکوں کی خاک چھان رہے ہیں اور ہر آنے جانے والی گاڑیوں اور لوگوں کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔یہ کمانڈو اچانک کہاں سے آگئے؟ کیا اب وی آئی پی ڈیوٹیاں ختم ہوگئیں ہیں جو انہیں فارغ کرکے سڑکوں پر نکال دیاگیا ہے؟محکمہ باغات کے پاس فنڈز نہیں تھے اس لیے شہر کے پودے اوردرخت سوکھ کر ختم ہونے کے قریب آچکے تھے مگر اچانک وہ محکمہ باغات ہر دو ،تین گھنٹے بعد پودوں اوردرختوں کوپانی دیتا نظرآرہا ہے۔کتابوں میں پڑھا تھا کہ کراچی کی سڑکوں کی دھلائی بھی ہوتی تھی مگر آج اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی رہے ہیں ،اس سے پہلے یہ ادارے کہاں تھے جو آج اچانک خلائی مخلوق کی طرح برآمد ہوکر عوام کو حیران وپریشان کررہے ہیں؟
پی آئی ڈی سی برج پر دس پندرہ برس سے اسٹریٹ لائٹس روشن نہیں ہوئیں ،آج کے الیکٹرک نے انہیں بھی روشن کرکے عوام کو حیران کردیا ہے ،کئی مرتبہ مختلف اداروں اور شخصیات کی درخواست کے باوجود اسٹریٹ لائٹس روشن نہیں کی گئیں مگر آج پی ایس ایل کی خوشی میں بہنے والی گنگا میں کے الیکٹرک بھی ہاتھ دھونے کے بجائے نہاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔شاہرائے فیصل پرلگی اسٹریٹ لائٹس بھی آج روشن ہوکر کے الیکٹرک کی کارکردگی پر سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔اطراف کے علاقوں میں لوڈشیڈنگ بھی کم کردی گئی ہے جو اس قبل کے الیکٹرک کے بس کی بات نہیں تھی۔ محکمہ سالڈ اینڈ ویسٹ مینجمنٹ بھی ہروقت گلی ،محلوں اور سڑکوں پرگشت کرتادکھائی دیتا ہے تاکہ جہاں کوئی گندگی ہوتو اسے فوری طورپر ہٹادیاجائے۔جناح فیملی پارک جو ایک عرصہ بند رہنے کے بعد چند روزقبل ہی عوام کے لیے کھولا گیا تھا وہ ہی جناح پارک آج پھر عوام کے لیے محض سیکورٹی خدشات کا سہارا لیتے ہوئے پھر بند کردیاگیا ہے۔سپریم کورٹ کے احکامات کی دھجیاں اڑانے والا محکمہ ایڈورٹائز بھی غفلت کی نیند سے بیدار ہوکر جی جان سے کام میں مصروف ہے۔جس کا ثبوت مختلف شاہراؤں پر ہٹائے گئے اشتہاری بورڈ ہیں۔
پی ایس ایل کے باعث آج روزانہ کی بنیاد پر صوبائی اور مقامی حکومتی اداروں کے اجلاس باقاعدگی سے ہورہے ہیں تاکہ عوام کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا رہانہ کرناپڑے۔ مگر درحقیقت یہ اجلاس عوام کو پریشانی سے بچانے کے لیے نہیں بلکہ اپنی نوکریاں بچانے کے لیے ہورہے ہیں ۔ اگر یہ ادارے روزانہ کی بنیاد پر نہ سہی پندرہ دن بعد بھی صرف ایک دن عوام کے لیے اجلاس کریں اور عوام کو درپیش مسائل پر بات کریں تو شاید برسوں کے مسائل مہینوں میں ہی ختم ہوجائیں۔
پی ایس ایل کی خاطر جس طرح تمام ادارے اپنی اپنی منافقت سے باہرآئے ہیں اگر اسی طرح وہ عوامی خدمات کو بھی اپنا شعار بنالیں تو شاید کراچی دنیا کا بہترین اورخوبصورت شہر بن سکتا ہے اورجس طرح بے دریغ فنڈز عارضی کاموں میں خرچ کیے جارہے ہیں اگر یہ فنڈز درست استعمال کیے جائیں تو شاید کراچی کے شہریوں کو کبھی تکلیف کا سامنا نہ کرناپڑے۔ یہ اب اداروں کی ذمے داری ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں منافقت کا لبادہ اوڑھ کر اپنی آخرت کالی کرنا چاہتے ہیں یا اب واقعی حقیقی طورپر بھی عوامی بھلائی کے لیے بھی کچھ کرتے ہیں، فیصلہ ان کے ہاتھ میں ہے۔

حصہ
mm
روزنامہ جسارت سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف بلاگز ویب سائٹس پر بلاگ ‘فیچرز اور تاریخی کہانیاں لکھتے ہیں۔ روزنامہ جسارت کے سنڈے میگزین میں بھی لکھ رہے ہیں۔ روزنامہ جناح کراچی میں بطور سندھ رنگ میگزین کے انچارج کے طورپر اپنی خدمات بھی انجام دے چکے ہیں۔ زیادہ تر معاشرتی مسائل پر لکھنے کا شوق ہے۔ اس کے علاوہ کراچی پریس کلب کے ممبر اورپاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے بھی ممبرہیں۔

جواب چھوڑ دیں