جو گزرتی ہے داغ کے دل پر

عام طور پر کہا یہی جاتا ہے کہ زمانہ بدل گیا۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ “ہم” بدل گئے ہیں۔ دور مت جایئے، ذرا ظاہری آنکھیں بند کرکے دل کی آنکھیں کھول کر اپنے ماضی کو کریدیئے۔ جنگ تو بہت بڑی اور ہولناکی کی بات ہے۔ ملک میں بھی اگر بد امنی پھیل جایا کرتی تھی یا حالات کوئی سنجیدہ شکل اختیار کر لیا کرتے تھے تو ریڈیو ٹی وی کا ہر پروگرام غم و اندوہ میں ڈوب جایا کرتا تھا۔ ان کے مونوگرام کے رنگ بدل جایا کرتے تھے۔ بولنے والوں کے لب و لہجے پہلے کے سے کرخت نہیں رہتے تھے اور ہر قسم کے بیہودہ پروگرام، فحش اشتہارات اور ایک دوسرے پر کی جانے والی تبرے بازیاں دم توڑ دیا کرتی تھیں۔ قومی ترانے بجنا شروع ہوجایا کرتے تھے اور ایسے ایسے نغمے نشر ہونے لگتے تھے کہ ہر فرد و بشر کا لہو جوش میں آنے لگتا تھا لیکن اب یہ عالم ہے کہ سنگین سے سنگین صورت حال میں بھی معمول کا کوئی ایک پروگرام بھی بند نہیں ہوتا۔ فحش اشتہارات اسی طرح چلتے دکھائی دیتے ہیں، اینکرز حضرات کا تیکھا پن، سیاسی گروہوں کی ایک دوسرے پر گولا باری، غداریوں کی اسناد کا اجرا جاری رہنا اوررنگینی مزاج کی وہی طمطراقیاں بدستور جاری رہتی ہیں۔

گزشتہ چند دن قبل پاکستان جنگ کے شعلوں کی زد میں گھرا ہوا تھا لیکن علاوہ اس کے کہ ہم دشمن ملک کے خلاف بہت کچھ آگ اگل رہے تھے (جوکہ اگلنی بھی چاہیے تھی) لیکن ہمارے باقی معمولات میں کسی بھی قسم کی کوئی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔ ہر چند منٹ کے بعد ویسے ہی بیہودے اشتہارات، فضول گوئیاں، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا، تبرے بازیاں اور اور الزام تراشیاں اسی انداز میں جاری رہیں۔ بے شک ایک بے پناہ دباؤ ضرور کم ہوا ہے لیکن خطرے کے بادل نہ صرف پہلے کی طرح چھائے ہوئے ہیں بلکہ ان کی گھن گرج فضاؤں میں پہلے کی طرح اب بھی سنائی دے رہی ہے لیکن لگتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو بدلنے کیلئے کہیں سے کہیں تک بھی تیار نہیں۔

عالم یہ ہوگیا ہے کہ جب تک کسی بستی یا کسی کے سر پر ہی کوئی بلا نہ ٹوٹ پڑے اس وقت تک کوئی یہ ماننے کیلئے تیار ہی نہیں کہ جنگ ابھی جاری ہے۔

کشمیر کے آٹھ دس سیکٹرانڈیا کی گولہ باری کی زد میں آئے ہوئے ہیں، شہری ہی نہیں ہمارے جوان بھی ہر روز کام آرہے ہیں، گھر ٹوٹ رہے ہیں، مال مویشی مارے جارہے ہیں، راتوں کی نیند اور دن کا سکون برباد ہو کر رہ گیا ہے اور لوگ بڑے پیمانے پر نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں لیکن لگتا ہے کہ پورے پاکستان کے منھ پر تالے لگ گئے ہیں اور سب نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے۔ کبھی کبھی بھولے سے کوئی ایک آدھ خبر نشر ہوجاتی ہے یا بھولے سے کوئی اسٹرپ چلادی جاتی ہے جس کے فوراً بعد ایک نہایت بیہودہ اشتہار نشر کرکے بھر پورمذمت کا اظہار کردیا جاتا ہے۔ خبر نشر کرتے ہوئے کسی کے لب و لہجے میں نہ تو دکھ کی کوئی ہلکی سی لہر پائی جاتی ہے اور نہ ہی پس پردہ صوتی اثرات کسی غم کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ شہادتوں کی خبر بھی کچھ اس انداز میں نشر کی جاتی ہے جیسے مرنے والے بہت ہی غیر اہم لوگ تھے جن سے جان چھوٹ گئی ہو یا وہ کہہ رہے ہوں کہ “خس کم جہاں پاک”۔

ذرا اس درد بھری حقیقت کا وزن کرنے کی کوشش کریں جو بی بی سی کے عمر دراز ننگیانہ نے رپورٹ کئے ہیں- وہ تحریر کرتے ہیں کہ “پاکستان اور انڈیا کو تقسیم کرنے والی ورکنگ باؤنڈری کے قریب واقع گاؤں کندن پور کی مسرت بی بی کے دو ہی بیٹے تھے۔ دونوں کاروبار کرتے تھے اور کچھ عرصہ قبل ان کی شادیاں ہوئی تھیں۔ 24 سالہ قمر ساجد اور ان کے 22 سالہ بھائی وقاص علی ،دستانے بنا کر سیالکوٹ شہر جا کر بیچا کرتے تھے۔ ان کے والد ملک مقصود نے مویشی پال رکھے تھے۔ سنہ 2015 میں اگست کی ایک رات نے اس خاندان کے افراد کی زندگیاں بدل کر رکھ دیں۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالات کشیدہ تھے اور صوبہ پنجاب میں ورکنگ باؤنڈری پر دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان تناؤ پایا جاتا تھا۔ سیالکوٹ کے اس گاؤں کُندن پور کے لوگوں نے دن بھر سرحد پر گولیوں کی تڑتڑاہٹ سنی۔ کشیدگی کے دنوں میں ایسا ہونا یہاں کے باسیوں کے لیے معمول کی بات تھی۔ مگر پھر دو کلو میٹر دور سرحد کے اس پار سے مارٹر گولے برسنا شروع ہوئے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ لوگ چھپنے کے لیے بھاگے۔ سرحد کے قریب واقع اپنے گھر میں بیٹھے وقاص علی نے اپنے چھوٹے بیٹے وقار علی کو سنبھالا اور ایک کمرے میں پناہ لینے کے لیے دوڑے ہی تھے کہ ان کے صحن میں گولہ آ گرا۔ ان کی والدہ مسرت بی بی اس دن کو یاد کرتے ہوئے اپنی سسکیاں نہیں روک پاتیں۔ بڑا (بیٹا) پہلے گیا پھر چھوٹا اپنے بیٹے کو اٹھا کر بھاگا ہی تھا تو اتنے میں اوپر سے وہ (مارٹر کا گولہ) آ گرا۔ وہ گرا ہے اور۔۔۔پھر گھر کا گھر تباہ ہو گیا بس۔ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ مسرت کے دو منزلہ پکے مکان کے عین سامنے سڑک کے پار قبرستان ہے۔ اس کے آغاز ہی میں پائے جانے والی تین پکی قبریں ان کے دونوں بیٹوں اور پوتے کی ہیں۔ ان قبروں پر پاکستان کا جھنڈا لہرا رہا ہے۔ اپنے گھر کی چھت پر کھڑی نیچے قبرستان کی طرف دیکھ دیکھ کر مسرت اپنی نم آنکھیں پونچھتی رہتی ہیں”۔

بی بی سی میں شائع ہونے والی ایک کہانی اس سے بھی پُر درد ہے۔ سن کر کلیجہ منھ کو آنے لگتا ہے۔ یہ تحریر “دیویا آرہ” دہلی کی ہے۔ وہ ایک معصوم بچی کے متعلق لکھتی ہیں کہ ” وہ دھیرے سے میری حفاظتی جیکٹ کو چھوتی ہے اور دوسرا ہاتھ آگے بڑھا کر کہتی ہے ‘یہ دیکھو۔’ اس کی ننھی سی مٹھی میں گولے کے کچھ ٹکڑے ہیں۔ کالے اور بدبودار لوہے کے ٹکڑوں کو وہ کسی فتح کے میڈل کے طور پر پیش کرتی ہے۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی ہوئی ہے کیونکہ آج اس نے اچھی تعداد میں یہ ٹکڑے اکٹھے کیے ہیں اور اسے اس کھیل میں دوسرے بچوں کو پیچھے چھوڑنے کی امید ہے۔

میں اس سے ان ٹکڑوں کو پھینک کر صابن سے ہاتھ دھونے کے لیے کہتی ہوں۔ ایک پولیس اہلکار نے بتایا ہے کہ ان ٹکڑوں سے کیمیائی گیس نکلتی ہے جو خطرناک ہوسکتی ہے۔ وہ ہاتھ پیچھے کھینچ کر مٹھی بند کر لیتی ہے۔ میں پوچھتی ہوں: تمہیں ڈر نہیں لگتا؟ وہ کہتی ہے، ہم بڑے ہوکر پولیس بنیں گے، ہم بہادر ہوں گے، ہمیں کس بات کا ڈر؟”۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جب خوف بڑھ جاتا ہے تو ڈر دل سے نکل جاتا ہے۔ یہی حال اس بچی کا ہے جس کے ہاتھ میں پھٹ جانے والے کسی بم یا گولے کی ٹکٹے تھے اور وہ نہایت بے خوفی کے ساتھ کہہ رہی تھی کہ اسے کسی بات کا خوف نہیں بلکہ وہ ایک بہادر بچی ہے اور بڑے ہوکر وہ بھی ایک بہادر سپاہی کی طرح دشمن کا مقابلہ کریگی۔ شاید اسی کیفیت کو سامنے رکھ کر مرزا غالب نے کہا ہوگا کہ

رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج

مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں

وہ ماں اور دادی جس کا ذکر عمردراز ننگیانہ نے کیا اور وہ بچی جس کی کہانی دیویانہ آریا نے بیان کی، کیا کسی کو ان کی کہانی سن کر اور ان جیسوں ہزاروں گھرانوں کی داستانیں سننے کے بعد اس درد اور دکھ کا احساس ہوتا ہے جس سے وہ گرز رہے ہیں۔ جو خوف کا عالم ان پر سوار ہے اور جس کرب کے ساتھ وہ راتوں کو جاگنے اور دن بے سکونی کے ساتھ گزارنے پر مجبور ہیں۔ کیا وہ ریاست پاکستان جو رات دن اہل کشمیر کے درد میں مگر مچھ کے آنسو بہاتی رہتی ہے اس کی آنکھوں سے کبھی لہو بھی بہا ہے؟۔ لہو بہنے کی بات تو بہت دور کی ہے اس لئے کہ لہو تو ان آنکھوں سے بہتا ہے جو باہر اور اندر سے ایک ہوں، میں تو صرف اتنا پوچھنا چاہونگا کہ کیا ایسی درد انگیز صورت حال کو دیکھ کر کیا اہل پاکستان کی آنکھوں میں کبھی خون بھی اترا ہے؟۔ کیا جذبہ غیرت بھی کبھی جاگا ہے اور کیا کبھی حمیت کے لہو نے شریانوں میں خون کی گردش کبھی بڑھائی ہے؟۔

کسی قوم کو جس کے لہو کا ہی نہیں، مذہب اور مسلک کا رنگ ایک ہی ہو اور وہ جنگ کی آگ میں جھلس رہی ہو اور اس کیفیت میں 72 برس بیت چکے ہوں اور سرحد کے اِس جانب صرف زبانیں ہلا رہے ہوں اس سے زیادہ بے حسی کی اور کیا بات ہو سکتی ہے۔ ممکن ہے کہ پاکستان کی جانب سے کئی افراد، اہل اختیار و اقتدار یہ کہیں کہ پاکستان ہی ہے جو کشمیر کے مسئلہ کو دنیا کے ہر فورم پر اٹھا رہا ہے اس لئے بے حسی کا طعنہ اسے نہیں دیا جائے۔ ایسا کہنا بے شک درست ہی ہوگا لیکن کیا کسی کے گھر میت ہوجائے تو وہ سارا سارا دن بے ہودہ گوئی کرتا رہتا ہے، ٹی وی پر ہر قسم کے فحش فلمیں، ڈرامے اور اشتہارات پر نظر جمائے رکھتا ہے اور یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے ایک دوسرے کے خلاف مغلظات بکتا ہوا نظر آتا ہے۔ اگر پڑوس کی کسی فوتگی پر پڑوسی اسی قسم کے رویے کا اظہار کرے تو کیا اس کو شریک غم مان لیا جائے گا؟۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ کشمیر کے محاذ پر مسلسل گوکہ باری جاری ہے اور شہریوں اور جوانوں کی شہادتوں کی اطلاع ایک تسلسل سے آرہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک طوفان مچاہوا ہے جس کی تصدیق آئی ایس پی آر کی جانب سے بھی ہو رہی ہے لیکن الیکٹرونک میڈیا کی بے حسی میں ذرہ برابر بھی کوئی فرق نظر نہیں آرہا اس لئے کہ ان کی آنکھوں میں مظلوموں کا خون نہیں دھن دولت رقصاں ہیں اور وہ اشتہارات اور اپنے معمول کے مغلظات بھرے پروگراموں کو بریک لگا کر اپنے اوپر برسنے والی روپوں پیسوں کی کالی گھٹاؤں کو برسنے سے رکتا نہیں دیکھ سکتا۔ ایسی ہی بے حسی پرچراغ حسن حسرت داغ نے درست ہی کہا تھا کہ

جو گزرتی ہے داغ کے دل پر

آپ بندہ نواز کیا جانیں

پاکستان اور پاکستان کے سارے اداروں کو سنجیدہ ہونا پڑے گا۔ جنگ کی سختیاں جھیلنے کیلئے صرف کشمیریوں کو نہیں چھوڑ دینا پڑے گا بلکہ ان کی ہر اذیت کو محسوس کرکے ان کے ہاتھ پاؤں بننا ہوگا۔ اگر ایسا ہے تو ٹھیک ورنہ اپنے ایٹمی ہتھیار، جنگی سازوسامان سارے کے سارے تلف کرکے بہتر ہے کہ پیروں میں مہندی لگاکر اور ہاتھوں میں چوڑیاں پہن کر بیٹھ جایا جائے تاکہ کم از کم دفاع پر خرچ ہونے والی خطیر رقم کی بچت ہو سکے تاکہ اسے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جا سکے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں