اسلام میں عورت کا مقام اور بین الاقوامی یومِ خواتین 

ہرسال 8 مارچ کو پوری دنیا میں عورتوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔جس کا مقصد خواتین کے حقوق،معاشرے میں ان کی عزت و مقام ،سماجی حیثیت کو تسلیم کرنا ہے۔ساتھ ہی ساتھ انہیں ان تمام حقوق کا شعور فراہم کرنا جو مرد اس معاشرہ میں رکھتے ہیں۔اس دن کو منانے کا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ بلا تخصیص مرد و زن حقوقِ نسواں کو اہمیت دینا اور ان کا معاشرہ میں مقام متعین کرنا۔حقوقِ نسواں کا پہلا قومی دن 1909میں تھریسا سربر theresa serber کے کہنے پر سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ نے منایا۔جو اپنے عہد کی معروف مصنفہ اور سماجی کارکن تھی۔ ایسے ہی 1910 میں کوپن ہیگن ڈنمارک کی سوشلسٹ پارٹی نے بھی ایک میٹنگ میں حقوقِ نسواں کے متعلق فکر کی اور یہ سلسلہ آسٹریا،جرمن،ویانا،پیرس اور سوویت یونین تک جا پھیلا۔1917 کے انقلاب روس میں خواتین پہ ڈھائے جانیوالے ظلم اور استبداد کے خلاف روس نے باقاعدہ اس دن سرکاری تعطیل کا اعلان کر دیا جو اس بات کا ثبوت تھا کہ مرد بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔بالآخر اقوامِ متحدہ نے 1975 میں آٹھ مارچ کو باقاعدہ اس دن کو بین الاقوامی طور پر منانے کا اعلان کر دیا۔یہ تو تھے وہ تاریخ ساز حقائق جسے آجکل کی نام نہاد مغربی تعلیم یافتہ نسل عورت کو معاشرہ میں مظلوم بنا کر پیش کرتی ہے،اور اس بات کا واویلا ایسے مچاتی ہے کہ جیسے دنیا میں مظلوم ترین مخلوق صرف اور صرف عورت ہی ہے ۔اس شور کا شعور اب چند اسلامی ممالک میں بھی سنائی دینے لگا ہے۔اگر میں پاکستان کا حوالہ دوں تو اکثر اس بات کو عیاں کیا جاتا ہے کہ دیہی عورت پر طرح طرح کے ظلم رواں رکھے جاتے ہیں۔اسے گھر کے علاوہ کھیتوں میں بھی کام کاج کے لئے جانا پڑتا ہے اور یہ اس کی مرضی کے خلاف ہوتا ہے اور بلا معاوضہ۔تو جناب میں نے اپنی زندگی میں بہت سے دیہات کا دورہ بھی کیا ہے اور میرے ننہال کا تعلق بھی ایک دیہات ہی سے ہے۔میں نے آج تک نہیں دیکھا کہ عورتوں کو زبردستی کھیتوں میں کام کرنے پہ لگایا گیا ہو،یہ سب تو وہ خاندان اور خاوند کی محبت میں کرتی ہیں۔
یہ سب تو ایک صد ی کا قصہ ہے کہ جب سے حضرت انسان نے عورت کے سر سے دوپٹہ سرکنے کے نام کو آزادی نسواں کا نام دے رکھا ہے۔جبکہ میرے آقاﷺ کے دینِ حق نے تو آج سے پندرہ صدیاں قبل عورتوں کے بطور بہن،ماں،بیوی الغرض باندیوں تک کے حقوق کو اس وضاحت و استراحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ عقل حیران و ششدر رہ جاتی ہے۔ سورۃ النسا میں حکمِ باری تعالیٰ ہے کہ’’مومنوں: تم کو جائز نہیں کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ۔اور اس نیت سے کہ جو کچھ تم نے ان کو دے رکھا ہے اس میں سے کچھ لے لو ،انہیں گھروں میں مت روک رکھنا۔ہاں اگر وہ کھلے طور پر بدکاری کی مرتکب ہوں‘‘۔اسی طرح سورۃ بقرہ میں ارشادِ ربانی ہے کہ’’عورتوں کا حق(مردوں پر) ویسا ہی ہے،جیسے دستور کے مطابق(مردوں کاحق) عورتوں پر ہے۔البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے اور خدا غالب صاحبِ حکمت ہے۔اللہ تعالی نے سورۃ النسا میں تو یہاں تک فرما دیا کہ’’ اگر میاں بیوی میں(موافقت نہ ہو سکے)اور ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں تو خدا ہر ایک کو اپنی دولت سے غنی کر دے گا۔اور خدا بڑی کشائش والا اور حکمت والا ہے۔‘‘میں حیران ہوتا ہوں ایسی تمام نام نہاد تنظیموں کے جلوس نکالنے،ریلیاں نکالنے پر اور ایسے حقوق کی تشہیر پر جس پہ کم از کم میرا مذہب تو کوئی قدغن نہیں لگاتا۔جو مذہب باندی سے لے کر بیوی اور ماں کے حقوق اور عزت کی پاسداری کے لئے مرد کو حاکم بنا کر خواتین کو شہزادیوں کی طرح گھروں میں عزت کا تاج پہنا کر بٹھانے کی بات کرتا ہو،وہ بھلا خواتین پر تشدد اور استبدادیت کے واقعات کو کیسے تسلیم کر کے اس کو ہوا دینے کی اجازت دے سکتا ہے۔یہ سب انسانون کے بنائے ہوئے معاشی عدم توازن کی بنا پر ہوتا ہے۔اس لئے کہ ہم جس معاشرہ میں رہ رہے ہیں وہاں عورت کو ایک مخصوص سمبل کے طور پر جانا جاتا ہے۔جس کی نشاندہی اکبر بادشاہ کے درباری گویے تان سین نے کی تھی۔واقعہ کچھ اس طرح سے ہے کہ تان سین کا ایک ہی شاگرد تھا جسے تان سین رموزِ موسیقی اور لحن کے اتار چڑھاؤ سے روشناس کرواتا تھا۔ایک روز کسی کام کی غرض سے استاد نے بازار بھیجا کافی دیر تک جب شاگرد واپس نہ آیا تو تان سین کو فکر لاحق ہوئی اور اس نے چند درباریوں کو اس کی تلاش میں روانہ کر دیا کہ اسی اثنا میں شاگردِ خاص محل میں وارد ہوتا ہے اور استاد سے آتے ہی یوں ہمکلام ہوا کہ استادِ محترم آج میں جو آواز سن کے آ رہا ہوں اس کے سامنے آپ کی آواز کچھ بھی نہیں ۔کیا سریلی اور دل موہ لینے والی آواز تھی؟آپ کی آواز اس کے سامنے ایسے جیسے کوئل کے سامنے مور چیخ رہا ہو،تان سین بڑا حیران ہوا،استاد آخر استاد ہی ہوتا ہے،کہنے لگا اچھا اگر وہ اتنا ہی سریلا ہے تو پھر وہ آدمی نہیں بلکہ کوئی خوبصورت عورت ہوگی اور ایسا ہی تھا۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں