میں اس کی موت سے خوش ہوئی 

کہنے لگی کہ ٹرین کھچا کھچ بھری تھی ہمارے چھ بچوں میں ایک چھوٹی بچی بھی شامل ہو گئی اور بے خبر سب سو گئے ۔ جب آنکھ کھلی بھاگم بھاگ تھی۔ بکھرے بچھڑے لوگ پاکستان پہنچ کر کسی ٹینٹ میں اپنے بسنے کا کر رہے تھے ۔ ہم لوگوں نے میرے شوہر نے ہر جگہ اس بچی کے بارے میں پو چھا کہیں کچھ معلوم نہ ہو سکا ۔ دو تین سال کی ننھی کو خود ہی اپنے ساتھ شوہر کی منت سماجت کرکے رکھ لیا جہاں اپنے بچے پل رہے ہیں یہ بھی پل بڑھ جا ئے گی ۔ ساتھ ساتھ اسکے والدین کا بھی پتا معلوم کر تے رہیں گے ۔ مگر دن گزرتے گئے کہیں کچھ معلوم نہ چلا ۔ آخر کار اپنی ہی سر پرستی میں لیا ۔ اپنے بچوں سے زیادہ محبت اور پیار سے پالا پڑھا یا لکھا یا سب بہن بھائیوں کی طرح رہے ۔ شادی کی عمر ہو ئی تو مجھے فکر پڑی کہ شوہر کی اجازت اور اللہ کی نعمت کا شکر ادا کرتے ہوئے اب یہاں تک تو پہنچ گئے اب اس کی شادی کس سے کریں ۔ کوئی اسے لاوارث سمجھ کر ٹھکرا نہ دے ۔ اس خیال سے اپنے ہی ایک بڑے بیٹے سے ان کا نکاح کردیا ۔ کل ہی کی بات لگتی ہے ۔ نہ جانے اس سے کتنے لوگ بچھڑے اور کتنے لوگ آزمائش میں آئے ہونگے ۔ پھر رب کا شکر کیا کہ چلو اب تو شوہر والی ہے ، وقت پر لگا کر اڑ گیا ۔ آج وہ پانچ بچوں کی والدہ تھی ۔ دادی خوش تھی کہ چھٹے بچے کی آمد ہے اور باقی اپنے بچے بھی خیر سے سب اپنے گھر کے ہیں سب خوش ہیں ۔ پھر اچا نک معلوم ہوا کہ یہ چھٹے بچے کی خوشخبری نہیں بلکہ کینسر ہے ۔ بڑی ہمدردی اور چاہ سے اس کا علاج کر وایا کوئی کمی نہ چھوڑی ۔ کسی کو بھی کبھی احساس تک نہ ہونے دیا کہ یہ پاکستان آنے والی ٹرین میں پائی جانے والی معصوم بچی آج پاکستان میں اپنی دیورانیوں نندوں کے ساتھ انوکھے ساس سسر کے ساتھ ہے تقریباًچار ماہ مزید علاج کے نظر ہو گئے اور آج ان کا انتقال ہو گیا۔ کافی دوست محلے والیاں جمع تھیں سب روکر دعا بھی کر رہے تھے مگر کیا دل کھینچنے والا منظر تھا ۔ جنازہ جا چکا لوگ بھی واپس جا رہے تھے کہ میں اس ماں کے پاس گئی جو ہاتھ اوپر اٹھا ئے خدا کا شکر ادا کر رہی تھی کہ میں اس موت سے خوش ہوں ۔ مالک تیرا شکر ہے تو نے یہ کام بھی مجھ سے کر والیا ورنہ مجھے پھر بھی اس کی فکر تھی کہ میرے چلے جانے کے بعد کوئی میری اس انوکھی بیٹی سے نا انصافی نہ کر ے ! اللہ مجھے اس کے حساب میں بخش دے اور میرے شوہر کو بھی اس کا بہترین صلہ دے اور اسے اپنی رحمت سے جنت الفردوس عطا فر مائے ۔ آنسو ؤں سے تر ماں کا وہ معصوم حقیقی محبت بھرا چہرہ میں نہ بھلا سکی یہ کوئی چھ سال پہلے کی بات ہے ۔ وہ ماں میری دوست کی مرحومہ ساس تھیں جو اوپر تلے تین منزلہ مکان میں بچوں کے ساتھ رہتی تھیں۔ اس کہانی کو آپ کس کی کہانی کہیں گے ؟ قیام پا کستان ہے نہ استحکام ! ۔ آج بھی اللہ وہ جذبے عطا فر مادے مجھ سمیت میری تمام ما ؤں کو تو معا شرے کی سو چ بدلے ۔
میڈیا ان سچی حقیقی کہانیوں کو ڈرامائی شکل ہی نہ دے ۔عملی اقدامات سے مثبت روئیے فروغ دے کر اپنا بھر پور کردار نبھائے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں