مگر یہ رائے مری ذات تک رہی محدود

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان غیرریاستی عناصر کو ملک اور خطے کے امن کو خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دے گا اور یہ کہ وہ شدت پسند گروہوں کے خلاف کارروائی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی حکومت کسی ملیشیا یا کسی جنگجو تنظیم کو ہتھیاروں کے استعمال اور ان کے ذریعے دہشتگردی کے پھیلاؤ کی اجازت نہیں دے گی۔ اگر کوئی گروپ ایسا کرتا ہے تو پاکستان کی حکومت اس کے خلاف کارروائی کا ارادہ رکھتی ہے۔ ہم غیر ریاستی عناصر کو اپنے ملک اور خطے کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

اول تو مجھے آج تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ کیا کسی بھی قسم کی دہشتگردی یا مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث عناصر، گروہ، جماعتیں یا تنظیمیں حکومت وقت یا مقتدر اداروں کی اجازت کی محتاج ہوا کرتی ہیں؟۔ جن کو سنگین جرائم کا ارتکاب کرنا ہوتا ہے یا دہشتگردی پھیلانا مقصود ہوتا ہے وہ کسی اجازت کی پرواہ ہی کب کرتے ہیں اور پھر یہ کہ کیا قانون کسی کو غیرریاستی سرگرمیوں کی اجازت دیا کرتا ہے؟، اس لئے بار بار ایک ہی بات کو دہرانہ کہ حکومت یا ریاست کسی کو بھی اپنے ملک کی سرحدوں کے اندر یا سرحدوں کی دوسری جانب کسی بھی قسم کی ایسی کارروائی جس کو دہشتگردی کا نام دیا جاسکتا ہو، کی اجازت نہیں دے گی ایک فضول سا جملہ ہے جس کو ہر بڑی کارروائی کے بعد دہرانہ تکیہ کلام بنانے کی بجائے ایسے عناصر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنا اور مجرموں کو کیفر کرادار تک پہنچانا ہر ملک کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

پلوامہ حملے کے بعد بھارت کا اگر یہ الزام مسترد بھی کردیا جائے کہ اس کی پلاننگ پاکستان میں بیٹھ کر کی گئی تھی تو آخر یہ بات کس لئے برداشت کی جارہی ہے کہ پاکستان میں موجود ایک تنظیم کے سربراہ نے اس حملہ کی ذمہ داری اپنے سر کیوں باندھی۔ جرم سرحد کے اس پار ہو اور پاکستان کے اندر موجود ایک تنظیم کا سربراہ اس بات کا معترف بھی ہو کہ یہ سب کچھ اس کی منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا اور پھر اس سے کسی بھی قسم کی کوئی جواب طلبی تک نہ کی جائے تو دنیا انگلی تو اٹھائے گی۔

ایک جانب تو بھارت کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کی شدت کے ساتھ تردید سامنے آنا اور دوسری جانب اگلے ہی روز جماعت الدعوہ اور اس کی سماجی و فلاحی تنظیم پر پابندیاں لگاکر اس کی ہرقسم کی سرگرمیوں اور اکاؤنٹ کی ٹرانزیکشنز پر پابندیاں عائد کردینے والا قدم سمجھ سے اس لئے بھی بالا تر ہے کہ جب پاکستان میں موجود کوئی بھی گروہ کسی بھی لحاظ سے حملے میں ملوث نہیں تو پھر اچانک پابندیوں کا اعادہ کیوں؟۔ یہ تنظیم تو 2008 اور پھر 2014 میں بھی کالعدم قرار دیدی گئی تھی لیکن اس بات کی خبر دنیا کیا خود پاکستان کے عوام کو بھی نہ ہو سکی کہ اس پر سے پابندیاں کب اٹھائی گئی تھیں اور کیوں اٹھائی گئی تھیں کیونکہ اگر وہ تنظیم پابندیوں کی پابند ہی تھی تو پھر مزید احکامات کس لئے جاری کئے گئے۔ درحقیقت یہی وہ تضادات ہیں جن کی وجہ سے پاکستان دنیا میں ہمیشہ مشکوک فہرست میں شمار کیا جاتا ہے لیکن اس بات پر اہل اقتدار اور اختیار غور کرنے کیلئے تیار نہیں۔

بی بی سی کی ایک اور رپورٹ کے مطابق پاکستان کے وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان پرانڈین پائلٹ کو رہا کرنے کے لیے نہ تو کوئی دباؤ تھا اور نہ ہی کوئی مجبوری۔ ہم انھیں یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ ہم آپ کے دکھ میں اضافہ نہیں چاہتے، ہم آپ کے شہریوں سے بدسلوکی نہیں چاہتے، ہم تو امن چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ خطے کے امن کو سیاست کی نظر نہ کیا جائے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے امن کے اس اقدام کو کہ اس نے ایک رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے حملہ آور پائیلٹ کو جو پاکستانی علاقے میں امن کی فاختائیں چھوڑنے نہیں آیا تھا بلکہ دھرتی کی مٹی کو آگ و خون میں نہلانے کیلئے آیا تھا، رہا کرنے پر دنیا سراہ رہی ہے لیکن کیا وہ شکرانے کے طور پر سراہ رہی ہے یا اس لئے سراہ رہی ہے کہ اگر اس کے برعکس ہوتا تو بھارت کی کسی بڑی کارروائی سے بچ جانے اور کوئی بڑا ٹکراؤ ہونے سے محفوظ رہنے پر پاکستان کا شکریہ ادا کر رہی ہے۔ بظاہر تو تعریفوں کے دولنگر ہیں جو اندرون ملک اور بیرون ملک برسائے جا رہے ہیں اور دنیا کے تمام ہی اہم و غیر اہم ممالک اس فعل کو اچھی نظر سے دیکھ رہے ہیں لیکن کیا کوئی ایک ملک بھی ایسا ہے جس نے بھارت کی کھلی جارحیت کی مذمت کی ہو؟۔ دنیا کا ہر ملک یہی کہتا نظر آرہا ہے کہ “دونوں” ممالک کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور حالات کو بگڑنے نہیں دینا چاہیے۔

او آئی سی جو خالصتاً مسلمان ممالک کی ایک تنظیم ہے اور خود پاکستان بھی جس کا رکن ہے اس میں ایک ایسے ملک کو جو مسلمانان ہند و پاک کے خلاف نہ صرف یہ کہ ہر لمحے زہر اگلتا نظر آتا ہو اور خاص طور سے اپنے قبضہ کئے ہوئے کشمیریوں کو تو وہ انسان تک ماننے کیلئے تیار نہیں ہو نیز یہ کہ وہ خود بھی بت پرستی کا شکار ہو، اسلامی ممالک کی تنظیم اس کو اپنے اجلاس میں نہ صرف شرکت کی دعوت دیتی ہے اور اس کے برعکس اپنے ایک مسلمان رکن ملک کی یہ بات تک ماننے کیلئے تیار نہ ہو کہ وہ ایک ہندمت ملک کو شرکت کی دعوت نہیں دے، پاکستان کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ اس طرز عمل کے بعد بھی یہ سمجھ لینا کہ وہ سارے ممالک جو ایک غیر مذہب ملک کو پاکستان پر ترجیح دیتے ہوں، وہ پاکستان کے دوست ہیں، خود فریبی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

بات یہیں پر ختم ہوجاتی تو شاید قابل برداشت بھی ہو سکتی تھی لیکن جس انداز میں گلے لگا لگا کر ایک ہندو ملک کی خاتون وزیرخاجہ  کا استقبال کیا گیا وہ بذات خود بھی ایک کریہہ اور قابل مذمت قدم ہے کس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔

ان باتوں کو سامنے رکھا جائے تو جو بات سامنے آتی ہے وہ صرف اور صرف مفادات کے علاوہ اور کچھ نہیں اور یہی وہ اہم نقطہ ہے جسے پاکستان کو بہت اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ آج کل کی دنیا میں مذہب اور مسلک کی نہیں مفادات کی اہمیت ہوا کرتی ہے۔ مفادات کے سامنے ہر قسم کا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے اور آنکھیں صرف ڈالروں کی برسات دیکھ رہی ہوتی ہیں۔

ایک موقع پر کشمیر کے علاقے پلوامہ میں دہشتگرد حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیم جیش محمد کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں وزیر خارجہ شاہ محمود نے کہا کہ ہر معاشرے میں شدت پسند عناصر ہوتے ہیں۔ انھوں نے کہا کیا بھارت میں ایسے عناصر نہیں ہیں، گجرات میں جو کچھ ہوا، کس نے کیا، کس کی ایما پر ہوا؟۔

بات شاہ صاحب کی بھی غلط نہیں کہ ہر معاشرے میں ایسے عناصر ہوتے ہیں اور بھارت میں بھی ہیں۔ کیا کسی کی غلط روی ہماری لئے راہ حق قرار پا سکتی ہے؟، یہ بات کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔ اگر کسی ملک یا بھارت میں ایسے عناصر ہیں اور یقیناً ہیں تو نہیں ہونے چاہئیں۔ ہمیں نہ صرف دنیا کے سامنے ایسے عناصر کی نشاندہی کرنی چاہیے بلکہ ان کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ بھی کرنا چاہیے لیکن اس کو جواز نہیں بنانا چاہیے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ بہت ساری باتیں دنیا فیصلہ کر چکی ہوتی ہے جس میں اظہر مسعود اور حافظ سعید احمد جیسی شخصیات بھی شامل ہیں تو ہمیں یقیناً محتاط رہنا چاہیے ناکہ وہ میڈیا پر دکھائے جائیں، دفاتر کھولیں اور ہر منفی کارروائیوں کا سہرا اپنے سر پر باندھتے پھریں۔ ایسا ہوگا تو پھر دنیا کا دباؤ تو بہر صورت آئے گا۔

موجودہ خیرسگالی کے اقدام کے بعد شسما سوراج کی او آئی سی میں شرکت پر میں “شکیل ترابی” جو میرے عزیز بھی ہیں اور میرے ایک اچھے دوست بھی، کی ایک تحریر سے چند اقتباسات ضرور پیش کرونگا تاکہ وہ لوگ جو پاکستان کا بہت درد رکھتے ہیں ان کو ایک سچے مسلمان اور پاکستانی کے دلِ پُردرد کے درد کا احساس ہو سکے کہ حکومت کا اٹھایا گیا خیر سگالی کا یہ قدم کس کس کے دل و جگر کو چیر گیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں “پاکستان کے ذرائع ابلاغ نے از خود یا کسی کے کہنے پر نئی موسیقی بجانا شروع کر دی ہے۔ پاکستان نے ذمہ دار ملک کی طرح جوابی کارروائی کی ہے مگر مفاد پرست دنیا نے بھارت کی مذمت تک نہیں کی۔ ذرائع ابلاغ کہہ رہے کہ دنیا نے پاکستان کی امن پالیسی کو تسلیم کر لیا ہے۔ واہ خود فریبی سی خود فریبی۔ خود فریبی سے بڑا بھی کوئی فریب ہو سکتا ہے؟۔ جی ہاں امن سے بہتر کچھ نہیں مگر یہ امن کشمیریوں کے نصیب میں کیوں نہیں؟۔ تقریباً دو عشرے امریکہ کے پٹھو بن کر مبینہ دہشت گردی کی جنگ لڑتے رہے ( مبینہ یوں کہ دہشتگردی تو جارح امریکہ نے افغانستان میں کی)۔ اس جنگ نے پاکستان کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ اب نیاراگ الاپا جارہا ہےکہ ہماری امن پالیسی کو دنیا سراہ رہی ہے، کونسی دنیا جناب؟۔ جارحیت بھارت نے کی اور ترکی کے علاوہ کھل کر کسی نے ہمارے حق میں بیان تک نہ دیا۔ امارات کے شہزادے محمد بن سلیمان کے لئے ہم ایسے بچھے جیسے نعوذباللہ کوئی پیغمبر تشریف لے آئے تھے۔ شسما سوراج کو مسلمانوں  ملکوںکی تنظیم میں بلاکر ان شیوخ نے ہماری شاندار سواگت کی ہے، پھر بھی ہم پھولے نہیں سما رہے۔ امریکہ و یورپ تو پہلے ہی بھارت کی پشت پر تھے۔ گزشتہ دنوں سنکیانگ میں مسلمانوں کو مروانے میں ہم نے چین کا ساتھ دیا پھر بھی بھارتی جارحیت پر چین کا پاکستان کے ساتھ نہ ہونا بہت کچھ واضح کررہا ہے۔ ہم خود فریبی سے نکل کر اپنی خارجہ پالیسی کو از سر نو تشکیل دینگے یا کسی بڑے جھٹکے کے منتظر ہیں”؟۔

 دنیا کے اس دہرے رویے کو دیکھتے ہوئے  اور اس فریب خوردہ شاہین کو جو کرگسوں کے گود میں پلا ہو اس کی خدمت میں صرف اتنا ہی عرض کرسکتا ہوں کہ آپ کی سزاؤں کے حقدار آپ کے ملک کے مسلمان اور احساس محروم ہی کا شکار لوگ ہی کیوں ہیں اور جو دنیا کو مطلوب ہیں وہ کس لئے محبوب ہیں؟۔ آپ کا یہ فرمان کہ کوئی غیرریاستی سر گرمیوںمیں ملوث فرد قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکے گا ، کیا اس کی حقیقت فقط اتنی نہیں کہ

گناہ گار سزا سے نہ بچ سکے گا کوئی

مگر یہ رائے مری ذات تک رہی محدود

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں