سائنس کی تدریس کے نفسیاتی پہلو

انگریزی لفظ ‘‘Science’’ دراصل لاطینی لفظ ‘‘Scientia ‘‘سے مستعار لیا گیا ہے جس کے لفظی معنی ’’ علم‘‘کے ہیں۔سائنس، طبعی حقائق کی وقوع پذیری کی دریافت اور انہیں سمجھنے کی کوشش کا نام ہے۔ سائنس ایک ایسے علم کا مجموعہ ہے جو حواس خمسہ(دیکھنا،چھونا،سونگھنا،سننا اور چکھنا) کے استعمال سے طبعی دنیا کے مشاہدے تحقیق و تطبیق کی وجہ سے ظہور میں آتاہے۔آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق سائنس طبعی و قدرتی کائنات کے منظم فکری و مشقی انداز میں تجربات و مشاہدات کے عمل کا نام ہے۔سائنس کی جامع اور جدید تعریف قدرتی عوامل کے ساتھ ساتھ سماجی اور انسانی رویوں پر مبنی تحقیق کو بھی قراردیاگیا ہے جسے کسی واقعہ کے مشاہدے،شناخت ،بیان،تجرباتی کھوج اور نظریے کی شکل میں بھی بیان کیا جاتا ہے۔دیگر تعریفوں کی رو سے صرف قدرتی مظاہر کی تحقیق ہی دراصل سائنس ہے ۔میری دانست میں سائنس ایک علم ہی نہیں بلکہ ایک ایسی طرز زندگی کا نام ہے جو انسانی وجود کے مختلف پہلووں کاادراک کرتے ہوئے تحقیق اور دریافت کے در وا کرتا ہے۔ منظم اور علمی انداز میں سوال کرناسائنس کی ایک فلسفیانہ روش ہے۔ہمارے مدارس خاص طورپر پرائمری اسکولوں میں غیر دلچسپ طرز تعلیم کی وجہ سے سائنس کی تعلیمی صورتحال بہت ابتر ہوگئی ہے جس کی وجہ سے طلبہ آئے دن اس مضمون سے دور ہوتے جارہے ہیں۔سائنس کے ناقص تعلیمی نظام کی وجہ سے طلبہ فکر و تدبراور تجزیاتی صلاحیت سے عاری ہوتے جارہے ہیں۔ ہمارے تعلیمی نظام میں سائنس صرف ایک مضمون کا نام ہے جس کی اہمیت نصاب کا ایک حصہ ہونے سے زیادہ کچھ اور نہیں ہے۔اسے معلومات کی فراہمی تک محدود کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ ہمیں اس بات کی کوئی پروا نہیں ہے کہ پانچویں جماعت کی سائنس پڑھنے والے طالب علم کے لئے سائنس کی اہمیت و نوعیت کیا ہونی چاہئے۔ہم اپنے سائنس کے نصاب کو جب تک عصری ونفسیاتی تقاضوں کے عین مطابق نہیں بنائیں گے تب تک سائنسی مزاج اور سائنسی علوم کی تیز رفتار ترقی ممکن نہیں ہے۔نصاب کی عصری نفسیاتی تقاضوں کے مطابق تدوین عمل میں لائے بغیر سائنس کی تدریس ایک ایسا عمل ہے جیسے سردارجی کی چائے۔’’ ایک سردار جی چائے کی پیالی میں چمچ ہلاتے ہیں چسکی بھرکربراسا منہ بناکرکپ نیچے رکھتے دیتے ہیں اور دوبارہ چمچ ہلاکرچسکی لیتے ہوئے پھر براسامنہ بناکر کپ کو نیچے رکھ کر پھر سے پیالی میں چمچ ہلا کر چسکی بھرتے ہیں۔ سردارجی جب کئی مرتبہ یہ عمل دوہر اکر تھک جاتے ہیں تو چمچ ٹرے میں رکھتے ہوئے بیزارگی سے کہتے ہیں’’ بھائی اگر چائے میں چینی نہ ڈالی جائے اور لاکھ چمچ کو ہلایا جائے تو بھی چائے میٹھی نہیں ہوتی۔‘‘ہماری تعلیمی ایجنسیاں بھی سائنسی نصاب کو عصری تقاضوں اور بچوں کی نفسیات کے مطابق ترتیب نہ دیکر چائے کی پیالی میں شکر ڈالے بغیر صرف چمچ ہلاکر چائے کے میٹھا ہونے کی توقع کرنے والا کام انجام دے رہی ہیں۔نصاب کی ازسر نو تشکیل کے بغیر،اساتذہ میں سائنس کی تدریسی مہارت پیدا کیئے بغیر،اسکولوں میں سائنس علوم کی تدریس میں معاون سہولتوں اور انفرااسٹرکچر فراہم کیئے بغیر اگر سمجھتے ہیں کہ بچوں میں سائنسی مزاج و فکر فروغ پائے گی تب یہ سردارجی کی چائے والا عمل ہی ہے۔

اس مختصر مضمون میں سائنس کی تدریس میں نفسیات کی اہمیت کو اجاگر کرنے کو کوشش کی ہے۔ سائنس کی تعلیم اور اس کی ترقی میں کئی تعلیمی ماہرین نفسیات نے اپنا گراں قدرتعاون پیش کیاہے۔سائنس کی تدریس کی کامیابی اور تدریسی طریقوں کا فروغ بھی نفسیاتی تصورات کی مرہون منت ہے۔ نفسیاتی اصولوں اور نظریات پر عمل پیرائی کے ذریعے سائنس کی تدریس دلچسپ اور پر کیف ہوجاتی ہے۔حقیقت میں سائنس کی موثر تدریس کے لئے تدریسی عمل میں نفسیاتی تصورات سے آگہی اور ان پر عمل پیرائی لازمی تصور کی جاتی ہے۔روایتی طورپر بچے کے دماغ کو ایک خالی ڈبہ سمجھا جاتا ہے اور اس میںیاتو استاد معلومات بھرتاہے یا پھر بچہ رٹّہ لگا کر اپنے طورپر دماغ میں معلومات بھر لیتا ہے۔ تحقیق کے مطابق اس طریقے سے بچہ کچھ نہیں سیکھ پاتاکیونکہ سیکھنے کے عمل کی پہلی سیڑھی معلومات کو سمجھناہے۔بچے کے ارد گرد جو کچھ ہوتا ہے بچہ اس کا مشاہدہ کرتاہے۔ مختلف مشاہدات کے درمیان تعلق قائم کرکے ان میں نئے معنی تلاش کرتاہے۔ سیکھنے کا یہ خود مختارعمل دراصل اس بات کا اشارہ ہے کہ اگر یہ عمل جاری رہا تو بچہ ایک دن بہت بڑا سائنس داں بن جائے گا۔ واضح رہے کہ ایک عام آدمی اور سائنس داں کے اردگرد کی دنیا کو دیکھنے کے زاویے میں بنیادی فرق یہی سائنسی عمل ہوتا ہے۔ اس عمل کی بنیاد سوال پرٹکی ہوتی ہے۔ جب تک سوالات کاسلسلہ جاری رہے گا، یہ عمل جاری رہے گا اور آدمی سادہ سے پیچیدہ معاملات کی طرف بڑھتاچلاجائے گا۔جین پیاجے(Jean Piaget) کے مطابق بڑوں کی طرح بچوں کی بھی اپنی ایک منفرد دنیا ہوتی ہے۔بچے بڑوں کے سوالات نہیں سمجھ سکتے ۔وہ بتدریج درجہ بہ درجہ سیکھتے ہیں۔ایک درجے پر مخصوص معلومات سیکھنے کے بعد وہ دوسرے درجے پر اس سے ارفع باتیں سیکھتے ہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ پہلے ارفع درجے سے مخصوص معلومات سمجھیں پھر نچلے درجے کی معلومات حاصل کریں۔ پیاجے کے خیال میں اپنے اردگرد پائے جانے والے ماحول،پودوں،چیزوں،انسانی رویوں اور دیگر معاملات پر ردعمل ظاہر کرنااور ان کے انفرادی اور آپسی تعلقات کے بارے میں سیکھنا ایک فطری عمل ہے۔اگر بچے کو باقاعدہ بھی نہ سکھایا جائے تب بھی وہ خو د سے سیکھتا چلاجاتا ہے۔وہ اپنے اردگرد کی دنیا کو جان کر اس کے ساتھ اپنے رشتے کو تعمیر کرتا چلاجاتا ہے۔یہ عمل کبھی ماند نہیں پڑھتا وہ آسان سے پیچیدہ کی طرف بڑھتا چلاجاتا ہے۔اس سفر کے دوران و خود سے اصول بھی طئے کرتا رہتا ہے ۔سائنس کی تدریس انجام دینے والے اساتذہ اس نفسیاتی اصول کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں بچوں کو آسان سے مشکل اور معلوم سے نامعلوم کی جانب لے جائیں۔بچے کے تجسس کا قتل نہ کریں۔
عموماً سیکھنے کے دو طریقے پائے جاتے ہیں اول روایتی اور دوسرا تعمیراتی (تخلیقی)۔ روایتی طریقہ تدریس دیگر مضامین کے لئے اگر مفید بھی ہو تب بھی یہ سائنس کی تدریس کے لئے ہرگز موزوں نہیں ہے کیونکہ روایتی طریقوں سے سیکھنے کا عمل روپذیر ہی نہیں ہوپاتا۔یہ طریقہ تدریس صرف معلومات کی منتقلی کا ایک وسیلہ ہے۔ روایتی طریقہ تدریس نئی معلومات کے فراہمی کے باوجود محرکہ پیدا کرنے میں ناکام رہتا ہے جس کی وجہ سے فکر و تجسس منجمد رہتے ہیں۔ اگرمحرکہ نہ ہوگا تو بچہ ذہنی طور پر اکتساب کی جانب مائل نہیں ہوگا جس کے نتیجے میں سوالات سر نہیں اٹھا ئیں گے۔اگرسوالات نہیں اٹھیں گے تب سیکھنے کا عمل بھی وقوع پذیر نہیں ہوگا۔پیاجے کے مطابق سیکھنے کا عمل اس وقت وقوع پذیر ہوتاہے جب متحرک سطح پر نئے معنی تعمیر کیئے جاتے ہیں۔ یہ عمل محض مجہول سطح پر معلومات کو اخذ کرنے سے ممکن نہیں ہے۔ جب کوئی صورت حال یا تحریک ہماری موجودہ صورت حال پر اس طرح اثر انداز ہو کہ ایک طرح کا عدم توازن یا بحران پیدا ہوجائے تب ہمیں اپنی سوچ اور نظریے کو تبدیل کرنے کی ضرورت در پیش ہوتی ہے تاکہ توازن بحال ہو اور بحرانی صورت حال ختم ہو جائے۔ جس کے لیے ہم تحریک پیدا کرنے والی نئی معلومات کا اپنی موجود ہ سوجھ بوجھ سے تقابل اور تال میل پیدا کرنے کی گنجائش تلاش کرتے ہیں۔اگر ایسا کرناناممکن ہو تو ہم تحریک پیدا کرنے والی نئی معلومات کی بنیاد پر اپنی سمجھ کو نئے سرے سے تعمیر کرنے کی کوشش شروع کردیتے ہیں۔ اس طرح اس مخصوص معاملے کے بارے میں ہماری سوچ میں تبدیلی واقع ہو جاتی ہے۔ صرف معلومات پر زور دینے سے جاننے کا عمل شروع نہیں ہوتا۔ اس کے دیگر عناصر کا مسلسل ساتھ رہنا ضروری ہے۔جاننے کا مکمل عمل معلومات،مہارتوں ،رویے یا اقدار ان تین عناصر کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ صرف اسکول میں سیکھنا ہی نہیں بلکہ زندگی کا کوئی کام ان تین عناصر کے بغیر ممکن نہیں۔ چونکہ جاننا، دراصل زندگی ہی کے لیے ہے اس لیے ان تینوں کو جاننے کے عمل کا حصہ بنانا لازمی ہے۔سیکھنے کے تعمیراتی عمل میں بیک وقت معلومات، مہارتوں اور رویّوں سے مل کر ایک مربوط عمل رونما ہوتاہے۔ یہی اس عمل کا کمال ہے۔جو استاد اس عمل کو کارآمدمانتا ہے وہ بچوں کے سامنے مسائل اور سوالات رکھے گا۔ پھر بچوں کو اْکسائے گا کہ وہ ان کے حل اور جوابات ڈھونڈیں۔ وہ مختلف طریقے استعمال کرکے سیکھنے کے تعمیراتی عمل کو آگے بڑھائے گے۔
دنیا میں ہر لمحے نئی سائنسی ایجادات اور دریافتوں کا سیلاب امڈ رہا ہے۔کام کرنے کے بہتر اور موثر طریقے تلاش کیئے جارہے ہیں۔اس تناظر میں تصور کریں کہ پندرہ بیس سال بعد دنیا بھر کے طلبہ کون سے سائنسی تصورات پڑھ رہے ہوں گے اور ہمارے بچے کہاں کھڑے ہوں گے۔ ضروری ہے کہ طلبہ میں سائنسی سوچ کو پروان چڑھا یا جائے اور سائنسی بنیادوں پران کی تربیت کی جائے ۔طلبہ کی بہترین تربیت کی انجام دہی کے لئے اساتذہ کی تربیت بے حد ضروری ہے۔ دنیا بھر میں سائنس کیسے پڑھائی جاتی ہے ؟ اور کیا طریقے ہیں جنھیں اپنا کر بچوں میں سائنس کا شوق بڑھایا جا سکتا ہے؟ کیا سائنس پڑھانے کے لیے کلاس روم سے باہر نکلنا ضروری ہے؟ کیا ہر سبق کے لیے سائنس لیب کا استعمال ہونا چاہئے؟ یہ اور اس جیسے کئی سوالات آج بھی ہمارے ملک میں اساتذہ کے تربیتی پروگرامز کا حصہ نہیں ہیں۔ ایک قابل سائنس ٹیچر طلبہ کی تقدیر بدل سکتا ہے لیکن ہمارے سائنس ٹیچر اس حوالے سے پیچھے کیوں ہیں؟ ہمارے اکثر اساتذہ کے پاس سائنس کی ڈگریاں تو ہیں لیکن ان معلومات کو بچوں تک کیسے پہنچایا جائے، کیسے پڑھایا جائے، سائنسی نصاب کیسے مرتب کیا جائے، بچوں کے اکتساب کو کیسے جانچا جائے، اس بارے میں انہیں کچھ علم نہیں ہوتا۔ان کا حال بھی اس ملاح کی طرح ہے جو خلیج بنگال کے ایک جزیرے میں رہتا تھا جس کا نام بھولا تھا۔بھولا ایک محنتی ،مخلص اور بے لوث آدمی تھا۔کیونکہ بھولا تھا اسی لئے ایسی حماقت کر بیٹھتا جس سے سب کام الٹا ہوجاتا۔مثلاًمچھلیاں پکڑنے کے لئے جب نکلتا تو بیج سمندر میں جاکر اسے یاد آتا کہ وہ جال گھر پر ہی بھول آیا ہے۔ایک مرتبہ کشتی کو باندھنے کے لئے اس نے چٹان میں چپو ٹھونکنے کی کوشش کی اور پھر دو دن تک ویران جزیرے میں محصور رہا۔ اس وقت اس کی حماقت کی انتہا ہوگئی جب اندھیری طوفانی رات میں چند مسافر آکر اسے نیند سے جگا کر کہنے لگے ’’بھولے بھائی، ہمیں کسی بھی طرح صبح شہر پہنچنا ہے لیکن ا س وقت کوئی ملاح ہمیں لے جانے کے لئے تیار نہیں ہے۔،تمہارے پاس بڑی امید لے کر آئے ہیں ہمیں مایوس نہ کرنا‘‘ یہ بول بھولے
کے لئے کافی تھے۔وہ فوراًاٹھا اور انہیں ساتھ لے کر ساحل پر پہنچا۔بھولا مسافروں کو کشتی میں بٹھاکر چپو چلانے لگا ساری رات چپو چلاتا رہا،لیکن جب صبح کی سپیدی نمودار ہوئی تو مسافروں کو یہ دیکھ کر صدمہ ہوا کہ بھولا ساحل پر بندھی کشتی کا رسہ ہی کھولنا بھول گیا تھا اور وہ ساری رات سفر کے بعد بھی ساحل پرہی کھڑے تھے۔یہی حال کم وبیش ہمارے سائنس کے اساتذہ اور سائنسی نصاب کی تدوین کا کام انجام دینے والوں کا ہے یہ اپنے کام میں مخلص ضرور ہیں لیکن یہ بھی چند ایسی حماقتوں کا شکار ہیں جس کی وجہ سے سائنس کی تدریس کے باوجود ہمارے بچے ایجاد و دریافت کے عمل سے آج بھی کوسوں دور ہیں ۔تعلیم کا ایک لمبا سفر طئے کرنے کے باوجود بھی ان کی کشتیاں ابھی تک ساحل پر ہی کھڑی ہیں۔سائنس کے اساتذہ کی مناسب اور جدید تربیت بے حد ضروری ہے۔سائنسی علوم کی تدریسی کے لئے اساتذہ کو نفسیاتی اصولوں سے متصف کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔اساتذہ کی ہنگامی بنیادوں پر ہفتہ دو ہفتہ یا مہینہ دو مہینے کی تربیت (اوریینٹیشن) کے بجائے ایک مبسوط جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے کیونکہ سائنس کی ترقی دنوں یا مہینوں پر محیط نہیں ہوتی اور یہ کوئی ایسی شئے بھی نہیں ہے کہ جسے بازار سے خرید ا جائے یا کسی دوسرے ملک سے درآمد کرلیا جائے، بلکہ سائنس کی ترقی کیلئے سائنسی معاشرے کی تشکیل بہت اہم ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں ہر کوئی سائنسی انداز میں سوچتا ہو اور جہاں مسائل کے حل سائنسی بنیادوں پر ترتیب دیئے جاتے ہوں۔اگر چیکہ آج سائنس ہر اسکول میں ایک لازمی مضمون کے طورپر پڑھائی جارہی ہے لیکن سائنس پڑھنے میں دلچسپی کا اظہار کرنے والے طلبہ کی تعداد دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے۔ایک طویل عرصے سے سائنس کو اتنا کریہہ اور خشک مضمون کے طور پر پیش کیاگیا ہے کہ اب طلبہ سائنس کو جوکہ انسان کی سمجھ اور اس کی ترقی کی ضامن ہے پڑھنے میں بیزاری کا اظہار کررہے ہیں بلکہ اپنا دامن بچا رہے ہیں۔کسی بھی قوم کا معیار ان کے اساتذہ سے کبھی بلند نہیں ہوتا۔جس معیار کے اساتذہ ہوں گے اسی معیار کی قوم تیار ہوگی۔اگر صاحب نظر اساتذہ اور ماہرین تعلیم ہمیں میسر آجائیں تو ہمارا مستقبل شاندار ہوسکتا ہے ورنہ ہم جانتے ہیں کہ انجام کیا ہوگا۔

حصہ
mm
فاروق طاہر ہندوستان کےایک معروف ادیب ،مصنف ، ماہر تعلیم اور موٹیویشنل اسپیکرکی حیثیت سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ایجوکیشن اینڈ ٹرینگ ،طلبہ کی رہبری، رہنمائی اور شخصیت سازی کے میدان میں موصوف کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ ہیں۔ایم ایس سی،ایم فل،ایم ایڈ،ایم اے(انگلش)ایم اے ااردو ، نفسیاتی علوم میں متعدد کورسس اور ڈپلومہ کے علاوہ ایل ایل بی کی اعلی تعلیم جامعہ عثمانیہ سے حاصل کی ہے۔

جواب چھوڑ دیں