** کیا میں آزاد ہوں**       

              موسم بے حد حسین ہو رہا تھا ۔ٹھنڈی ٹھنڈی خوشگوار ہوا چل رہی تھی ۔نیلگوں آسمان پر کہیں کہیں کوئی بادل نظر آ رہا تھا اور تا حد نگاہ ہری بھری مخملی گھاس بچھی ہوئی تھی اور خوبصورت رنگ برنگے پھولوں کی روش۔۔۔ اففف۔۔۔۔کتنا دلکش منظر تھا۔پھولوں کے درمیان ایک منقش جھولا تھا، خوب بڑا سا۔ اس میں گاوتکئے لگے ہوئے تھے۔ وہ خود بھی ایک خوبصورت لباس پہنے ہوئے اس جھولے کی طرف جا رہی تھی۔ اس کا سفید ریشمی دوپٹہ ہوا میں لہرا رہا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے جا کر  جھولے پر لیٹ جاتی ہے اور  ہلکے ہلکے جھولنے لگتی ہے۔

         ٹرینگ ٹرینگ ۔۔۔۔اچانک ہی الارم کی تیز آواز سے اس کی آنکھ کھل گئی تھی اور اس خواب کا سحر ٹوٹ گیا تھا۔ کچھ لمحے اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کہاں ہے۔ وہ اس طرح لیٹے ہوئے چھت کو گھورتی رہی ۔ناکافی نیند کی وجہ سے بدن ٹوٹ رہا تھا۔ شاید اسی لیے وہ خواب میں بھی آرام کرنے اور سکون سے لیٹنے والے منظر اکثر دیکھا کرتی تھی۔

         چھت سے ہوتے ہوئے جب اس کی نظر دیوار پر لگی ہوئی گھڑی پر پڑی تو وہ چھلانگ لگا کر بیڈ  سے اٹھی اور سیدھے واش روم کا رخ کیا ۔۔۔

نماز فجر کے بعد وہ مشینی انداز میں سارے کام نمٹاتی رہی۔۔لیکن صبح کے خواب کا سحر ذہن پر باقی رہا۔ جلدی جلدی دودھ اور انڈے ابالے، دلیہ، چائے۔۔۔۔ ساتھ ہی دوپہر میں ساس سسر کے کھانے  کے لیے بکرے کے گوشت کا پرہیزی  سالن کوکر میں چڑھایا۔حالانکہ ساس صاحبہ کو دھیمی آنچ پر پکے ہوے کھانوں کی عادت تھی ۔لیکن وردہ کے پاس اتنی فرصت کہاں تھی۔ جلدی جلدی چپاتیاں بنا کر ہاٹ پوٹ میں رکھیں۔ پھر ساس سسر کو ان کے کمرے میں لے جا کر ناشتہ دیا۔ ناصر کو اٹھایا اور خود نہا کر تیار ہو گئی۔

      “وردہ ۔۔میری دوائی۔” جی امی۔۔ آئی۔ یہ لیں۔”

” آج دلیہ میں شہد نہیں تھا۔ اب شوگر کے بہانے تم  تو ایسا بد مزہ دلیہ دیتی ہو کہ حلق سے ہی نہیں اترتا۔۔” اس نے دیکھا کہ دونوں کے دلیہ کے پیالے بالکل صاف تھے۔ وہ مسکراتی ہوئی برتن اٹھا کر کچن میں لے آئی۔ پیچھے سے سسر صاحب کی آواز آئی۔ “وردہ، میرا چشمہ نہیں مل رہا۔۔۔”

“اچھا ابو، ابھی آئی۔ ” جا کر چشمہ ڈھونڈا تو ن کے تکیہ کے ساتھ ہی رکھا ہوا تھا۔” وردہ، میرے کپڑے ٹیلر سے لیتی آنا آج یاد سے”

“ٹھیک ہے ابو، لے آونگی۔۔”

   ناصر کا ناشتہ نکال کر ٹیبل پر رکھا۔ بالوں میں برش پیھرتے ہوئے بوائل انڈا اور چائے پی لی۔ سکون سے ناشتے کی عیاشی تو صرف چھٹی والے دن نصیب ہوتی تھی۔اسکارف درست کرتے ہوئے موبائل اٹھایا، واٹس ایپ   میں سر فہرست پروڈیوسر صاحب کا میسج جگمگا رہا تھا ۔ پڑھنے پر پتہ چلا کہ، کرنٹ افیئرز کی شبانہ شکیل کے والد آئی سی یو میں ہیں، اس لئے وہ آج نہیں آئینگی۔ اور ان کی جگہ وردہ ناصر کو لائیو رپورٹنگ کرنی تھی۔۔۔۔ میسج کیا تھا، گویا بم کا دھماکہ تھا۔ وہ فکرمند ہو گئی۔

آج 8مارچ کا دن تھا۔ خواتین کا عالمی دن۔۔

۔ناصر ناشتہ کرتے ہوئے وردہ کے چہرے کے بدلتے ہوئے رنگ دیکھ رہا تھا۔ “کیا بات ہے؟؟”

وردہ نے اپنی پریشانی بتائی۔ ” تو کیا ہوا؟ تم پہلے بھی تو یہ سب کرتی رہی ہو۔ تو گھبرانا کیسا؟ بلکہ عام پبلک تو خود ہی شرما اور گھبرا رہی ہوتی ہے اس طرح کیمرے کا سامنا کرتے ہوئے ۔”

  لیکن ناصر، میری پہلے سے کوئی تیاری بھی نہیں ہے۔ کوئی ہوم ورک کئے بغیر کیسے کرونگی یہ سب۔”

  چلو یار۔۔ ٹیک اٹ ایزی۔۔ مجھے پتہ ہے تم کر لوگی۔۔” ناصر نے حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہا۔ جلدی آو نیچے ۔ میں گاڑی نکال رہا ہوں،”

جی۔۔۔ مرے مرے لہجے میں کہتے ہوئے وہ اٹھی۔۔ساس سسر کو، دوپہر کے کھانے کا بتاتے ہوئے، اللہ حافظ کہا اور نیچے اتر گئی

وردہ نے  ماس کمیونیکیشن میں بی کیا  تھا۔جس میں ڈاکیومینٹری بنانا اس کا پسندیدہ مضمون رہا تھا۔اس نے اپنا تھیسس بھی اسی میں مکمل کیا تھا۔ پھر جاب نہ کرتے ہوئے اپنی دوست شیما کے ساتھ مل کر فری لانس کام کیا تھا۔مختلف جگہوں پر سروے کرنا۔ لوگوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایسے سوال کرنا کہ اپنا مطلوبہ جواب مل جائے۔ پھر کچھ تصاویر اور ویڈیوز ڈال کر مرتب کرنا اور  ڈاکیومینٹری کو کسی نجی چینل کو دینا۔ جب شیما شادی کے بعد بیرون ملک چلی گئی تو اکیلے یہ کام کرتے ہوئے مشکل ہونے لگی تھی۔مردوں کے اس معاشرے میں اس طرح کا فیلڈ ورک آسان نہیں تھا۔تب اس نے ایک نجی ٹی وی چینل کی پیش کش قبول کرتے ہوئے وہاں جاب کر لی تھی۔

یہیں پر اس کی ملاقات سیلز ڈپارٹمنٹ کے ناصر حسن سے ہوئی تھی اور پھر یہ ملاقات شادی کے بندھن تک پہنچ گئی۔ ناصر مجموعی طور پر بہتر جیون ساتھی تھا۔ اس کو وردہ کی جاب پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ شاید اس کی وجہ وردہ کی پرکشش تنخواہ کے علاوہ اس کی سلیقہ مندی، نرمی اور بہترین ٹائم مینیجمنٹ تھی۔ بس ایک خرابی ناصر میں  یہ تھی کہ وہ ابھی فیملی بڑھانے کے حق میں نہیں تھا جبکہ وردہ چاہتی تھی کہ اب جاب چھوڑ کر اپنے گھر پر توجہ دے اور عورت کا اصل مقام یعنی ماں بن کر سکون سے بچوں کی پرورش کرے۔ ایک نارمل زندگی گزارے۔ مگر ناصر کو ابھی بڑا گھر لینا تھا جس کے لیے وردہ کی جاب ضروری تھی۔ وردہ اس کے لیے بھی راضی تھی مگر شادی کے تین سال گزرنے کے باوجود ناصر کی نا،ہاں میں نہیں بدلی تھی۔جن جن کی شادی اس کے ساتھ ہوئی تھی،سب کے گودوں میں بچے کھیل رہے تھے۔

 وردہ کی جاب نیوز چینل کے کرنٹ افئیرز کے شعبے میں اسسٹنٹ پروڈیوسر کی تھی جو آفس ورک پر مشتمل تھا ۔لائیو رپورٹس یا خبروں کی کوریج کو ایڈٹ کرنے پھر آن ایئر کروانا ہی اس کا کام تھا۔سروے کرنے کا اور لائیو رپورٹنگ کاا سٹاف دوسرا تھا آج شبانہ شکیل کی غیر حاضری کی وجہ سے وردہ کو یہ کام خود کرنا تھا۔جو اس کو مشکل لگ رہا تھا۔ 8 مارچ کی مناسبت سے عام افراد سے کچھ سوالات کرنے تھے۔لیکن آج اس کی کوئی تیاری نہیں تھی ۔کیا کرتی؟حکم حاکم مرگ مفاجات۔

 آفس پہنچ کر اس نے روز مرہ کے کام نمٹائے۔ گیارہ بجے سب سے پہلے لڑکیوں کے کالج جانا تھا ۔پھر وہاں سے ایک شاپنگ سینٹر اور پھر روڈ پر چلتے پھرتے لوگوں سے سوالات کرنے تھے۔ اس طرح تیس چالیس افراد کا سروے درکار تھا۔

 گیارہ بجے وہ گرلز کالج پہنچ چکی تھی۔ پرنسپل صاحبہ سے اجازت لے کر پہلا انٹرویو ان کا ہی لے لیا۔

” آج 8 مارچ ہے آج کے دن کے حوالے سے آپ کیا کہیں گی؟” دیکھیے ہر سال 8 مارچ خواتین کا عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق دینے کے نام پر۔

سب سے پہلے امریکہ کی سوشلسٹ پارٹی نے یہ دن منانے کے بارے میں سوچا اور پھر کچھ عرصے بعد باقاعدہ ہر سال منایا جانے لگا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ عورتوں کو مردوں کے برابر تنخواہ اور برابر حقوق ملنے چاہیے ووٹ کا حق بھی ملنا چاہیے اور بھی کافی مطالبات تھے۔ دراصل اگر معاشرے میں بھی ماں، بہن، بیٹی، بیوی، بہو، خواتین ورکرز۔۔۔ سب ہی کو انصاف کے ساتھ ان کے حقوق ادا کردئیے جائیں تبھی ایک صاف ستھرا اور پرامن ماحول ملے گا اور مثالی معاشرہ قائم ہوگا جب کہ عورت مرد کے ساتھ ہر جگہ شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ دنیا میں خواتین کی تعداد % 50 سے زائد ہے۔ معاشرے کی تعمیر و ترقی میں مرد کو ہر قدم پر عورت کی ضرورت ہوتی ہے لیکن پھر بھی وہ اکثر حق تلفی کر جاتا ہے۔ ترقی کے نام پر عورت کو برہنہ کر کے رکھ دیا اور وہ معصوم سمجھتی ہے کہ یہی آزادی ہے، کامیابی ہے۔

وردہ مرعوب ہو کر کہنے لگی، “ماشااللہ آپ نے بہت اچھی گفتگو کی۔۔ بہت شکریہ اب ہم ذرا آپ کی اسٹوڈنٹ سے بھی گفتگو کر لیں۔” ان لوگوں نے ایک کوریڈور میں اپنا کیمرہ سیٹ کیا اور گزرتی ہوئی طالبات سے سوالات کرنے شروع کیے لڑکیاں دو دو اور تین تین کی ٹولیوں میں آ رہی تھیں۔ “آپ سے ہم کچھ سوالات کر لیں ؟؟” “جی کس سلسلے میں؟ ” 8 مارچ کے حوالے سے” ” اوہ اچھا آپ ٹی وی چینل سے آئے ہیں؟ ایک منٹ ۔۔۔” اس نے فورا” موبائل پر فرنٹ کیمرہ نکالا اور اپنا حلیہ چیک کیا، پھر مسکراتی ہوئی آئی “جی 8 مارچ وومنز ڈے ہوتا ہے”

تو کیا ہونا چاہیے آج کے دن کیا ہونا چاہئے خواتین کو کام سے چھٹی ملنی چاہیے۔ ایک نے کہا یہ جو خواتین کو ایک جنس کی طرح سمجھنے کا سلسلہ ہے، وہ ختم ہونا چاہیئے۔ کسی نے کہا عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق ملنے چاہیے اور تشدد اور ہراسمنٹ کے لئے کوئی قانون بنایا جائے۔ کوئی عملی قدم اٹھایا جائے۔

وردہ نے پوچھا “ہراسمنٹ سے کیا مراد ہے آپ کی؟”

 ” یعنی ہر جگہ لڑکیوں کو  احتیاط کرنے کا کہا جاتا ہے رات میں باہر نا نکلو، اپنے آپ کو کور کر لو، یہ کرو۔ وہ نہ کرو۔ آفس میں جاب کرتے ہوئے بھی بہت سے مسائل ہوتے ہیں ورکنگ وومن کو۔” “ٹھیک ہے۔ آپ اپنا نام بتائیں ہم یہ سب باتیں آگے اوپر پہنچانے کی کوشش کریں گے۔”

” نہیں، میں نام تو نہیں بتاؤں گی” اور وہ ایک طرف کو چل دیں۔

 ایک منچلی لڑکی بولی “ارے ہاں، اس دن میرے بھائی کی سالگرہ ہوتی ہے۔ کھی کھی کھی کھی ۔۔۔

سب لڑکیاں ہنسنے لگیں۔ پھر ایک لڑکی سے پوچھا تو کہنے لگی “آفس میں جاب کرتے ہوئے بھی بہت سے مسائل ہوتے ہیں ورکنگ وومن کو” “ٹھیک ہے آپ اپنا نام بتائیں ہم یہ سب باتیں آگے اوپر پہنچانے کی کوشش کریں گے”

 “نہیں میں نام تو نہیں بتاؤں گی” اور وہ ایک طرف کو چل دیں۔

 ایک لڑکی جو مکمل حجاب میں تھی اس سے پوچھا تو کہنے لگی،” جی میں جانتی ہوں 8 مارچ عالمی یوم خواتین کے نام سے منایا جاتا ہے ۔لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟اس  مردوں کی دنیا میں عورتوں کو اپنے حقوق کب ملے ہیں؟ گھر ہو یا دفتر، فیکٹری ہو یا بس، یہاں تک کہ فوج اور پولیس کے محکمے میں بھی عورت استیصال سے محفوظ نہیں ہے۔ یہاں تک کہ کھیت کی مزدور ہو یا اینٹیں بنانے والی عورت۔۔۔۔

  پھر یہ ڈھکوسلا کیوں اور کیا کر لیں گے یہ لوگ ایک دن منا کر اور سچی بات تو یہ ہے کہ عورت کی سب سے بڑی دشمن عورت ہی ہے۔۔۔ گھر میں ساس بہو، نند یا جٹھانی دیورانی۔۔۔۔

 خیر، مجھے دیر ہو رہی ہے ورنہ اور بھی بہت کچھ ہے میرے پاس کہنے کو۔”

 تلخی سے یہ کہتے ہوئے وہ چلی گئی۔

 کافی لڑکیوں کو تو 8 مارچ کا پتہ ہی نہیں تھا اور کافی لڑکیوں نے بات کرنے سے منع کر دیا تھا۔

 وہاں سے یہ لوگ ایک مشہور شاپنگ سینٹر پہنچے وہاں پر بھی ملا جلا رجحان تھا۔ اکثر مردوں اور عورتوں کو 8 مارچ کا پتہ ہی نہیں تھا۔ ایک انکل نے تو یہ بھی کہہ دیا “او رہنے دو بی بی یہ بیکار کے چونچلے ہیں۔ انگریزوں کے بنائے ہوئے دن ہیں یہ۔۔۔”

ایک صاحبہ کہنے لگیں “ارے بہن اسلام میں تو عورتوں کو اتنے حقوق دیے گئے ہیں اگر مرد حضرات اسی پر عمل کرنا شروع کردیں تو ہر دن خواتین کا دن ہوگا۔

 حضرت خدیجہ ،حضرت عائشہ ،حضرت ام سلمہ تمام امہات المومنین کی خواتین ہر جگہ مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی رہیں۔ مالی طور پر بھی جنگ میں ،جہاد میں، دینی معاملات میں ہر جگہ اسلامی حدود میں رہتے ہوئے مردوں کاساتھ دیا تھا ۔

کاش آج بھی عورتوں کا اسی طرح خیال رکھا جائے اور ان کی حفاظت کی جائے آبگینوں کی طرح جیسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خیال رکھتے تھے۔

یہ سب کرنے میں شام کے چھ بج چکے تھے۔ وردہ تھک کر چور ہو چکی تھی۔  وہ گھر جانا چاہ رہی تھی۔ اس لئے اس نے پروڈیوسر صاحب کو فون کیا۔

“سر میں یہیں سے گھر چلی جاؤں؟ یہاں سے قریب ہے میرا گھر اب دوبارہ آفس آکر گھر جانے میں دیر ہو جائے گی”

نو۔نو۔  وردہ آپ کو اتنا عرصہ ہو گیا ہے ہمارے ساتھ کام کرتے ہوئے۔ آپ کو پتہ ہے نہ کہا کر رپورٹ کرنا ہوتا ہے آپ آ کر وہ سبمٹ کر کے پھر جائیں گی۔سر پلیز میں بہت تھک گئی ہوں۔ سر میں بھی بہت  درد ہو رہا ہے۔” لیکن وہاں سے رابطہ منقطع ہو چکا تھا۔

 وہ واپسی کے سفر میں وین کی سیٹ سے ٹیک لگائے سوتی جاگتی کیفیت میں گھر جاکر کرنے والے کاموں کو ترتیب دے رہی تھی۔ جو اسے اسی تھکن کی حالت میں مکمل کرنے تھے۔ اس سے کوئی مفر نہیں تھا۔۔۔۔

  اس نے ادھ کھلی آنکھوں سے دیکھا کھڑکی سے باہر 8 مارچ کا سورج آہستہ آہستہ غروب ہو رہا تھا اس کی سنہری کرنیں تیزی سے سیاہی میں تبدیل ہو رہی تھیں۔ خواتین کا عالمی دن گزر چکا تھا

حصہ

جواب چھوڑ دیں