بناؤ اور بگاڑ‎

تعمیر کا عمل دیر پا ہوتا ہے
آہستہ آہستہ، اور احتیاط کے ساتھ ۔۔۔
ایک مخصوص قاعدہ کا پابند ۔۔۔
کوئی چاہے کتنا ہی ہنر مند کیوں نہ ہو ۔۔۔
اپنی تخلیق لمحوں میں مکمل نہیں کر سکتا، مسلسل محنت اور بھر پور توجہ کے ساتھ تعمیر میں ایک عرصہ لگ جاتا ہے۔
اس کے برعکس تخریب کا عمل، چند لمحوں پر محیط ہوتا ہے ۔۔۔
نہ کسی قاعدہ کے پابندی کرنی پڑتی ہے اور نہ کوئی احتیاط برتنی پڑتی ہے ۔۔۔
بس چند لمحوں میں محنت ضائع ہو جاتی ہے ۔۔۔

یہ بناؤ اور بگاڑ کا سلسلہ ہماری زندگیوں میں بھی اسی طرح جاری ہے
بہت محنت سے ایک مقام تک پہنچنے کے بعد ہماری ذرا سی غلطی ساری محنت پر پانی پھیر دیتی ہے۔
اس تخریب کو ہم نے روکنا ہوگا ۔۔۔
ہمارا کام معاشرے کو، اقدار و روایات کو، قوانین کو اور معیشت کو تعمیر کرنا ہے ۔۔۔
ہماری اخلاقی کمزوریاں ہماری ہی کوششوں کو لمحوں میں مٹا دیتی ہیں ۔۔۔
اس لیے اپنے کردار کی تعمیر سے کام شروع کرنا ہے،
اور اپنے آپ کو بحیثیت قوم اور بحیثیت اُمّت واپس عروج کی منزلوں کی جانب لے کر جانا ہے۔

━━━━━━✿━━━━━━

حصہ

1 تبصرہ

  1. عمدہ تحریر
    اللہ آپ کے قلم میں مزید برکت دے ۔آمین

    سرشکِ چشمِ مُسلم میں ہے نیساں کا اثر پیدا
    خلیل اللہؑ کے دریا میں ہوں گے پھر گُہر پیدا
    کتابِ مِلّتِ بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
    یہ شاخِ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا
    ربود آں تُرکِ شیرازی دلِ تبریز و کابل را
    صبا کرتی ہے بُوئے گُل سے اپنا ہم‌سفر پیدا
    اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹُوٹا تو کیا غم ہے
    کہ خُونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحَر پیدا
    جہاں بانی سے ہے دُشوار تر کارِ جہاں بینی
    جگر خُوں ہو تو چشمِ دل میں ہوتی ہے نظر پیدا
    ہزاروں سال نرگس اپنی بے نُوری پہ روتی ہے
    بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ‌وَر پیدا
    نوا پیرا ہو اے بُلبل کہ ہو تیرے ترنّم سے
    کبوتر کے تنِ نازک میں شاہیں کا جگر پیدا
    ترے سینے میں ہے پوشیدہ رازِ زندگی کہہ دے
    مسلماں سے حدیثِ سوز و سازِ زندگی کہہ دے

Leave a Reply to وقار علی