شادی کی عمر

میرا   یونیورسٹی کا ایک دوست ہے وہ آجکل سخت پریشان ہے۔ اس کی والدہ اس کی شادی کرنا چاہتی ہیں اور اس کا کہنا ہے کہ “میں معاشی طور پر اتنا مضبوط نہیں ہوں کہ شادی کرلوں”۔ یہ صرف اس کا مسئلہ نہیں ہے یہ آج کی نوجوان نسل اور ان کے والدین کا نہ صرف سب سے بڑا مسئلہ بلکہ چیلنج بھی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شادی اور انتقال کے وقت عمر ہمیشہ کم ہی لگتی ہے۔

میرے والد کے دوست  اندرون سندھ میں رہتے ہیں، ان کی شادی نہایت کم عمری میں ہوگئی تھی۔ میرے ابا نے ان سے پوچھا کہ آپ کی شادی کب ہوئی تھی؟ انھوں نے زور کا قہقہہ مارا اور بولے “جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے خود کو شادی شدہ پایا ہے، جب میری شادی ہوئی تو میری عمر 14 جب کہ میری بیوی کی عمر 12 سال تھی” اور کمال یہ ہے کہ میں ذاتی طور پر ایک ایسے بزرگ کے بارے میں بھی جانتا ہوں جنھوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد 5 سے 8 سالوں میں دو شادیاں اور ایک طلاق بحسن و خوبی نبھائی ہے۔

اس سلسلے میں پہلی غلط فہمی یہ ہے کہ شادی کا تعلق جسمانی عمر سے ہے لیکن حقیقیت یہ ہے کہ شادی کا تعلق بلوغت کے بعد شعوری عمر سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو پہلے زمانے میں نہایت کم عمری میں شادیاں ہوتی نظر آتی تھیں بلکہ وہ کامیاب ترین اور دیر پا بھی ہوتی تھیں۔ہارورڈ یونیورسٹی کی ایک ریسرچ کے مطابق ان لڑکے، لڑکیوں کی شادیاں جلدی ختم ہوجاتی ہیں جو بڑی عمر میں شادیاں کرتے ہیں۔ جیسے جیسے عمر بڑھتی جاتی ہے عادتیں، نظریات، لوگوں کو دیکھنے، سمجھنے کے انداز اور زاوئیے پختہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ شوہر کا بیوی کے لئے اور بیوی کا شوہر کے لئیے صبر، ایثار، اپنی انا اور رائے کی قربانی دینا مشکل تر ہوتا چلا جاتا ہے اور نتیجہ شادی میں ناکامی کی صورت میں نکلتا ہے۔

تحقیق یہ بتاتی ہے کہ 17 سے 25 سال کی عمر جوانی کے احساسات اور محبت کے جذبات کے اظہار کی ایک آئیڈیل عمر ہوتی ہے۔اس عمر میں لڑکے اور لڑکیاں جنس مخالف کے لئیے زیادہ دلکش اور خوبصورت نظر آنا چاہتے ہیں۔ اس احساس اور محبت کے اعلی ترین معیار کو پانے کے لئیے وہ چھوٹی اور معمولی چیزوں میں پھنسنے کے بجائے اپنی رائے اور انا کو آسانی سے قربان کردیتے ہیں۔اس کی نسبت 25 سال کے بعد یہ احساس اور جذبات کمزور اور سرد ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور ان کی جگہ مفادات لے لیتے ہیں۔

دوسرا بڑا مسئلہ “پسند” کا ہے۔ ہر لڑکا یا لڑکی اس لئیے شادی کرنا چاہتا یا چاہتی ہے کہ اسے کوئی “دوسرا” پسند آگیا ہے۔ شادی کے مضبوط ترین بندھن میں  محض”پسند” سے کمزور دھاگہ اور کوئی نہیں ہوسکتا ہے۔آپ پاکستان چھوڑیں ساری دنیا کے طلاق اور خلع کے اعداد و شمار نکال کر دیکھ لیں آپ حیران رہ جائینگے کہ 80 فیصد سے زیادہ طلاقیں اور خلع نہ صرف شادی کے بہت ہی کم عرصے میں ہوئی ہیں بلکہ وہ سب “پسند” کی شادیاں تھیں۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ مجھے جہاز بہت “پسند” ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے ک وہ جہاز اڑا بھی لے گا اور اگر اڑا بھی لیا تو ہینڈل بھی کرلیگا۔ ٹھیک اسی طرح کسی لڑکے یا لڑکی کا پسند آجانا اور چیز ہے جبکہ اس کے ساتھ نباہ کرنا اور بھرپور زندگی گذارنا ایک بالکل علیحدہ چیز ہے۔

ایک امریکی اور پاکستانی کے درمیان اس بات پر بحث ہوگئی کہ آپ جس سے شادی کرنا چاہتے ہیں پہلے اس لڑکی کوسمجھنا ضروری ہے یا نہیں؟ امریکی کا موقف تھا کہ پہلے سمجھو پھر شادی کرو جبکہ پاکستانی کا موقف بالکل واضح تھا کہ “اگر آپ نے اسے پہلے “سمجھ لیا” تو پھر آپ شادی نہیں کر پائینگے اسلئیے پہلے کرلو پھر سمجھتے رہنا۔

لطیفہ اپنی جگہ لیکن اگر آپ کی شعوری عمر ابھی اس سطح پر نہیں پہنچی ہے یا اگر آپ نے اپنے ذہن کو شادی سے متعلق تمام منفی باتوں سے بھرا ہوا ہے تو پہلے آپ اپنی شعوری عمر میں اضافہ کریں اور اپنے دماغ میں سے معلومات کے اس “کچرے” کو کہیں انڈیل دیں اور یاد رکھیں اس غلط فہمی میں مت رہیں کہ آپ کی جسمانی عمر جیسے جیسے بڑھتی جائیگی تو آپ کی شعوری عمر میں اضافہ ہوتا چلا جائیگا اور یہ بات بھی درست ہے کہ اس شعور میں اصل پختگی تو اس بحر بے کراں میں چھلانگ مارنے کے بعد ہی آئیگی لیکن آپ کو عورت کی نفسیات سے متعلق بنیادی باتیں ضرور معلوم ہونا ضروری ہیں  ورنہ آپ پہلے بی – پی کے پھر شوگر کے اور آخر میں دل کے مریض بن کر اس دار فانی سے کوچ کر جائینگے- یہ ایک علیحدہ موضوع ہے اور اس پر مزید ایک تفصیلی مضمون درکار ہے لیکن چونکہ مرد قوام ہے اور طلاق کا اختیار بھی اسی کے پاس ہے اسلئیے جنس مخالف کو سمجھنا اور اسی کے مطابق اس کو ہینڈل کرنا بھی آپ کا ہی کام ہے۔

کہتے ہیں کہ اگر تنخواہ اچھی ہو تو پھر استخارے میں بھی “ہاں” ہی آتا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ میں نے “تنخواہوں” کی بنیاد پر ہوتی شادیوں کے دلہوں کو چند ہفتوں اور مہینوں میں سڑک پر آتے دیکھا ہےاور تنخواہ کی ہی بنیاد پر ٹھکرائے گئے نوجوانوں کو پیسے میں کھیلتے دیکھا ہے۔شادی کا معیار اور اصول وہی ہونا چاہیئے جو رسول اللہﷺ   نےطے کردیئے ہیں۔تقوی اور دیانتداری کو پہلا جبکہ مال کو آخری درجے میں ہونا چاہئیے اور لڑکی کے معاملے میں تقوی اور حسن اخلاق کو پہلے درجے میں ۔

ایک اور اہم چیز “کفو” بھی ہے یعنی اگر کوئی انتہائی دولت مند کسی انتہائی غریب لڑکے یا لڑکی سے شادی کریگا تو فطری طور پر نباہ مشکل ہوجائیگا۔ اس سلسلے میں حدیث میں چند باتیں ارشاد ہوئی ہیں جن میں: دین، مال و دولت، حسب نسب اور پیسہ شامل ہے۔یہ کوئی حکم نہیں ہے لیکن انسانی فطرت اور ذہنی ہم آہنگی کے لئیے ضروری ہے کہ ان سب کا خیال رکھا جائے۔ حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنھا کا معاملہ بھی “کفو” کا  ہی تھا ۔ آج کوئی مسلمان مرد حضرت زید کے جوتے کی خاک کے برابر بھی نہیں ہوسکتا ہے لیکن اس کے باوجود کیونکہ وہ غلام تھے اور حضرت زینب کا تعلق ایک آزاد اور شاندار خاندان سے تھا اسلئیے ان کے لئیے نباہ مشکل ہوگیا اور بلآخر معاملہ طلاق پر ختم ہوا۔ اسلئیے محض دو فلموں اور چار ڈیٹوں کی بنیاد پر قائم ہونے والے رشتے کبھی بھی دیر پا نہیں ہوسکتے ہیں۔

یہ طے ہے کہ شادی کرنا ہے لیکن یہ بھی طے کریں کہ سارے ڈراموں ، فلموں ، انسٹا گرام اور فیس بک آئی ڈیز سے ذہن خالی کر کے ، زمینی حقائق کو پیش نظر رکھ کر شادی کرنا ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالی سورہ نور میں نکاح کی ترغیب دیتے ہوئے نوجوانوں سے کہتے ہیں کہ اگر تم فقیر ہوئے تو اللہ اپنے فضل سے تمھیں غنی کردیگا۔فقر، غربت سے بھی ایک درجہ نیچے ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود اسلام یہ پسند نہیں کرتا کہ مسلمانوں کے معاشرے میں  نوجوان لڑکے لڑکیاں بغیر شادی اور نکاح کے موجود رہیں۔اسلئیے ایک منظم، پرسکون اور احساس ذمہ داری سے بھرپور زندگی کے لئیے ضروری ہے کہ لڑکے اور لڑکیوں دونوں کی شادیاں کم عمری میں ہوجانی چاہئیے تاکہ اس پرفتن دور میں وہ اپنے ایمان کی بھی باآسانی حفاظت کرسکیں۔

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں