انسانی اور حیوانی ارتقا میں فرق کیوں؟

ماضی کی اپنی کسی غلطی کو یاد کر کے آپ کو پچھتاوا ہو، یا آپ مسکرا دیں،خود کو احمق سمجھیں اور اُس غلطی کو احمقانہ ، اور ایسی غلطی دوبارہ نہ کرنے کا عزم دل میں پائیں تو مبارکباد! آپ کا ذہنی ارتقا جاری ہے اور آپ پہلے  کے مقابلے میں زیادہ عقل مند ہو چکے ہیں۔ اگر آپ کو ماضی کا کوئی تلخ تجربہ یا اپنی کوئی غلطی یاد ہی نہ آئے تو دو باتیں ہو سکتی ہیں: اول، یادداشت خراب ہو چکی ہے۔ دوم، غرور اور تکبر میں مبتلا ہونے سے آپ کا ذہنی ارتقا رک چکا ہے اور آپ زوال پذیر ہیں۔

انسان واحد مخلوق ہے جو اپنے تجربات سے (چاہے تو) سیکھ سکتا ہے، خود کو بہتر بنا سکتا ہے، کمی اور کوتاہی کا ازالہ کر سکتا ہے یوں وہ ارتقا پا سکتا ہے (اقبال: فروغِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں/ کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ ہو جائے)۔ حیوانات میں صرف جبلّت کارفرما ہوتی ہے، ذہنی ارتقا نہیں پایا جاتا۔ چند مستثنیات ہیں مثلاً بندر، گھوڑا، کتا وغیرہ جنہیں سِدھایا جا سکتا ہے۔غالباً یہ صرف جبلّت کی کارفرمائی ہے کہ جانور تیزی سے جسمانی طور پر مکمل اور جنسی بالغ ہو جاتے ہیں جبکہ جسمانی اور جنسی طور پر بالغ ہونے میں حضرت انسان سست ترین ہے، وہ تقریباً ایک سال میں تو چلنے پھرنے کے قابل ہوتا ہے جبکہ حیوانات پیدائش کے بعد چند ہی لمحوں میں زمین پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور کچھ دیر میں دوڑنے بھاگنے لگتے ہیں۔ پرندے البتہ پروں کے مکمل ہونے تک اڑنے سے قاصر ہوتے ہیں، اس میں چند ماہ لگتے ہیں۔ انسان بولنے میں دو سے ڈھائی سال لگاتا ہے، بامعنی گفتگو کرنے میں اسے مزید چند سال لگتے ہیں، بامقصد گفتگو کرنا بھی ہر انسان کے بس میں نہیں ہوتا۔  جبکہ جانوروں کے بچے پیدائش کے فوراً ہی بعد اپنے والدین سے بات چیت شروع کر دیتے ہیں جس میں وہ کھانا وغیرہ طلب کرتے ہیں۔ انسان کا بچہ بھوک اور تکلیف کے اظہار کے لیے صرف رو سکتا ہے۔ حیوانات کے برخلاف انسان میں جنسی بلوغت بارہ سے اٹھارہ سال تک کے عرصے میں آتی ہے۔ اتنی سست رفتاری؟ وہ بھی اشرف المخلوقات میں، ایسا کیوں ہے؟

دراصل انسان جسم اور جنس کے علاوہ ذہن بھی رکھتا ہے۔ جسمانی اور جنسی بلوغت بڑی حد تک ایک خودکار عمل ہے جس پر انسان کا کوئی زور نہیں، اس خودکار عمل کو وہ تیز کر سکتا ہے نہ سست۔ ہماری رائے میں اسے ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ حیوان کو دو چھوٹے امتحانات دینے ہیں اور وہ بھی خودکار طریقے سے، یعنی اپنی طرف سے کوئی کوشش نہیں کرنی ہے۔ حیوان اپنی بھوک مٹانے کا جبلی تقاضا پورا کر دے تو اسے نشوونما پانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ جبکہ انسان کو ان دو چھوٹے امتحانات کے ساتھ ساتھ بیک وقت ایک بڑا امتحان (یعنی ذہنی بلوغت) بھی عبور کرنا ہے اور اس میں کامیابی خود بخود نہیں ملتی بلکہ شعوری کوشش کرنی ہوتی ہے اور بار بار کرنی ہوتی ہے۔ چنانچہ ان تینوں امتحانوں میں بیک وقت مصروف رہنے کی بنا پر جسمانی اور جنسی بلوغت میں زیادہ وقت لگنا عین فطری ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ دیوانگی کے شکار (عورت ہو یا مرد) جسمانی اور جنسی لحاظ سے تو بالغ ہو جاتے ہیں (بلکہ جلد ہو جاتے ہیں، اور اس کی وجہ بھی ذہن کا غیر حاضر یا غیر فعال ہونا ہے) البتہ ذہنی بلوغت انہیں کبھی حاصل نہیں ہو پاتی۔ اس کے برخلاف عام انسانان تینوں شعبوں میں ارتقا بیک وقت حاصل کرتے رہتے ہیں، ایک خاص عمر کو پہنچ کر جسمانی اور جنسی بلوغت انہیں حاصل ہو جاتی ہے، لیکن ذہنی بلوغت چالیس سال میں مکمل ہوتی ہے، اور اس میں ارتقا کا سلسلہ آخری سانس تک جاری رکھا جا سکتا ہے جس کے لیے اپنا ذہن وسیع کرنا ہوتا ہے، مطالعہ اور مشاہدہ اس ارتقا میں مدد دیتے ہیں۔

دین اسلام نے ہمیں اپنا احتساب کرتے رہنے کا جو درس دیا ہے اس کی وجہ بھی غالباً یہی ہے کہ اسلام ہمیں مکمل دیکھنا چاہتا ہے۔ توبہ کا دروازہ بھی اسی لیے آخر تک کھلا رکھا گیا ہے کہ غلطیوں کی تلافی ہوتی رہے۔

****

حصہ
تحریر و تصنیف کے شعبے میں اپنی شناخت بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ عامل صحافی تھے، فی الحال مترجم کی حیثیت سے معروف ہیں۔ ایم اے ابلاغ عامہ اردو کالج کراچی سے ۱۹۹۸ء میں کرنے کے بعد تعلیم ادھوری چھوڑ دی، جس کا تعلیم پر کوئی برا اثر نہیں پڑا، البتہ نئی نسلوں کو عبرت ملی کہ تعلیم چھوڑ دینے کا کیا نقصان ہوا کرتا ہے۔ اردو اور انگریزی فکشن سے دلچسپی ہے، اردو میں طنز و مزاح سے۔

جواب چھوڑ دیں