آغا سراج درانی کی گرفتار ی پر پی پی پی کا بلا جواز احتجاج

قومی احتساب بیورو (نیب) نے اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کو اسلام آباد سے گرفتار کرنے کے بعد ان کے گھر پر چھاپے کے دوران کئی فائلیں اور دستاویزات قبضے میں لے لیں۔نیب اہلکار، پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری کے ہمراہ رات گئے کراچی میں واقع آغا سراج درانی کے گھر پہنچے اور تلاشی کا عمل شروع کیا، اس دوران نیب حکام نے آغا سراج درانی کے اہل خانہ سے پوچھ گچھ بھی کی۔وزیراعلی سندھ کی ہدایت پر صوبائی وزرا صورتحال معلوم کرنے پہنچے مگر انہیں گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی جس پر پیپلز پارٹی کے رہنماوں نے صورتحال پر شدید احتجاج بھی کیا۔آغا سراج درانی کی اہلیہ کا بتانا تھا کہ نیب اہلکار کئی گھنٹے تک مختلف کمروں کی تلاشی لیتے رہے اور اس وقت گھر میں صرف خواتین ہی موجود تھیں۔نیب حکام 7 گھنٹے کی تلاشی کے بعد مختلف دستاویزات اور کئی فائلیں اپنے ہمراہ لے گئے۔ اس گرفتاری کے بعد نون لیگ کا یہ شکوہ و گلہ ختم ہو جانا چاہیے تھا کہ احتساب صرف اور صرف میاں خاندان یا مسلم لیگ نون کا ہی احتساب کیا جارہا ہے ۔اس سے پہلے پنجاب کے سینئر وزیر علیم خان بھی نیب کے ہاتھوں گرفتار ہوچکے ہیں حالانکہ وہ اقتدار میں تھے مگر تحریک انصاف کی حکومت نے اسے قانون کی بالا دستی قرار دیتے ہوئے فیصلے کو من و عن تسلیم کیا جبکہ علیم خان نے اعلیٰ اخلاقی اقدار کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوراً اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا جسے فوری طور پر تسلیم کر لیا گیا مگر اس کے بر عکس پیپلز پارٹی نے اس گرفتاری کو انتقامی کارروائی قرار دیتے ہوئے شدید احتجاج کیا اور گرفتاری کی پرزور مذمت کی۔ آصف زرداری کا کہنا تھا کہ اسپیکر سندھ اسمبلی آغاسراج درانی کو غلط گرفتار کیا گیا ہے، وہ ان کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہیں، ہم نے پہلے بھی ایسے رویوں کا سامنا کیا ہے اور آئندہ بھی کریں گے۔ جیل میرا دوسرا گھر ہے، بلاول میرا اور بے نظیر بھٹو کا بیٹا ہے، وہ مقابلہ کرے گا۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران آصف زرداری نے کہا کہ ملک مشکل حالات سے گزر رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیرمیں صورتحال کشیدہ ہے، ان ہنگامی حالات میں کشمیر کی صورتحال اہم ہے، نابالغ حکومت کوسمجھ نہیں آرہی۔ ہم چاہتے تھے کہ موجودہ حکومت چلے اور لوگوں کے مسائل حل کرے لیکن حکومت کو جتنا وقت دینا تھا دے دیا اب مزید نہیں دیں گے۔ حکومت کو انتقامی کارراوئیوں سے دور رہنا ہو گا آصف زرداری کا کہنا تھا کہ پاکستان دنیا میں تنہا ہوگیا ہے، نئی حکومت کے آنے سے پاکستان مزید تنہا ہوگیا، جبکہ دوسری طرف قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران پیپلز پارٹی کی جانب سے اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کی گرفتاری پر شدید احتجاج کیا گیا جس کے بعد اجلاس ملتوی کردیا گیا۔اسپیکر اسد قیصر کی زیرصدارت قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو پیپلز پارٹی نے آغا سراج درانی کی گرفتاری کے معاملے کو اٹھاتے ہوئے شدید احتجاج کیا۔پیپلز پارٹی کے اراکین بازؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر اجلاس میں شریک ہوئے اور خورشید شاہ اور راجا پرویز اشرف نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔پیپلز پارٹی کے اراکین نے نشتوں سے اٹھ کر ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں، اسپیکر اسد قیصر کی ڈائس کا گھیرا کیا اور شدید نعرے بازی کی۔اس موقع پر اسپیکر اسد قیصر پیپلز پارٹی اراکین کو نشستوں پر بیٹھنے کی ہدایت کرتے رہے اور کہا کہ اس طرح اجلاس نہیں چلاں گا، احتجاجی اراکین کے نشستوں پر نہ بیٹھنے پر اسپیکر اپنی نشست سے اٹھ کر چلے گئے اور اجلاس (آج) جمعہ کی صبح 11بجے تک کے لیے ملتوی کر دیا۔پی پی رہنما خورشید شاہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی 70 سال کی تاریخ میں پہلی بار ایک منتخب اسپیکر کو گرفتار کیا گیا، منتخب اسپیکر کی گرفتاری پر پوری پارلیمنٹ کو احتجاج کرنا چاہیے۔خورشید شاہ نے کہا کہ منتخب اسپیکر کی گرفتاری پر کوئی احتجاج کرے یا نہ کرے، ہم تو کریں گے، ہو سکتا ہے کل کو سندھ کے وزیراعلی کو بھی آفس سے گرفتار کرلیا جائے، ہم اپنے اداروں پر آنچ نہیں آنے دیں گے، ہمارے احتجاج کو صرف لفظی جنگ نہ سمجھا جائے۔رہنما پیپلز پارٹی خورشید شاہ نے آغا سراج درانی کی گرفتاری کو شرمناک عمل قرار دیتے ہوئے اسے پارلیمنٹ کو کمزور بنانے کی سازش کہا خورشید شاہ نے ایوان زیریں میں اپنے دھواں دھار خطاب میں اسپیکر سندھ اسمبلی کی گرفتاری کو شرمناک قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ آغا سراج درانی کی گرفتاری کے خلاف گلی گلی احتجاج کیا جائے گا۔خورشید شاہ نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کو کمزور بنانے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں، مگر جب ایک ایوان کے سربراہ کو گھسیٹ کر لے جائیں گے تو ان ایوانوں کی کیا خود مختاری ہوگی۔انہوں نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ آغا سراج درانی نے کچھ کیا ہو،مگر یہ ان کے ساتھ یہ کون سا رویہ اختیار کیا گیا ہے،پاکستان کے تمام ادارے پارلیمنٹ سے نیچے ہیں،ادارے نہیں پارلیمنٹ سپریم ہے، مولوی تمیزالدین سے لیکر اسد قیصر تک سب اسپیکرز قابل احترام ہیں،اسپیکر کی نشست پر کوئی بھی شخص ہو، قابل احترام ہوتاہے۔خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ سراج درانی کے خاندان کی ایک سیاسی تاریخ ہے،بغیر کسی تحقیقات کے گرفتارکرنا غلط ہے، اس طرح کے رویے پر سندھ کے لوگ کیا سوچیں گے،آج جو روایت قائم کی جارہی ہے اسکے اثرات کل پارلیمنٹ کو بری طرح متاثر کرینگے ۔پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما و سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ آغا سراج درانی کو جس طرح سے گرفتار کیا گیا اس پر سندھ کے عوام شدید سراپااحتجاج ہیں ، سندھ اسمبلی کے سپیکر کی چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا ہے یہ کہاں کا قانون ہے کہ اراکین پارلیمنٹ کو اس طرح سے گرفتار کیا جائے اگر حکومت کا نیب پر کنٹرول نہیں تو نیب کا دفاع کیوں کیا جارہا ہے ؟ جب موجودہ حکومت اپوزیشن میں ہوگی تو ان کو پتہ نہیں چلے گا کہ کہاں کہاں سے اسکینڈل لائے جاتے ہیں ؟۔ راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ ہمارے رہنما نے سپیکر کی توجہ اس طرف دلائی ہے کہ سندھ اسمبلی کے سپیکر کو جس طرح سے گرفتار کیا گیاہے اس پر سندھ کے عوام شدید سراپااحتجاج ہیں انہوں نے کہا کہ کوئی شکایت تھی تو اس کا طریقہ کار یہ نہ تھا جس طرح آغا سراج درانی کو گرفتار کیا گیا وہ بالکل غلط ہے۔ یہ کہاں کا قانون ہے کہ اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ اس طرح سلوک کیا جائے اور سپیکر کی بے توقیری کی جائے آزاد ادارے کا مقصد یہ نہیں کہ لوگوں کو بے عزت کیا جائے ۔سوال یہ کہ آخر یہ احتجاج کیوں ؟؟ ؟ کیا ارکان اسمبلی پر پاکستانی قانون لاگو نہیں ہوتا ؟؟؟ کیا ارکان اسمبلی احتساب سے بالاتر ہیں ؟؟؟ کیا ارکان اسمبلی جو مرضی گل کھلائیں ان سے کچھ نہ پوچھا جائے ؟؟؟ عوامی نمائندے ہونے کا یہ مطلب ہے کہ انہیں قانون شکنی کی کھلی چھٹی دے دی جائے ؟؟ انہیں کوئی پوچھنے والا نہ ہو؟؟؟اگر انہوں نے کچھ نہیں کیا تو پھر یہ خوف کیساَ ؟؟؟ پاکستانی قوانین کے تحت انہیں صفائی کا پورا موقع فراہم کیا جائے گا اگر وہ بے قصور ہوئے تو کوئی قانون انہیں سزا نہیں دے سکتا اور اگر انہوں نے عوامی خزانے پر ہاتھ صاف کیے ہیں تو پھر انہیں کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہیے۔ پی پی پی کو ہوش کے ناخن لینے چاہئے اور سرحدی کشیدگی کے پیش نظر سیاسی ماحول کو گرم نہیں کرنا چاہیے۔ امید ہے کہ پی پی پی دانشمندانہ فیصلہ کرے گی ۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں