دم پر پاؤں مت رکھو

قومی احتساب بیورو (نیب) نے اسپیکرسندھ اسمبلی اور پیپلز پارٹی کے رہنما آغا سراج درانی کو کرپشن کے الزام میں گرفتار کرلیا جس پر سابق صدر مملکت اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے سخت ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو جتنا وقت دینا تھا دے دیا اور اب مزید وقت نہیں دیں گے۔ انھوں نے مزید کہا کہ مولانا فضل الرحمن قدم بڑھائیں ہم ساتھ ہیں جب کہ پارٹی سربراہ بلاول نے اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آغاسراج درانی کی گرفتاری کا نوٹس لیں۔

احتساب کا عمل شروع ہو چکا ہے اور اب اس کا دائرہ وسیع ہوتا چلا جارہا ہے۔ گو کہ ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہو سکی ہے کہ کیا یہ عمل مخالف سیاسی جماعتوں یا سیاست سے باہر کے لوگوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے گا یا نہیں لیکن پھر بھی کہا جاسکتا ہے کہ ایک عمل شروع ہو چکا ہے تو کبھی نہ کبھی غیر سیاسی افراد بھی اس کی گرفت میں آ ہی جائیں گے۔

دیکھا گیا ہے کہ پاکستان میں ہمیشہ مخالفین یا سیاسی رہنما ہی ہر قسم کےعتاب کا شکار ہی نظر آئے ہیں اور احتساب سے ہٹ کر بھی اگر اعلیٰ عدالتوں نے کچھ مقتدر ہستیوں کے خلاف صاف صاف اور بہت واضح انداز میں کچھ فیصلے سنائے بھی ہوں اور وہ زبانی ہی نہیں تحریری بھی ہوں تو اس پر ایسے کان بند کر لئے جاتے رہے ہیں جیسے انھیں سنا ہی نا ہو۔ اپنے فیصلوں پر عدالتیں مڑ کو دیکھنا تک گوارہ نہیں کرتی رہی ہیں بلکہ وہ محکمے جن کو ان فیصلوں پر عمل درآمد کرنے کیلئے کہا جاتا رہا ہے وہ سب پیروں میں مہندی لگا کر، ہونٹوں کو سی کر اور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں باندھ کر ایسی گہری نیند سوجاتے ہیں جیسے اب اگر آنکھ کھولیں گے بھی تو میدان حشرمیں ہی کھولیں گے۔

اصغر خان کیس کا حالیہ فیصلہ اس کی سب سے بڑی مثال ہے جس کی کوئی نظیر دنیا کی کسی بھی عدالت میں نہیں مل سکتی۔ آپریشن توڑ پھوڑ کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ بھی عدالت کے حکم ہی کی وجہ سے ایسا چل نکلا ہے جس نے نہ جانے کتنے خاندانوں کے سروں سے چھتیں چھین لی ہیں اور کتنے خاندانوں کو فاقہ کشی اور بھیک مانگنے پر مجبور کردیا ہے لیکن اسی عدالت نے جب عسکری علاقوں میں بنی ناجائز تجاوزات کو ڈھانے نے کا حکم دیا تو ایک ایسی پراسرار خاموشی چھا گئی جیسے اگر ان کو ڈھادینے کا عمل شروع کیا گیا تو ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوگا۔ اس پر استہزایہ یہ ہے کہ عدالت بھی احکامات دینے کے بعد ایسے منھ سی کر بیٹھ گئی جیسے اس قسم کے احکامات ان کے منھ اور قلم سے سہواً جاری ہوگئے ہیں جبکہ عوام کی ہر قسم کی پراپرٹی کے متعلق بار بار کی تاکید ہی نہیں جاری ہو رہی بلکہ حکم عدولی کی صورت میں متعلقہ اداروں اور محکموں کے خلاف سخت ایکشن لینے کی ہدایات بھی مسلسل جاری کی جارہی ہیں۔ یہی وہ رویہ ہے جس کی وجہ سے ایسے تمام راست اقدامات جن سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانی جا سکے اور ناجائز قبضوں سے نجات دلاکر عوام کی زندگی آسان بنائی جا سکے تنازع کا شکار ہوجاتے ہیں اوراقدامات راست ہونے کے باوجود بھی عوام میں پزیرائی حاصل نہیں کر پاتے۔

پاناما میں ساڑھے چارسو افراد کے نام شامل تھے جن میں ججز بھی تھے، سیاسی اور سماجی شخصیات کے علاوہ بہت سارے اعلیٰ عسکری افسران کے نام بھی تھے لیکن اگر پابند سلال کچھ شخصیات ہوئیں تو وہ سیاسی شخصیات ہی ہوئیں اور وہ بھی وہ شخصیات جو عسکری مداخلتوں کے خلاف رہی تھیں اور اب جو بھی لائق گرفت بنائی جارہی ہیں وہ سیاسی مخالفین کی فہرست میں شامل افراد کی ہیں۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سیاسی جماعتوں میں بھی آپس میں اتنی خلیجیں ہیں کہ جن کا پٹ جانا یا پاٹ دیئے جانا مشکل ہی نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب تک ان کے اپنے آپ پر کوئی شامت نہیں آتی وہ سب اس فریب میں مبتلا رہتے ہیں کہ “ابھی دلی بہت دور ہے”۔ اس کی تازہ ترین مثال سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی کی نیب گرفتاری کے بعد پی پی پی کے آصف علی زرداری کا بیان ہے جس میں انھوں نے اس بات کا کھل کر اظہار کردیا ہے کہ ہم نے جتنی مہلت پی ٹی آئی کی حکومت کو دینا تھی دیدی اور اب ان کے اقتدار کو مزید لمبا نہیں ہونے دیں گے۔

یہاں میں ایک سوال یہ اٹھانا چاہونگا کہ کیا یہ وہی جماعت نہیں جو لسانی قتل عام میں شریک رہی ہے۔ سندھ سے سارے غیر سندھیوں کے خون سے کیا اس کے ہاتھ رنگے ہوئے نہیں ہیں۔ کیا اندرون سندھ اسی پارٹی نے 22 شہروں کو خاکستر کرکے نہیں رکھ دیا تھا۔ کیا 27 دسمبر تا 30 دسمبر 2007 کو گوادر سے لیکر خیبر تک کھرب ہا کھرب کی پراپرٹی کو راکھ کا ڈھیر بنانے کے علاوہ انسانی جان و مال و عزت و ابروؤں کو تار تار نہیں کیا تھا۔ اگر اس سب کے باوجود وہ پاکستان میں سیاسی پارٹی ہی سمجھی جاتی رہیں، اس کو کالعدم قرار نہیں دیا گیا اور اسی کے لیڈر کو ملک کا صدر بھی بنادیا گیا تو پھر مجرم پارٹی ہوئی یا پاکستان کا آئین و قانون، عدالتیں اور ادارے؟۔

تفصیلات کے مطابق اسپیکر سندھ اسمبلی کواسلام آباد کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل سے گرفتار کیا گیا۔ نیب حکام کے مطابق ملزم کی گرفتاری انٹیلی جنس معلومات پرنیب کراچی کی ٹیم نے راولپنڈی اور اسلام آباد کی ٹیم کی معاونت سے کی۔ ملزم کو احتساب عدالت میں پیش کر کے 3 روز کا راہداری ریمانڈ لے لیا گیا ہے جس کے بعد اب اسے کراچی منتقل کیا جائے گا۔ نیب حکام کے مطابق آغاسراج درانی کو اثاثہ جات ریفرنس میں نیب کراچی کی ٹیم نے متعدد بار طلب کیا تھا لیکن وہ خود پیش ہو رہے تھے اور نہ ہی کوئی وضاحتی بیان دے رہے تھے، فی الوقت ملزم کی گرفتاری آمدن سے زیادہ اثاثوں کے ریفرنس میں ہوئی ہے جبکہ غیر قانونی بھرتیوں اور قومی خزانے میں مبینہ طور پر گھپلوں سے متعلق تحقیقات جاری ہیں۔

نہ تو مجھے اس پر کوئی اعتراض ہے کہ آغا سراج درانی کو کیوں گرفتار کیا گیا اور نہ ہی میں اس اقدام کو خلاف ضابطہ اور قانون کے خلاف سمجھتا ہوں لیکن کیا پی پی پی دور کے خون خرابے، عزتوں کی پامالی، کھرب ہا کھرب روپوں کی پراپرٹیز کی بربادی چند لاکھ روپوں کی خرد برد کے آگے کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی؟۔ کیا انسانی خون چند سکوں سے بھی ارزاں ہے؟۔ کیا لوگوں کی زندگی پھر کی جمع پونجی کو دھواں بنا کر اڑادینا اس ملک میں کوئی جرم نہیں؟۔

اگر پی پی کے ماضی میں جھانک کر دیکھا جائے تو وہ بہت ہی خوں آشام اور بھیانک رہا ہے۔ اس کے ماضی کو سامنے رکھا جائے تو ان کے کھربوں روپوں کی خربردرائی برابر بھی نہیں۔ ان کی پوری قیادت اس قابل ہے کہ اسے زندہ رہنے اور پاکستان میں سیاست کرنے کا کوئی حق ہے ہی نہیں۔

کراچی میں جاری کئی دھائیوں سے ہونے والے ظلم و ستم پر اور خود ان کے وزیردفاع “نصیر اللہ بابر” کی اہل کراچی کش کارروائیاں تاریخ کا ایک حصہ ہیں۔ ان کارروائیوں کو خود کئی ریٹائرڈ آرمی آفیسرز ظلم قرار دیتے آئے ہیں جبکہ مسلم لیگ ق کے چوہدری شجاعت ان 360 افراد کو مارگلہ ہل میں ماردیئے جانے کا اقرار کرچکے ہیں جن کو کراچی سے گرفتار کرکے اسلام آباد لایا گیا تھا۔ اگر پی پی پی کو اپنے ہی صوبے میں ہونے والے اس قتل عام پر کوئی دکھ کبھی نہیں ہوا تو اتنی سی معمولی بات پر کہ کسی کو نیب گرفتار کرکے اس سے آمدنی اور اخراجات طلب کرے، چیخ و پکار مچانا اور حکومت کو گرادینے کی دھمکیوں پر اتر آنا کیا مناسب رد عمل ہے؟۔ کیا اس کو انصاف کہا جاسکتا ہے؟۔

آصف زرداری نے کہا کہ سراج درانی کو گرفتار کرکے جمہوریت کو چیلنج کیا گیا ہے۔ اگر کسی فرد کو اس لئے طلب کیا جائے کہ وہ اپنے آمد و خرچ کا حساب پیش کرے توایک ایسا فرد جو ملک کا صدر بھی رہ چکا ہو اس کے منھ سے یہ کہنا کہ ایک ملزم کی گرفتاری جمہوریت کے لئے چیلنج ہے تو کیا یہ بات اتنے بڑے فرد کے منھ سے اچھی لگتی ہے؟۔ کیا اس کے نزدیک پورے ملک کی پراپرٹیز کو دھواں بنا کر اڑادینا احتساب کے مقابلے میں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا؟۔

ملک میں ہر قسم کے ادارے موجود ہیں۔ ہر قسم کے غیرآئینی، غیر قانونی اور مجرمانہ حرکتوں کے مرتکب افراد کے خلاف راست اقدام اٹھانے والے ادارے موجود ہیں لیکن دیکھا گیا ہے کہ یہاں کسی کے خلاف بھی قانون کے مطابق کارروائی عمل میں نہیں آتی جس کی سب سے بڑی مثال ایک ایسی پارٹی جس نے پورے پاکستان کو آگ اور خون میں نہلادیا تھا اس پارٹی اور اس کے لیڈر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کی بجائے اس کو ملک کا صدر بنادیا گیا۔ جس ملک میں عدل و انصاف کا یہ عالم ہو وہاں چند سکوں کی خرد برد کرنے والوں کے خلاف کسی ادارے کا حرکت میں آنا ایک تماشہ ہی لگتا ہے۔ جب کسی بڑے سے بڑے جرم پر بھی پاکستان حرکت میں نہیں آئے گا تو تو پھر یہی کچھ ہوتا رہے گا جو ہو رہا ہے۔ بس ہوگا یہ کہ سب ٹشو پیپر بنے رہیں گے اور استعمال کے بعد ڈسٹ بن میں پھینکے جاتے رہیں گے لیکن ایک ایک کرکے، اور جس جس کی دم پر پاؤں پڑتا رہے گا وہ چیخ و پکار مچاتا نظر آئے گا لیکن کوئی اس لئے نہیں بولے گا کہ وہ اپنی دم دبا کر اپنی دم پر قانون کا پاؤں پڑنے سے بچانے میں مصروف ہوگا۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں