حکومت وقت نے ایک بار پھر سوشل میڈیا کنٹرول کرنے کی بات کی ہے ۔ویسے موجودہ حکومت کے کنٹرول کا معاملہ یہ ہے کہ پورے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کو مالی دباؤ میں لے کرکنٹرول کیا جا رہا ہے ۔ پچھلی حکومتیں خرچ کر کے نوازتی تھیں یہ نیا پاکستان ہے ، جس میں خرچ روک کر ’نوازا ‘جا رہا ہے ۔روزگار دلوانے کا زور دار نعرہ لگانے والی حکومت نے جس تیزی سے بے روز گاری میں اضافہ کیا ہے وہ نہایت تشویش ناک ہے ۔اس بے روزگاری کے دائرے میں ایسے ایسے افراد بھی شامل ہیں جن کی جوانیاں اُن اداروں کی ترقی، بہتری کے لیے صلاحیتیں وقف کرنے میں لگ گئیں۔اب وہ لوگ عمر کے ایک ایسے حصہ میں خالی ہاتھ کر کے کھڑے کر دیئے ہیں کہ کوئی فوری متبادل ہے بھی نہیں۔ مالی بحران یا اسے یوں کہیں کہ میڈیا اداروں کے مالکان کے منافع میں کمی کی وجہ سے اُن سب نے ہاتھ روکے ہوئے ہیں ۔اس سخت ماحول کا خوب ناجائز فائدہ اٹھا کر اپنے منافع کو پورا کرنے کی کوششوں میں اُن ملازمین کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں جن کی کاوشوں سے وہ ادارے کھڑے ہوئے ۔صحافی حضرات کا کہنا جائز ہے کہ مالکان نے جب ہمیں کبھی اپنے منافع میں شریک یا منافع کی شرح بڑھنے کی خوشی میں مالی طور پر شریک نہیں کیا ، تو اب منافع میں کمی میں کیوں زبردستی کا حصہ دار بنایا جا رہا ہے ؟تنخواہیں بڑھانے میں تو مالکان سالہا سال گزار دیتے ہیں اور کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنا بدترین زیادتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ملک کے طول و عرض میں احتجاج کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ملک بھر میں اس وقت تمام صحافی و غیر صحافی نمائندہ تنظیمیں ، مقامی پریس کلب کے ذمہ داران کے ساتھ احتجاج کر رہے ہیں۔کراچی پریس کلب بھی اس حوالے سے مستقل سر گرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے ، جہاں آنے والے تمام حکومتی و اپوزیشن رہنماؤں کو اس مسئلہ کی شدت سے آگاہ کیا جا رہا ہے ۔جنگ، ڈان، وقت، آ ج نیوز کے علاوہ سندھ اسمبلی کے باہر بھی صحافی حضرات احتجاجی دھرنا دے چکے ہیں۔تمام صوبہ جات سمیت اس احتجاج کی شدت یہاں تک پہنچی کے اسلام آباد میں سرکاری و دیگر اپوزیشن کے ارکان کی کئی پریس کانفرنس و میڈیا بریفنگ کے آغاز پر احتجاج نوٹ کراتے ہوئے مائیک اٹھا لیے گئے ۔وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کو تو اسلام آباد کے صحافیوں نے ایسا گھیرا کہ وہ ویڈیو خوب وائرل رہی ۔اسی طرح کراچی میں وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کی پریس کانفرنس کے درمیان کراچی کے صحافی حضرات نے شیخ رشید احمد کو فواد چوہدری کے بیانات اور حکومتی پالیسی پر خوب کھنچائی کی۔ یہ ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر خوب وائرل رہی جس کا فائدہ اپوزیشن جماعتیں بھی اٹھاتی رہیں ۔ صحافی حضرات کا بنیادی مطالبہ ہے کہ میڈیا مالکان کواشتہارات کی مد میں حکومت جو ادائیگی بھی کرے اس کو صحافیوں کی تنخواہوں سے مشروط کرے۔ حال اب یہ ہو چکا ہے کہ روزنامہ ڈان جیسے موقر ادارے میں بھی صحافی حضرات اچانک تنخواہ کے کم ہو جانے پر سیاہ پٹیاں باندھ کر احتجاج کرتے نظر آئے ۔کئی اداروں میں دھڑا دھڑ ڈاؤن سائزنگ ہوئی ۔جنگ گروپ کے بارے میں اطلاع ہے کہ کوئی 700ملازمین فارغ کیے گئے ہیں۔کئی اداروں نے از خود اپنے ملازمین کی تنخواہیں کم کردیں۔حال تو یہ ہے کہ اخبارات میں ملازمین ہی کی نہیں بلکہ خود اخباری صفحات کی بھی کمی کر دی گئی ۔اہم بات یہ ہے کہ ان سب کے کھلے اشارے وزیر اطلاعات و نشریات جناب فواد چوہدری کی جانب سے پہلے ہی آنا شروع ہو چکے تھے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاملہ اندرون خانہ کچھ ’اشتراکی ‘سا ہے ۔اب اسی منظر نامے میں حکومت نے سوشل میڈیا پر کنٹرول کا نام لے کر ’حکومت کے ظالمانہ اقدامات کے خلاف کسی قسم کی تحریر ‘پر سخت ایکشن لینے کا آغاز کیا ہے اور اطلاعات کے مطابق گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئی ہیں۔پہلے تو یہ ہو رہا تھا کہ ’نامعلوم افراد ‘، معروف صحافی حضرات کو جب چاہتے اٹھا کر لے جاتے ۔تشدد کر کے ، دھونس، دھمکی یا طویل عرصہ غائب رکھ کر، اپنے طریقہ سے سمجھا بجھا کر یا احتجاجی ری ایکشن دیکھ کر چھوڑ دیتے ۔ اب کی بار لاہور سے سینئر صحافی رضوان رضی کی گرفتاری خود ایک سوال بن گئی ۔رضوان رضی پر سماجی میڈیا (ٹوئیٹر) پر کچھ ایسی پوسٹ ( اظہار خیال) کرنے کا جرم ڈالا گیا تھا جو باتیں حکومت کو پسند نہیں آئیں۔رضوان رضی صاحب نے اپنی ٹوئیٹر وال پر پاکستان میں پھیلتے قادیانی نیٹ ورک کی جانب سخت نشاندہی کی تھی ۔یہ بنیادی طور پر ایک پیغام تھاکہ باقی لوگ سمجھ جائیں کیا ہونے جا رہا ہے ۔
مہتاب عزیز اسلام آباد سے لکھتے ہیں کہ ’سوشل میڈیا پر کریک ڈاؤن اگر میرٹ کے مطابق ہو تو سارے یوتھیے اور ’محب وطن‘ سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔لیکن یہ تو دراصل زبان بندی کا حربہ ہے۔ جس طرح مین اسٹریم میڈیا پر طلعت حسین، مطیع اللہ جان کو ہٹایا گیا مگر صابر شاکر اور عارف حمید بھٹی کو کھلی اجازت ہے۔اسی طرح سوشل میڈیا پر ’چھوٹی چڑیا‘ اور ’بابا کوڈا‘ کو دندنانے کی اجازت ہوگی۔ جبکہ کسی بھی درجے میں حقیقت بیان کرنے والوں کو نشانہ بنایا جاے گا۔سوچنے کی بات ہے کہ اگر اظہار رائے پر قدغن اور زبان بندی سے حالات کو بہتر کیا جانا ممکن ہوتا، تو نازی جرمنی، سویت یونین، یوگوسلاویا، چیکو سلاویا، کیوبا جیسے ممالک تاریخ کے کوڑے دان میں نہ ملتے۔ اگر حکومتِ وقت یا ریاستی اداروں کی پالیسیوں پر تنقید سے ملک کمزور ہوتے تو امریکہ، برطانیہ، فرانس وغیرہ کا وجود کب کا صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہوتا۔ہمارے تمام اصلی و دکھلاوے کے ارباب اقتدار کو سوچنا ہو گا، کہ وہ جس طرح کی ریاستوں کی پیروی اختیار کر رہے ہیں، کیا ویسے ہی انجام کے لیے بھی تیار ہیں؟سیانے کہتے ہیں:’’پہیہ جتنی بار بھی دوبارہ ایجاد کر لو وہ گول ہی رہے گا‘‘۔جبری برطرفی، چھانٹی ، تنخواہوں کی کٹوتی ، مالکان کی دھمکیاں، گرفتاریاں اور اب میڈیا کنٹرو ل کی باتیں ۔یہ سب کیا ہے ؟ایسی صورتحال میں معروف اداکار ، فلمسٹار ،شوخ میزبان فہد مصطفیٰ نے بھی اپنی چرب زبانی کا بے جا مظاہر ہ کرتے ہوئے ،زعم ہوسٹنگ میں آ کر ایک غلط کمنٹ کس دیا ،جو انہیں خاصا بھاری پڑ گیا۔کرکٹ پاکستانیوں کا جنون ہے ،ان دنوں پی ایس ایل کا شور ملک بھرمیں جاری ہے ۔پی ایس ایل میں شامل کراچی کنگز ٹیم کی ایک تعارفی تقریب جسے اے آر وائی گروپ لیڈ کر رہا تھااور اسٹیج سیکریٹری اُن کے چہیتے میزبان فہد مصطفیٰ تھے۔دوران تقریب ایک سینئر اسپورٹس رپورٹر شعیب جٹ کی جانب سے ایک سوال میں فہد کو فوادپکار دیا گیا، پھر اُس کے توجہ دلانے پر تصحیح بھی کر لی۔ اب اس معمولی Fumbleکومذکورہ اداکار نے زیادہ ہی دل پر لیا اور ایک بھیانک طنزیہ لقمہ ملا دیا۔اتنی معمولی بات کو ایشو بناکر اپنا گیم شو سمجھ کرفہد نے طنزیہ کمنٹ پاس کر دیا ’ اسی لیے تو تمہیں تنخواہ نہیں ملتی‘ ،گویا کہ اس وقت جس عذاب سے ملک بھر کی صحافی برادری گزر رہی ہے بقول فہد مصطفیٰ وہ اُن کی نا اہلی ہے ۔بات یہاں پر نہیں رُکی اگلے جملے میں انہوں نے رپورٹر کو ’بیٹا ‘کہہ کر مخاطب کر دیاپھر تالی بجا کر گیم شو سمجھتے ہوئے مہمان صحافی کا مائیک بھی بند کرا دیا ۔شعیب جٹ کے ساتھ پوری صحافی برادری نے اس پر سماجی میڈیا میں احتجاج ریکارڈ کرایا جو کہ 1.5ملین ٹوئٹر فالورز رکھنے والے فہد مصطفیٰ پر بھاری رہا۔کئی بلاگز لکھے گئے ، وی لاگ ریکارڈ کیے گئے ،پوسٹ لکھ کر شیئر کی گئی اور خود اس واقعہ کی ویڈیو وائرل رہی ۔تو یہ ہے ایک جانب میڈیا ،صحافی ،اداروں پر کنٹرول کا معاملہ جو سوشل میڈیا پر بھی اور عملی میدان میں بھی گرم ہے ۔دیکھیں آگے چل کر کیا رنگ دکھائے گا۔
اب ہم لیے چلتے ہیں میڈیا کنٹرول کی ایک اور شکل کی جانب جس کا شور اس وقت پورے ملک کے طول و ارض میں اور سماجی میڈیا پر بھی پھیلا ہوا ہے ۔اچھا پہلے ایک اہم بات سمجھ لیں ’صحافت ‘ اپنے کردار ،مقصد اور اثرات کی وجہ سے ریاست کا چوتھا ستون کہلاتی ہے ۔لوگ اکثر میڈیا کو بھی ریاستی ستون کے طور پرلکھ دیتے ہیں جوکہ غلط ہے ۔میڈیا کی اصطلاح کاایک وسیع دائرہ کار ہے ابلاغیات اور ذرائع ابلاغ سے جڑا ہوا ،جس کا ایک کلیدی حصہ صحافت بھی ہے ۔ڈرامہ ، فلم، گیت ، غزل ،شاعری کا اصل تعلق ادب سے ہے، مگر ان کے ابلاغ کے لیے ، یعنی لوگوں تک پہنچانے کے لیے ٹی وی، فلم، ریڈیو،اخبار ، انٹرنیٹ بطور میڈیم استعمال ہوتے ہیں۔لیکن معاشرے میں عام طور پر لفظ میڈیا استعمال کر کے سب کو ایک ہی ڈبے میں بند کر دیا جاتا ہے ۔بہر حال اپنے اثرات کے اعتبار سے یہ ایک انتہائی اہم موضوع ہے ،اس موضوع کا تعلق صرف سوشل میڈیا سے نہیں بلکہ ہماری روحانی ،ثقافتی، اخلاقی، سماجی، معاشی، معاشرتی زندگی سے ہے ۔آپ صرف ایک ’ٹک ٹاک‘ ایپلی کیشن کا تجزیہ کریں ۔کیا بچے کیا بڑے ، کیا بوڑھے کا جوان، کیا مرد کیا خواتین سب اس غیر سنجیدہ ، بے حیائی پر مبنی لت کا شکار ہیں ۔اس کی ریکارڈنگ کے دوران کئی تو اپنی جان سے بھی جا چکے ہیں ۔گویا یہ ’ٹک ٹاک‘ اُس ٹائم بم کی مانند ہے جو آہستہ آہستہ اپنے وقت کی تکمیل پر شدید تباہی کا اعلان کر رہی ہے ۔خبروں کا اپنا ایک سیاسی، ثقافتی، معاشی، معاشرتی اثر ہوتا ہے لیکن فی زمانہ معاشرے کی ترتیب، تربیت میں ان ذرائع ابلاغ سے جو ڈرامے، فلمیں، گانے، اشتہارات نشر ہورہے ہیں اُن پر بات ہونی چاہیے ۔اس وقت جماعت اسلامی کا حلقہ خواتین ایک منظم انداز سے اصلاح معاشرہ کی خاطر میڈیاکی اصلاح کی ملک گیر مہم چلا رہا ہے ۔ ملک کے تمام بڑے شہروں میں بینرز آوایزاں کیے جا چکے ہیں، فورمز کا انعقاد جاری ہے ، اہل علم و دانش کو جمع کر کے کانفرنس و سیمینار کیے جا رہے ہیں ۔پیمرا میں شکایتیں بھجوائی جا رہی ہیں ۔ عوام سے رابطہ کر کے اُن کے اندر یہ شعور بیدار کروایا جا رہا ہے کہ ٹی وی اور سماجی میڈیا پر آنے والا حدود و قیود سے آزاد مواد کس طرح آنے والی نسلوں کو ہماری شاندار مذہبی، دینی، خاندانی روایات سے دور کر رہا ہے ۔عالیہ منصور اس حوالے سے ٹوئٹر پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ’میڈیا کی طاقت سے معاشرے کو سنوارا جا سکتاہے مگر ہم نادانی میں اس طاقت کو ضائع کر رہے ہیں۔ اگر ہم جائزہ لیں تو اس وقت میڈیا بے مقصد اور بے سمت استعمال ہورہا ہے اس سے نوجوان نسل کے اخلاق اور کردار تباہ و برباد ہو رہے ہیں۔‘لوگوں کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی بہر حال ایک ایسی منظم سیاسی قوت ہے جو اس موضوع پر بات کرتی اچھی بھی لگتی ہے اور مثبت اثرات پید ا کر سکتی ہے ۔MediaReshapingSocietyکے عنوان سے ہیش ٹیگ سوشل میڈیا پر چلایا جا رہا ہے ۔صہیب جمال عرصے سے انٹرٹینمنٹ صنعت سے وابستہ ہیں اُن کی ایک تحریر سوشل میڈیا پر اس تکلیف دہ منظر نامے کو حقائق کے ساتھ یوں پیش کرتی نظر آئی کہ ’’’ایک وہ وقت تھا جب ڈرامے بلکہ یہاں تک کے نغمے ہمارے معاشرے کے عکاس ہوا کرتے تھے۔ خاندان مل کر بیٹھتا تھا اور ڈرامے تفریح طبع اور کچھ نہ کچھ معاشرتی اصلاح یا تربیت کا باعث ہوتے تھے۔خدا کی بستی، افشاں، شمع، اندھیرا اجالا، نشان حیدر، آخری چٹان، آنگن ٹیڑھا، وارث، الف نون، شاہین، دائرے ، سونا چاندی،جنجال پورہ جیسے نام آج بھی نمایاں مقام رکھتے ہیں ۔پھر ہم نے دیکھاکہ تیز ترین کمرشل ازم کا دور آیا۔ڈش انٹینا، کیبل نیٹ ورک سے اسٹار پلس اور زی چینل نے عورتوں اور بچوں کو ٹی وی کے آگے بٹھا دیا۔ اس کمرشل ازم سے بات بڑھ کروطن فروشی اور دین بیزاری تک پہنچ گئی اور پھر این جی اوز اور بیرونی امداد کی صورت یہ تباہی کا ایجنڈا بن گیا۔‘‘
اہم بلاگز
ڈنڈا پیر
ایک شریف شہری کو پہلی مرتبہ گاؤں جانے کا اتفاق ہوا تو بے چارہ بہت پریشان ہوا کہ جس گلی میں بھی وہ داخل ہوتا اسی گلی کے آوارہ کتے اسے کاٹنے کو دوڑتے۔کبھی اس گلی تو کبھی اس گلی بھاگتے بھاگتے جب وہ تھک کر ہانپنے لگا تو اسے ایک فقیر صدا لگاتے ہوئے دکھائی دیا۔سادہ لوح شہری سیدھا اس فقیر کے پاس گیا کہ چلو اس کے ساتھ ساتھ چلتا ہوں جب اپنے دوست کے گھر پہنچ جائے گا تو اس فقیر کا شکریہ ادا کر دے گا۔ابھی تھوڑی دور ہی دونوں گئے ہوں گے کہ فقیر نے شہری سے پوچھا کہ بیٹا کیا ماجرا ہے میں تو گھر گھر صدا لگانے اور مانگنے والا ایک حقیر سا انسان ہوں،تم میرے ساتھ ساتھ کس مقصد کے لئے چل رہے ہو۔فقیر کی یہ بات سنتے ہی شہری کے دل میں حوصلہ پیدا ہوا کہ چلو اب بابا جی میری مدد ضرور کریں گے۔اس نے سارا ماجرا فقیر کو سنادیا۔فقیر تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہوا اور پھر اس نے اپنے ہاتھ والا ڈنڈا شہری کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا کہ:
جاؤ بیٹا اب تمہیں گلی کے پالتو اور آوارہ کتے کچھ نہیں کہیں گے
اس کہانی لکھنے کے پیچھے کا مقصد کیا ہے امید ہے کہ اہل فکرودانش اور پاکستانی سیاست کو سمجھنے والے ضرور سمجھ چکے ہوں گے کہ پاکستانی نظام کو چلانے کے لئے کس چیز کی ضرورت ہے۔کیونکہ پنجابی میں کہا جاتا ہے کہ’’وگڑیاں،تگڑیاں دا ڈنڈا پیر‘‘۔اس اکھان کا اطلاق صرف انسانوں پر ہی نہیں ہوتا بلکہ بھیڑوں کا ریوڑ بھی جب کبھی منتشر ہو جائے تو چرواہا ایک ہی لاٹھی کے ساتھ سب کو ہانک کر ایک جگہ جمع کر لیتا ہے۔یعنی بابا بنا، ڈنگوری کس کام کا؟یہ بھی ہے کہ بابے کے بغیر بکریاں نہیں چرتیں۔حالانکہ بکریوں کوبابے سے کوئی غرض نہیں ہوتی ان کو تو بابے کے ہاتھ میں ڈنڈے کا ڈر ہوتا ہے۔جو کام ہماری سیاسی جماعتوں کا رہا ہے مجھے لگتا ہے کہ انہیں بھی بابے کے ڈنڈے کی ضرورت ہے ۔کہ ان کے بنا ان میں نظم وضبط قائم نہیں ہو سکتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں ڈنڈے کی ضرورت کیوں ہے؟کیا ہم باشعور قوم نہیں،ہم اپنا بھلا اور برا خود نہیں سوچ سکتے،ہم اچھے اور برے میں از خود تمیز نہیں کر سکتے کیا؟۔میرا خیال ہے کہ نہیں،اگر ہم عوام میں یہ استطاعت ہوتی تو پھر اور بھلا کیا چاہئے تھا۔ہم تو غلام ہیں اپنی خواہشات اور مجبوریوں کے۔ہم تو مقید ہیں روٹی ،کپڑا اور مکان کے دائرے میں،ہمارے پاؤں میں تو بیڑیاں ہیں اپنی اغراض کی۔تو پھر ہمیں کیا،کہ کسی کے ہاتھ میں ڈنڈا ہے کہ بغل میں چھری۔ہمارا کام تو کوزہ گر کے حمار کی طرح بس سر جھکائے ،گلے میں باندھی گھنٹی کی صدا کی فریکوئنسی کے ساتھ قدم اٹھاتے جانا ہے بنا سوچے اور دیکھے کہ کیا مالک بھی ساتھ ہے کہ نہیں۔ہم عوام کو ہمارے سیاستدانوں نے اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ ہم کوئی سوال اٹھا سکیں بلکہ ہمارے اذہان میں تو اب سوال پیا ہی نہیں ہوتے۔سٹیفن کنگ نے ٹھیک...
ایسا بھی ہو سکتا ہے
یہی کوئی دو تین دہائیاں پہلے تک دیہاتوں اور قصبوں کے لوگ مل جل کر موسموں سے لطف اندوز ہوتے اور کام بھی زیادہ نمٹا لیتے۔
خاص کر سردیوں کے موسم میں۔
صبح صبح گھر کے کاموں سے فارغ ہو کر خواتین گھنٹوں دھوپ سینکتیں، آپس میں گپ شپ کرتیں اور اپنے کام بھی سنوارتیں۔
اب تو یہ موا موبائل ایسی بلا آ گیا ہے جو رات کو دیر تک جگاتا ہے اور پھر نیند پوری کرنے کے لئے لوگ آدھے دن تک سوئے رہتے ہیں اور ویسے بھی اب وہ مل بیٹھ کر دھوپ سینکنے کے لیے بڑے صحن کہاں رہے ہیں۔
شہر کے لوگوں نے جگہ کی کمی کی وجہ سے اور کچھ کوٹھی سٹائل کے شوق میں صحن بنانا چھوڑ دیے اور دیہاتی لوگوں نے,ہم کسی سے کم نہیں ، کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے بند گھروں کے شوق میں آگئے۔
رابعہ تیز رفتاری سے سرسوں کا ساگ کاٹتے ہوئے بہو رانی کے ساتھ دل کے پھپھولے بھی پھوڑ رہی تھی جو پاس بیٹھے بتھوا کے پتے ٹہنیوں سے الگ کر رہی تھی۔ پالک وہ پہلے ہی صاف کر کے رابعہ کے پاس رکھ چکی تھی۔ساگ کے لیے پانی ڈال کر چولہے پر رکھے دیگچے سے، ابلتے ہوئے پانی سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ رابعہ نے کٹا ہوا ساگ بڑی ٹوکری میں ڈال کر صدف کی طرف بڑھایا۔
یہ لے صدف پتر۔۔۔۔۔ آپ یہ ساگ دھو کر دیگچے میں ڈال دیں۔ میں اتنی دیر میں پالک کاٹ لیتی ہوں۔
ساگ کی ٹوکری پکڑاتے ہوئے، اچانک رابعہ کی نظر صدف کے چہرے پر پڑی ۔ وہاں تو آنکھوں کے کٹورے نمکین پانی سے بھرے پڑے تھے اور چھلکنے کو بے تاب۔۔۔۔
وہ تو اپنے خیال میں بہو کو اپنی باتوں سے محظوظ کر رہی تھی۔لیکن کیا معلوم؟ ۔ ۔۔۔ کہ وہ ساس کی باتوں سے لطف اندوز ہونے کی بجائے اپنے دل کے ویرانوں سے اٹھنے والے جل تھل سے گھتم گھتا تھی۔ رابعہ نے صدف کی کلائی سے پکڑ کر اسے پاس بٹھا لیا۔
کیا بات ہے بیٹی ؟ عدنان نے کوئی ناگزیر بات کر دی؟ امی کے گھر میں تو ساری خیریت ہے ناں۔۔۔۔۔ میں صبح سے دیکھ رہی ہوں کہ تم چپ چپ سی ہو۔
صدف کی آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسو نکل کر گالوں پر پھسلنے لگے۔
یہ ساس بہو ،ماں بیٹی کم اور سہیلیاں زیادہ تھیں۔ رابعہ کی اپنی بھی تین بیٹیاں تھیں اور تینوں ہی شادی شدہ تھیں۔
ان کا ڈیڑھ دو ماہ بعد ہی ماں کے گھر میں چکر لگتا۔ اگر شومئی قسمت ایک دو رات رہتیں بھی تو ادھر بھی زیادہ اپنے بچوں کے ساتھ ہی مگن رہتیں۔ نہ بچوں کے شور اور کام ختم ہوتے نہ ماں کے پاس بیٹھ کر سکون سے تسلی بخش باتیں ہوتیں۔ دکھ سکھ سننے سنانے کا نہ وقت ملتا نہ نوبت آتی۔ لیکن صد شکر۔۔۔۔ اللّہ تعالیٰ نے رابعہ کو بہو بیٹیوں سے بڑھ کر دی
جو دکھ سکھ اور رابعہ کی خدمت۔۔۔۔۔۔ دونوں لحاظ سے کوئی کمی محسوس نہ ہونے دیتی ۔ ساس کی رازداری کی حفاظت میں صدف کا کوئی ثانی نہ تھا۔ اس کی کہی ہوئی کوئی بھی بات کبھی میاں...
ہوم اسکولنگ – کیوں؟ اور کیسے؟؟؟
"ہوم اسکولنگ" کا لفظ ہمارے ماحول میں تیزی سے اپنی جگہ بنا رہا ہے۔اسکی افادیت پر مختلف پہلوؤں سے بھت سی معلومات دی جا رہی ہیں۔ میں ایک ماہر نفسیات ہوں اورپچھلے بارہ سال سےتعلیم و تربیت کے شعبہ سے وابستہ ہوں۔
کئ دہائیوں سے جاری تعلیمی نظام سے ہٹ کر ہوم" اسکولنگ" کے جدید طریقہ کار کو میں نے اپنے بچوں کے لئے کیوں منتخب کیا؟ ایک نفسیات داں ہونے کے نقطہ نظر سے اس سوال کا جواب پیش کرتی ہوں۔
ابتدائی عمر کا learning process صرف تعلیم کا ہی نہیں بلکہ تربیت کا بھی learning process ہے۔ جہاں ان کے قدوقامت، ہڈیاں اور دیگر جسمانی نظام نشوونما پارہے ہوتے ہیں وہاں جذبات، رجحانات اور کردار بننے کا بھی یہی وقت ہے ۔ پچھلی صدی کے ابتدائی ادوارکو دیکھیں تو تعلیمی نظام کسی حد تک معاشرے کی مذہبی، سماجی اور تہذیبی اقدار کی منتقلی لرننگ پروسس کے ساتھ کر رہا تھا۔ لیکن جدید سائنسی بنیادیں رکھنے والے علوم کا تناسب بڑھ جانے اور تعلیم ایک کاروبار بن جانے کے بعد اخلاقی اور سماجی اقدار کے لئے تعلیمی نصاب میں بھت کم حصہ رہ گیا۔ اقدار کی منتقلی کے لئےاہم ترین دور ابتدائ پانچ سال ہیں۔ اس عمر میں بچہ جو سیکھتا ہے تمام عمر انہی خطوط پر چلتا ہے مثلاً بزرگوں کی عزت، سچ بولنا، بیمار کی تیمارداری، مہمان کی عزت، نرمی سے بات کرنا۔۔۔ یہ سب غیر محسوس طریقے سے منتقل ہو جاتا ہے۔ اس لیے یہ سال والدین کے لئے بہت ذمہ داری کے سال ہیں۔ اس عمر میں جذبات و احساسات بنتے اور نشوونما پاتے ہیں۔ یہ جذبات و احساسات ہی کردار بناتے ہیں جو آگے چل کر پوری زندگی میں جھلکتا ہے۔ ہوم اسکولنگ بنیادی طور پر اس ابتدائ وقت کو کارآمد بنانے کا نام ہے جس پر بچے کے کردار کی تعمیر منحصر ہے۔
عمر کے اس حصے میں بچے کو جسمانی ضروریات پورا کرنے پر تمام تر زور ہوتا ہے ملبوسات کھلونوں اور غذائ ضروریات کے بہم پہنچانے میں والدین اپنا پورا حصہ ڈالتے ہیں لیکن کم ہی والدین جانتے ہیں کہ اس عمر کی جذباتی ضروریات emotional needs بھی ہوتی ہیں؟ جنکو سلیقے سے ایک پروگرام کے تحت پورا کیا جائے تو بچہ ایک با صلاحیت اور مثبت کردار کی شخصیت بنے گا۔
بنیادی طور پر بچوں کی چار emotional needs ہوتی ہیں: unconditional love 1
یعنی غیر مشروط محبت۔ وہ معصوم ہوتے ہیں۔ جو محبت کرے اسی کے ہوجاتے ہیں۔
2۔ sense of security
یعنی تحفظ کا احساس۔
3۔exposure to new experiences
ان کے لئے تمام گھریلو چیزیں، بجلی کے الات، گھر میں انے والے لوگ ہر چیز پر تجسس ہوتی ہے۔ وہ انہیں سمجھنا چاہتے ہیں۔
4۔need to be disciplined
یعنی انکی چھوٹی سی دنیا میں نظم و ضبط کی پابندی ہو۔
ہوم اسکولنگ کے خواہشمند والدین کو چند امور سمجھ لینا چاہئے۔
نظم وضبط کی پابندی:
ماں کو اپنی گھریلو اور باپ اپنی بیرونی زمہ داریوں کے ساتھ ہی ہوم اسکولنگ کرنا ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب کہ وہ خود نظم وضبط کے پابند ہوں۔ اپنے بچے کے کردار کی بہترین بنیاد بنانے کے لئے اپنی غیر معمولی تفریحی...
ذمہ دار ہم نہیں، پھر کون؟
سورج کی گرم کرنیں فاروق حسن کے آفس میں قبضہ کیے ہوئے تھیں۔ یہ معروف سائیکالوجسٹ تھے۔ ان کے کلینک پر ہی نہیں بلکہ ان کے آفس میں بھی بہت لوگوں کا رش ہوتا تھا۔ عموماً یہ آفس میں کسی سے ملاقات نہیں کرتے تھے۔ لیکن آج وہ اپنے آفس میں مسٹر تیمور علی اور مسز تیمور کے ساتھ بات چیت میں مشغول تھے۔
"تو تیمور صاحب آپ کیا کہہ رہے تھے؟ آپکے بیٹے کا رویہ گھر میں ٹھیک نہیں ہے۔ کیا آپ مجھے اس کی وجوہات بتا سکتے ہیں؟" فاروق حسن نے آنکھوں پر لگی عینک کے پیچھے سے تیمور کو گھورا تھا۔
"میں بتا تو چکا ہوں، کہ میں اور میری بیوی نہیں جانتے کہ کیا مسئلہ ہے۔ وہ اتنی بدتمیزی کرتا ہے، اٹھارہ سال کا ہوگیا ہے، بالکل ہاتھ سے نکلتا ہی جارہا ہے۔ جھوٹ تو اُس کی زبان پر رکھا رہتا ہے۔ اور اگر ہمیں مسئلہ پتا ہوتا تو آپکے پاس کیوں آتے؟۔" تیمور کچھ خفا ہوا تھا۔
"مسئلے کو حل، صرف مسئلہ جان کر نہیں کیا جاسکتا ہے، اُس کی وجہ، اُس کی جڑ کا پتا ہونا ضروری ہے۔ یہ تو پتا ہو پہلے کہ ایسے رویے کے پیچھے کیا وجہ ہے۔" فاروق حسن نے نہایت دھیمے لہجے میں کہا تھا۔
"دیکھیں تیمور صاحب! میں آپ سے کچھ سوالات کروں گا، آپ مجھے ان کے جوابات دیں گے، کیونکہ آپ اپنا ذاتی مسئلہ لے کر یہاں آئیں ہیں تو آپ سے کچھ سوال بھی ذاتی ہوں گے۔ اور یہ کیے بغیر میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتا۔ جو سوال آپ سے کیا جائے آپ اُسی کا جواب دیں، اور جو مسز تیمور، آپ سے کیا جائے آپ اُس کا دیں گی"
ماحول بوجھل ہوتا جا رہا تھا۔
"کیا آپ دونوں کے تعلقات گھر میں ٹھیک ہیں؟ بہت لڑائی جھگڑا ہوتا ہے؟"
"لڑائی جھگڑا تو ہر گھر میں ہوتا ہے سر، یہ کوئی نئی بات تو نہیں"
"آپ میری بات کاٹ رہے ہیں تیمور۔ لڑائی جھگڑا بالکل ہوتا ہے، لیکن یہ بچے کی نفسیات پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔ بہت سے میری مراد یہ ہے کہ گھر میں کس طرح کا رویہ ہوتا ہے آپکا؟ میں نے دو سیشنز لیے ہیں آپکے بیٹے کے ساتھ اس کے بعد ہی میں آپ سے اس طرح کے سوالات پوچھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔"
"ہم نے اپنے بیٹے کی بہت اچھی تربیت کی ہے۔ آپ چاہیں تو میری بیوی سے پوچھ لیں، آپ یوں بات کا پورا رخ والدین کی طرف نہیں موڑ سکتے"
"جی آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں، غلطی صرف والدین کی نہیں ہوتی۔ لیکن اُس غلطی کا بیج بونے میں والدین کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے۔ تیمور صاحب بچپن میں بچے نا بہت لچک دار ہوتے ہیں، آپ انھیں جس سانچے میں ڈھالتے ہیں وہ بالکل ویسی ہی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ میں آپ کو ایک کہانی سناتا ہوں"
ایک سات سالہ بچہ ہے تابش،
اس کا باپ خبار پڑھتے ہوئے اُسے آواز دیتا ہے ”کہ بیٹا ایک گلاس پانی پلاؤ“
”جی بابا لایا“ تابش فرش پر لگے ٹائلز پر کھیلتے ہوئے گیا۔ آج کل نا اس بچے نے نیا کھیل سیکھ لیا تھا، کہ...
جب احساس ہوا
ٹھٹھرتا ہوا موسم سرما آہستہ آہستہ رخصت ہو رہا تھا۔ جس کی وجہ سے سورج کی شرماہٹ میں کمی آ رہی تھی اور اس کا اعتماد بحال ہو رہا تھا ۔ لہذا اب وہ گھر میں آنکھ مچولی کھیلنے کی بجائے اپنی تمازت کے ساتھ ہنستا مسکراتا سر عام تھا۔ تبسّم آفتاب نے ہر چیز کو جلا بخش کر ماحول کو خوب صورت بنا دیا۔ درختوں میں جان پڑنے لگی ڈالیاں لہرانے لگیں۔ ان پر لگے رنگ رنگ کے پھول مسکرانے لگے۔ پرندوں کے گیتوں نے فضا میں ترنم باندھ دیا۔
مکین جو دو ماہ سے گھروں میں سخت سردی کی وجہ سے دبکے بیٹھے تھے، وہ اس طلسماتی ماحول سے لطف اندوز ہونے کے لیے گھروں سے نکلنے لگے۔
تنویلہ اور سمیر، دونوں بہن بھائی اپنے اپنے بچوں کو لے کر پارک آئے تھے۔ تنویلہ کے میاں کی کاروباری مصروفیت، اس لیے وہ ان کے ساتھ نہ آسکا اور سمیر کی بیوی کو اپنی کسی سہیلی کے ہاں جانا پڑ گیا۔
ماموں پھوپھو کے بچے ایک دوسرے کو دیکھ کر خوش ہو گئے اور کھیلنا شروع کر دیا۔
پارک دونوں کے گھروں کے درمیانی فاصلے پر واقع تھا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ گھر قریب قریب تھے بلکہ ان کے درمیان 40 کلومیٹر کا فاصلہ تھا۔لہذا دونوں تقریباً بیس بیس کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے اس پارک تک آئے تھے۔ وہ دونوں بہن بھائی بچوں کی نگرانی کے ساتھ ساتھ باتیں بھی کر رہے تھے۔ ایک دوسرے کا حال احوال دریافت کیا۔ حقیقی خوشی دونوں کے چہروں پر عیاں تھی۔ سمیر محبت و شفقت بھرے لہجے میں کہنے لگا۔
تنویلہ !بہن ایک سال بھی چھوٹی ہو تو وہ بیٹی کی طرح ہوتی ہے۔ اس طرح تم بھی میری چھوٹی بہن ہی نہیں بیٹی بھی ہو ۔ کبھی ہماری طرف بھی آ جایا کرو ایک شہر میں رہتے ہوئے بھی مہینوں کو کراس کر کے سالوں پر آ گئی ہو۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ آخری بار میرے گھر میں تقریباً سوا سال پہلے آئی تھی۔
بھائی کیا کروں؟ بچوں میں وقت ہی نہیں ملتا آنے کا ان کے منتھلی ٹیسٹ ختم نہیں ہوتے کہ گرینڈ ٹیسٹ شروع ہو جاتے ہیں اور پھر فوراً فائنل امتحان بس ایسے ہی , کوشش بھی کروں تو گھر سے نکلا نہیں جاتا۔
لیکن بھائی آپ بچوں کے ساتھ جلدی چکر لگا لیا کریں میں آپ سے بہت اداس ہو جاتی ہوں۔
تنویلہ نے بڑی مہارت سے حلق میں اٹکے آنسو نگل لیے لیکن آواز کی گلو گیری بھائی سے چھپانے میں ناکام ہو گئی۔
سمیر متفکر نظروں سے بہن کو دیکھنے لگا اور بڑی محبت سے اس کا ہاتھ تھام کر کہا۔
تنویلہ! ہمارے گھروں میں نہ آنے کی وجہ تمہاری مصروفیات نہیں۔ چل شاباش گڑیا,سچ سچ بتا کیوں نہیں آتی اپنے میکہ گھر میں۔
بھائی کوئی وجہ نہیں! بس ادھر جانے سے امی کی یاد زیادہ آتی ہے، صرف یہی وجہ ہے۔
تنویلہ نے بھائی کو ٹال کر اپنے چہرے پر زبردستی والی مسکراہٹ سجا لی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تنویلہ کا مختصر سا کنبہ والدین، دو بھائیوں اور ایک بہن پر مشتمل تھا۔ تنویلہ دونوں بھائیوں سے چھوٹی تھی لیکن والدین نے بڑے...
طنز و مزاح
ڈنڈا پیر
ایک شریف شہری کو پہلی مرتبہ گاؤں جانے کا اتفاق ہوا تو بے چارہ بہت پریشان ہوا کہ جس گلی میں بھی وہ داخل ہوتا اسی گلی کے آوارہ کتے اسے کاٹنے کو دوڑتے۔کبھی اس گلی تو کبھی اس گلی بھاگتے بھاگتے جب وہ تھک کر ہانپنے لگا تو اسے ایک فقیر صدا لگاتے ہوئے دکھائی دیا۔سادہ لوح شہری سیدھا اس فقیر کے پاس گیا کہ چلو اس کے ساتھ ساتھ چلتا ہوں جب اپنے دوست کے گھر پہنچ جائے گا تو اس فقیر کا شکریہ ادا کر دے گا۔ابھی تھوڑی دور ہی دونوں گئے ہوں گے کہ فقیر نے شہری سے پوچھا کہ بیٹا کیا ماجرا ہے میں تو گھر گھر صدا لگانے اور مانگنے والا ایک حقیر سا انسان ہوں،تم میرے ساتھ ساتھ کس مقصد کے لئے چل رہے ہو۔فقیر کی یہ بات سنتے ہی شہری کے دل میں حوصلہ پیدا ہوا کہ چلو اب بابا جی میری مدد ضرور کریں گے۔اس نے سارا ماجرا فقیر کو سنادیا۔فقیر تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہوا اور پھر اس نے اپنے ہاتھ والا ڈنڈا شہری کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا کہ:
جاؤ بیٹا اب تمہیں گلی کے پالتو اور آوارہ کتے کچھ نہیں کہیں گے
اس کہانی لکھنے کے پیچھے کا مقصد کیا ہے امید ہے کہ اہل فکرودانش اور پاکستانی سیاست کو سمجھنے والے ضرور سمجھ چکے ہوں گے کہ پاکستانی نظام کو چلانے کے لئے کس چیز کی ضرورت ہے۔کیونکہ پنجابی میں کہا جاتا ہے کہ’’وگڑیاں،تگڑیاں دا ڈنڈا پیر‘‘۔اس اکھان کا اطلاق صرف انسانوں پر ہی نہیں ہوتا بلکہ بھیڑوں کا ریوڑ بھی جب کبھی منتشر ہو جائے تو چرواہا ایک ہی لاٹھی کے ساتھ سب کو ہانک کر ایک جگہ جمع کر لیتا ہے۔یعنی بابا بنا، ڈنگوری کس کام کا؟یہ بھی ہے کہ بابے کے بغیر بکریاں نہیں چرتیں۔حالانکہ بکریوں کوبابے سے کوئی غرض نہیں ہوتی ان کو تو بابے کے ہاتھ میں ڈنڈے کا ڈر ہوتا ہے۔جو کام ہماری سیاسی جماعتوں کا رہا ہے مجھے لگتا ہے کہ انہیں بھی بابے کے ڈنڈے کی ضرورت ہے ۔کہ ان کے بنا ان میں نظم وضبط قائم نہیں ہو سکتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں ڈنڈے کی ضرورت کیوں ہے؟کیا ہم باشعور قوم نہیں،ہم اپنا بھلا اور برا خود نہیں سوچ سکتے،ہم اچھے اور برے میں از خود تمیز نہیں کر سکتے کیا؟۔میرا خیال ہے کہ نہیں،اگر ہم عوام میں یہ استطاعت ہوتی تو پھر اور بھلا کیا چاہئے تھا۔ہم تو غلام ہیں اپنی خواہشات اور مجبوریوں کے۔ہم تو مقید ہیں روٹی ،کپڑا اور مکان کے دائرے میں،ہمارے پاؤں میں تو بیڑیاں ہیں اپنی اغراض کی۔تو پھر ہمیں کیا،کہ کسی کے ہاتھ میں ڈنڈا ہے کہ بغل میں چھری۔ہمارا کام تو کوزہ گر کے حمار کی طرح بس سر جھکائے ،گلے میں باندھی گھنٹی کی صدا کی فریکوئنسی کے ساتھ قدم اٹھاتے جانا ہے بنا سوچے اور دیکھے کہ کیا مالک بھی ساتھ ہے کہ نہیں۔ہم عوام کو ہمارے سیاستدانوں نے اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ ہم کوئی سوال اٹھا سکیں بلکہ ہمارے اذہان میں تو اب سوال پیا ہی نہیں ہوتے۔سٹیفن کنگ نے ٹھیک...
دسمبر کو عزت دو
آپ سب بھی واقف ہی ہوں گے کہ دسمبر کا مہینہ شروع ہوتے ہی ہر طرف رونے دھونے والے اور دسمبر کو اپنی اداسیوں اور دکھوں کا ذمہ دار ٹھرانے والوں کی بھیڑ لگ جاتی ہے۔ چونکہ ہم واٹس اپ، فیس بک ، انسٹا گرام کے دور میں سانسیں لے رہے ہیں تو ہر صارف نے حد سے بڑھ کر دکھی دسمبر کی شاعری لگائی ہوتی ہے۔ جس سے ملاقات کرو دسمبر کا نام لیتا اور آہیں بھرتا ہے ساتھ ہی دسمبر کی شاموں کی طوالت اور بے نام سی اداسی کا ذکر چھڑ جاتا ہے۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے ہر دسمبر یہی دیکھا یہی سنا ہے "دیکھ دسمبر پھر نہ آنا " اب زمینی گردش کا معاملہ ہے ورنہ دسمبر اتنی ناقدری کے بعد نا ہی آئے ۔ دسمبر میں برفیلی ہوائیں تو چلتی ہی ہیں مگر آپ کو ٹھنڈی ٹھار آہیں واہیں بھی جمانے کے لئے موجود ہوتی ہیں۔ اس بار سوچا کہ پتا تو چلایا جائے یہ نا معلوم سی اداسی آخر کیوں گھیر لیتی ہے۔؟کیا واقعی دسمبر بہت ظالم ہے؟ کیا دسمبر کا نام لیتے ہی دل کی دھڑکن آہستہ ہو جاتی ہے؟ کیا دسمبر واقعی اداسی لئے آتا ہے؟بہت سی دوستوں سے پوچھا کہ بتائیں تو بھلا دسمبر کا واویلا حقیقت ہے یا افسانہ ؟ زیادہ تر افراد کے جواب سے مطمئن نہ ہو سکے۔ ان کو وجہ ہی معلوم نہیں کہ دسمبر کیوں افسردہ کرتا ہے۔ جب پوچھا کہ آپ کے ساتھ کچھ ذاتی سانحہ ہوا تو جواب یہی تھا کہ ارے نہیں ہمیں تو "دسمبر بہت خاص لگتا" ہمیں کوئی دکھ نہیں دیا دسمبر نے۔ اس سے میں نے اندازہ لگایا کہ ہم لوگ سنی سنائی باتوں پر تو کان دھرتے تھے ہی، ہم نے سنے سنائے دکھ بھی سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ جب اردگرد دسمبر کا واویلا دیکھا تو ہم بھی شامل ہو گئے۔ اس میں ایک بڑا حصہ ہماری شاعری کا ہے۔ گانوں نے بھی خاطر خواہ حصہ ڈالا ہے۔بہت کم ہی لوگوں کو اس مہینے کی کوئی شام سہانی لگتی ہے۔
دسمبر پر آپ کو بہت شدید شاعری ملے گی۔(یہ میری ذاتی تحقیق ہے اس سے آپ اختلاف کرنے کا حق رکھتے ہیں)۔جس قدر اشعار بلکہ نوہے آپ کو دسمبر پر ملیں گے کسی اور مہینے پر نہیں ملتے۔اسی حوالے سے کچھ دسمبر کے دکھ حاضر ہیں آپ ہی فیصلہ کریں کہ کیا حقیقت ہے کیا افسانہ ہے۔
بعض دفعہ ہمیں دسمبر نے کوئی دکھ نہیں دیا ہوتا بلکہ مئی جون یا ستمبر اکتوبر کا کوئی غم ہمیں پریشان کر رہا ہوتا ہے مگر ہم دسمبر کو کوسنے دیتے ہیں۔ شاعر کہتا ہے
بہت غم دسمبر میں دسمبر کے نہیں ہوتے
اسے بھی جون کا غم تھا مگر رویا دسمبر میں
دسمبر سال کا اختتام ہے تو اس پر بھی اسے مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے اور اس کے بعد اچھے حسین مہینے کا سوچ کر ہی خوش ہوا جاتا ہے۔۔
سفر میں آخری پتھر کے بعد آئے گا
مزا تو یار دسمبر کے بعد آئے گا
حالانکہ نئے سال کی ایک نظم میں اس کو بھی خام خیالی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا گیا...
حلوے کھانے کے دن آئے
سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی گرما گرم پکوان، خاص طور پر حلوے کا خیال آتا ہے۔ حلوے کے جملہ حقوق اگرچہ مولوی کے ساتھ منسوب ہو چکے ہیں تاہم موسم سرما میں سب ہی مولوی بن جاتے ہیں۔ میرے والد صاحب ایک قصہ سنایا کرتے تھے کہ ایک شحض بخار میں مبتلا ہو گیا (اس زمانے میں بخار خطرناک امراض میں شمار ہوتا تھا)۔ بہت سے لوگ اس کی تیمارداری کے لئے آئے ہوئے تھے ہر کوئی نیم حکیم بنا ایک سے بڑھ کر ایک بد مزہ ٹوٹکا بتا رہا تھا۔ کچھ کونین چبانے کا تو کوئی کریلے کی افادیت کوئی کسی کڑوی کسیلی دوا کا بتا رہا تھا۔ مریض صاحب نالاں اور پشیماں دکھائی دیتے تھے۔ ایسے میں دروازے کے قریب بیٹھے شحض نے آہستہ آواز میں کہا "اسے حلوہ بنا کر کھلاو ممکن ہے تندرست ہو جائے گا"۔۔ یہ سننا تھا کہ مریض نے سب کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ تم لوگ اصل دوائی کی طرف توجہ ہی نہیں دے رہے وہ دروازے والے بندے نے زبردست دوا بتائی ہے۔
بعینہ پار سال کی بات ہے موسم سرما یعنی کہ حلوے کا موسم تھا۔ڈاکٹر کے پاس جانے کا اتفاق ہوا، خون کا ٹیسٹ کیا تو ہیموگلوبن ریکارڈ حد تک اچھا تھا۔ نند صاحبہ کے استفسار پر ان کو راز بتایا کہ میرا ایچ بی تو حلوے سے ٹھیک رہتا ہے۔ وہ ذہنی امراض کی ڈاکٹر ہیں اس لئے تاحال ہمارے حلوے کی چاہ اور ایچ بی کی بہتری کا آپس میں کوئی سراغ نہیں پا سکیں ممکن ہے ذہنی خلل تصور کر کے خاموشی اختیار کی ہو۔ حلوے سے محبت کا یہ عالم ہے کہ بڑی دیورانی صاحبہ کا ماننا ہے کہ ہم ہر حلال چیز کا حلوہ بنانے اور کھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ چھوٹی دیورانی کے ہاں بچے کی پیدائش ہوئی تو ان کے لئے جس قدر حلوہ بنا اس میں ہمارا بھی حصہ ہوتا تھا۔ وہ تو حلوہ کھانے سے اکتا گئیں مگر یہاں سیری نہ ہوئی۔ حلوے کی ہزاروں اقسام ہیں۔ ادب کی دنیا بھی حلوے کی معترف نکلی۔دو قدیم کتب نظر سے گزریں جن کے نام حلوے سے موسوم ہیں۔ نام ملاحظہ ہوں، حلوہ دانش و سرمہ بینش حکیم بھگت(اردو) اور مثنوی نان و حلوا از شیخ بہائی(فارسی)
اب چونکہ حلوے کا موسم پھر سے آ گیا ہے۔ سطوت رسول کی ایک نظم کا شعر ہے ۔
حلوے کھانے کے دن آئے
صحت بنانے آئے دھوپ
تو موسم سرما میں صحت بنائیں اور کچھ نادر و نایاب مگر آسان حلووں کی تراکیب ملاحظہ ہوں۔
چقندر:
جی ہاں درست پڑھا آپ نے۔ چقندر کا استعمال برصغیر میں بہت عام ہے، سلاد سے لے کر اس کا جوس کافی پسند کیا جاتا ہے۔ اس ایک جز بیتھین سے بھرپور ہوتا ہے جو سوجن پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ چقندر بلڈ پریشر میں مفید ہے، خون بناتا ہے، جسمانی اور دماغی توانائی سے بھرپور ہے، قبض کا علاج ہے۔ اس کا ذائقہ اکثر لوگوں کو زیادہ مرغوب نہیں ہوتا تو ان کے لئے پیش خدمت ہے چقندر کا حلوہ۔
ترکیب:-
چقندر کو چھیل کر کدو کش کر...
چکنی مٹی کے لوگ
آج کل جگہ جگہ ایک مذہبی وسیاسی جماعت کے بینرز لگے ہوئے ہیں، ایک بینر پر لکھا تھا"قوم کو لاہور اورنج ٹرین،پنڈی میٹرو بس،ملتان میٹرو بس اور پیشاور میڑو سروس مبارک،کراچی والوں ٹیکس دیتے رہو اور دھکے کھاتے رہو"
اطلاعا عرض ہے کہ کراچی کے عوام کو دھکے کھانےمیں بہت مہارت حاصل ہے، چاہے وہ رکشے کے ہوں یا بس کے، گدھا گاڑی کے ہوں یا کھلی سوزوکی کے،سڑکیں اتنی لہراتی اور بل کھاتی کے کمر کا درد بلکل ٹھیک ہوجائے،دس نمبر لیاقت آباد کی سڑک(بکرا منڈی کے سامنے والی)میں جو دھکے کھاتے جھولا جھولنے کا مزہ عوام کو دس سال تک آیا وہ بیان سے باہر ہے، کئی بار خواہش ہوئی کہ سابق مئیر اور وزیراعلی صاحب کو بھی یہاں کے دھکوں کی سیر کرائی جائے، پھر خیال آیا نجانے کراچی میں ایسی کتنی ہی سڑکیں ہونگی وہ بچارے کہاں کہاں کے دھکوں کا مزہ لینگے۔
اب آتے ہیں کراچی والوں کی طرف۔ یہاں مختلف رنگ، نسل، مذہب اور فرقوں کے لوگ آباد ہیں جن کو اپنے حقوق کی سمجھ ہی نہیں ہے،مہنگائی نے لوگوں کی کمر توڑ دی ہے اور سرکارکو کوئی سروکار ہی نہیں
روڈ صاف ستھرے اور خوب صورت ہو یا ٹرانسپورٹ کا نظا م اچھا ہواشرافیہ کو صرف اپنے پیٹ کی فکر ہے ، حالیہ بارشیں ہوئیں توسوچا اس قوم کو اب تو اپنے حقوق کی سمجھ آ گئی ہوگی اور غصے میں بھرے گورنر ہاؤس یا وزیر اعلی ہاؤس کا گھیراؤ کریں گے، لیکن ان کا حال تو ویسا ہی ہوا جیسا ایک بادشاہ کی رعایا کا تھا ۔
"ایک بادشاہ نے اپنی رعایا کو آزمانے کے لیے پہلےان کا کھانا بند کیا، پھر پانی و دیگر مراعات لیکن عوام کچھ نہ بولی، پھربادشاہ نے حکم دیا کہ کام پر آنے جانے والے راستوں پر ہر آدمی کو چانٹا مارا جائے، کچھ عرصے یہ چیز چلتی رہی آخر کار ایک دن رعایا محل کے باہر میدان میں جمع ہوگئی، بادشاہ خوش ہوا کہ چلو اب ان کو اپنے حقوق کا خیال تو آیا-عوام نے کہا بادشاہ سلامت ہمیں کام پر جاتے ہوئےدیر ہو جاتی ہےآپ سے گزارش ہے کہ برائے مہربانی آپ چانٹا مارنے والوں کی تعداد بڑھا دیں تاکہ ہم وقت پر اپنے کام پر پہنچ سکے-یہی حال ہمارے کراچی کی قوم کاہے-
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا
پانچ روپے کا ماسک اور 200 کی بریانی
میرے آج کے کالم کا موضوع کچھ عجیب سا لگ رہا ہوگا کہ یہ ماسک اور بریانی کی پلیٹ کا آپس میں کیا تعلق،تو جناب کبھی کبھار تعلق یونہی بنا لینا چاہئے جیسا کہ ایک مزارع ایک زمیندار کے کھیت میں ہل چلا رہا تھا کہ ایسے میں زمیندار کا ادھر سے گزر ہوا۔زمیندار نے دیکھا کہ مزارع ہل ٹھیک سے نہیں چلا رہا ہے تو اس نے ڈانٹتے ہوئے اس مزارع سے کہا کہ غلامیاں! تم ’’سڑیوں کے ساتھ سڑی‘‘یعنی لائن کی ترتیب کے ساتھ ہل نہیں چلا رہے ہو،جس پر غلاماں بولا کہ چوہدری صاحب جب آپ نے اپنی دھی کا پیسہ کھایا تھا تو کیا میں بولا تھا؟چوہدری نے ذرا گھبراتے ہوئے پوچھا کہ بھلا اس جواب کا میرے سوال کے ساتھ کیا تعلق ہے تو مزارع نے کہا چوہدری صاحب ’’گلاں چوں گل ایویں ای نکلدی اے‘‘یعنی باتوں میں سے باتیں ایسے ہی نکلتی ہیں۔
لیکن میرے موضوع یعنی ماسک اور بریانی کا تعلق اس لئے ہے کہ آجکل حکومتی اور اپوزیشن کے پلیٹ فارم سے جلسوں کا سلسلہ جو چلا ہوا ہے اس میں میری طرح آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ حکومتی ایوانوں سے ان کے مشیران جب بھی ٹی وی ٹاک شوز میں تشریف فرما ہوتے ہیں ان کی ایک ہی آواز ہوتی ہے کہ کرونا کا مرض ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے اس لئے عوام کو ایس او پیز کا خاص خیال رکھنا پڑے گا۔
بات بالکل درست ہے لیکن جب حافظ آباد کا جلسہ ہوتا ہے اور اس میں مہمان خصوصی خود ملک کے وزیر اعظم عمران خان صاحب خود تشریف لاتے ہیں تو کیا انہوں نے اپنے سامنے عوام کے ٹھاٹیں مارتے ہوئے سمندر کو بنا ماسک کے نہیں دیکھا ہوگا؟اگر دیکھا تھا تو پھر کیوں اپنی انتظامیہ کو خبردار نہیں کیا کہ اتنی ساری عوام بنا ماسک کے کیوں ایک جگہ جمع ہوئی ہے۔اور انتظامیہ کا حال دیکھ لو کہ تماشائیوں کی تعداد پر ہر ٹی وی ٹاک شو میں بتا رہے ہوتے ہیں کہ ہمارے نمبرز اپوزیشن کے مقابلہ میں کہیں زیادہ تھے لیکن کوئی یہ نہیں کہیے گا کہ ہمارے جلسے میں آنے والی عوام کا شعوری لیول آپ کی عوام سے اس لئے بہتر تھا کہ انہوں نے حکومتی ہدایات کے مطابق کرونا کے خلاف ایس او پیز کا زیادہ خیال رکھا ہوا تھا۔
یہی حال اپوزیشن کے جلسوں میں بھی دیکھا گیا ہے اگر صرف گوجرانوالہ،کراچی کے جلسہ کو ہی لے لیں تو ہر میڈیا چینل نے دکھایا تھا کہ لوگوں کا جم غفیر جمع ہونا شروع ہو گیا ہے۔لوگ صبح سے ہی جوق در جوق جلسہ گاہ کی طرف آرہے ہیں ہر طرف بریانی اور کھانے تقسیم کیے جا رہے ہیں۔بہت اچھی بات ہے کہ لوگوں کو کھانا کھلا یا جارہا ہے۔کیونکہ بھوکے پیٹ تو سارا دن جلسہ گاہ میں عوام اپنے لیڈران کا انتظار نہیں کر سکتی۔اور ظاہر ہے بریانی کا انتظام بھی اپوزیشن کے ایم پی ایز اور ایم این ایز نے کیا ہوگا ،عوام تو اپنے ساتھ دو وقت کی روٹی ٹفن میں پیک کر کے اپنے ساتھ لانے سے رہی۔اگر...