ترسے ہوئے لوگ

مسجد سے اذان کی آواز کے ساتھ ہی ہادیہ کی الجھن کا آغاز ہو گیا ـ

یا اللہ ….!    پھر وہی ……

آواز مناسب تھی  اور بول تو یقیناً تھے ہی اللہ کی بڑائی کے
نہایت دلکش … کیسے پسندیدہ نہ ہوتے …؟  اس ذات باری کا ذکر تھا ـ
پھر یہ الجھن اور تشویش کیسی …..
ابوجان!  اس نے اپنے والد کو مخاطب کیا ـ
یہ آپ مسجد والوں کو کہیں نا کہ اذان کے لیے کسی اور مؤذن صاحب کو مقرر کر دیں ـ

کیوں بیٹا ! ؟ ؟؟  ابھی ابو جان کا سوال مکمل نہیں ہوا تھا کہ اذان کے درمیان ہی بزرگ مؤذن کو کھانسی کا حملہ ہوا

اشھد ان …….. کا.جملہ ادھورا رہ گیا ..

ہادیہ کی فکر مندی میں اضافہ ہو گیا ـ ابوجان اذان کا جواب دینے میں منہمک تھے
خیر جیسے تیسے کھینچ تان کر اذان تو مکمل ہوئی لیکن روزانہ کی طرح ہادیہ کے ذہن میں کئی سوال چھوڑ گئی ـ

       ابو جان کو بھی ہادیہ کی بات سمجھ میں آ چکی تھی ـ

دراصل بیٹی …. یہ ایک کشمیری بزرگ ہیں ـ انھیں اذان دینے کا بہت شوق ہے ـ ورنہ مسجد کی طرف سے تو ایک مؤذن مقرر ہیں ـ وہ مسکرا کر بولے اور وضو کرنے چل دیے ـ

”   بھئی بزرگ ہیں تو کیا ہوا ؟ اذان کی روانی تو متأثر ہوتی ہے نا!
انکی لرزتی کانپتی آواز اور وقتاً فوقتاً کھانسی کے حملوں سے ”
یہ تو کوئی بات نہ ہوئی ـ آپ مسجد کی انتظامیہ سے بات کریں نا !
ہادیہ کی الجھن سوا تھی ـ
اچھا ٹھیک ہے ـ جمعہ کی مسجد کمیٹی کی میٹنگ میں بات کرونگا ان شاءاللہ ـ

ابو جان کی دور سے آواز آئی ـ
دوسرے دن شام کو قرآن کی کلاس میں قاریہ زہرا کی خوب صورت تلاوت کے بعد میڈم شاہینہ نے ” اسلام ایک نعمت ” کے موضوع پر بہترین لیکچر دیا ـ
ہادیہ کے  پاس بیٹھی خدیجہ آنٹی کی آنکھوں میں آنسو تھے ـ اور وہ بار بار بلکہ لگاتار ” الحمد للہ ” اور ” شکر اللہ کا ” ورد کر رہی تھیں ـ
اس سے پہلے کہ ہادیہ کچھ پوچھتی خدیجہ آنٹی نے ساتھ بیٹھی فاطمہ آنٹی سے سرگوشی کی
” ہم سے پوچھیں اس نعمت کی قدر .. آپ کو تو آزادی ہے نا …. مسلمان ہونے اور رہنے کی “

اسی لیے دل پگھل جاتا ہے ـ رقت طاری ہو جاتی ہے ـ انکی آواز بھرا گئی ـ

ہادیہ کو یاد آیا خدیجہ آنٹی بھی کشمیری ہیں ـ
محلے میں دو تین گھرانے ایسے ہی تھے ـ یہی مقبوضہ کشمیر سے آئے ہوئے ” مہاجرین ” … اپنا وطن تن من دھن … خوب صورت کشمیر .. جنت نظیر .. سب قربان کر کے آنے والے …
آزاد وطن کی فضاؤں کو ترسے ہوئے لوگ ـ
ظلم کی بھی تو انتہا ہو چکی تھی یقیناً …….

ہادیہ نے”  کشمیر کے بہتے لہو”  کی بہت سی کہانیاں سن رکھی تھیں ـ
ہندو بھیڑیوں کی نوجوان کشمیریوں پہ ظلم و ستم کی داستانیں …..
انکی ماؤں اور بہنوں کی تار تار ردائیں …. اور معصوم کشمیریوں کی چیخ و پکار ….
یا اللہ کشمیر کی آزادی کا سورج آخر طلوع کیوں نہیں ہوتا ….؟؟
آخر کب تک ….. اس کے آنسو دل پر  گر رہے تھے ـ

اسی لئے اس نے قران کلاس کے بعد خدیجہ آنٹی سے پوچھا تھا ـ
آنٹی!  آپ کے گھرانے پر بھی ظلم و ستم ہوئے ہونگے نا … اسی لیے آپ لوگ کسی طرح بچ بچا کر پاکستان آگئے …؟؟
” نہیں ” …!!  خدیجہ آنٹی جیسے تڑپ اٹھیں ـ نہیں ہادیہ بیٹی!
ابھی تو میرے خاندان کے نہ معلوم کتنے افراد اور میرے کتنے قریبی رشتے دار وہاں ہیں ـ
انھوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ یا ” آر” یا ” پار”
جب وہ اندھی کر دینے والی گولیوں سے ہمارے ننھے معصوم بچوں کے آنکھیں چھلنی کر رہے تھے تو خدا کی قسم ہم نے تب بھی فرار کا کوئی راستہ نہیں سوچا تھا ـ ہم نے ڈٹ جانے کی پالیسی اپنائی ہے ـ
کرفیو اور کریک ڈاؤن جیسے رزیل ہتھکنڈے بھی ہمیں زیر نہیں کر سکے ہادیہ بیٹی …!!!
یہ تو بس … اتنا کہتے ہی خدیجہ آنٹی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں ـ

ہادیہ کی آنکھیں بھر آئیں اور دلاسہ دینے کے لیے اس نے آنٹی کے ہاتھ کو تھپکی دی ـ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی ـ خدیجہ آنٹی نے آنسو پونچھتے ہوئے اسے اپنے قریب کر لیا ـ
بیٹی میری دعا ہے
” اللہ تمھارا ایمان سلامت رکھے …تم یونہی آزادی کے ساتھ اپنے قرآن کی تعلیم جاری رکھو … ”
تم کیا جانو ـ آج میں تمھیں بتاتی ہوں ہماری ہجرت کی اصل وجہ کیا ہے ـ
”  میں جب بھی مقبوضہ کشمیر جا کر اپنی بھابھی کے گھر میں رہتی ہوں نا تو صبح صادق سے ہی دل میں گھبراہٹ کا ایک طوفان اٹھتا ہے ـ بے کلی اور بے چینی کسی پل چین نہیں لینے دیتی ـ چاروں طرف ہندوؤں کے مندر میں ” سنکھ” بجانے کی عجیب و غریب ہیبت ناک آوازیں میرے گرد حصار باندھ لیتی ہیں ـ اور میں اللہ اکبر کی صدا کو ترس جاتی ہوں ـ میرا بھی دل چاہتا ہے کہ پاکستان کی طرح ہر طرف سے اشھد ان لا الہ کی آوز بلند ہو ـ ہم بھی آزادی سے لوگوں کو نماز اور فلاح کی جانب پکار سکیں ـ درس و تدریس کی ایسی محفلیں ہوں جیسی پاکستان والوں کو میسر ہیں ـ ہادیہ بیٹی ہم ترسے ہوئے لوگ ہیں ـ
آپ کی طرح ” نظریہ اسلام ” کی ترویج کے لیے ” آزادی” چاہتے ہیں ـ محض ظلم و استبداد سے نہیں …….
پاکستان یونہی تو ہمیں پیارا نہیں …
ہم زمین کی خاطر نہیں
ظلم و ستم سے ڈر کر نہیں
بلکہ ” اسلام” سے محبت میں آپکے ہاں آئے ہیں ـ

ہادیہ بالکل سن ہو کر رہ گئی ـ اس کے تصورات کو جھٹکا لگا اور نکتہء نظر یک سر تبدیل ہو گیا ـ
آہ!  یہ اسلام کی محبت میں ڈوبے پاکستان سے بھی زیادہ پاکستانی ـ
ہمارے مہمان ‘ ہمارے کشمیری بھائی ہیں ـ کیا ہم انکی میزبانی کا حق ادا کر پائیں گے؟ ؟
یہ جس بناء پہ ہم سے محبت کرتے ہیں وہ چیز ہمارے رب نے کس فراوانی سے ہمیں عطا کر رکھی ہے ـ
ایک خطہ زمین .. جہاں اسلام پہ عمل کرنے کی آزادی
نظریہ اسلام پھیلانے کی آزادی
اپنے اور اپنے ملک میں اسلام کو نافذ کرنے کی آزادی
اس قیمتی متاع کی قدر و قیمت کے لیے ترسے ہوئے لوگ …!!!
اور ہم کیا ہیں؟ ؟
کفران نعمت کے شکار … بے حسی کی چادر اوڑھے اپنی اپنی دنیا میں مست سوئے ہوئے لوگ …..!!!

حصہ

جواب چھوڑ دیں