قبر کے آ سا ن ترین سوا لا ت لیکن۔۔۔

میں سو چ رہا تھا کہ ایک نہ ایک دن ہر نفس کو مو ت کا مزہ چکھنا ہے۔یقیناً مجھے بھی مر نا ہے اور قبر کی اندھیری کا لی گھاٹی میں جا نا ہے جہا ں کو ئی مدد کر نے وا لا نہ ہو گا سوا ئے اللہ کے۔اپنے اعما ل کی طرف نگا ہ دو ڑا ئی تو بھی بہت پشیما نی ہو ئی کہ گنا ہو ں کا بو جھ اور اعما لِ صا لح کافقدا ن نظر آ یا لیکن ذہن میں نبی کریم ﷺ کی مفصل حدیثِ مبا رکہ یا د آ ئی ۔ مختصرمفہو مِ حدیث : قبر میں میت کے پا س دو فر شتے آ تے ہیں اور اسے بٹھا تے ہیں اور کہتے ہیں تیرا رب کو ن ہے؟ تو وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے۔پھر پو چھتے ہیں تیرا دین کیا ہے؟وہ کہتا ہے میرا دین اسلام ہے۔پھر پو چھتے ہیں وہ کون آ دمی ہے جو تم میں مبعو ث کیاگیا تھا ؟وہ کہتا ہے اللہ کے رسو ل محمدﷺہیں ۔وہ پو چھتے ہیں تجھے کیسے علم ہوا ؟ وہ کہتاہے میں نے اللہ کی کتا ب پڑھی میں اس پر ایما ن لا یااور اس کی تصدیق کی۔ پھر اعلا ن ہو تا ہے کہ اس نے سچ کہا اسے جنت کا بستر بچھا دو ،جنت کا لبا س پہنا دو اور جنت کی طرف کا در وا زہ کھو ل دو ۔(سنن ابو دا ؤ د، جلد ۴، نمبر۴۷۵۳) اتنے آ سا ن سوا ل ہیں کہ دل بہت خو ش ہو گیا کہ اگر چھو ٹے بچے کو بھی یہ سوا ل یا د کرا دیں تو وہ یا د کرلے لیکن یقین جا نئے اور تصور کیجئے کہ قبر میں ان سوا لو ں کے جوا ب دینا ایک پی ایچ ڈی کے لئے بھی انتہا ئی مشکل یا نا ممکن ہو جا ئیں گے آ خر میں یہ با ت کیو ں کہہ رہا ہو ں وہ اس لئے کہ یہ ذہنی یا زبا نی سوا ل جوا ب نہیں ہیں کہ یا د کرا دیا اور رٹا دیا اور جوا ب دے دیا گیا بلکہ یہ سوا ل نہیں پوری زندگی پر محیط ایک قسم کا سفر نا مہ ہو گا ۔
پہلا سوا ل تیرا رب کو ن ہے؟ اللہ تعا لیٰ۔ ۔ لیکن اگر زندگی اپنے نفس کی غلا می میں گذا ری ہو گی یعنی جو نفس نے کہا، جیسا کہا، جہاں سے چا ہا کما یا جہا ں دل چاہا خرچ کیا ،جا ئز ، نا جا ئز ، اسرا ف و فضو ل خرچی کو مد نظر نہ رکھا ہو گا تو یقیناً اس کا جوا ب بندہ “نفس”کہے گا۔ارشادِبا ری تعالیٰ ہے تر جمہ : کیا آپؐ نے اسے دیکھا؟جس نے اپنی نفسا نی خوا ہش کو اپنا معبود بنا لیا ہے توکیا آ پؐ اس کے ذمہ دا ر(نگہبا ن) ہو سکتے ہیں ؟ (سو ر ۃ الفر قان آ یت ۴۳)
تر جمہ:اے نفسِ مطمئن(اطمینان والی روح)لوٹ چل اپنے رب کی طرف وہ تجھ سے را ضی تو اُس سے را ضی(رہا) دا خل ہو جا میرے بندو ں میں اور دا خل ہو جا میری جنت میں(سو رۃ الفجر آیات۳۰۔۲۷)
اگر زندگی بھر ما ل و دو لت کے پیچھے بھا گتا رہا کہ زیا دہ سے زیا دہ مال جمع کر لو ں لو گو ں کو دکھا نے کے لئے یا اُن سے آ گے بڑھ جا نے کے لئے اور اپنے Statusکو بنا نے کے لئے یعنی سا ری دو ڑ دھو پ بس ما ل کے ارد گرد ہی گھو متی رہی تو یقیناً جو اب میں “مال”کہے گا۔نبی کریم ﷺ نے فر ما یا (مفہوم): ہلا ک ہو جا ئے درہم و دینا ر کا بندہ۔
اگر پو ری زندگی شیطا ن کی پیر وی کر تا رہا یعنی اللہ تعا لیٰ و رسو لﷺ کی حرا م کر دہ چیزو ں کو اختیا ر کیا اور حکم کر دہ چیزو ں سے انکا ر کیا یا اعرا ض(Ignore) کیا تو وہ شخص یقیناً اس سوا ل کے جوا ب میں “شیطا ن”کہے گا۔ تر جمہ : اور شیطا ن کے قدمو ں کی پیروی نہ کرو وہ تمھا را کھلا دشمن ہے۔(سو رۃ البقرۃ آ یت ۲۰۸)
دوسرا سوا ل تیرا دین کیا ہے ؟ اسلا م ۔۔لیکن اگر کو ئی شخص اسلا م کا شیدا ئی ہو نے کادعوےٰ تو کر تا رہا لیکن فر قہ پرستی یا مسلک پرستی میں مبتلا رہا اسلا م کو دین نہیں سمجھا بلکہ ایک مذہبی رسو م سمجھ کر مسلما ن بنا رہا اپنی زندگی کے ہر پہلو میں اسلا م کاپا بند نہیں رہا بلکہ جو دل کو اچھا لگا اس پر عمل کیا اور جس میں مشکل پیش آ ئی اسے چھو ڑ دیا یا پھر فر قہ و مسلک کو ڈھا ل بنا لیا تو ایسے شخص کی زبا ن سے اسلا م نہیں نکلے گا۔اما م ابو حنیفہؒ کا قول ہے اگر میری کو ئی با ت قرآن و سنت سے ٹکرا ئے تو اسے دیوار پر ما ر دینا۔ارشادِ با ری تعا لیٰ ہے تر جمہ : اے ایما ن والوں تم اسلا م میں پو رے کے پو رے دا خل ہوجاؤ۔(سور ۃ البقرۃ آیت ۲۰۸)
تیسرا سوا ل تمھا را نبی کو ن ہے؟ محمد ﷺ ہیں ۔۔لیکن اگر کوئی زندگی بھر زبا ن سے عشقِ رسو ل ﷺ کے دعوے تو کر تا رہا مگر عملاً اپنی زندگی کسی قا ئد یا لیڈر یا اور کو ئی پیشوا کے اشا رو ں پر گذا رتا رہا یعنی یہ جا نتے بو جھتے کہ یہ بندہ اللہ اور رسول ﷺ کے احکا م کو ما ننا تو دور کی بات بلکہ ان کے احکا مو ں کو پاما ل کر نے میں لگا ہوا ہے لیکن پھر بھی اس کے ایک حکم پر سب کچھ کر نے کو تیا ر رہتا ہے نہ دن دیکھتا ہے نہ را ت بس زبا ن پر اسی کا نا م رہتا ہے اس کے لئے مر مٹنے کے لئے تیا ر رہتا ہے تو ایسے شخص کی زبا ن سے محمد ﷺ کا نا م کیسے نکل سکتا ہے۔نبی کریم ﷺ نے فر ما یا : تم میں سے کو ئی شخص اس وقت تک مو من نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اسے اس کے والدین ، اولا د ، رشتہ دا ر اور سب لو گو ں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جا ؤ ں ۔
اگر زندگی میں اپنے وا لدین ، اہل و عیا ل کے حکمو ں یا ان کی آرزو ؤ ں کا خیا ل رکھا یہ جا نتے بو جھتے کہ اس سے نبی کریم ﷺ کے طریقہ اور اللہ کی مر ضی شا مل نہیں ہے لیکن صرف یہ کہہ کر کہ “کیا کریں ایسا تو کر نا ہی پڑتا ہے “تو یقیناً ایسے شخص کی زبا ن سے بھی محمد ﷺ کا نا م نہیں نکل سکے گا۔ارشا دِ با ری تعا لیٰ ہے تر جمہ : اے ایما ن وا لو تمھا رے ما ل اور تمھا ری اولا د تمھیں اللہ کی یا د سے غا فل نہ کر دیں اور جو یہ کرے گا تو وہی لو گ خسا رے میں پڑنے وا لے ہیں۔
(سورۃ المنا فقون آیت۹)
آخر میں فر شتہ قرآ ن کے با رے میں پو چھے گا تو جو پہلے کی تین سوا ل کے جوا ب نہیں دے سکے گا تو یقیناً اس کا جوا ب تو اسے معلوم ہی نہ ہو گا بلکہ شا ید وہ اس کتا ب کا نا م بھی نہ جا نتا ہو کیو ں کہ دنیا میں اگر اس کا رویہ قرآ ن سے بہترین رہا ہو تا تو اسے سا رے سوالا ت کے جوا با ت آ جا تے لیکن کیا کریں دنیا کے سارے عصری و جدیدعلو م و فنو ن کو پڑھنے اور پڑھا نے اور سیکھنے اور سکھا نے میں تو مصرو فِ عمل رہا ہو گا لیکن اس کے پا س شا ید اس کا وقت نہ تھا کہ اس کتا ب کو بھی سمجھ لیتا ۔یہ المیہ ہے کہ عصری و جدید علو م میں تو ہم ما سٹرز کر لیتے ہیں لیکن قرآ ن کو اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ اپنی زندگی اس کے مطا بق گذ ار سکیں زیا دہ سے زیا دہ نا ظرہ پڑھ لیا اور بس یعنی دوسرے علو م میں ما سٹرز اور فرض علم ، اعلیٰ علم ، افضل علم کے اندر پہلی یا دوسری کلا س تک بس۔ قرآ ن کو ہم نے سب سے نیچے رکھا ہوا ہے اور اس کے اوپر سا ری قسم کی جدید و عصری علوم کی کتا بیں رکھ دی ہیں اور قرآ ن تو سب سے نیچے دب کر رہ گیا ہے بلکہ کہیں گُم ہو گیا ہے!(ذرا غو ر کریں )رسول ﷺ نے فر ما یا:تم میں سب سے بہترین وہ ہے جو قرآن کا علم سیکھے اور سیکھا ئے۔
آ خرت میں نبیﷺ اللہ سے سفا رش کریں گے (ا ن شا ء اللہ) قرآ ن پاک حجت(سفا رش) بنے گا ( ان شا ء اللہ) لیکن کیا ہما را رویہ ان کے سا تھ ایسا ہے کہ یہ سفا رش کریں ؟ کیا ہم بہت معمو لی در جہ میں بھی لا ئق ہیں ؟ اب خو د فیصلہ کر لیں اور خو د احتسابی(Self Accountability) کر لیں کہ ان سوا لو ں کے جوا با ت دینے کے لئے ہم تیا ر ہیں ۔یہ آ سا ن سوا لا ت کہیں مشکل یا نا ممکن تو ہو تے نہیں جا رہے؟۔

حصہ

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں