میری اقدار میرا اثاثہ  

فطرت کا تقاضا ہے کہ انسان مل جل کر رہے ۔

معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان ہے ، بہت سارے خاندان ملکر کوئی گروہ تشکیل دیتے ہیں اور یہ گروہ ملکر معاشره بناتے ہیں۔ ہر قوم کا اپنا ایک مزاج ہوتاہےجس کے مطابق اسکے بنیادی نظریات نشوونما پاتے ہیں، جو روایات اور تہذیب کی شکل میں اس کی پہچان بنتے ہیں اس کی اقدار کہلاتے ہیں، یہی قدریں اس کی بنیاد ہیں، مثبت قدریں معاشرے کو پروان چڑهاتی ہیں، انهیں دوام بخشتی ہیں جبکہ منفی قدریں زوال کی طرف حتی کہ صفحہ ہستی سے مٹادیتی ہیں ۔

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہر شعبہ میں ہماری مکمل رہنمائی کرتا ہے اور زندگی گزارنے کا آسان اورسہل راستہ سکهاتا ہے-

 قرآن کہتا ہے..!!

 ياايهاالذين امنوا ادخلوا فى السلم كافة اے ايمان والو ! پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جائو 208/2

 یعنی اپنی زندگی کو اسلام کے مطابق ڈهال لو۔ اسلام زندگی گذارنے کے بہترین اصول دیتا ہے- جو پیدائش سے موت تک ہر معاملہ میں رہنمائی فراہم کرتے ہیں، والدین ،عزیز واقارب ، غریب ،محتاج ،پڑوسی سے حسن سلوک، محبت احترام، ایثار قربانی ،انکساری وشفقت کا درس ، ایک دوسرے کے حقوق و فرائض اخلاقی ذمہ داریاں بهائی چاره اسلامی معاشرےکی روشن اقدار ہیں-

 اسلام جهوٹ، غیبت ،دهوکہ ،حسد، عداوت، حرص، بخل، ناپ تول میں کمی، زنا، فحاشی بےحیائی سے روکتا ہے۔

لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہم اپنی قدروں سےدور ہوتے جارہے ہیں-

 جو معاشره قرآن و سنت اور احکام خداوندی کے راستہ پر گامزن تها ،آج اس پر مغرب کے غلیظ آکٹوپس نے اپنے پنجے گاڑ رکهے ہیں، ننگی ہندوانہ تہذیب ہمارے گهروں میں پروان چڑھ رہی ہے، جہاں اخلاقی گراوٹ بے حیائی، بے راه روی عام ہے۔

 انہی بد اعمالیوں کے سبب ہمارے معاشرے میں اس کے نتائج نظر آرہے ہیں، بچیاں اپنے حقیقی رشتوں کے ہاتهوں پامال ہورہی ہیں۔ جب عریانیت عام ہو عورت بازاری شے بن جائے تو دل سے حیا ختم اور آنکھ ہوس میں ناچتی نظر آتی ہے-

 جب مادیت پرستی عام ہوگی تو احترامِ انسانیت ہی نہیں رشتوں کا تقدس بهی پامال ہوجاتا ہے ہمارے سماجی تصورات ِزندگی بدل گئے ہیں، اخلاقی اور معاشرتی قدریں کمزور پڑ رہی ہیں، فحاشی وعریانیت کے سیلاب نے پورے معاشرے کو لپیٹ میں لے رکها ہے-

ہماری نوجوان نسل کا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اسے مغربی تہذیب کے حوالے کردیا ہے –

اسلامی تعلیمات صرف نماز قرآن پڑهنے کی حد تک محدود ہے، قرآن  وسنت پر عمل کو پس پشت ڈال دیا ہے-

 ہماری نسلوں کی بربادی کاذمہ دار صرف میڈیا ہی نہیں ہم خود بهی ہیں، اغیار کی تہذیب سے محبت مذہب سے دوری ہماری پستی کا سبب ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ایک بار پهراپنے معاشرے کو اسلام کی عطاء کردہ بے مثال قدروں سے روشناس کرائیں۔ ان کے دلوں میں اسلام کی محبت کے بیج بوئیں، نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی سیرت اور تعلیمات سے آگاه کریں، سیرت امہات المومنین، صحابہ کرام کی سیرت کا مطالعہ کریں اور کروائیں ۔ اپنے معاشرے کو اسلامی تہذیب سے آشنا کرنے لیئے ضروری ہے،اصلاح معاشره کا کام اپنی ذات اپنے گهر اور درسگاہوں سے کریں، اعلی اخلاقی روایات کو رواج دیں تاکہ نئی نسل ایک مستحکم معاشره پروان چڑها سکے اسے بلندیوں تک پہنچاسکے کیوں کہ

ہماری اقدار ہی ہمارا سرمایہ ہیں۔

حصہ
mm
ڈاکٹر سیما سعید پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں۔ مریض کے ساتھ سماج کے نبض پر بھی ہاتھ ہے۔ جسمانی بیماریوں کے ساتھ قلم کے ذریعے معاشرتی بیماریوں کا علاج کرنے کا جذبہ بھی رکھتی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں