’’ناخواندہ لشکر کے امیر ‘‘

ہمارے دلیرانہ دوست جب ہمیں سرکار کہ کربلاتے ہیں تو یقین کریں قلب جی اٹھتا ہے۔یہ براہ تفنن ہوتا ہے ،مگر ’’سرکار‘‘جملے کی لطافت ہی ایسی ہے کہ پَل بھر کے لیے تو ہم اڑان بھر کر آسمان کی سیر کر آتے ہیں ۔ستر سالوں سے ملک کی خاص سیاسی پارٹیوں نے یکے بعد دیگرے اس بھولی بھالی ناخواندہ قوم پہ حکومت کی ہے ۔ اس لیے آج تک یہ قوم سیاسی کھلاڑیوں کے لیے فٹ بال بنی ہوئی ہے۔سیاست د ان الیکشن کے دنوں میں خوب بندر نچا تے ہیں اورپھر اسمبلیاں سجالیتے ہیں ۔اور عوام جب تک ہوش میں آتے ہیں تب تک سیاسی مداری اپنا کھیل کھیل چکے ہوتے ہیں۔ ووٹ کے ضائع ہونے کا پشیمان کیاہونا۔جو ہوگیااسے بگھتو کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے اگلے پانچ سال ڈگڈگی پر ناچنے کو تیار رہیں۔
سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت دیکھ کر منہ چھپانے کو جگہ نہیں ملتی ۔کچھ دن قبل ایک دوست کے ساتھ انٹر بورڈ کمیٹی آف چیئرمین (IBCC ) جانا ہوا ۔ شاید ہمارے صحافتی کیرئیر میں کسی بھی سرکاری ادارے کا یہ پہلا دورہ تھا ۔سرکاری عمارتیں بھوت بنگلہ کا منظر پیش کرتی ہیں ۔گندگی کے ڈھیر ہر جگہ پھیلے نظر آتے ہیں ۔بجلی ،پینے کے صاف پانی کا نظام دگرگوں ہے۔بوسیدہ بلڈنگوں میں قائم سرکاری دفاتر ،دفتر کم اور قبرستان زیادہ محسوس ہوتے ہیں ۔ رہداریوں ،سیڑھیوں کے اطراف آپ کو اتنی ریتی مٹی مل جائے گی جس سے آپ دو عدد کمروں کا پلستر کرا سکتے ہیں ۔پنکھوں کی حالت پہ ترس آنے لگتا ہے کہ آخر غریب عوام سے لیا گیا ٹیکس کی مد کا پیسہ کہا ں خرچ ہو رہا ہے۔پرانے زمانے کی عمارتوں میں بیٹھے سرکاری ملازمین کا رویہ بھی وہی رائج الزمانہ ہے۔اس ملک کو نظام کی اشد ضرورت ہے ۔اور اس نظام کے لیے کہیں بھاگ دوڑ کرنے کی ضرورت نہیں ۔ا س ملک کا اسلامی آئین توانا کرنے کی کمی ہے ۔کہا گیا کہ افرادپر توجہ دینے سے بغاوت کو ہوا ملتی ہے اور ہم آزادی کے بعد سے اب تک بغاوت ہی تو کرتے آئے ہیں ۔اسلامی نظام کی تعریف اور وسیع تر مفادکوسمجھنے کی کسی نے کوشش ہی نہیں کی۔ جنہوں نے دلدل میں دھنسی اس قوم کو نکالنے کی کوششیں کیں انہیں ’’مذہب تھونپ ‘‘کا نام دیا گیا۔اسلام نے فردکی تربیت کی ہے۔ تب ہی تو معاشرہ ترقی کرتا ہے۔سرکاری ملازمین کے رویوں کا رونا ہر کوئی روتا ہے۔وہ کیا کریں ان کی تربیت ہی نہیں کی گئی ۔
ظاہر ہے اس میں ان کی غلطی بالکل بھی نہیں ۔کیوں کہ ان سرکاری دفاتر میں بیٹھے یہ زندہ وپائندہ ملازمین ازخود کیسے درست ہو سکتے ہیں ۔ ان کو ماحول ہی ایسا بنا کر دے دیا گیا ہے ۔ڈاکؤوں کے ماحول میں انسان ڈاکو ،چوروں کے ماحول میں چور ،کرپٹوں کے ماحول میں کرپٹ اور شرابیوں کے ماحول میں شرابی نہیں بنے گا تو کیا بنے گا؟ اب مسئلہ یہ ہے کہ سرکاراور اپوزیشن کو عوامی خدمت میں بھر پور توجہ تعلیم،صحت جیسے اہم شعبوں میں کھپانی چاہیے یا پھر اقتدار کے لولی پاپ کے لیے گتھم گتھاہونا چاہیے۔عوام کو تو حسین خوابوں کا حلوا کھیلا دیا گیا اور یہ اسی میں خوش ہو کر رہ گئے ۔
کسی بھی ملک کی ترقی کاراز اس کے نوجوان کاندھوں پر ہوتا ہے اور یہ نوجوان نسل زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوتی ہے ۔مگر ہماری تعلیمی نظام کا بیڑا غرق ہوا پڑا ہے ۔ملک میں 21 فیصد سکول ایسے بھی ہیں جہاں ایک استادپڑھارہا ہے۔14 فیصد سکول ایک کمرے پر مشتمل ہیں۔اور40 فیصد سکولوں میں بجلی کی سہولت میسرنہیں ہے ۔جب کہ حکومت کے بڑے بڑے دعوؤں میں سے ایک لوڈ شیٹنگ فری پاکستان بھی تھا۔30 فیصد تعلیمی اداروں میں پینے کا صاف پانی نہیں ہے۔اور38 فیصد واش روم کی نعمت سے محروم ہیں ۔43 فیصد ادارے ایسے ہیں جن کی عمارت کھنڈر بن کر گرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہے اور کسی بھی وقت کوئی ناخوشگوار واقعہ وقوع پذیر ہو سکتا ہے۔8 فیصد سکول ایسے ہیں جو بغیر کسی سرکاری عمارت کے ملک کی نسلِ نو کو تعلیم دینے میں مصروف ہیں۔اب آپ فیصلہ کیجیے ملک کا مستقبل اندھیروں میں دھکیلتے مقدس ایوان کے نمائندگانوں میں سے کسی ایک نے درد دل سے تعلیم کی سنگینی پر دو آنسو ہی بہائے ہوں؟
سرکاری اداروں کی نسوں میں کرپشن کا کینسر اپنے تمام ترجرثوموں کے ساتھ کام جاری رکھے ہوئے ہے۔پاکستان سرکاری سپتالوں میں شیر خوار بچوں کی شرح اموات میں دوسال قبل تیسرے نمبر پر تھا۔مگر یونیسیف کی حالیہ رپورٹ کی مطابق اب شیر خوار بچوں کی شرح اموات میں فرسٹ پوزیشن پر آگیا ہے۔ جنگ زدہ ملک افغانستان اور ایتھوپیا پاکستان سے بہت بہتر حالت میں ہیں ۔تھر میں گزشتہ 5 سال سے موت کا ننگا رقص جاری ہے ۔مجال ہے جو کسی سرکار کے سر سےَ سرک کر کانوں پہ جوں تک رینگی ہو۔عالمی ادارے چیخ رہے ہیں کہ آنے والے وقت میں دنیا آبی قلت کا شکار ہوگی۔ملک کے بڑے شہروں خصوصاََ کراچی ،لاہور ،اسلام آباد ،کوئٹہ، حیدرآباد میں شدید پانی کا بحران پیدا ہو جائے گا ۔ایسی الرٹ کے بعد دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ سرکار نے کوئی سنجیدہ سرکاری قدم اٹھایا ہو۔صوبہ سندھ کے محکمہ خوراک نے تھر کی غریب عوام کے لیے گندم کی تقسیم کا جو اعلان کیا تھا ،وہ آج تک اعلان ہی رہا ۔کئی سو گندم کی بوریاں غیر منصافانہ تقسیم کی بھینٹ چڑھ گئیں۔یاد رہے یہ وہی سندھ ہے جو پاکستان پیپلز پارٹی کا سب سے بڑا ووٹ بنک سمجھا جاتا ہے۔تھر کے ریگستان کی تپتی دھوپ میں کبھی آپ نے ٹی وی اسکرین پر کسی وزیر موصوف کو میڈیا کی ٹیم کے ساتھ تھر کا دورہ کرتے دیکھا ہے؟ یا کسی مقدس ایوان میں سے کسی ایک کی روح کو شیر خوار بچوں کی اموات پر تڑپتے دیکھا گیا ہو؟
قومی و صوبائی اسمبلیوں کی گرم و ٹھنڈی چھت تلے بیٹھے سیاسی ہلڑ بازوں کو عوام کا معنی تک نہیں آتا۔عوام سے مراد غریب عوام ہوتی ہے ۔اور غریب عوام کی اصطلاح سے اگر کوئی واقف نا ہو تو وہ دیہاڑی پہ مزدور ی کرنے والے،ٹھیلا چلانے والے اور ٹین کے ڈبے بیچ کر 600 روپے کمانے والے کودیکھ لے۔انہی غریب عوام کے پانچ سے چھ سال کی عمرکے44 فیصدبچے سکول نہیں جا رہے ۔30 فیصد بچے ایسے ہیں جو پہلی جماعت میں داخلہ لیتے ہیں تو دسویں سے پہلے ان کی تعلیمی حسرت غریبی کا دھواں بن جاتی ہے ۔70 فیصد طلباء ایسے ہیں جو پہلی کلاس سے دسویں جماعت کے درمیان میں سکول چھوڑ دیتے ہیں ،کیوں؟ کبھی سوچاکہ بلوچستان کے 70 فیصد بچے سکول کیوں نہیں جاتے۔فاٹا میں 60 فیصد بچے سکول سے باہر گھوم رہے ہیں۔ایسی صورت حال میں کیا ایوانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجی ہیں؟ لگتا یہی کہ کچھ سال بعد ناخواندہ بچوں کا ایک لشکر تیار ہوگا اورسرکار کوبغیر تامل ناخواندہ لشکر کا امیرقرار دیا جاسکے گا۔

حصہ
mm
محمد عنصر عثمانی نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات و عربی کیا ہے،وہ مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں