تیری جنت میں آئیں گے اک دن۔۔۔یکجہتی کشمیر

کشمیریوں کی جد وجہدِ آزادی طویل سے طویل تر ہوتی چلی جا رہی ہے، لیکن حقیقت ہے کہ شبِ غلامی جتنی بھی طویل ہو، اسے ’’دن‘‘ نہیں کہا جا سکتا، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر بھارت کی سات لاکھ فوج ظلم کرتے تھکی نہیں، تو کشمیری بھی بے ہمت نہیں ہوئے، آزادی کی تحریک تسلسل سے جاری ہے اور اس میں ایک دن کے لئے بھی تعطل نہیں آیا، علی گیلانی کا جسم روز بروز مضمحل ہو رہا ہے، مگر آواز کی گونج میں اسی طرح تازگی ہے، وہ کہتے ہیں: ’’بھارت اگراپنی ساری دولت ہمارے قدموں میں ڈال دے اور کشمیر کی سڑکوں پر تارکول کے بجائے سونا بچھا دے، تو بھی ایک شہید کے لہو کی قیمت نہیں چکا سکتا‘‘۔ کشمیر کی باقی قیادت بھی ابھی تک پرعزم ہے، پاکستانی عوام بھی اہلِ کشمیر کا ساتھ دینے کو تیار ہیں، مگر ستم یہ ہے کہ نہ کشمیر کی حکومت اس کاز سے سنجیدہ ہے نہ پاکستان کی حکومت! نواز شریف اپنے پورے دورِ حکمرانی میں خود کشمیری ہوتے ہوئے بھی اس معاملے پر مہر بلب رہے، ہندوستان سے تجارت کے خواب دیکھتے ہوئے انکی رالیں بہہ رہی تھیں، حالانکہ وہاں بھی تجارت ہندو بنیا کر رہا تھا، اور پاکستان کی حیثیت کم وبیش ’’خریدار‘‘ کی ہی رہی، موجودہ حکومت کے لئے کرتار پور بارڈر ترجیحِ اوّل رہا، لیکن سسکتے تڑپتے کشمیری ابھی تک کوئی خاص توجہ حاصل نہیں کر پائے۔
ہر سال ۵ فروری یومِ یک جہتیء کشمیر منانے کے لئے جہاں حکومت چند لالی پاپ نما بیان دیتی ہے، وہاں کشمیری عوام سے محبت کرنے والے کچھ لیڈر کشمیری عوام کی آواز بلند کرتے ہیں،جن کے لئے حکمرانوں کے ’’کان‘‘ بہرے ہیں مگر’عوام کے دل‘‘ اس کے لئے کھلے ہوئے ہیں، ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے ، کے نعرے ہی کشمیریوں کے دل کی آواز اور دلوں کی دھڑکن ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں کشمیری ظلم کی چکی تلے پس رہے ہیں، پاکستان کی حکومت کشمیر ایشو اجاگر کرنا چاہے تو وہاں کی خبریں تواتر سے نیوز بلیٹن کا حصّہ بنتی ہیں، لیکن جب بھی دیگر فوائد کا حصول غالب آ جائے تو مسئلہ کشمیر سرد خانے کی نذر ہو جاتا ہے، مگر اس سب سے بے نیاز کشمیر کی قیادت ہمہ وقت جاگ رہی ہے، ہندوستان گورنمنٹ کئی مرتبہ اس کی سیاسی حیثیت تبدیل کرنے کو کوشش کر چکی ، لیکن یہ اس کی بھول ہے ۔ سید علی گیلانی اوردیگر رہنما ایسا ہرگز نہ ہونے دیں گے۔ مہذب قومیں مذاکرات کے دروازے بند نہیں کرتیں، مگر جب غیر مہذب قومیں اسے بند کر دیں تو خون بہا کر اسے حاصل کرنے کا راستہ کھل جاتا ہے، اور کشمیر کے ہزاروں نوجواناسی کا عزم کئے ہوئے ہیں۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے: ’’الذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا‘‘ (جس نے ہمارے راستے میں جہاد کیا ہم اسے اپنے راستے کی جانب رہنمائی کریں گے)۔ اور قول نبی ﷺ ہے:’’الجہاد ماضٍ الی یوم القیامۃ‘‘، (جہاد قیامت تک جاری رہے گا)۔
کشمیر کی جدو جہد آزادی میں ہزاروں کشمیری عوام، مائیں بہنیں اور بیٹیاں شامل ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں حقِ خود ارادیت کے لئے ہونے والی جدو جہد، محض ایک چپہ زمین کے حصول کے لئے نہیں ہے بلکہ وہ ایک نظریاتی جدو جہد ہے، جس کی بنیاد علاقہ، زبان، یا کوئی مادی عصبیت نہیں۔ پاکستان چند پہاڑوں، دریاؤں، میدانوں اور صحراؤں کا نام نہیں، پاکستان ایک نظریے اور فلسفے کا نام ہے، جس کا خلاصہ ’’لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ ہے، سری نگر اور مظفر آباد میں جب ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کا نعرہ لگتا ہے، تو اسکا صاف مطلب یہی ہے کہ وہ کلمے کی بنیاد پر پاکستان سے ملنا چاہتے ہیں، انکی آنکھیں برس ہا برس سے اس منظر کی منتظر ہیں کہ پاکستان کا سب ہلالی پرچم اسکی چوٹیوں پر لہرائے، سید علی گیلانی اسی خواب کی تعبیر کے لئے اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہو رہے ہیں اور پاکستانی عوام بھی اسی نظریے کا اعادہ کر رہے ہیں، کہ اے کشمیری بھائیو ،ہم کشمیر کو اپنے جسم کا حصّہ سمجھتے ہیں، اور یہ اسی پیغام کا تسلسل ہے جو ہمارے بڑوں نے دیا تھا۔ قائد اعظم ؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا، مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ نے اسے جسم و روح کی مانند لازم و ملزوم قرار دیا تھا، اس لئے کشمیر سے منہ موڑنا نظریہء پاکستان سے غداری ہے، یہ لاکھوں کشمیریوں کے خون سے غداری ہے۔
کشمیریوں سے یک جہتی کی اپیل قاضی حسین احمدؒ نے کی تھی، آج پھر ہم اس عہد کی تجدید کرتے ہیں، تکمیلِ پاکستان کی خاطرہم خون کا آخری قطرہ بھی دیں گے اور ندگی کا آخری لمحہ بھی!!
دنیا کی ساری باطل طاقتیں اکٹھ کر لیں اور ایک دوسرے کے مدد گار بن جائیں تو بھی کشمیریوں کا کا اعلان واشگاف ہے کہ ہم کسی بھی قیمت پر کشمیر کے ناجائز تسلط کو تسلیم نہیں کرتے، اسکی آزادی کے لئے ہزاروں ماؤں اور بہنوں نے قربانی دی ہے، تاریخِ عالم گواہ ہے کہ جب کسی مقصد کے لئے لوگ خون دینے کو تیار ہو جائیں، تو دنیا کی کوئی طاقت ان کو شکست نہیں دے سکتی۔ ہندوستان نے قیامِ پاکستان کو اب تک تسلیم نہیں کیا، اور اسکو کمزور کرنے کی سازش میں لگا رہتا ہے، اور سانحہ مشرقی پاکستان میں اپنے کردار کا اعتراف کر چکا ہے، پس کشمیر کی جدو جہد حقیقت میں تکمیلِ پاکستان کی جدو جہد بھی ہے، اور استحکامِ پاکستان کی بھی! یہاں ہونے والی ہر دہشت گردی میں بھارت کا ہاتھ ہے، اور اگر اسکا بس چلے تو وہ پاکستان کو سیراب کرنے والے کشمیر کے دریاؤں کا رخ بھی موڑ دے، پنجاب اور سندھ کو صحرا بنا کر پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان میں مبتلا کرے، اس لئے کشمیریوں کے لئے جدو جہد، پاکستان کے لئے بھی ہے۔ ہم اقوامِ عالم سے کہنا چاہتے ہیں کہ اگر سکاٹ لینڈمیں ریفرنڈم ہو سکتا ہے، جنوبی سوڈان کو الگ تشخص دیا جا سکتا ہے، تو کیا امر مانع ہے کہ کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت کا فیصلہ نہ کرنے دیا جائے، حالانکہ کے اس کا اہتمام کروانا اقوامِ متحدہ کی ذمہ داری ہے، جس کو وہ مسلسل ادا نہیں کر رہا۔
اس مسئلے پر پاکستان کا کردار دیکھیں تو وہ
؂ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
والا ہے، حالانکہ پاکستان میں اگر کسی مسئلے پر سب کا اتفاق ہے تو وہ کشمیر کی آزادی ہے۔یہ حکومتِ پاکستان کی نا اہلی ہے کہ آج بھی کشمیر میں کوئی آزاد ریڈیو یا ٹیلیوژن چینل نہیں ہے، ایک ایسا چینل جو دنیا کے سامنے کشمیر کا مسئلہ پوری وضاحت اور جرأت سے پیش کر سکے، جو ہر مفاد سے بالاتر صرف اور صرف کشمیریوں کی آواز ہو۔ آج کشمیر متنوع مسائل کا شکار ہے، یہاں بجلی کی فراہمی کا مسئلہ ہے، سڑکوں کی حالت خراب ہے، ہسپتالوں کی کمی ہے، حکومتِ پاکستان سے مطالبہ ہے کہ آزاد کشمیر کے بھی حالات بدلیں، یہاں کے نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کریں۔ پاکستان کے دوسرے صوبوں کی طرح یہاں بھی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کا مسئلہ ہے، حالانکہ اسے جہاد کا بیس کیمپ بننا تھا، یہاں کی عدالتوں کو آزادی سے کام کرنا تھا، یہاں کے بچے بچے کے ہاتھ میں کاغذ اور قلم ہونا چاہیے، یہاں ترقی ہو گی تو اسکا فائدہ مقبوضہ کشمیر بھی پہنچے گا۔
یہاں آنے والے مہاجرین آج مشکلات کا شکار ہیں، یہ کیسی مہمان نوازی ہے؟ اگر ہم خود ایک وقت بھی روٹی کھائیں تو مہمان کو دو وقت کھلانا ہماری روایت ہے۔ کشمیر کا مسئلہ زندہ رکھنے والے خود کشمیری عوام ہیں جنہوں نے آج تک اس ادھوری تقسیم کو قبول نہیں کیا، یہ جد جہد جاری ہے اور جاری رہے گی، اگر کوئی بھی اس خام خیالی میں مبتلا ہے کہ دباؤ میں آکر کشمیری اپنے حق کا مطالبہ ایو اس کے لئے کوشش چھوڑ دیں گے، تو یہ محض ایک احمقانہ خواب ہے، جہاد ظلم ختم کرنے کا نام ہے، اور اسے ختم کرنے میں تعاون کرنا عالمِ اسلام کی ذمہ داری ہے۔
کشمیر کی آزادی کی جنگ جاری رہے گی، اور یہاں لگنے والے نعرے مقبوضہ کشمیر والوں کا حوصلہ بڑجاتے رہیں گے، اور مودی کا حوصلہ پست کرتے رہے گے۔
کشمیر کی آزادی تک جنگ رہے گی، جنگ رہے گی
کشمیر کا مطلب کیا لا الہ الا اﷲ
کشمیریوں سے رشتہ کیا لا الہ الا اﷲ
پاکستان زندہ باد
ہر سال پاکستان اور آزاد کشمیر میں یومِ یک جہتی کشمیر منایا جاتا ہے، دن، ہفتے اور سال گزر رہے ہیں،کشمیر کے پلوں سے ہزاروں کیوسک فٹ پانی گزرنے کے باوجود مسئلہ کشمیر جوں کا توں ہے، ایک اوریوم یک جہتی پر پکار پکار کر کہہ رہا ہے، کیا تم یکجہتی کا عملی مظاہرہ بھی کرو گے، یا دن ہی مناتے رہو گے؟ سیدعلی گیلانی کے کمزور و نحیف بدن سے نکلنے والی گرجدار آواز آج بھی دشمن کی صفوں کو پارہ پارہ کر رہی ہے، اور دنیا کا سب سے ظالم حاکم مودی آج بھی بغل میں چھری لئے منہ سے رام رام پکار رہا ہے، اس کے مظالم کی فہرست مزید طویل ہو چکی ہے، یہ کیسی یک جہتی کی پکار ہے جہاں کشمیری بچوں بوڑھوں ماؤں اور بہنوں کی آواز اور دلدو چیخیں کہیں سنائی نہیں دیتی، بلکہ کشمیر کی آزادی کا نعرہ ڈپلومیسی کی میز پر پہنچتے پہنچتے ’’تجارت بحالی‘‘ میں ڈھل جاتا ہے، مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے بچھڑے ہووں کو ملانے کے لئے کسی راہداری کو کھولنے کے بجائے صرف کرتار پور راہداری کھولنے ہی کو ڈپلومیسی کی کامیابی سمجھ لیا جاتا ہے۔ حکومت یاد رکھے ، کشمیر سے غداری کرنے والوں کے نصیب میں ہر دور میں ناکامی و نامرادی ہی لکھی ہے!!!
***

حصہ
mm
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات امتیازی پوزیشن میں مکمل کرنے کے بعد انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ زمانہء طالب علمی سے ہی آپ کی ہلکی پھلکی تحریریں اور مضامین شائع ہونے لگیں۔ آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج مظفر آباد میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں، کچھ عرصہ اسلامی یونیورسٹی میں اعزازی معلمہ کی حیثیت سے بھی کام کیا، علاوہ ازیں آپ طالب علمی دور ہی سے دعوت وتبلیغ اور تربیت کے نظام میں فعال رکن کی حیثیت سے کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ نے اپنے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ۲۰۰۵ء سے کیا، ابتدا میں عرب دنیا کے بہترین شہ پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا، ان میں افسانوں کا مجموعہ ’’سونے کا آدمی‘‘، عصرِ نبوی کے تاریخی ناول ’’نور اللہ‘‘ ، اخوان المسلمون پر مظالم کی ہولناک داستان ’’راہِ وفا کے مسافر‘‘ ، شامی جیلوں سے طالبہ ہبہ الدباغ کی نو سالہ قید کی خودنوشت ’’صرف پانچ منٹ‘‘ اورمصری اسلامی ادیب ڈاکٹر نجیب الکیلانی کی خود نوشت ’’لمحات من حیاتی‘‘ اور اسلامی موضوعات پر متعدد مقالہ جات شامل ہیں۔ ترجمہ نگاری کے علاوہ آپ نے اردو ادب میں اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا،آپ کے افسانے، انشائیے، سفرنامے اورمقالہ جات خواتین میگزین، جہادِ کشمیر اور بتول میں شائع ہوئے، آپ کے سفر ناموں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے جو قازقستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں آپ کے سفری مشاہدات پر مبنی ہے۔جسارت بلاگ کی مستقل لکھاری ہیں اور بچوں کے مجلہ ’’ساتھی ‘‘ میں عربی کہانیوں کے تراجم بھی لکھ رہی ہیں۔

1 تبصرہ

  1. بہترین تحریر ہے۔۔ کشمیریوں کی طرح ہمارے بھی دل کی آواز۔۔۔ اللہ تعالی ہمارے حکمرانوں کو ہدایت اور حقیقی بصارت عطا فرمائے ۔۔

جواب چھوڑ دیں