مرغے کا انڈہ

دیہاتی پس منظر کے سبب دیسی ککڑ اور دیسی انڈوں کی افادیت اور ذائقے کا بچپن سے ہی قدر دان ہوں۔ مگر جیسے جیسے گاؤں سے رابطہ ٹوٹتا گیا ویسے ہی دیسی انڈے اور خاص طور پر دیسی مرغ کے ذائقے سے اجنبیت ہوتی گئی۔ہیلتھ رپورٹنگ کرتے ہوئے اس امر سے تو آگاہ ہو گیا کہ برائلر مرغی اور مارکیٹ میں موجود انڈے غذائی اعتبار سے کسی افادیت کے حامل نہیں بلکہ ضرر رساں ہیں مگر ان کا متبادل تلاش کرنے میں بہت مشکلات اور سستی در پیش آئی،کچھ عرصہ قبل بدین سے تعلق رکھنے والے ایک دوست سے ذکر کیا تو اس نے کہا دو مرغے بھجوا دوں گا،ایک کارٹن میں بند جب دو مرغے حوالے کیے گئے تو میں نے لانے والے کو مبلغ سات سو روپے ادا کیے

اس وقت کیڈٹ بیٹا فاروق گھر پر تھا اس کی مدد سے چھت پر اینٹیں رکھ کر ایک عارضی ڈربا بنایا اور بیگم سمیت دونوں بچے ان دونوں مرغوں کی دیکھ بھال پر کمربستہ ہو گئے۔

اس دوران کراچی میں غیر متوقع طور پر اور وہ بھی سردیوں میں دو دفعہ بارشیں آئیں،سردی کے باوجود بیگم رات میں ٹارچ لے کر چھت پر گئی دونوں مرغوں کو ریسکیو کیا، کمرے میں بند کیا اور اس دوران دونوں بیٹے صبح و شام ان کو دانا اور پانی ڈالتے رہے۔

چونکہ بتانے والے نے بتایا تھا کہ دونوں مرغے ہیں اس لیے انڈوں کی کوئی امید نہیں تھی،مرغے ذبح کرنے کی ہر کوشش کو بیگم نے ناکام بنا دیا کہ میں اپنے گھر کے کسی فرد کی جان لینے کی قائل نہیں ہوں۔

“سوائے آپ کے”

اتوار کا دن تھا، میں سو رہا تھا چھوٹا بیٹا عبداللہ چھت پر گیا واپس آیاتو گھبرایا ہواتھا، کہنے لگا “بابا دونوں مرغے غائب ہیں لیکن بابا ان کے ڈربے میں ایک انڈا بھی موجود ہے”۔

میں نے انڈے والی بات کو تو سیریس نہیں لیا لیکن پوچھا کہ مرغے کہاں ہیں تو اس نے بتایا کہ وہ سیڑھی کے پیچھے ایک ناقابل رسائی جگہ تک محدود ہو چکے ہیں۔

میں چھت پر گیا اور عبداللہ کی مدد سے دونوں مرغوں کو وہاں سے نکالنے کی کوشش میں ایک بھاری اینٹ عبداللہ اور میری ٹانگ پر لگی جس سے ہم دونوں زخمی ہو گئے،ڈربا منہدم ہو گیا لیکن عبداللہ کے بقول مرغے کا انڈا سلامت رہا۔جب تک میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا نہیں تھا مجھے یقین نہیں تھا لیکن منہدم ہونے والے ڈربے میں واقعی ایک عدد دیسی انڈا موجود تھا،دونوں مرغوں کو ان کی ناقابل رسائی جگہ سے بے حد محنت اور مشقت سے نکالنے کے بعد آج یہ انکشاف ہوا کہ ان میں سے ایک مرغی تھی۔

ورنہ مرغے کب انڈے دیتے ہیں؟

عبداللہ ابھی تک اسی شش و پنج میں ہے کہ مرغے انڈے کیوں نہیں دے سکتے جبکہ ہمارے مرغے نے انڈہ دیا ہے۔میں اور بیگم اس کو سمجھانے میں ابھی تک ناکام ہیں کہ راتوں رات مرغی ایک کپل میں کیسے تبدیل ہو گئے۔

لیکن دیسی انڈے حاصل کرنے کی جو خوشی ہے اس نے ہم لوگوں کو اس بات پر مجبور کر دیا ہے کہ ہم ایک مزید مرغا اور چند مرغیاں اپنی چھت پر پال لیں۔

حصہ
mm
وقار بھٹی سینیئر صحافی اور ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں۔ان دنوں ایک انگریزی اخبار سے وابستہ ہیں

جواب چھوڑ دیں