تحریکِ نسواں کا ایک تاریک پہلو 

اِس موضوع کی گہرائی میں جانے سے پہلے ہم سب کے لیئے یہ جاننا بے حد ضروری ہے کہ تحریکِ نسواں کا نظریہ کیا کہتا ہے ؟
تحریکِ نسواں سیاسی اور سماجی تحریک و نظریات کا مجموعہ ہے جو ایک مشترکہ مقصد رکھتا ہے جس میں مرد اور عورت کے درمیان سیاسی،معاشی، انفرادی اور سماجی برابری کو قائم رکھتے ہوئے زندگی کے تمام حقوق کے ساتھ ساتھ تعلیم اور روزگار کے مواقع بھی فراہم کرناہے ۔ یہ ہمیشہ سے ہی ایک متنازعہ معاملہ رہا ہے اور اِس کے باعث لوگ اپنی مختلف رائے کا اظہار کرتے ہوئے اِس نظریے کے خلا ف رہے ہیں ،جس کی بنیادی وجہ اِس نظریے کی اصل معٰنی کو نہ سمجھنا ہے ۔ اِس نظریے کے معٰنی برابری کے حقوق کے ہیں نہ کہ مشتر کہ حقوق کے اور یہیں سے تنازعات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے ۔

       دورِ جہالت سے لے کر موجودہ دور تک کے حالات و واقعات کا جائزہ لیتے ہوئے ایسی بے شمار کہانیاں ملتی ہیں ، جس سے تحریکِ نسواں کا ایک تاریکی پہلو واضع طورپرکھا ئی دیتا ہے ۔ آج بھی عورت ظلم و تشدد کا نشانہ بن رہی ہے جس سے یہ واضع ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام حقوق سے محروم ہے اور آج بھی عدم تحفظ کا شکار ہے ۔ یہ بھیانک حقیقت تحریکِ نسواں کے مقصد کے مترادف ہے ۔ اِن تمام حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کیا کبھی ہم خود سے یہ سوال کرتے ہیں کہ آخر کب تک ہم عورت ذات کو موضوع بنا کر لکھتے رہیں گے ؟ ا کیااِس کاوش سے آج تک کسی عورت کو ظلم و تشدد کی زندگی سے رہا ئی ملی ہے ؟ ہم نے عورت کی ذات کو اتنا کمزور کیوں بنا دیا ہے ؟ کیوں ہم محض عورت کےساتھ کی جانے والی ناانصافیوں کو ہی منظرِ عام پر لانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ؟ کیوں صرف عورت کے غموں کو ہی کُریدنے کے لیئے قلم سے سیاہی گرائی جاتی ہے ؟ کیوں عورت کے زخموں کاٹانکا اُدھیڑ کر عوام کے آگے پیش کیا جاتا ہے ؟

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم ہر دور میں تحریکِ نسواں کا ایک تاریکی پہلو ہی دیکھتے آرہے ہیں کیوں کہ تمام کوششوں کے باوجو آج بھی خواتین اَن گنت مسائل کا سامنا کررہی ہیں۔ مسلسل اِن عنوانات پر لکھنے سے اور فلاحی تنظیموں کی خدمات سے بھی کوئی خاطر خواہ فرق نہیں پڑ سکا اور صورتِ حال جوں کی توں رہی ہے ۔ ہم اِس بات کا تعین ہرروز پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر آنے والی تمام خبروں سے کر سکتے ہیں ،جو عوام کے لیئے ایک تفریح کا مواد بنتا جارہا ہے جس سے لوگ عورت زات کے ساتھ ہمدردی کرنے کے سِوا کچھ نہیں کرسکتے ،کیوں کہ ہمارے معاشرے کے کسی بھی فرد میں اتنی ہمت نہیں کہ انسانیت کے ناطے ہی کسی کے حقوق کے لیئے آواز اُٹھائے ۔ اِس لیئے ہمدردی اور جھوٹی تسلیوں سے عورت کو حوصلہ دیا جاتا ہے۔ آج بھی عورت محض ادبی محفلوں کا موضوع بن کر رہ گئی ہے ۔ اِس سے زیادہ کبھی کسی نے یہ جراٗت ہی نہیں کی کہ تحریکِ نسواں کوٰ نئے معنوں سے متعارف کروایا جاسکے ۔ برابری کے حقوق تو فراہم نہیں کیئے جارہے لیکن کم سے کم ہمیں عورت کا ساتھ اُس کو خود مختار بنا کر دینا چاہیئے نہ کہ محض اُس کی زات کو لاچارو بے بس بنا کر ۔

میرے نزدیک آج کا ہر انسان نہ صرف حقوقِ نسواں کا علم رکھتا ہے بلکہ تحریکِ نسواں کے تاریخ پہلو سے بھی مکمل واقفیت رکھتا ہے ، خواہ وہ پڑھا لکھا ہو یا نہ ہو ۔  معاشرے کا ہر فرد اِس پر لکھ سکتا ہے اور بحث کر سکتا ہے ۔ لیکن اب ضرورت اِس اَ مر کی ہے کہ اِن معاملات کو ایک نئی سمت میں سوچا جائے ۔ ہم کبھی یہ کیوں نہیں سوچتے کہ عورت زات کو خود مختار بنایا جائے ، اُس کے کردار کو مضبوط بنایا جائے تا کہ وہ اپنی الگ شناخت بنا سکے ۔ کیا یہ ضروری ہے کہ لڑکیوں کی تر بیت گُھٹے ہوئے ماحول میں کی جائے ؟ اُسے زر و زمین کے واسطے دے کر ڈرایا دھمکایا جائے ؟ غیرت کے نام پر قتل کر دیا جائے ؟ شادی کے لیئے مجبور کیا جائے یا پھر اُسے تاحیات شوہر کی غلامی کرنے کا پاٹ پڑھایا جائے؟ کیا یہی ہے عورت کی زندگی ؟؟کیا عورت شادی کے بعد محفوظ ہے ؟؟

دورِ جہالت سے لے کر آج تک ہر عورت انہی رسم و رواج اور فرسودہ سسٹم کے تحت اپنی زندگی قر بان کرتی آئی ہے خواہ وہ تعلیم یافتہ ہو یا نہ ہو ،لیکن بدلے میں اُسے کیا حاصل ہوتا ہے ؟ ذہنی سکونِ ؟ خوشیاں ؟ شخصی آزادی یا مرد کی وفا ؟ کیا کسی بھی قربانی یا اچھائی کے بدلے آج کی ہر عورت اِس زیور سے مالامال ہے ؟؟ میں یہ بات دعوے سے کہہ سکتی ہوں کہ اکثریت کا جواب یقیناََ نہ میں ہوگا۔ تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک عورت کو ہمیشہ اِنہی ازیتوں کے بو جھ تلے دب کر مر جانا ہے تو پھر کیوں وہ اپنی زندگی بر باد کرے ؟کیا کوئی عورت باوقار طریقے سے عزت کی زندگی نہیں گزار سکتی ؟؟؟؟ کیوں وہ کسی کی محتاج بنے ؟ کیوں کسی مرد کا سہارا لے ؟ میرے نزدیک ہر عورت ایسی پُر وقار زندگی گزار سکتی ہے لیکن یہ ہمارے معاشرے کی تنگ نظری کا اثر ہے جس کے باعث آج بھی کوئی عورت محفوظ نہیں ، چاہے وہ شادہ شدہ ہو یا نہ ہو، گھریلو ہو یا پیشہ ورانہ خاتون ،غرض کہ ہر عورت غیر محفوظ ہے ۔
ہم آج تک ادب اور میڈیا کا سہارا لے کر خواتین کے حقوق پر لکھتے آئے ہیں ، اِ س سلسلے میں فلاحی تنظیموں نے بھی کچھ حد تک اپنا کردار نبھا یا ہے اور اِس کے ساتھ  ہی حکومت بھی اپنی برائے نام زمیداری پوری کردیتی ہے، ہر آئے دن کبھی کوئی نئی پالیسی بناکرتو کبھی نئے اُصول و قانون کو شامل کرکے ، لیکن اِن تمام معاملات پر سنجیدگی سے عمل در آمد کبھی نہیں ہو پایا ۔ ایسے حالات کو دیکھتے ہوئے معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کی بے حد ضرورت ہے اور یہ اُسی صورت ممکن ہوسکتا ہے جب لوگ اپنی سوچ کو تبدیل کرکے عورت زات کی اہمیت کو تسلیم کریں اور برابری کے حقوق کو فروغ دیں۔ مزید یہ کہ مظلوم خواتین کو خود مختار بنانے کے لیئے سنجیدگی سے اقدامات کیئے جائیں ، جس سے نہ صرف ایسی خواتین کو اُن کے حقوق مل سکیں بلکہ وہ ایک برد بار شخصیت بن کر اپنی ایک نئی پہچان کے ساتھ زندگی جی سکیں۔ اِس کے لیئے علم و شعور کے عمل کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے جس کی مدد سے خواتین اپنے حقوق سے مکمل طور پر آگاہ ہو سکتی ہیں او ر اِس امر سے ایک عورت کے مضبوط کردارکی تشکیل ہو سکتی ہے ۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں