انجام گلستاں کیا ہوگا؟؟

یہ 18 جنوری 2019 کی بات ہے۔ کئی دن سے بھوکی ملازمہ نے اپنی مالکن کی بیٹی کو ناشتہ لاکردیا۔ناشتے میں قیمہ بھی موجود تھا۔ ملازمہ نے حسرت سے مالکن کی بیٹی منتہا کی پلیٹ پر نظر ڈالی اور اس کی بھوک مزید بھڑک اٹھی۔ منتہا کی نظر اپنی پلیٹ سے چُوکی وہ کسی اور کام یا بات میں لگ گئی اور اس طرح ملازمہ نے منتہا کی پلیٹ سے قیمہ کا ایک لقمہ اٹھا کر منہ میں ڈال لیا ۔ منتہا تو اس “کریہہ منظر” کو نہ دیکھ سکی کہ ایک “دو ٹکے” کی ملازمہ نے اس کی پلیٹ میں سے قیمے کا ایک نوالہ اٹھا لیا ہے لیکن منتہا کی ماں ماہ رخ نے اپنی بیٹی کے کھانے کو “جھوٹا” کرتے دیکھ لیا تھا۔

ماہ رخ سے یہ بدتمیزی برداشت نہ ہوسکی اور اس نے اپنے ہاتھ میں موجود چائے کی پتیلی اپنی 16 سالہ ملازمہ کے سر پر اس زور سے ماری کہ اس کا سر گدی کے پاس سے لہولہان ہوگیا ۔ اتنی نازک جگہ سے خون کا فوارہ نکلنے کے باوجود ماں بیٹیوں نے اسے اسپتال لے جانے کی زحمت بھی نہ کی اور گھریلو ٹوٹکو ں سے خون روکنے کی کوشش کرنے لگیں۔ خون تو رک گیا لیکن زخم اتنا شدید تھا کہ اگلے دن رات میں ہی 16 سالہ عظمی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئی۔

سفاکیت کی یہ داستان صرف اتنی ہی نہیں تھی بلکہ ماہ رخ نے اپنی نند رٰیحانہ اور اپنی اداکارہ بیٹی کی مدد سے رات میں لاش گاڑی کی ڈگی میں ڈالی ، اقبال ٹاؤن، نیلم بلاک کے نالے کے راستے میں ایک ریسٹورینٹ سے لاش کی گاڑی میں موجودگی کے باوجود سکون سے برگر کھایا اور رات 2:30 بجے لاش کو نالے میں ڈال دیا۔ صبح پولیس کو فون کر کے ماہ رخ نے بتایا کہ ان کی ملازمہ گھر کا قیمتی سامان اٹھا کر فرار ہوگئی ہے۔

پانچ بہن بھائیوں میں سے 16 سال کی عظمی کی ماں کا انتقال تو بچپن میں ہی ہوچکا تھا۔ کہتے ہیں کہ اگر باپ مر جائے تو ماں، باپ بن کر بچوں کو پال لیتی ہے لیکن اگر ماں مر جائے تو پھر باپ بھی باپ نہیں رہتا ہے۔ سیکورٹی گارڈ کی ڈیوٹی کرنے والے عظمی کے باپ نے چار پیسوں کی لالچ میں اس معصوم بچی کو لاہور اقبال ٹاؤن کے “مذبح خانے” میں صرف 4500 روپے کے عوض گروی رکھوادیا۔ آٹھ مہینے اس بچی نے وہاں کام کیا لیکن پچھلے تین مہینوں میں  ایک بھی دفعہ اس کی مالکن نے باپ سمیت کسی کو بھی نہ بچی سے ملنے دیا اور نہ ہی فون پر بات کرنے دی۔ جب بھی مہینے کے شروع میں عظمی کا باپ جاتا تو بالکونی سے ماہ رخ 2500 روپے نیچے پھینک دیتی اور بے حس باپ یہ پیسے لے کر خاموشی سے واپس گھر آجاتا۔ ان آٹھ مہینوں میں اس بچی پر نہ جانے کیا کچھ گذری ہوگی اور ظلم کی انتہا یہ تھی کہ سخت گرمی اور یخ سردی میں بھی رات گذارنے کے لئیے عظمی کو باتھ روم کے اندر جگہ دی ہوئی تھی جہاں ڈبلیو – سی کے ساتھ ہی وہ سوتی تھی۔

آپ دوسری کہانی بھی ملاحظہ کرلیں۔ 19 جنوری  2019 کو پنجاب کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹ نے اپنے بیوی بچوں اور دوست کے ساتھ اپنے بھائی کی شادی میں جانے والے محمد خلیل کی گاڑی کو روکا، پوچھ گچھ کی اور پھر اچھی طرح سے یہ جاننے اور پہچاننے کے بعد کہ اس سوزوکی آلٹو میں 4 بچے اور میاں بیوی موجود ہیں پوری حیوانیت کے ساتھ فائر کھول دئیے۔ فائرنگ اتنی قریب سے کی گئی کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق جسم کے جن حصوں پر گولیاں لگی ہیں وہ جل گئے ہیں اور گولی لگنے والی جگہ صرف اسی صورت میں جل سکتی ہے جبکہ گولی صرف 1 فٹ سے بھی کم فاصلے سے ماری گئی ہو۔ دریائے فرات کے اس پار کتا مرنے کا قصہ اور ذہنی معذور بچوں کے دماغوں کی تصاویر دکھانے والے  وزیر اعظم صاحب کو کوئی بتائے کے بچے ذہنی معذور کیوں ہوتے ہیں یا پتا نہیں وزیر اعظم صاحب کو ٹی – وی کے ذریعے معلوم بھی ہوسکا یا نہیں لیکن بےحسی کمال کی ہے۔

ریاست ماں ہوتی ہے لیکن جب ماں بھیڑئیے کا روپ دھار لے اور تو رعایا کہاں جائے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمھارے اعمال ہی تمھارے حکمران ہیں” اور کہتے ہیں کہ پانی تو ہمیشہ اوپر سے نیچے کی طرف بہتا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ ہماری عوام جتنی بے حس اور سفاک ہے حکمران اس سے دس گنا زیادہ سفاک اور بے حس ہیں۔

ایک شخص کفن چوری کیا کرتا تھا۔ جب اس کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹے کو بلایا اور کہا دیکھو بیٹا ! میں نے ساری زندگی کفن چوری کئیے ہیں میں چاہتا ہوں کہ میرے بعد تم کچھ ایسا کام کرو کہ لوگ مجھے اچھے الفاظ سے یاد کریں۔ یہ کہنے کے بعد باپ کا دم نکل گیا۔ باپ کے مرنے کے بعد بیٹے نے نہ صرف کفن چوری کرنا شروع کردئیے بلکہ مردوں کی بے حرمتی بھی شروع کردی ۔باالآخر تنگ آکر لوگوں نے کہنا شروع کردیا ” ارے او بے غیرت! تجھ سے زیادہ شریف تو تیرا باپ تھا” اور اس طرح بیٹے نے اپنے باپ کی وصیت پوری کردی۔

ہماری اس حکومت نے بھی کفن چوری کے ساتھ جس طرح مردوں کی “بےحرمتی” شروع کی ہے لوگ چیخ اٹھے ہیں کہ آپ سے اچھی تو پہلی حکومت تھی۔ انسانی زندگی کا وہ کونسا پہلو اور حصہ ہے جس کو ہماری حکومت اور “مدینہ ثانی” کے سربراہ نے مکمل طور پر تہہ و بالا نہ کرکے نہ رکھ دیا ہو۔

خلیفہ ہارون رشید کے دربار میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا”خلیفہ! مجھے حج پر جانا ہے کچھ امداد کردیں۔ خلیفہ نے جواب دیا “حج پر جانے کے لئیے پہلی شرط استطاعت ہے، جب تمھاری استطاعت ہی نہیں ہے تو حج پر کیوں جانا چاہتے ہو؟ اس سوالی نے جواب دیا “امیر المومنین! میں نے امداد مانگی ہے مشورہ نہیں”۔ جس ریاست میں پیٹرول پر 59 پیسے کم ہوتے ہوں  اور  حج پر 1 لاکھ 59 ہزار روپے بڑھائے جاتے ہوں  تو اس ریاست کو شریعت اور فقہ سے دلائل دیتے ہوئے تھوڑی سی شرم تو آنی چاہئیے۔

دنیا بھر میں پہلے تعمیر ہوتی ہے، پہلے لوگوں کو سہولت دی جاتی ہے ۔ کاروبار کے مواقع فراہم کئیے جاتے ہیں، بہت سارے معاملات میں ریلیف دیا جاتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ بگاڑ کو سدھار کی طرف لے جایا جاتا ہے۔ یہ کونسی تبدیلی ، کونسا سدھار اور کونسی تعمیر ہے کہ لوگ آپ سے پہلے والے کفن چور کو دعائیں دینے اور یاد کرنے پر مجبور ہوجائیں۔

ہم پاکستانی عوام بھی عجیب مخلوق ہیں۔ ہم جس کو ووٹ دیتے ہیں ہمیں اس کا ظلم بھی احسان لگنے لگتا ہے۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ ہمارے سوچنے کے زاویے تک بدل جاتے ہیں۔ وہی بے رحمی، وہی مہنگائی، وہی قرضے، وہی بے حسی، وہی انصاف کی عدم فراہمی، وہی پروٹوکول اور وہی غریب کا استحصال لیکن جو کام  سات مہینے پہلے ناجائز اور حرام تھا اب وہی عین عبادت ٹہرا ہے۔ پہلے ان کاموں کی مخالفت عین جہاد تھا اب ان کا دفاع جہاد قرار پایا ہے۔آپ یقین کریں اگر آج اللہ تعالی جنید بغدادی اور ابراہیم بن ادھم کو بھی ہم پر حکمران بنادے تو وہ بھی کل یہ حکومت آصف علی زرداری، نواز شریف اور عمران خان کے حوالے کر کے چلے جائینگے۔ اللہ منافقوں، ظالموں اور بے حسوں پر منافق، ظالم اور بے حس ہی مسلط کرتا ہےاپنے ولیوں کو نہیں بٹھاتا ہے اور یہی اللہ کا قانون ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا : کفر کا معاشرہ زندہ رہ سکتا ہے لیکن ظلم کا معاشرہ زندہ نہیں رہ سکتا اور آقائے دو جہانﷺ کی حدیث کا مفہوم ہے کہ “مظلوم کی بددعا سے ڈرو یہ سیدھا اللہ تعالی کے عرش تک جاتی ہے”۔ جہاں ہر دوسرے گھر میں کوئی عظمی موجود ہو ، ہر دوسرے شہر کے ہر دوسری گلی میں تھانے کا ایس – ایچ – او اور عام سپاہی تک سی – ٹی – ڈی کا کردار ادا کر رہا ہو اور عوام سے لے کر ریاست تک مظلوموں کی بددعاؤں کا شکار ہو اس ملک پر اللہ کیسے اپنا رحم کرسکتا ہے؟ شاعر نے کہا تھا:

برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی الو کافی تھا

ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا؟؟

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں