بچوں کی تربیت میں قصوروار کون؟

         جب بات کی جاتی ہے بچوں کی تر بیت کی تو ذہن میں کئی سوال اُبھرتے ہیں ۔تمام مشاہدات کی بناء پر اکثر یہ کہا گیا ہے کہ ہمیشہ سے ہی والدین اپنے بچوں کی شخصیت میں بگاڑ کا ذمے دار ارد گرد کے ماحول کو ٹھراتے ہیں ، جب کہ حقیقت اُس کے بر عکس ہے ۔ اِس معاشرے کا حصہ ہونے کے ناطے ہم یہ بات باآ سانی کہہ سکتے ہیں کہ بچوں کی شخصیت کو سنوارنے یا بگاڑنے میں گھر کے ماحول اور فریقین کا سب سے بڑا عمل دخل ہوتاہے ۔اِ ن کے علاوہ ایسے کئی عوامل ہیں جو بچے کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں ۔ یوں تو تمام والدین کا نقطہ ء نظر ایک ہی رہا ہے ، جس میں وہ کبھی معاشرے کوقصوروار ٹھراتے ہیں، تو کبھی تعلیمی اداروں کو، کبھی اُن کا اشارہ اساتذہ کی طرف  ہوتا ہے ،تو کبھی دینی تدریس گاہوں کی طرف، غرض کہ بچے کا تمام دوستوں اور عزیز واقارب سے میل جول بھی اسی زمرے میں آتا ہے ۔ لیکن والدین یہ نہیں جانتے کہ حقیقتاَ َ َ اُن کے بچے کی شخصیت کا بگاڑ اُن کے اپنے گھر کے ماحول اور گھر کے مکینوں کے آپسی برتاوٗ کے باعث ہے ۔

         کہا جاتا ہے کہ انسانی رویے اور انسان کی زندگی کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے ۔ اور یہ بات حقیقی ہے کہ رویے ہی انسان کے کردار کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیتے ہیں ۔ اِس  موضوع پر اُردو اور انگریزی ادب میں بہت لکھا گیا ہے ، بڑے بڑے ماہرین نے انسانی رویے اور انسانی زندگی پر پڑنے والے اثرات کا بخوبی جائزہ لیا ہے۔ اِس کے علاوہ بچے اور اُن کی شخصیت پر اثراندار ہونے والے ماحولیاتی اور حیاتیاتی عناصرجیسے عنوانات پر بھی بہت تحقیقات موجود ہیں۔ امریکن سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن ۲۰۱۸ء کے مطابق والدین کے تربیتی طریقوں کے تین اہداف بیان کیے گئے ہیں جن میں بچے کی صحت و حفاظت، بالغ ہونے تک ایک مکمل پروڈکٹو شخصیت بنانا، اوربچے میں ثقافتی اقدار کو منتقل کرنا شامل ہے۔ مگر افسوس کہ یہ بھی محض کبھی نہ پورے ہونے والے مقاصد ہی بن کر رہ گئے۔ مزید ایک تحقیق کے مطابق یہ بات سامنے آئی ہے کہ منفی رویے کے نتیجے میں نہ صرف بچے کی زہنی نشو نُما کے عمل میں فرق پڑتا ہے بلکہ اُس کی تعلیمی قابلیت بھی متاثر ہوتی ہے ،جس کے باعث وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے بھی محروم ہو جاتا ہے ۔ ماہر ڈاکٹرز کے مطابق منفی رویوں کے ایسے کئی نقصانات ہیں جو بچے کی صحیح بالیدگی نہ ہونے کی باعث اُن کی شخصیت میں بگاڑ پیدا کرتا ہے جو اُنہیں عمر کے کسی بھی حصے میں اینزائٹی اور ڈپریشن کی طرف لے جاسکتا ہے ۔ مزید یہ کہ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ساتھ بچے کا ذہن کمزور رہتاہے اور کئی بار ایسی صورتِ حال میں ذہن ہمیشہ بچکانہ ہی رہتا ہے ۔
منفی رویے کی وجوہات میں والدین کا آپس میں لڑنا جھگڑنا ، بچوں میں فرق رکھنا ، ذراذرا سی بات پر چیخنا چلانا ، بچوں کو ڈرانا سہما نا، بے جا سختی کرنا یا تلخی برتنا شامل ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو انسانی مشا ہدات کی رو سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ والدین کا آپس میں لڑنا جھگڑنا بچوں کو ذہنی طور پر مفلوج کر دیتا ہے جس کے باعث وہ بغاوت کا راستہ اختیارکرلیتے ہیں ۔ جس میں بچے اپنے ہی والدین کے غلط رویے کے سبب کوئی نہ کوئی سخت قدم اُٹھا لیتے ہیں اور نتیجے میں یا تو وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا پھر کسی غلط راہ کا انتخاب کر لیتے ہیں ،اور یوں اُن کی پوری زندگی تباہ و بربادہوجاتی ہے۔

         کہتے ہیں اولاد کی پہلی درسگاہ اُس کی ماں کی گود ہوتی ہے اور پہلی تربیت گاہ اُس کا گھر ۔ کیوں کہ جب ایک بچہ پیدا ہوتا ہے تو اُس کا زیادہ وقت اپنی ماں کے ساتھ گزرتا ہے ،یہاں تک کہ بچہ اپنی کم سن عمر میں بھی ماں کی پرورش میں رہتا ہے ۔ جیسے ہی وقت کے ساتھ وہ عمر کے مراحل طے کرتا ہے تو اُس کاواسطہ گھر کے باقی مکینوں سے بھی مظبوط ہوجاتا ہے اور پھر وہ اپنے گھر کے ماحول سے سیکھنے لگتا ہے ۔ اپنے گھر سے اُسے جو سیکھ اور تربیت ملتی ہے ، اُس پر وہ اپنے ارد گرد کے لوگوں میں شامل رہ کر عمل در آمد  کرتا ہے۔ اور یہیں سے ایک بچے کی مکمل تشکیل کا عمل شروع ہوتا ہے ۔ اُس کے بعد زندگی میں ایسے کئی مراحل آتے ہیں جن میں بچے کی تعلیم ، دوست،احباب سے میل جول، وغیرہ شامل ہیں ۔ اگر بچے کسی منفی حالات میں رہتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں تو اُس کا اثر ناچاہتے ہوئے بھی اُن کے تعلیمی کارگردگی پر پڑتا ہے جس سے وہ آگے پڑھنے کا ارادہ ترک کر دیتے ہیں یا پھر اُن کی مسلسل زہنی اُلجھنوں کے باعث تعلیمی ریکارڑ خراب ہوجاتا ہے اور نتیجے میں وہ مکمل توجہ نہیں دے پاتے ۔
ہم اِسی بات سے اندازا لگا سکتے ہیں کہ ہماری زندگی میں ماحول اوررویوں کا کتنا عمل دخل ہے ۔ اور میرے نزدیک یہ خود پر منحصر ہے کہ ہم اپنے پیاروں کے ساتھ  کیسا رویہ رکھتے ہیں ۔کیونکہ ہمارے رویے ہی ہمارے لہجوں میں تلخی پیدا کرتے ہیں جس کے باعث ہماری شخصیت بھی متاثر ہوتی ہے۔ اِسی طرح والدین کو بھی چاہیئے کہ آپسی اختلافات اور غلط فہمیوں کو اپنی اولاد کی زندگی کا حصہ بننے نہ دیں ، اپنے رویوں کو اور گھر کے ماحول کو مثبت رکھیں تاکہ بچہ ایک خوشگوار ماحول میں سانس لے ، اور اپنے گھر کے فریقین سے محبتیں بٹورے۔ یاد رکھیئے کہ دڑے سہمے ہوئے بچوں کی شخصیت ہمیشہ دبی ہوئی سی رہتی ہے ،جس کے باعث وہ احساسِ محرومی کا شکار بھی ہوجاتے
ہیں۔ مزید اِس سلسلے میں والدین کو چاہیئے کہ اپنی اولاد سے دوستانہ تعلقات استوار رکھیں اور اپنے رویوں میں نرمی برتیں تاکہ بچے کی حقیقی معنوں میں صحیح طور پر پرورش کی جاسکے ، اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی کوشش کریں کہ اپنے بچوں کو اپنا وقت دیں اور اُس میں کچھ ایسی سرگرمیوں کو شامل کریں جو بچوں کی نشو نُما کے عمل کو کارآمد بناسکیں ۔اِس لائحہء کار پر عمل کرنے کے لیئے سب سے پہلے اپنی زمیداریوں کو سمجھیں اور ایک دوست بن کر اپنے بچے کی مکمل تکمیل میں اُس کا ساتھ دیں ۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں