دلِ مضطر کی پکار

کئی مہینوں بعد سب سہیلیاں ون ڈش پارٹی میں جمع تھیں، وہ سب ایک کالج سے فارغ ہوئی تھیں، کالج میں انکاگروپ سب سے بڑا تھا، وہ خوب ہلا گلا کرتیں، اور مہینے میں ایک مرتبہ پیسے جمع کر کے بریک میں ہلکی پھلکی پارٹی بھی کر لیتیں، کالج کے چار سال پلک جھپکتے گزر گئے تھے، الوداعی پارٹی کے دن سب سہیلیوں نے طے کیا تھا کہ وہ سب ہر مہینے ایک بار ضرور اکٹھی ہوں گی، فرزانہ، شمیم، زبیدہ نے ون ڈش پارٹی کے لئے اپنے گھر پیش کر دیے، وہ سب بہت خوش تھیں لیکن کچھ عرصے میں ہی اندازہ ہو گیا کہ ہر روز کالج میں ملاقات بہت آسان تھی، اور ہر ماہ کی پارٹی میں شرکت کبھی کسی کے لئے مشکل ہو جاتی اور کبھی کسی کے لئے، اب زیادہ تر ملاقاتیں خوشی غمی کے مواقع پر یا کبھی بازار میں اچانک ہو جاتیں،اور آج کافی عرصے کی کوشش اور وعدے وعید کے بعد زبیدہ نے سب کو اپنے گھر مدعو کیا تھا۔ اس دوران عطیہ ، فریدہ اور سلمہ کی شادیاں ہو چکی تھیں، فرزانہ کی منگنی ہو گئی تھیں اور شمیم اور زبیدہ نے یونیورسٹی سے ماسٹرز کر لیا تھا۔
سب سہیلیاں اکٹھی تو ہو گئی تھیں، مگر پہلے جیسا ہلہ گلہ نہ تھا، زندگی میں آنے والی تبدیلیوں نے سب پر ہی مختلف اثرات مرتب کئے تھے، عطیہ کی صحت بہتر ہو گئی تھی، سانولہ رنگ اب مزید نکھر گیا تھا، فرید ہ کی ڈریس ڈیزائننگ اور ہیئر سٹائل بدل گئے تھے، اسکی گفتگو بار بار اسکے متمول خاندان کی جانب مڑ جاتی، جبکہ سلمہ کچھ کھوئی کھوئی سی تھی، کمبل میں لپٹا بیٹا اس کی مستقل توجہ کا مرکز تھا، کبھی وہ کھانسنے لگتا، کبھی دودھ الٹ دیتا، وہ ان سب کی باتوں میں برائے نام ہی شامل تھی، یوں بھی وہ پارٹی میں آنا نہ چاہتی تھی، زبیدہ نے اسے بڑے اصرار سے بلایا تھا۔
سلمہ کی شادی آزاد کشمیر کے دور افتادہ گاؤں میں ہوئی تھی، اسکے سسرالی رشتہ دار تو نہ تھے بس والد کی برادری سے تھے، راولپنڈی میں پلی بڑھی سلمہ کو بہت ارمانوں سے بیاہ کر سسرال لے جایا گیا، اسکے شوہر بہت اچھے انسان تھے، بہت خیال رکھنے والے، شروع میں تو سب نے ہی بہت آؤ بھگت کی مگر آہستہ آہستہ اس پر سارے گھر کا بار ڈال دیا گیا، گاؤں کی مشکل زندگی کا اسے کچھ تجربہ نہ تھا مگر گھر کے سکھ کی خاطر اس لئے اس نے ساری نزاکتوں بالائے طاق رکھ کر حالات سے سمجھوتا کر لیا۔ بیٹے کی پیدائش اسکے میکے میں ہوئی، جو ابتداء ہی سے کم وزن تھا، پھر پے در پے تکلیفیں، کبھی پیٹ میں درد کبھی کان اور گلا خراب، اور دورانِ علاج ہی مختلف ٹیسٹ کے رزلٹ میں معلوم ہوا کہ بچہ ڈاؤن سینڈروم ہے۔ سلمہ اور اسکے شوہر پر یہ خبر بجلی بن کر گری، بچہ پیدائشی طور پر ایسی بیماری کا شکار تھا جس سے صحت یابی کی اﷲ سے امید تو تھی مگر میڈیکل سائنس کافی مایوس تھی۔
ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق ہر بچے میں ابتدائی طور پر چھیالیس کرومو سومز ہوتے ہیں جو وہ یکساں طور پر والدین سے حاصل کرتا ہے، لیکن ڈاؤن سینڈروم بچے میں ایک اضافی کروموسوم ہوتا ہے جو اسکی جسمانی اور ذہنی نشو نما میں تاخیر کا سبب بنتا ہے، اور اس کے جسمانی خدو خال کو بھی متاثر کرتا ہے۔ یہ بچہ سوچ اور عمل دونوں طرح عام بچوں سے کافی پیچھے ہوتا ہے۔
اس دن بھی وہ اپنی ممانی کے ہاں آئی تھی ، اور چھ ماہ کے بچے کو گود میں اٹھائے دنیا و ما فیہا سے بے خبر بیٹھی تھی، وہ یہاں آ کر بھی ذہنی طور پر موجود نہ تھی، بات کرتے کرتے وہ خلاؤں میں دیکھنے لگتی، ممانی کے گھر انکی کزن آئی ہوئیں تھیں، جو بچوں کی ماہرڈاکٹر تھیں، وہ سلمہ سے ملیں ، بچے کو اچھی طرح دیکھا اور اس کی بیماری کے حوالے سے کئی مفید ٹپس دیں۔ انہوں نے بتایا کہ توجہ اور لگن سے ایسے بچے معاشرے میں بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں، لیکن ارد گرد کے لوگوں کی محبت اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے۔
سلمی واپس سسرال پہنچی تو سردیاں شروع ہو چکیں تھیں، جہاں دن رات میں کئی مرتبہ بجلی چلی جاتی، ایندھن کے طور پر لکڑیاں جلائی جاتیں، جن کا دھواں بچے کو اور بیمار کر دیتا، اس پر مستزاد سسرال والے گھر کے کا م کاج میں اسے کوئی چھوٹ دینے کو تیارتھے نہ بچہ بہلانے کو۔ اسکی ساس بڑے کٹھور پن سے کہتیں: ’’اگر کوئی ہنستا کھیلتا بچہ ہو تو میں اٹھا بھی لوں، یہ تو ہر وقت روں روں ہی کرتا رہتا ہے ۔۔ ‘‘۔
نند تھوڑی دیر کے لئے اٹھا لیتی، لیکن وہ بھی جلد ہی تنگ آجاتی، اور اسے جھولے میں ڈال کر کہتی: ’’وکی تم ٹھیک ہو جاؤ نا، پھر دیکھنا میں تم سے کتنا کھیلوں گی ۔۔ ‘‘۔
اور وکی اس کی تسلیوں سے بے نیاز ہولے ہولے روتا ہی رہتا، یا اس کے گلے سے خرخراہٹ سنائی دیتی کہ خود سلمہ بھاگ کر اسے پکڑ لیتی اور سینے سے لگا لیتی، اس کا بچہ تو دنیا کا سب سے پیارا بچہ تھا، اتنی خوبصورت ترچھی آنکھیں، جو اتنی کمزوری اور بیماری میں بھی کتنی متاثر کن تھی، سلمہ پہروں اس کے چہرے کو دیکھتی، پھر ساس کی آواز پر وہ اسے گودمیں دبا کر گھر کے کام کاج میں لگ جاتی، اسے اٹھا کر جھاڑو دیتی، کھانا پکاتی، بس برتن اور کپڑے دھوتے وقت وہ اسے ٹھنڈ سے بچانے کے لئے کسی کی مدد کی طلب گار ہوتی، جو اسے بہت باتیں سنا کر ملتی، اگر یہ سب باتیں اس کی ذات کے لئے ہوتیں تو شاید وہ برداشت کر لیتی مگر وہ اپنے منے کے لئے محبت کے سوا کوئی کلمہ نہ سننا چاہتی تھی، گھر والوں کی بیزار نگاہیں اور چبھتے جملے اسے اندر تک زخمی کر دیتے، شام کو شوہر گھر لوٹتے تو وہ انکا بہترین وقت ہوتا، وہ دونوں اور منا، پہاڑوں میں رات سرِ شام ہی اتر آتی ہے وہ مغرب سے پہلے کھانا تیار کر لیتی، کھانا کھا کر کچھ دیر وہ گھر والوں کے ساتھ بیٹھتے، اور سلمہ حیران رہ جاتی جب ساس امی ہاتھ بڑھا کر وقاص کو اٹھانے کی خواہش کا اظہار کرتی، شاید یہی وقت اسکے دادی کی محبت پانے کا ہوتا، سلمہ خاموشی سے دن بھرکی باتیں پی کر بچہ انہیں دے دیتی۔
آزمائش انسان کو ہلا کر رکھ دیتی ہے، جیسے وہ ہر آن طوفانوں کی زد میں ہو، اور ایسے میں ایک تنکا بھی شہتیر جتنا بڑا سہارا بن جاتا ہے، یہی حال سلمہ کا تھا، اسے جہاں بھی کسی ماہر ڈاکٹر کا پتا چلتا وہ اسکے علاج کے لئے جا پہنچتی، کبھی ڈاکٹری علاج کو چھوڑ کر حکیم کا اور کبھی ہومیو پیتھک، اگر اسے کوئی ڈاؤن سینڈروم بچہ نظر آجاتا تو وہ بھاگ کر اسکی ماں کے پاس پہنچ جاتی، اور پھر اس کے سارے اندیشے سوالوں میں ڈھل جاتے، اور ان کے جوابوں سے امید کشید کرنے لگتی، اس نے ایک چھ سالہ ڈاؤ ن سینڈروم بچے کو چلتے دیکھا تو فوراً اسکی ماں کے پاس جا پہنچی اور اس کے بتانے پر کہ وہ چار سال میں چلنے لگاتھا، اس کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا کہ میرا منا بھی چلے گا، کیا ہوا چار سال میں چلنے لگے،اور کتنے دن وہ اسی سرشاری میں رہی۔
ان دنوں وہ راولپنڈی میں تھی جب وقاص پر نمونیے کا حملہ ہوا، اور وہ بالکل لاغر ہو گیا، اب تو اس سے رویا بھی نہ جاتا تھا، کھانسی بھی بہت تکلیف سے آتی، وہ کچھ بہتر ہوا تو وہ واپس سسرال چلی گئی، اور ابھی سردیاں ختم نہ ہوئیں تھیں کہ ایک رات منے کی طبیعت بہت خراب ہو گئی، وہ اسے لے کر ہسپتال بھاگے مگر اس نے والد کی گود میں دم توڑ دیا، سلمہ نے پھٹی پھٹی نگاہوں سے شوہر کی طرف دیکھا جو انا ﷲ وانا الیہ راجعون کہہ کر الحمد ﷲ کہہ رہے تھے، اور اﷲ سے اس صبر پر جنت میں ’’بیت الحمد‘‘ کی دعا کر رہے تھے ۔۔
سلمہ کی گود خالی ہو گئی تھی، رشتہ دار عورتوں اور محلے کی خواتین نے اسے رلانا چاہا مگر وہ خاموش رہی، بس خاموشی سے اﷲ سے دعا مانگتی رہی، اسی عرصے میں اسے اپنے اندر کچھ تبدیلی کا احساس ہوا، ڈاکٹر نے خوش خبری سنائی اور اسے طاقت کی کچھ دوائیں دیں، چند ماہ بعد بچے کے نارمل ہونے سے متعلق ٹیسٹ کروانے کی ہدایت کی۔
اس روز سلمہ ماہر گائناکالوجسٹ کے کلینک میں بیٹھی تھی، انتظار کا ایک ایک لمحہ گراں تھا، ایسے جیسے جان سولی پر ٹنگی ہو، ایک گھنٹے کے انتظار کے بعدباری آئی، ڈاکٹر نے ساری رپورٹس بہت توجہ سے دیکھیں، اور مایوسی سے سر ہلاتے ہوئے کہا: ’’بی بی آپ کی رپورٹس کے مطابق آپ کے فوت شدہ بچے کے مرض کا سبب آپ کے اندر تھا، اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ آئندہ بچہ بھی ڈاؤن سینڈروم ہی ہو گا‘‘ کیونکہ یہ مرض ماں کی عمر سے متعلق ہے، تیس سال کی ماؤں میں ہزار میں سے کوئی ایک اس کا موجب بنتی ہے ۔ سلمہ کے لئے یہ خبر ایسی تھی جیسے اس پر غم کا پہاڑ ٹوٹ گرا ہو، اس کے بعد ڈاکٹر نے کیا کہا، اسکے کان گویا بہرے ہو چکے تھے، اس کے شوہر نے ڈاکٹر سے صحت کے تمام امکانات پر تفصیلی بات کی، ڈاکٹرنے صاف صاف بتا دیا کہ بچے کی صحت جانچنے کے لئے تین ادوار میںیعنی ہر ٹرائسمسٹر میں ٹیسٹ ہوگا، آخری ٹیسٹ میں بچے کے ڈاؤن سینڈروم ہونے کے بارے میں سکریننگ کے ذریعے معلوم ہو سکے گا، لیکن یہ ٹیسٹ ہے ذرا رسکی، بعض اوقات بچے کو ٹیسٹ سے نقصان پہنچتا ہے، ابھی تک اس مرض کا کوئی علاج دریافت نہیں ہوا، ہاں والدین کی ذہنی تیاری ہو جاتی ہے، ڈاکٹر اور بھی نجانے کیا کہہ رہی تھی، سلمہ کو کچھ سنائی نہ دے رہا تھا۔
ڈاکٹر کی باتوں کا خلاصہ یہ تھا کہ چند ماہ ماہ بعد ایک ٹیسٹ کروا لیا جائے جو بچے کی صحت کا تفصیلی ٹیسٹ ہے، اور اگر بچہ نارمل نہیں ہے تو ماں بچے کو مزید تکلیف میں ڈالنے کے بجائے ابارٹ کر دیا جائے۔
چند دن انتہائی پریشانی میں گزارنے کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس بارے میں ہم کسی عالمِ دین سے رائے لے لیتے ہیں، انہوں نے جن عالم سے رائے لی انہوں نے ساری بات سننے کے بعدایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا:
۔ ’’آپ کی ساری بات سن کر مجھے بہت دکھ ہوا ہے، خاص طور پر آپ نے اپنے ننھے منے بچے کی تکلیف کا جس طرح ذکر کیا ہے اس سے میرا دل پسیج گیا ہے اور میں اندازہ کر سکتا ہوں کہ بحیثیت ماں باپ آپ کو کس قدر تکلیف پہنچی ہو گی، خاتون نے بتایا کہ دس ماہ تک آپ کا پہلا بچہ زندہ رہا اور اس نے ایک دن بھی مکمل صحت کے ساتھ نہیں گزارا، اور یہ مامتا کی ماری اسے گود میں اٹھا کر گھر کے کام کاج بھی کرتی رہی، اور اس کی دیکھ بھال بھی، اور اب نئے آنے والے بچے سے متعلق آپ کی تشویش اور پریشانی بجا ہے، اور اﷲ اپنے بندے کا کب تک امتحان لے گا اور کب اسے امتحان سے نکال لے گا، اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا‘‘۔
کیا ڈاکٹرز کی رائے کے بعد بھی میری آزمائش ختم ہو سکتی ہے؟ سلمہ نے حیرت سے پوچھا تھا۔
۔ ’’جی بالکل میری بہن، اﷲ جب کسی پر رحم کرنا چاہے تو وہ کسی کا محتاج نہیں ہے، اور اﷲ کا دامنِ رحمت بہت وسیع ہے ۔۔ ‘‘۔
مولانا صاحب کہنے لگے:
۔ ’’مجھے ان دنوں کی تکلیف کا بھی احساس ہے جو آپ نے برداشت کی، دس مہینے تک بچے کا مسلسل تکلیف میں رہنا اعصاب تھکا دیتا ہے، لیکن پھر بھی یہ دن مکمل مایوسی کے نہیں ہوں گے، آپ اس بچے کو دیکھ کر مسکرائے ہوں گے، خوش ہوئے ہوں گے، اسکی خاطر دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے ہوں گے، رب سے کچھ مانگا ہو گا، اس لئے یہ مت سوچئے کہ سب کچھ ضائع ہو گیا، وہ دعائیں جو اس وقت اس صورت میں قبول نہیں ہوئیں وہ زندگی میں کسی اور مقام پر قبولیت پائیں گی، یا جنت کا توشہ بن جائیں گی ۔۔ ‘‘۔
وہ ذرا دیر کو رکے اور پھر کہنے لگے:
۔ ’’میری بہن، یہ بھی یاد رکھئے کہ اگر یہ بچہ آپ کی زندگی میں نہ آتا، تو یہ اجر بھی نہ ملتا، یہ تو آپ کا جنت کا سفارشی ہے ۔۔ ‘‘۔
اور جب وہ مولانا صاحب کے مکتب سے نکلے سلمہ ایک فیصلہ کر چکی تھی کہ اب ڈاکٹروں اور لیبارٹریوں کے چکر لگا کر اس مستقبل میں جھانکنے کی کوشش نہیں کریگی ، وہ صحت مند ہے یا ڈاؤن سینڈروم وہ اپنے ہاتھوں اسکی زندگی کا خاتمہ نہیں کرے گی۔
رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں میں اس نے قرآن سمجھنے کے لئے ایک کلاس جائن کر لی، اور سحر کی گھڑیوں میں رب کو بڑے الحاح سے پکارا، وہ رب جو رات کی آخری گھڑیوں میں ساتویں آسمان پر آتا ہے اور پکارنے والے کی پکار سنتا ہے، اور جواب دیتا ہے، وہ جس کے خزانے بھرے ہوئے ہیں، اور سب کی حاجات پوری کرنے کے بعد بھی ان خزانوں میں کمی واقع نہیں ہوتی۔
وہ زیادہ تر وقت خاموش رہتی، گھر کے کام کاج میں مگن رہتی، اسے لگتا جیسے اسکے وجود میں ان کمزور دنوں میں بھی طاقت بڑھ رہی ہے، رمضان کے بعد بھی اس نے رب سے جڑے اس تعلق کو کمزور نہ پڑنے دیا، وقاص کی یاد کے ساتھ ہی اسے مولانا صاحب کے بتائے ہوئے انعامات یاد آجاتے، رات گہری ہوتی تو وہ دونوں مل کر اﷲ کے حضور جھک جاتے۔
اس نے شہرکے ایک کلینک میں رجسٹریشن کروالی، اور باقاعدہ چیک اپ کرواتی رہی۔
نرس نے اسے بیٹے کی خوشخبری سنائی تو اس نے اﷲ کا شکر ادا کیا، وہ ہسپتال سے ملحق مسجد میں بھاگا اور سب سے پہلے شکرانے کے نفل ادا کئے، سپیشلسٹ ڈاکٹر نے تفصیلی معائنے کے بعد اسے بچے کی صحتیابی اور نارمل ہونے کی خبر سنائی، اس نے سلمہ کے چہرے کی جانب دیکھا، اس کا چہرہ قبولیتِ دعا کی خوشی سے چمک رہا تھا، انہیں اور کیا چاہئے تھا، اﷲ نے مضطرب دلوں کی پکار سن لی تھی، اور انکی تکلیف کا مداوا کر دیا تھا، اس نے بچے کو گود میں لے کر اسکے کان میں اذان دی، اور اسکا نام اسماعیل رکھا، ایک مماثلت تو تھی دونوں میں، اﷲ تعالی نے پہلے کو دنبہ بھیج کر قربان ہونے سے بچا لیا تھا، اور دوسرے کے ماں باپ کے دل میں توکل کی شمع روشن کر کے اسے ابارٹ ہونے سے بچا لیا تھا ۔۔
***

حصہ
mm
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات امتیازی پوزیشن میں مکمل کرنے کے بعد انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ زمانہء طالب علمی سے ہی آپ کی ہلکی پھلکی تحریریں اور مضامین شائع ہونے لگیں۔ آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج مظفر آباد میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں، کچھ عرصہ اسلامی یونیورسٹی میں اعزازی معلمہ کی حیثیت سے بھی کام کیا، علاوہ ازیں آپ طالب علمی دور ہی سے دعوت وتبلیغ اور تربیت کے نظام میں فعال رکن کی حیثیت سے کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ نے اپنے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ۲۰۰۵ء سے کیا، ابتدا میں عرب دنیا کے بہترین شہ پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا، ان میں افسانوں کا مجموعہ ’’سونے کا آدمی‘‘، عصرِ نبوی کے تاریخی ناول ’’نور اللہ‘‘ ، اخوان المسلمون پر مظالم کی ہولناک داستان ’’راہِ وفا کے مسافر‘‘ ، شامی جیلوں سے طالبہ ہبہ الدباغ کی نو سالہ قید کی خودنوشت ’’صرف پانچ منٹ‘‘ اورمصری اسلامی ادیب ڈاکٹر نجیب الکیلانی کی خود نوشت ’’لمحات من حیاتی‘‘ اور اسلامی موضوعات پر متعدد مقالہ جات شامل ہیں۔ ترجمہ نگاری کے علاوہ آپ نے اردو ادب میں اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا،آپ کے افسانے، انشائیے، سفرنامے اورمقالہ جات خواتین میگزین، جہادِ کشمیر اور بتول میں شائع ہوئے، آپ کے سفر ناموں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے جو قازقستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں آپ کے سفری مشاہدات پر مبنی ہے۔جسارت بلاگ کی مستقل لکھاری ہیں اور بچوں کے مجلہ ’’ساتھی ‘‘ میں عربی کہانیوں کے تراجم بھی لکھ رہی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں